
ہمارے جسم میں موجود ۱۰۰ ارب کے قریب خلیوں میں نہایت اعلیٰ درجے کی ترتیب اور انصرام پایا جاتا ہے۔ یہ تمام خلیے اس ترتیب کو برقرار رکھنے کے لیے اس نظام کی گہری اور ہمہ وقت نگرانی کرتے ہیں۔ اور وہ ’’ہارمون‘‘ کی شکل میں پیغام رسانی کرتے ہیں۔ مثلاً غدہ ورقی (Thyriod) کا ہارمون تمام خلیوں کی حیاتیاتی سرگرمیوں کی رفتار کی نگرانی کرتا ہے۔ انسولین (Insulin) کا ہارمون پورے جسم کے خلیوں میں شکر کی ترسیل کا ذمہ دار ہے۔ الڈ اسٹرون (Aldestrore) ہارمون گردوں کی مدد سے خون میں پانی اور نمکیات کے توازن کو برقرار رکھتا ہے جبکہ اریتھرو پوئٹین (Erythropoietin) ہارمون کا کام خون کے سرخ ذرات بنانے کا اشارہ دیتا ہے۔ سینکڑوں ہارمون خلیے کے درمیان رابطے کی کڑیوں کا کام دیتے ہیں۔ اور ان کے سادے کام ایک ہی معیار کے مطابق کروڑوں انسانوں کے جسم میں نہایت باریک بینی اور مہارت سے انجام پاتے ہیں۔ اس لیے انسان کے جسم کے کسی نظام کا وجود ہارمون کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ اس کے بغیر جسم میں ایک اودھم مچ جائے اور سارے نظام تباہ ہو جائیں۔ اس لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی ایک خلیے کو اس سے بہت دور واقع خلیے کے بارے میں کیسے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور یہ کام کون سا ہارمون کرتا ہے؟ اس کے علاوہ ان خلیوں کو مطلوبہ ہارمون، اس کے لیے ضروری مواد اور اس کو اکٹھا کرنے کے مقامات کا کس طرح پتہ چلتا ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب ہمارے سامنے ایک حقیقت کو منکشف کرتا ہے اور وہ یہ کہ ہر جسم ایک معین اور نہایت دقیق خاکے، زبردست علم اور پختہ نظام کی روشنی میں بنایا گیا ہے اور روئے زمین پر موجود کروڑوں انسانوں میں سے ہر انسان کے جسم میں ۱۰۰ ارب خلیے اسی معجزانہ نظام کے تحت روبکار ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور زمین اور پوری کائنات میں پھیلی اس کی حکمت کی دلیل ہے۔
دماغ میں پیدا ہونے والا ہارمون۔۔دودھ کا منبع
حمل کی مدت کی تکمیل پر عورت کو اچانک دردِ زہ محسوس ہوتا ہے یہ درد نئے بچے کی پیدائش کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور جسم کے اندر ’’اوکسی ٹوسین‘‘ (Oksitosin) نامی ہارمون اس اہم واقعے کے بارے میں اطلاع دینے کا ذمہ دار ہے۔
دماغ میں پھیلے اس ہارمون کا اثر جسم کے دو مقامات پر ظاہر ہوتا ہے۔ ایک تو اس کا سبب حمل کے مہینے پورے ہونے کے بعد عورت کے سینے میں دودھ کا اجرا اور دوسرے جب حمل کی مدت پوری ہو جاتی ہے تو رحم کا دہانہ دماغ کو اشارے بھیجتا ہے اور دماغ ان اشاروں کو وصول کر کے ’’اوکسی ٹوسین‘‘ ہارمون بھیج دیتا ہے جو مطلوب مقام پر پہنچ کر رحم کے منہ کے کھلنے میں مدد دیتے ہیں اور وضع حمل میں آسانی ہو جاتی ہے۔ جبکہ قبل ازیں حمل کے نو ماہ اور دس دن بعد رحم کے پٹھے بڑی شدت سے کھنچ جاتے ہیں۔ یہاں اس پر ذرا غور کیجیے کہ دماغ کے ایک چھوٹے سے حصے میں واقع ایک چھوٹے خلیے نے ایسا ہارمون پیدا کرنے کا فیصلہ کس طرح کر لیا جو وضع حمل کے عمل میں آسانی کا باعث بنتا ہے؟ پھر وہ ہارمون انسان کے پیچیدہ جسم سے گزر کر غلطی سے کسی اور عضو تک پہنچنے کی بجائے مطلوب مقام پر کیسے پہنچتا ہے؟۔ آخر یہ عقل اور فہم کس کے پاس ہے جس سے یہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ اب بچے کے رحم کے اندر بڑھنے کے دن پورے ہو چکے ہیں، اسے مزید زندہ رکھنا ہے اور اس نظام کو ایک خاص وقت پر حرکت میں لانا ہے؟ ذرا سوچیے تو سہی کہ یہ ہارمون کس طرح اس بات کا ادراک کر لیتا ہے کہ اب بچے کے لیے دودھ ضروری ہے ارو وہ سینے میں دودھ کے غدودوں کو دودھ جاری کرنے کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ ان میں سے ایک ایک ہارمون نہایت مرتب نظام کے تحت کام کرتا ہے۔ فیصلے کرتا ہے۔ فیصلوں کو روبہ عمل لاتا ہے۔ دوسرے خلیوں سے رابطہ کرتا ہے جسم کے لیے ضروری مائع مادّہ ضروری مقدار مناسب وقت پر فراہم کرتا ہے اس کی ترسیل کا وقت معین کرتا ہے اور اس کے علاوہ بہت سے اور کام بھی کرتا ہے۔
یہ حیران کن نظام محض اتفاق سے خود بخود نہیں کر سکتا بلکہ اس کا خالق و مالک ان تمام ترتیبوں کی نگرانی کرتا ہے جن میں زبردست عقل و فہم پائی جاتی ہے۔ اس لیے ہارمون کا تفصیلی خاکہ، اللہ تعالیٰ کے معجزۂ تخلیق و تدبیر کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply