خطرات کم ہوئے ہیں، ختم نہیں!
جان برینن نے ۸ مارچ ۲۰۱۳ء کو امریکا کے مرکزی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ (ڈائریکٹر) کا منصب سنبھالا۔ […]
جان برینن نے ۸ مارچ ۲۰۱۳ء کو امریکا کے مرکزی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ (ڈائریکٹر) کا منصب سنبھالا۔ […]
چالیس سالہ ایلیت شیکد اسرائیلی سیاست میں نووارد ہیں۔ وہ وزیراعظم نیتن یاہوکے دفتری امور کے نگراں کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ۲۰۱۲ء میں […]
رپورٹر: جناب ابراھیم قالن ٹی آرٹی ورلڈ کے ون آن ون پروگرام میں خوش آمدید۔ صدر ایردوان ایک طویل عرصے سے ملک میں جمہوریت کو […]
مولانا مطیع الرحمن نظامی، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے مشرقی پاکستان سے پہلے اور آخری ناظمِ اعلیٰ تھے۔ آپ اکتوبر ۱۹۷۱ء میں اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہوئے۔ ذیل میں پیش کیا جانے والا انٹرویو پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد، جناب سلیم منصور خالد نے لیا۔ جس کے کچھ اجزاء قارئین کے استفادے کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔
[مزید پڑھیے]
جسٹس (ر) میاں نذیر اختر ایک عشرے سے زیادہ تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں۔ اس سے پہلے پچیس سال تک وکالت سے […]
ملائیشیا کے سابق وزیراعظم اور بزرگ سیاست دان مہاتیر محمد اپنے دورِ اقتدار میں بھی اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ سے متعلق مغربی ملکوں کی پالیسی […]
میں ستمبر ۱۹۹۶ء میں ایران گیا تھا۔ اس دورے کی باقی رہ جانے والی یادوں میں سرِ فہرست اس ہوٹل کی لابی کا ایک منظر […]
جب سے فوج نے ۲۰۱۳ء میں عوامی مظاہروں کے ذریعے محمد مرسی سے اقتدار لیا ہے، مصری صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا ہے کہ وہ […]
ہم اپنے لوگوں کی فطرت اور سوچ سے بخوبی آگاہ ہیں، اگر وہ سیاسی نظام میں مضبوط رہنماؤں اور حکومت کے لیے صدارتی نظام کی حمایت کرتے ہیں، تو میں نہیں سمجھتا کہ صدارتی نظام کامیاب تجربہ نہ ہو۔ جون کے انتخابات کا پہلا مقصد ایک نیا آئین بنانے کے لیے اکثریتی تعداد میں نشستوں کا حصول ہے۔ ایک نئے آئین کے بغیر، مطلو بہ صدارتی یا نیم صدارتی نظام ناممکن ہے
ڈاکٹر ولی رضا نصر مشرقِ وُسطیٰ اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر، خارجہ امور پر امریکی حکومت کے مشیر اور ایک معروف دانشور ہیں۔ اس وقت وہ امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ڈین اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نصر امریکا کے معروف ادارے ’کونسل آن فارن افیئرز‘ کے تاحیات رکن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی محکمۂ خارجہ کے پالیسی بورڈ کے بھی رکن ہیں۔
ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ خود کش حملے خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کا کام ہے، طالبان اِس قبیح فعل میں کبھی ملوث نہیں ہوسکتے۔ اس خیال کا اظہار انہوں نے حال ہی میں جنوبی افریقا میں ’’کیج افریقا‘‘ کی لانچنگ کے موقع پر کیا۔ اُن کی باتوں سے طالبان کے بارے میں پایا جانے والا اچھا خاصا اشکال دور ہوا ہے۔
یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی تھی، یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ قابض اسرائیل جب تک ہم سے لڑنا چاہے گا، ہم اس وقت تک اپنا دفاع کرتے رہیں گے۔ جنگ کے حقیقی نتیجے میں انسانی ہمدردی کے وہ مطالبات شدت سے سامنے ہیں جن کا تعلق جبر و تسلط کے مکمل خاتمے اور ناکہ بندی اٹھانے سے ہے۔
ڈاکٹر سباعی: اسلام دینِ آزادی ہے، وہ نہ یہ پسند کرتا ہے کہ مسلمان کسی بھی سامراجی طاقت کے آگے جھکیں اور نہ یہ کہ وہ کاروبارِ زندگی میں پیچھے رہ جائیں۔ اسلام ہی کی تعلیمات نے عربوں کو ۱۴ سو برس سے ہر قسم کے بے ہودہ رسم و رواج سے محفوظ رکھا ہے۔ یہ اسلام ہی تھا، جس نے عربوں کو امن و انصاف اور آزادی کا پیغامبر بنا کر اقوام عالم کی طرف بھیجا
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جہادِ کشمیر کے حوالے سے ایک اہم سوال پیدا ہوا تھا۔ اس وقت ممتاز دینی اسکالر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک خاص مؤقف تھا، جس پر بعض حلقوں نے خاصا شور مچایا۔ ان پر شدید تنقید کی گئی۔ مگر وہ اپنے علمی مؤقف پر اپنے دلائل کے ساتھ قائم رہے۔ اسی بحث کے تناظر میں ۱۷؍اگست ۱۹۴۸ء کو مولانا مودودی نے سہ روزہ ’’کوثر‘‘ کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا، جس میں اس موقف کو پوری صراحت اور وضاحت سے بیان کیا۔ ہم اس تاریخی انٹرویو کو قارئین کے لیے دوبارہ پیش کر رہے ہیں۔ آج کل بھی ہمارے ہاں اِسی طرح کی بحث جاری ہے۔ اِن علمی نکات سے معاملے کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر اسٹیفن پی کوہن امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’’بروکنگز انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے سینئر فیلو ہیں۔ انہیں پاکستانی امور سے متعلق ماہرین کا قائد تصور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسٹیفن کوہن نے ’’دی آئیڈیا آف پاکستان‘‘ اور ’’دی پاکستان آرمی‘‘ جیسی کتابیں لکھی ہیں جن کی غیر معمولی پذیرائی کی گئی۔ انہوں نے دو سال قبل ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مُدوّن کی ہے۔ اس کتاب میں پاکستان کو درپیش چیلنجز اور مستقبل کے امکانات و خدشات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں ہم ڈاکٹر اسٹیفن کوہن سے ایک انٹرویو کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں، جو اگرچہ دو سال قبل لیا گیا تھا، لیکن موجودہ حالات کو سمجھنے میں اب بھی مددگار ہو سکتا ہے:
Copyright © 2024 | WordPress Theme by MH Themes