پندرہ روزہ معارف فیچر۔۔۔۔۔
جلد نمبر:7، شمارہ نمبر:24

معارف فیچر | 16دسمبر 2014
پندرہ روزہ معارف فیچر، جلد نمبر:7، شمارہ نمبر:24
پندرہ روزہ معارف فیچر۔۔۔۔۔
جلد نمبر:7، شمارہ نمبر:24
پندرہ روزہ معارف فیچر، جلد نمبر:7، شمارہ نمبر:24
روس میں صدر ولادی میر پوٹن کی مقبولیت میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ نئی نسل اُن کی دیوانی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُنہوں نے چند ایسے فیصلے بھی کیے ہیں جو اُن کے اقتدار کو خطرے میں ڈال سکتے تھے۔ نئی نسل چاہتی ہے کہ اُن کا لیڈر کسی بھی طرح کے حالات میں ہمت نہ ہارے اور مشکل فیصلے بھی کر گزرے۔
چین میں عیسائیت کا فروغ اس قدر تیز ہے کہ حکومت اسے کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ کل تک عیسائی خوفزدہ تھے مگر اب نہیں۔ اب وہ اپنی مذہبی وابستگی کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ سرکاری گرجا گھروں کے مقابلے میں گھروں میں قائم گرجا گھروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ عیسائی اب معاشرے میں اپنی شناخت کھل کر ظاہر کرتے ہیں اور زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین میں عیسائیت کا معاملہ اب اتنا بڑھ گیا ہے کہ مرکزی کمیونسٹ پارٹی کی صفیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
اس وقت کے وزیراعظم عصمت انونو نے کہا تھا کہ ’’حرف انقلاب‘‘ کا واحد مقصد حتیٰ کہ سب سے اہم مقصد ملک میں شرح خواندگی بڑھانا ہی نہیں ہے بلکہ ہمارا اصل مقصد نئی نسل کا ماضی سے رابطہ منقطع کرنا، ماضی کے دروازے بند کرنا اور عالمِ عرب سے اپنے تعلقات منقطع کرنا اور ترک معاشرے پر مذہبِ اسلام کی چھاپ اور اثر و رسوخ کو کمزور بنانا ہے۔ نئی نسل قدیم ترکی زبان سے لاتعلق رہے گی اور ہم اس نئے رسم الخط کے ذریعے نئی نسل پر اپنا کنٹرول قائم رکھیں گے۔
ایک بنیادی سوال ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کا ’’ڈائریکٹر‘‘ کون تھا؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کس کی سرپرستی، مدد اور مداخلت سے عمل میں آئی؟ اس کا ہرگز مطلب اپنی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں، مختلف حکومتوں، حکمرانوں اور فوجی راج کے پیدا کردہ احساس محرومی پر پردہ ڈالنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ بہرحال تلخ حقیقتیں ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ اسی سے دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کی محرومیاں، کوتاہیاں، غیر دانشمندانہ پالیسیاں اور بے انصافیاں صرف پاکستان میں ہی روا رکھی گئیں؟
ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی امیدیں اس وقت ہی کافی کمزور پڑ گئی تھیں جب پچھلے سال غازی پارک میں احتجاج کے دوران حکومتی ردِ عمل کے نتیجے میں کم از کم ۹؍افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
ترکی کی امریکا کے ساتھ دوستی میں بھی تلخی آئی ہے۔ کیونکہ ترکی نے اتحادی جنگی جہازوں کو داعش پر بمباری کرنے کے لیے ’انسرلیک‘ (Incirlik) کا ہوائی اڈا فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
جوں جوں ایک سچے مقدمے کی گرفت میں عوامی لیگی سازشوں کی گردن دبوچی جانے لگی، توں توں پاکستان میں ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ اور قتل کرو کا سونامی امڈ امڈ کر آنے لگا۔ اکتوبر ۱۹۶۸ء سے فروری ۱۹۶۹ء تک عملاً پاکستان ایک دہکتے ہوئے احتجاج زدہ ملک کا منظر پیش کر رہا تھا
میرے والد یہ تک نہ جان سکے کہ ان کی نظرثانی کی درخواست کو کس بنیاد پر مسترد کیا گیا ہے۔ درخواست رد کیے جانے کے فوراً بعد حکومت نے میرے والد کو رات دس بج کر ایک منٹ پر پھانسی دینے کے فیصلے کا اعلان کر دیا، جس کے بعد انہیں پھانسی دے دی گئی۔
افواہ کو پھیلانے کا بنیادی مقصد سنتاہار میں بنگالیوں کو غیربنگالیوں کے خلاف اُکسانا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے کارکنوں اور ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے غیربنگالیوں کو قتل کرنا اور اُن کی املاک کو لوٹنا اور تباہ کرنا شروع کردیا۔ قتل و غارت کا سلسلہ ۲۷؍اپریل ۱۹۷۱ء تک جاری رہا اور اس وقت رکا جب پاکستانی فوج کے دستوں نے سنتاہار کا کنٹرول سنبھالا
پاکستان میں میڈیا گروپس خاندانی ملکیت ہیں اور اپنے فیصلوں میں بااختیار۔ یہ فیصلے چاہے مارکیٹنگ سے متعلق ہوں یا مالیاتی یا ادارتی پالیسیوں سے متعلق، میڈیا مالکان اِن طاقتور میڈیا کے اداروں کو استعمال کرتے ہوئے یہ سارے فیصلے اپنے ایجنڈے کے مطابق ہی کرتے ہیں۔ میڈیا اداروں کے مالکان اور سربراہوں کی اکثریت کاروباری ہے، جن کا نہ تو صحافتی پسِ منظر ہے اور نہ ہی انہیں صحافتی اقدارسے کوئی دلچسپی
نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’علما انبیا کے وارث ہیں‘‘۔ انبیا وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے، وہ اپنے پیچھے علم چھوڑتے ہیں۔ جس شخص نے بھی اس علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑی چیز حاصل کر لی۔‘‘ ایسی احادیث بھی بہت ہیں جو علما کی شان کو بیان کرتی ہیں۔ اسلام میں یہی وہ بنیاد ہے جس پر علم کی تحریک اٹھی اور اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا
نریندر مودی نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے لیے خاصا صدارتی انداز اختیار کیا ہے۔ کوئی کتنا ہی طاقتور ہو، تنہا تو حکومت نہیں چلا سکتا۔ نریندر مودی کو بھی دو افراد پر مکمل بھروسا ہے۔ ایک تو امیت شاہ ہے جس نے نریندر مودی کے لیے انتخابی کامیابی یقینی بنائی ہے۔ وہ انتخابی مہم کا انچارج تھا اور اس پر بڑے پیمانے کی دھاندلیوں کے الزامات ہیں۔ دوسرے ارون جیٹلی ہیں جو امیت شاہ کی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی اتھارتی سے پالیسیاں بناتے ہیں۔ ان دونوں کی مدد اور مشاورت کے بغیر نریندر مودی ایک قدم نہیں بڑھاتے۔
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes