پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلدنمبر:14، شمارہ نمبر:22

معارف فیچر یکم دسمبر 2021
پندرہ روزہ معارف فیچر
جلد نمبر:14، شمارہ نمبر:22
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلدنمبر:14، شمارہ نمبر:22
پندرہ روزہ معارف فیچر
جلد نمبر:14، شمارہ نمبر:22
امریکا اور چین کو ایک ایسے مسئلے کا سامنا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان مشترک ہے۔ یہ مسئلہ ہے اپنے اپنے معاشرے میں شدید نوعیت کی روز افزوں عدم مساوات کا۔ ویسے تو خیر دنیا بھر میں عدم مساوات پائی جاتی ہے اور بڑھ رہی ہے مگر دونوں بڑی طاقتیں اس معاملے میں زیادہ الجھنوں کا شکار ہیں۔ ایسا کسی نے سوچا نہیں تھا کہ یہ سب کچھ اس طور واقع ہوگا۔ دونوں بڑی طاقتوں کی دو عشروں کی معاشی نمو سے توقع تھی کہ تمام ہی کشتیاں رواں رکھنے کی راہ ہموار ہوگی۔ امریکا اور چین میں تیزی سے پنپتے ہوئے متوسط طبقے کی بہبود یقینی بنانا جو بائیڈن اور شی جن پنگ کا ترجیحی ایجنڈا رہاہے۔ دونوں کو اچھی طرح اندازہ ہے[مزید پڑھیے]
برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ چین اور روس برطانیہ کے لیے خطرہ ہیں اور کابل پر طالبان کا قبضہ ’انٹیلی جنس ناکامی‘ نہیں تھا۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے سربراہ رچرڈمور جنہیں ’سی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ’بی بی سی ریڈیو فور‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کے قرض اور ڈیٹا کے جال سے ملک کی خودمختاری و قومی سلامتی کو ممکنہ خطرہ ہے اور اس سلسلے میں دفاعی اقدامات کیے گئے ہیں۔ گذشتہ برس اکتوبر میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) میں منگل کو اپنے پہلے خطاب میں برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کو ڈیجیٹل دور میں پیش آنے[مزید پڑھیے]
قارئین کے لیے ’’عیسائی صیہونیت‘‘ یا ’’کرسچن زائنزم‘‘ کی اصطلاح وقت کی تبدیلی کے ساتھ اب نئی نہ رہی ہوگی۔ کم ازکم امریکا میں تو یہ بہت تیزی کے ساتھ پھیل ہی چکی ہے۔یہ ایک جدید پھیلتا ہوا نظریہ ہے جس پر خود معروف امریکی مصنفہ گریس ہال سیل،اپنی کتاب ’’فورسنگ گاڈس ہینڈس‘‘ (’’خوفناک جدید صلیبی جنگ‘‘) میں بہت عرصے قبل ہی حیران کن تفصیلی انکشافات کرچکی ہیں۔ اس نے بتایا ہے کہ آج کے دور میں کل کے ’’یہودیوں کے خون کے پیاسے عیسائی‘‘ اب آگے بڑھ کران سے بھی زیادہ یہود دوست ہوگئے ہیں اور پورا فلسطینی علاقہ یہودیوں کو دینے کے حق میں مسلسل عالمی دباؤ ڈال رہے ہیں جو چو طرفہ بھی ہے۔ ایک طرف وہ اپنے امریکی عیسائیوں کو متاثر[مزید پڑھیے]
’’یہ جنگ کسی دانش مندانہ مقصد کے بغیر شروع کی گئی تھی، فضول سفاکی اور خوف کے امتزاج کے ساتھ جاری رکھی گئی، خاصے جانی و مالی نقصان کے بعد خاتمے کی طرف لائی گئی، جس حکومت نے اِس جنگ کو شروع کیا تھا اُس کے لیے یہ ذرا بھی شان و شوکت و افتخار کا ذریعہ نہ بنی اور جس فوج نے یہ جنگ لڑی اُس کے لیے بھی اِس میں کچھ ایسا نہ تھا جس پر فخر کیا جاسکتا۔ اس جنگ سے کوئی ایک واضح سیاسی یا عسکری فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکا۔ ہمارا انخلا بھی ویسا ہی تھا جیسا کسی شکست خوردہ فوج کا ہوا کرتا ہے‘‘۔ یہ الفاظ ۲۰۲۱ء میں نہیں بلکہ ۱۸۴۳ء میں لکھے گئے تھے۔ لکھنے والے تھے ریورینڈ[مزید پڑھیے]
چین کے ساتھ مقابلہ کرنے اور بھارت کی حدود میں اس کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے دوران، نئی دہلی کو طاقت کے توازن اور تاریخ کے اسباق سے آگاہ رہنا چاہیے۔ حالیہ مہینوں میں، امریکی پالیسی سازوں نے چین کے ساتھ امریکی تعلقات کے حوالے تبدیل ہوتی ہوئی حکمت عملی کے لیے ’’ذمہ دارانہ مسابقت‘‘یا ’’ذمہ دارانہ مقابلے بازی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ۱۶؍نومبر کو ہونے والے ورچوئل سمٹ کے دوران، امریکی صدر بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ نے ذمہ داری کے ساتھ مسابقت کرنے پر زور دیا۔بائیڈن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہمیں تزویراتی مفادات کو بھی احسن طریقے سے ہینڈل کرنا ہو گا۔اور معاملات کو اس طرح سے آگے لے کر بڑھنا ہو گاکہ[مزید پڑھیے]
تیزی سے بڑھتی ہوئی آلودگی کسی ایک ملک یا خطے کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا نہیں جارہا۔ ترقی یافتہ ممالک نے مثالی نوعیت کے اقدامات کے ذریعے شہریوں کو پابند کیا ہے کہ خود بھی آلودگی سے بچیں اور ماحول کو بھی خراب ہونے سے بچائیں۔ ترقی پذیر دنیا میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر پس ماندہ ممالک میں اس حوالے سے اب تک کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ آلودگی کو پس ماندہ ممالک کے باشندے کوئی مسئلہ سمجھتے ہی نہیں۔ ان ممالک میں ہر طرح کی اور ہر سطح کی آلودگی پائی جاتی ہے۔ کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں جلانے کا رواج [مزید پڑھیے]
دنیا بھر میں صدیوں سے وبائیں پُھوٹتی اور ہلاکت کا بازار گرم کرتی رہی ہیں۔ اِن میں کچھ تو بالکل اصلی تھیں، جیسا کہ چودھویں صدی عیسوی کی طاعون کی وبا تھی۔ اور بعض بالکل بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی بھی تھیں جیسا کہ گزشتہ برس کورونا وائرس کی وبا تھی۔ ایک وبا ایسی ہے جو کسی نہ کسی شکل میں وقتاً فوقتاً رونما ہوتی رہی ہے۔ کبھی اس نے چھوٹے پیمانے پر خرابیاں پھیلائیں اور کبھی بڑے پیمانے پر۔ کبھی اِس نے جنگِ عظیم دوم جیسی بھرپور تباہی پھیلائی اور کبھی کورونا ویکسین جیسی وبائیں آئیں، جن کے نتیجے میں ہوا کچھ زیادہ نہیں اور شور بہت مچایا گیا۔ مطلعق العنان حکومتیں جبرو استبداد کے ذریعے کام کرتی ہیں۔ ان کے ادوار میں [مزید پڑھیے]
کیا کوئی چیز، یا کوئی شخص ہمیں سوئچ آف کرسکتا ہے؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کہیں، کوئی وجود محض ایک بٹن دبائے اور جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ ختم ہو جائے؟ بات بہت عجیب سی لگتی ہے، مگر ماہرین نے اس سوال پر صدیوں غور کیا ہے کہ انسان کی زندگی کیا ہے، حقیقت یا افسانہ۔ کیا ہم اس تصور پر یقین کرسکتے ہیں کہ ہماری دنیا، ہمارا وجود کوئی کمپیوٹر پروگرام ہے، ہولو گرام ہے یا کسی کا خواب ہے؟ کیا آپ کو کبھی کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ جو کچھ بھی ہم دیکھ رہے ہیں وہ کسی نہ کسی اعلیٰ ہستی کا تصور یا خواب ہے؟ کبھی کبھی حالات ایسا رخ اختیار کرتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی[مزید پڑھیے]
علوم کی اسلامی تدوین کے ابتدائی داعیوں اور بعد میں اس کام کی طرف توجہ دلانے والوں کے ذوق و مزاج میں ایک اہم فرق موجود ہے۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلامی اساس پر علم کے ارتقا کی جانب دعوت دی۔ محترم موصوف کی اس دعوت کا سیاق، اسلامی تحریک ہے، جو ہدایتِ الٰہی کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیرِ نو کی طرف بلاتی ہے[مزید پڑھیے]
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes