
اسلامی عسکریت پسندوں کی طرف سے جُوں جُوں عسکریت پسندی اور تشدد کا دائرہ وسیع کیا جارہا ہے اور کراچی سے پشاور تک وارداتیں ہو رہی ہیں، دنیا بھر کی متاثرہ ریاستیں اسلامی عسکریت پسندی سے کماحقہٗ اور مؤثر طور پر نمٹنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ فوج، پولیس اور خفیہ اداروں کے نیٹ ورکس کے ذریعے اب تک اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف جو بھی کارروائی کی گئی ہے، وہ بہت حد تک علامات کے مٹائے جانے تک محدود رہی ہیں۔ یعنی جو کچھ دکھائی دے رہا ہے، اُس کے خلاف تو کارروائی کی جارہی ہے، اسلامی عسکریت پسندی کے اصل اسباب کو تلاش کرکے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے نام پر کچھ برائے نام ہی ہو رہا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے اور دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے معاملے میں باضابطہ اِقدامات ناگزیر ہیں مگر یہ اقدامات اب تک ناکافی اور غلط ثابت ہوئے ہیں۔
اگر اسلامی عسکریت پسندی کا موزوں اور بروقت جواب دینا ہے تو ناگزیر ہے کہ پوری ایمانداری اور تفصیل سے اس کے بنیادی اسباب کا جائزہ لیا جائے۔
اسلام کے نام پر شدت پسندی اور عسکریت پسندی کی جڑیں اسلامی ریاستوں اور بڑی مسلم آبادی والی ریاستوں کی طرف سے مسلم نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روزگار اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے میں واضح ناکامی میں چھپی ہوئی ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم معاشروں میں مسلم نوجوانوں کے مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ دینے سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ اُنہیں توقیر بھی درکار ہے اور مقصدیت بھی۔ آبادی، معاشی اور سماجی اُمور کے اعتبار سے دنیا کے بدترین اشاریے اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ یہ معاشرے ناانصافی اور عدم مساوات سے اَٹے ہوئے ہیں۔
ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بھی مسلم نوجوانوں کی واضح اکثریت اب تک مرکزی معاشی اور معاشرتی دھارے میں شامل نہیں ہوسکی ہے۔ مسلم نوجوانوں کو ترقی یافتہ مغربی معاشروں میں تطبیق کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ غریب، بے روزگار اور شفقت سے محروم نوجوانوں نے ہمیشہ باغیانہ تحریکوں کے لیے بہترین افرادی قوت کا کردار ادا کیا ہے۔ مختلف مسلم اور غیر مسلم معاشروں میں مسلم نوجوانوں کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے کچل کر اُن میں باغیانہ رجحانات کے بیج بوئے گئے ہیں۔
مسلم نوجوانوں میں باغیانہ روش کو پروان چڑھانے میں بے روزگاری اور عدم احترام کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے کے معاملے میں فلسطین اور کشمیر دو عمدہ مثالیں ہیں۔ ترکی، ایران، الجزائر، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک میں نوآبادیاتی زمانے کے مظالم اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ بھارت، برما اور روس میں مسلم اقلیتوں سے امتیازی سلوک اور اُن پر ڈھائے جانے والے مظالم نے معاملات کو مزید اُلجھا دیا ہے۔
دنیا بھر میں مسلمانوں سے جو گندا سلوک کیا جاتا رہا ہے اور اُن کی جو شکایات رہی ہیں، اُن کی کوکھ سے مغرب کے خلاف معاندانہ رویے نے جنم لیا ہے۔ اِس معاندانہ رویے ہی نے مغرب کے خلاف باغیانہ روش کو مستحکم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
اسلامی دنیا میں انقلابی تحریکوں کی پیدائش اور ارتقا بتدریج رہا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں چند ایک مسلم اکثریتی خطوں میں انقلابی تحریکوں کو پروان چڑھانے میں مغرب نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔
امریکا اور یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام اور روسی بلاک کی اشتراکیت کے ناکام ہوجانے پر مسلم ممالک میں متبادل ماڈل کے طور پر اسلامی تحریکوں نے جگہ بنائی اور اُنہیں راتوں رات تیزی سے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ پاکستان جیسے خاصے روادار اور کشادہ ذہن رکھنے والے معاشرے میں بھی تنگ نظری پر مبنی اسلامی تحریکیں پروان چڑھنے میں کامیاب ہوئیں۔
اسلامی معاشروں کے خلاف استحصالی اور استیصالی رویوں نے اسلام کے نام پر عسکریت پسندی کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ افغانستان پر سابق سوویت یونین کی لشکری اور اشتراکیت کو ریاست کے مرکزی ماڈل کے طور پر پیش کرنے کے خلاف مجاہد تنظیمیں کھڑی کی گئیں۔ سات بڑی مجاہد تنظیموں اور جماعتوں کے اتحاد کو پاکستان، امریکا، یورپ، ایران، سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کی بھرپور مالی اور اخلاقی حمایت حاصل رہی۔ ان مجاہد تنظیموں نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست سے دوچار ہی نہیں کیا، بلکہ اپنے نظریات بھی مسلط کرنے کی کوشش کی۔ عرب دنیا اور دیگر اسلامی ممالک سے کم و بیش چالیس ہزار مجاہدین بلائے گئے۔ مقصود صرف یہ تھا کہ یہ مل کر دو قطبی دنیا کو ختم کردیں یعنی سوویت یونین کو شکست دے دیں۔ ان مجاہدین میں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری بھی شامل تھے۔ سابق سوویت یونین سے نبرد آزما ہونے والوں میں ازبکستان، چیچنیا اور سنکیانگ (چین) کے باغی بھی شامل تھے۔
افغانستان سے سوویت افواج کی واپسی کے بعد یہ مجاہدین یا تو افغانستان و پاکستان میں رہے، یا پھر اپنے اپنے ملکوں میں جاکر شدت پسندی عام کرنے لگے۔ اسلامی دنیا بالخصوص جزیرہ نمائے عرب، شمالی افریقا اور دیگر خطوں میں آج ہمیں جو اسلامی شدت پسند اور عسکریت پسند دکھائی دے رہے ہیں، وہ سوویت افواج سے نبرد آزما ہونے والے مجاہدین اور اُن کی اولاد ہی پر مشتمل ہیں۔ یہ لوگ القاعدہ اور اُس کے بطن سے جنم لینے والے دیگر گروپوں میں پائے جاتے ہیں۔
پہلے تو افغانستان سے سوویت یونین کی افواج نکل گئیں۔ اِس کے بعد امریکا نے بھی انخلا کے معاملے میں عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہت کچھ الجھ کر رہ گیا۔ ایمن الظواہری نے اسلام آباد میں مصر کے سفارت خانے پر حملہ کیا اور پھر وہ القاعدہ نیٹ ورک کا حصہ بن گیا۔ اس دوران کابل پر کنٹرول کے لیے مجاہدین کئی گروپوں میں بٹ گئے۔ افغانستان میں اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کے حوالے سے ایران اور پاکستان کے درمیان معاندت شروع ہوئی۔ پاکستان دنیا بھر سے آئے ہوئے سُنّی گروپوں کے لیے میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا۔ دوسری طرف ایران نے لبنان، عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں شیعہ تنظیموں اور گروپوں کی بھرپور حمایت اور مدد کا سلسلہ جاری رکھا۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران مجاہدین کے کئی گروپ جرائم میں ملوث ہوگئے۔ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اُنہوں نے منشیات کی تجارت بھی شروع کردی۔ وہ بھتّہ خوری بھی کرتے تھے، اغوا برائے تاوان میں بھی ملوث تھے اور انسانی اسمگلنگ بھی اُن کا دھندا تھا۔ جن مجاہدین کے گروپ جرائم میں ملوث ہوئے تو پاکستان، بھارت، امریکا، سعودی عرب، ایران اور دیگر ممالک کے خفیہ اداروں کو اِن کی صفوں میں داخل ہونے اور اثرات قائم کرنے کا موقع ملا۔ بھارت نے کشمیری حریت پسندوں کی بعض تنظیموں میں اپنے ایجنٹس داخل کرکے حق خود ارادیت کی جدوجہد کو دہشت گردی کے بڑے خطرے کا رنگ دینے میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔
ممکن ہے کہ جنوبی اور مشرقی افغانستان میں امن بہت حد تک ملا عمر کی تنظیم طالبان ہی نے قائم کیا ہو جبکہ ایران اور بھارت کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد نے معاملات کو بہت حد تک بگاڑ رکھا تھا۔ ملا عمر کے طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلق اُس وقت طشت از بام ہوا، جب امریکا اور یورپ نے طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ملا عمر کی طرف سے اسامہ بن لادن کو مغرب کے حوالے کرنے یا ملک سے نکالنے سے صاف انکار کیے جانے پر ہی مغربی دنیا نے شمالی اتحاد سے مل کر طالبان کی حکومت ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
۲۰۰۱ء میں یعنی نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی مداخلت اور اُس کے بعد عراق پر مغرب کی لشکر کشی نے القاعدہ کو نئی زندگی دی اور مجاہدین کو لڑنے یا لڑائی جاری رکھنے کا جواز مل گیا۔ وہ اب امریکا اور یورپ کو اپنے دشمن کے طور پر لیتے ہوئے اُس کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرسکتے تھے اور اُن کے مفادات کو نقصان بھی پہنچا سکتے تھے۔ القاعدہ میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں ہوئیں۔ عراق میں زرقاوی کی القاعدہ نے جنم لیا۔ اسی القاعدہ نے آگے چل کر عراق اینڈ سیریا اسلامک اسٹیٹ (داعش) کا روپ دھار لیا۔ تحریکِ طالبان پاکستان، الشباب، بوکو حرام اور دیگر انتہا پسند گروپوں نے افغانستان اور عراق کے خلاف امریکا کی سربراہی میں مغربی دنیا کی لشکر کشی کے بطن سے جنم لیا۔
آج اسلامی دنیا میں ہر طرف جہادی تنظیمیں دکھائی دے رہی ہیں۔ عسکریت پسندی کے فروغ کے لیے تین عوامل کو سمجھنا ہوگا۔ ایک تو یہ کہ پولیس اور فوج سے بہتر انداز سے کام لینے اور پریشان حال لوگوں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے مکمل ناکامی واقع ہوچکی ہے۔ خفیہ ادارے بھی ناکام ہوئے ہیں۔ ریاستی مشینری اِن گروپوں سے نمٹنے میں مجموعی طور پر ناکام رہی ہے، کیونکہ ایک طرف تو ایسا کرنے کے لیے مطلوب عزم کی کمی ہے اور پھر کرپشن کا گراف بھی بہت بلند ہے۔ دوسرے یہ کہ مصر، لیبیا اور شام جیسے ممالک میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش بھرپور ناکامی سے دوچار ہوئی ہے، انتشار پھیلا ہے اور اِس کے نتیجے میں اسلامی عسکریت پسند گروپوں کو تیزی سے پنپنے کا موقع ملا ہے۔ تیسرے یہ کہ داعش اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان جیسے گروپوں کو بیرونی ذرائع سے غیر معمولی حد تک مالی امداد مل رہی ہے۔
جہادی تنظیموں اور اُن کے اِس موقف کو غیر معمولی مقبولیت ملی ہے کہ مسلمان اپنے حقوق صرف پُرتشدد جدوجہد اور قتل و غارت کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مغربی دنیا کے وہ ہزاروں مسلم نوجوان بھی اِن گروپوں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں، جو اَب تک مرکزی دھارے میں شامل نہیں ہوسکے ہیں اور خود کو معاشرے کے لیے یکسر غیر موزوں پاتے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق داعش کی صفوں میں شامل ہو کر اُس کی طرف سے لڑنے والے مغربی معاشروں کے مسلم نوجوانوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے۔ پیرس میں جو کچھ ہوا، اُس نے ایک بیرونی جنگ کو یورپی سرزمین تک پہنچا دیا ہے۔ کل تک فرانس کے لیے جو کچھ محض خارجہ پالیسی کا ایک چیلنج تھا، وہ اب انتہائی حساس داخلی معاملہ بن چکا ہے۔ یعنی داخلی سلامتی کو ہر معاملے پر فوقیت دینے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے جریدے شاغلی ایبدو کے دفتر پر حملے اور اُس میں مدیر سمیت بارہ افراد کی ہلاکت نے یورپی معاشرے میں ثقافت اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم بڑھا دی ہے۔ جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف ’’پیگیڈا‘‘ نامی تنظیم تیزی سے اُبھر کر سامنے آگئی ہے، جبکہ فرانس میں مسلمانوں کے خلاف نیشنل فرنٹ کام کر رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ سوئیڈن جیسے انتہائی روادار اور پُرامن معاشرے میں بھی مساجد کو آگ لگانے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی طرف متوجہ ہونا اور اِس سے گلو خلاصی کی تدبیر کرنا اب عالمگیر ترجیح کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ مگر اِس کے لیے انتہا پسندی، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے حقیقی اسباب پر غور کرنا لازم ہے۔ اسلامی عسکریت پسندی کے حقیقی اسباب کا سُراغ پائے بغیر جو بھی پالیسی اپنائی جائے گی، وہ یا تو ناکام رہے گی یا پھر اُس کی کامیابی پانی کے بلبلے جیسی ثابت ہوگی۔
“Causes of Islamist militancy”.
(Daily “Dawn” Karachi. January 18, 2015)
Leave a Reply