
کل جماعتی حریت کانفرنس (گیلانی) کے چیئرمین و بزرگ آزادی پسندوں رہنما سیدّ علی گیلانی نے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں ایک نئی مردم شماری اور وہ بھی غیر ریاستی ملازمین کی زیرنگرانی صرف اس غرض کے لیے کرائی جارہی ہے کہ یہاں کی آبادی میں مسلمانوں کے تناسب کو کم کر کے دکھایا جائے۔ یہ الزام اس سے پہلے ۱۹۸۳ء میں مرحوم شیخ محمد عبداللہ اور ۱۹۸۶ء میں فاروق عبداللہ بھی لگا چکے ہیں۔ سال ۲۰۰۰ء میں ریاستی کانگریس کے صدر سیف الدین سوز اس حد تک گئے کہ حزب المجاہدین اور حریت سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کر ڈالی۔
سوال یہ ہے کہ ریاست میں مردم شماری پر آخر کیوں ہند نوازوں سے لے کر آزادی پسند رہنمائوں تک کا اعتماد اٹھ گیا ہیـ؟ اس کا اندازہ مردم شماری کے اعداد و شمار پر محض ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی ہو جائے گا۔ ریاست میں ۱۹۴۲ء میں مسلمانوں کا تناسب ۷۸فیصد تھا وہیں یہ تناسب ۱۹۸۱ء میں گھٹ کر محض ۶۵ فیصد رہ گیا۔ یہ بات صحیح ہے کہ ۱۹۴۷ء میں ــ’’آزاد کشمیر‘‘ کی آبادی گھٹ جانے کے نتیجہ میں یہ تناسب صرف ۷۶ فیصد سے بڑھ جانا چاہیے تھا۔ خود ہندوستان میں جہاں مسلمانوں کی آبادی آزادی کے وقت محض ۱۰ فیصد تھی وہیں اِس وقت ان کی تعداد ۱۵ فیصد کے آس پاس پہنچ گئی ہے۔ ماہرین سماجیات آبادی کی شرح نمو کو کسی بھی قوم کے تہذیبی و مذہبی رجحانات کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیم اور مالی آسودگی سے جوڑتے ہیں۔ ریاست کے مسلمان مذہبی اور تہذیبی لحاظ سے ان ہی اقدار کے حامل ہیں جو ملتِ اسلامیہ کے دوسرے اجزا رکھتے ہیں اور اس ملت ہی کے مذہبی اور سماجی تانے بانے کا جز ہیں۔ ظاہر ہے کہ دیگر مسلم قوموں کی طرح کشمیریوں کو بھی خاندانی منصوبہ بندی کے مروجہ طریقوں پر اعتراض ہے۔ جہاں تک مالی آسودگی اور تعلیمی پسماندگی کا تعلق ہے تو اس میدان میں ریاست کے مسلمان غیر مسلموں کی بہ نسبت پیچھے ہیں۔ اس پسماندگی کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مسلمانوں کی آبادی کی شرح نمو غیرمسلوں سے زیادہ ہو اور ایسا عملاً ہے، یا کم از کم وہی شرح نمو ریاست کی مسلم آبادی کی ہونا چاہے تھی جو ہندوستان کے مسلمانوں کی ہے۔ مردم شماری کے عداد و شمار جہاں اوسطاً ہندوستان کے مسلمانوں کی شرح نمو دس سال تک ۳۰ فیصد دکھاتے ہیں وہیں ریاست میں کچھ دوسرا ہی تناسب ہے اور اسی تناسب کا نتیجہ مسلمانوں کی آبادی میں مسلسل منفی رجحانات دیکھنے کی شکل میں مل رہاہے۔
کشمیریوں کو بجا طور پر خدشہ ہے کہ ریاست میں ان کی آبادی کو کچھ مذموم سیاسی مقاصد کی وجہ سے ایک مختلف پیرائے میں دکھایا جارہا ہے۔ جہاں ایک طرف مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم دکھایا جاتا ہے وہیں غیر مسلم آبادی کی شرح نمو کے اعداد و شمار کو عملاً بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہندو آبادی کا اوسطاً شرح نمو ۲۲، ۲۰ فیصد رہتا ہے۔ ریاست میں کئی مرتبہ اس شرح کو ۴۰ فیصد تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ اگر اس بات کو صحیح نہ مانا جائے کہ ہندو آبادی کا تناسب جان بوجھ کر بڑھایا جاتاہے تو پھر یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ غیر مسلم آبادی میں مسلسل اضافے کا رجحان یا تو ریاست میں غیر ریاستی باشند وں کی آبادکاری کا نتیجہ ہے یا یہ سب مردم شماری کے غلط طریقہ کار کا نتیجہ ہے یا دونوں باتیں صیحح ہیں۔
ریاست پہلے ہی اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ غیر ریاستی باشندوں کے لیے جاری کیے گئے ہیں۔ ان بے ضابطگیوں کی تحقیق کے لیے جسٹس عبدالقادر پرے کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ کمیشن ریاست کی روایت کے مطابق اپنے مقاصد سے کوسوں دور ہے۔ لگتا ہے کہ ریاست میں موجود بے اطمینانی کو سردخانے میں ڈالنے کی غرض سے ہی کمیشن قائم ہوا ہے۔ عملاً ریاست آر ایس ایس اور دیگر فسطائی طاقتوں کے ان خاکوں میں رنگ بھر نے میں لگی ہوئی ہے جن کا برملا اظہار گزشتہ ۲۷ جنوری کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اپنے بھونیشور دورے کے وقت کر چکے ہیں۔ موصوف نے حکومتِ ہند کو یہ مشورہ دیا کہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ ریاست میں ایسی آبادی کو بسایا جائے جو ہندوستان کی وفادار ہو۔
آر ایس ایس کے ہی جریدے ’’آرگنائزر‘‘ (organizer) کے ۲؍ اگست ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ایس گرومور تھی کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں حکومت ہند کو یہ مشورہ دیا گیا کہ کشمیر میں اسی طرح غیر ریاستی باشندوں کی آبادی کاری کو انجام دیا جائے جس طرح چینی حکومت نے ترکستان میں چینی آبادی کو بسا کر مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کردیا۔ مضمون نگار نے آبادی کی اس منتقلی ہی کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل قرار دیا ہے۔ ایک طرف اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا یہ بر ملا اظہار ہے۔
حکومت ہند کے محکمۂ مردم شماری کی بے ضابطگیوں کا حال بھی انہی کے اعداد و شمار سے عیاں ہوتا ہے کہ ریاست میں بولی جانے والی زبانوں میں بنگالی، آسمامی، بھوج پوری، راجستھانی، تامل، مراٹھی، ملیالم اور کنڑ کو بھی دکھایا گیا ہے۔ ریاست کا کوئی بھی باشندہ ان زبانوں کو اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال نہیں کرتا ہے۔ ریاست کے لسانی خاکے میں یہ رنگ صرف اس وجہ سے جھلکتا ہے کہ ریاست کے باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو بھی مردم شماری کے دوران یہاں کی آبادی کے ساتھ گنا جاتا ہے۔
۱۹۷۱ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست میں ہندی کو ۴۲ہزار لوگ بطور مادری زبان استعمال کرتے تھے۔ جب کہ یہ تعداد ۱۹۸۱ء کی مردم شماری میں ۱۰لاکھ ۱۲ہزار ۸۰۸ دکھائی گئی ہے۔ سطحی طور پر اس دو ہزار فیصد اضافے کو ہندی کے فروغ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے لیکن اگر یہ اضافہ ہندی کے فروغ کی وجہ سے ہے تو یہ تعداد مقامی زبانوں کے بولنے والوں کا ہندی کی طرف راغب ہونے کا نتیجہ ہونا چاہیے۔ لیکن ڈوگری اور کشمیری بولنے والوں کی تعداد میں اس عرصے کے دوران بالترتیب ۲۷ اور ۲۹ فیصد کی شرح نمو کے عین مطابق ہے۔ اب یہ ہندی والے کہاں سے آگئے، اس کا جواب بھی مردم شماری کے اعداد و اشمار سے ہی ظاہر ہوتاہے۔ ۱۹۷۱ء کی مردم شماری میں ریاست میں گوجری بولنے والوں کی تعداد ۳لاکھ ۳۰ہزار ۴۸۵تھی۔ ۱۹۸۱ء کی مردم شماری میں گوجری کا نام و نشان ہی نہیں، ظاہر ہے کہ تمام گوجری بولنے والوں کا اندراج ہندی بولنے والوں کی فہرست میں ہوا جو ۵، ۶لاکھ لوگوں کی کمی رہ گئی وہ غیر ریاستی باشندوں کے اندراج سے پوری کی گئی۔
لسانیات کے اعداد و شمار کے حوالے سے ایک اور چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ۱۹۷۱ء میں ریاست میں اردو بولنے والوں کی تعداد محض ۱۲؍ ہزار ۷۴۰ دکھائی گئی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست میں اردو بولنے والوںکی تعداد محض۲۱؍ہزار ۷۴۰دکھائی گئی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست میں اردو کے علاوہ اور کوئی پریس تھا ہی نہیں۔ ۱۹۸۱ء میں یہ تعداد گھٹ کر صرف ۶ہزار ۸۶۷رہ گئی۔ اپنی اور غیر کی ریشہ دوانیوں کے باوجود بھی اردو ماشاء اللہ ابھی تک ریاست کے ہر خطہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور ریاست کے ۸۰ فیصد قارئین سامعین اور ناظرین اردو سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ جب مردم شماری کے اعداد و شمار کا حال یہ ہو تو گیلانی صاحب الزام نہ لگائیں تو کیا کریں؟ بلکہ ملزم تو وہ ہوں گے جو سراسر دھاندلی اور فریب سے صرفِ نظر کریں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاست میں مسلم آبادی کے تناسب میں کمی کا ایک سبب نسل کشی اور زبردستی بے دخلی بھی ہے۔ جموں، کٹھوعہ، سانبہ اور راجوری اس نسل کشی کا شکار رہے ہیں، جہاں جموں میں ۱۹۲۱ء میں ۳۹ فیصد مسلمان تھے وہاں ۱۹۳۱ء میں یہ تعداد گھٹ کر ۱۰؍ فیصد رہ گئی۔ کٹھوعہ میں مسلمان ۲۵فیصد سے گھٹ کر ۵فیصد پر آگئے ہیں۔ راجوری میں ۸۰فیصد سے گھٹ کر یہ تعداد ۶۰فیصد رہ گئی ہے لیکن نسلی تطہیر اور نسل کشی کا یہ عمل ۱۹۴۷ء کے کچھ سال بعد رک گیا، اگرچہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران بھی کچھ سرحدی علاقوں میں اس طریقہ کا ر کو عمل میں لایا گیا۔ اگر مردم شماری کی ہیرا پھیری مسلم تناسب کی کمی کی ذمہ دار نہیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ نسل کشی کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے یا آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی وجہ ریاست میں بڑے پیمانے پر غیرریاستی باشندوں کی آبادکاری ہے۔
بدقسمتی سے کچھ تنظیمیں کشمیری پنڈتوں کی واپسی کے نام پر بھی ایسا ہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ۱۹۸۱ء کی مردم شماری میں کشمیری پنڈتوں کی تعداد ایک لا کھ ۲۴ہزار تھی باوجود اس کے کہ محکمہ مردم شماری پر بسا اوقات انہی کا غلبہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ اس غلبے کے نتیجے میں اعداد و شمار کو ہمیشہ ان کے حق میں بدل دیا گیا ہے۔ اب کہا یہ جاتاہے کہ مہاجر پنڈتوں کی تعداد ۳ لاکھ ہے۔ اگر اُن کی کل آبادی ایک لاکھ ۲۴ ہزار تھی، جن میں بہت سارے پنڈت کشمیر میں ہی رہ گئے تو یہ ۳ لاکھ کی تعداد کہاں سے آگئی؟ ظاہر ہے کہ مہاجر آبادی کی آبادکاری کی آڑ میں آر ایس ایس سے وابستہ کچھ تنظیمیں ریاست میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی راہ نکالنے کی ناپاک کوشش میں ہیں۔ یہ سلسلہ سری نگرکے گرد و نواح میں بہت سارے مندروں پر غیر ریاستی پروہتوں کے قبضے سے شروع ہوچکا ہے اور کشمیر میں مقیم پنڈت اس بات کی شکایت بھی کر چکے ہیں۔ مالیگاؤں بم دھماکے کی ملزمہ سادھوی پر گیہ بھی زیٹھ یار مندر کی پر وہت بن بیٹھی تھی۔
یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ ایک لاکھ ۲۴ہزار کی تعداد جو مردم شماری میں درج کی گئی ہے وہ وادی کی کل ہندو آبادی ہے جس میں کپور، اور کھتری بھی شامل ہیں۔ اسی طرح باغ مہتاب کے سانسی اور کلگام کے من بھی شامل ہیں۔ ان طبقات میں سے کوئی بھی وادی چھوڑ کر نہیں گیا بلکہ یہ لوگ پوری تحریک کے دوران ہر جگہ اپنا کاروبار کرتے رہے۔ دھاندلی اور ہیرا پھیری کے الزامات پر چراغ پا ہونے کے بجائے محکمہ مردم شماری کو اپنی ساکھ بحال کرنے کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی ہیراپھیری کا عمل چھپا نہیں رہ سکتا۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح الیکشن کی ہیراپھیری کشمیر کے حالات کارخ پلٹنے کا باعث بن گئی، اُسی طرح مردم شماری کے اعداد و شمار بھی حالات بگاڑنے کا سبب بنے ہیںاور آگے بھی بن سکتے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’افکارِ ملی‘‘۔ جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply