
وسطی ایشیا کا سب سے زیادہ خود پسند حکمران تاجکستان میں ہے۔ ماضی میں دنیا کے سب سے اونچے اور اب ممکنہ طور پر دنیا کے سب سے بڑے جھنڈے پر امام علی رحمان لکھا ہوا ہے۔ ان کا دارالحکومت فخر کرتا ہے کہ جلد ہی اس کے پاس خطے کی سب سے بڑی مسجد ہوگی، جس کا زیادہ تر خرچہ قطر نے اٹھایا ہے۔ چین کے پیسوں سے بنا دنیا کا سب سے بڑا چائے خانہ بھی یہیں ہے جو عموماً ویران رہتا ہے؛ اور عظیم الشان قومی کتب خانہ بھی یہیں ہے جہاں کچھ لوگوں کے بقول کتابیں ہی نہیں۔
ترکمانستان کی حکومت چلانے والے دندان ساز قربان علی بردی محمدوف کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ خود کو ’’محافظ‘‘ (Arkadag) قرار دیتے ہیں۔ آپ نے اپنے پیشرو صفر مراد نیازوف کا سونے کا پانی چڑھا ۳۹ فٹ اونچا مجسمہ ہٹا کر طلائی پانی سے مزین اپنا مجسمہ نصب کروادیا، جس میں موصوف ایک چٹان کے آخری سرے پر گھڑسواری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسی لغویات صرف آمریت میں ہی ممکن ہیں اور سوویت یونین کا حصہ رہنے والے پانچوں ملک (قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان) ایسی ہی جابرانہ اور اقربا پرور حکومتوں کے شکنجے میں ہیں۔ یہاں کے حکمرانوں کو ’’رنگین انقلابات‘‘ کا خوف ہے جنہوں نے سابقہ سوویت ممالک یوکرین اور جارجیا میں تختے الٹے اور ایک دہائی قبل کرغزستان میں (نرگسی انقلاب کی صورت میں) اپنا رنگ دکھایا۔ پانچوں کی پانچوں مسلم اکثریتی ریاستیں ہیں اور سبھی کو جہاد سے خطرہ ہے۔ یہ وہی خطہ ہے جہاں کبھی ’’گریٹ گیم‘‘ کے نام پر روس اور برطانیہ میں رسہ کشی جاری تھی۔ آج اس منتشر خطے میں چین، روس اور مغرب کے درمیان طاقت اور دولت کی پیچیدہ لڑائی جاری ہے۔
خطے کی رابطے کی زبان روسی ہے۔ پانچ میں سے دو حکمران یعنی قازقستان کے نور سلطان نذربایوف اور ازبکستان کے اسلام کریموف کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ تھے۔ جناب بردی محمدوف ایک سربراہ کے جانشین بنے جبکہ جناب رحمانوف پارٹی میں اونچے عہدے پر تھے۔ صرف کرغزستان میں کئی حکمران اور دو انقلابات آئے لیکن اس کے حکمران الماس بیگ آتام بایوف اپنے پڑوسیوں سے زیادہ روس نواز خیال کیے جاتے ہیں۔ روس کی طرح پانچوں ملکوں میں اقتدار ایک چھوٹے سے مالدار گروہ میں سمٹا ہوا ہے جو صدر کے قریب جمع ہے۔ تمام صدور مخالفت کو بڑی بے رحمی سے کچل دیتے ہیں۔
گوکہ وسطی ایشیا کے لوگ مذہب کو بہت کم یا بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے، لیکن سیاسی اسلام نوجوانوں اور مختلف سوچ رکھنے والوں کے چھوٹے مگر پھیلتے ہوئے گروہ کو متاثر کررہا ہے۔ شمال مغربی قازقستان کے قصبے اکتوبے میں جون کے اوائل میں اسلام پسندوں کے حملے میں حملہ آوروں سمیت ۲۵؍افراد مارے گئے تھے۔ حتمی طور پر کوئی نہیں بتا سکتا کہ شام اور عراق میں داعش کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے وسطی ایشیا سے کتنے جنگجو گئے ہیں لیکن برسلز میں قائم این جی او انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق یہ تعداد ۴۰۰۰ تک ہے۔ حکمران جبر کو فروغ دینے کی غرض سے یہ تعداد بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں۔
وسطی ایشیا کے لاکھوں باشندوں کی طرح بہت سے جنگجو بھی روزگار کے لیے روس گئے تھے اور سخت حالات میں کم تنخواہ پر محنت کررہے تھے، جہاں قفقاز سے تعلق رکھنے والے روسی شہریوں نے ہی انہیں شدت پسندی کی طرف مائل کیا۔ جب روس کی معیشت نے جھٹکا لیا تو ان میں سے بہت سوں کی نوکریاں ختم ہوگئیں اور داعش نے زیادہ تنخواہ، ہیرو بنانے اور جنت کا لالچ دے کر انہیں پھسلالیا۔
ازبکستان کے مشرقی سرے سے شروع ہوکر کرغزستان اور تاجکستان تک پھیلی وادئ فرغانہ میں بے چینی بہت ہے۔ قیاس ہے کہ ازبکستان اور تاجکستان سے ہزار، ہزار جنگجو نکلے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ازبکستان میں سیاسی قیدیوں کی تعداد ۱۲۰۰۰ تک ہے، جن میں سے بہت سے جیلوں میں شدت پسند بن جاتے ہیں۔ تاجکستان سے کبھی کبھی ایک جنگجو نوجوان کے پیچھے پورا خاندان چلا جاتا ہے، اسی لیے حکومت اسلام پھیلانے والے معتدل سے معتدل گروہ کا بھی جہاد کے خاتمے کے نام پر قلع قمع کردیتی ہے۔ خانہ بدوش ذہنیت رکھنے والے قازق اور کرغز باشندے اب تک داعش کا تر نوالہ نہیں بنے لیکن پھر بھی سیکڑوں لوگ عراق اور شام جاچکے ہیں۔ ترکمانستان کو بھی متاثرہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ خیال یہ ہے کہ افغان طالبان نے سرحدی علاقوں میں حملے کیے ہیں۔
بڑی پریشانی اس وقت سر اٹھاتی ہے جب یہ ناراض نوجوان گھر واپس آتے ہیں۔ نذربایوف کے وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ اکتوبے کے حملہ آور داعش سے متاثر تھے۔ متشدد سیاسی اسلام میں کشش یقیناً کم ہوگی مگر غیر متشدد اسلام کو جتنا دبایا جائے گا، شدت پسند جہادی اتنے ہی پیر پھیلائیں گے۔ اور اگر سماجی بے چینی بڑھتی ہے تو لامحالہ اسلام پسند فائدہ اٹھائیں گے۔
خطے میں نئے کھیل کی تیاری
اسی پیچیدہ پس منظر کے ساتھ خطے میں ایک نئے گریٹ گیم کی باتیں بھی ایک دہائی سے ہورہی ہیں۔ ایک عسکری قوم پرست روس، تجارتی مفاد کا حامل چین، ابتدا میں پر امید مگر اب نسبتاً مایوس امریکا اور کسی حد تک دلچسپی رکھنے والا یورپ بڑے کھلاڑی ہیں۔ ترکی، سعودی عرب، قطر اور شاید جلد ہی ایران بھی سینئر قازقستانی اہلکار کے الفاظ میں ایک ’’زیادہ خطرناک چھوٹے کھیل‘‘ کا حصہ بن جائے۔ وسطی ایشیا بہت سے گاہکوں میں گھرا ہوا ہے اور قازقستانی وزیر کے غیر سنجیدہ الفاظ میں یہاں ’’پائپ لائنز کی کثرت ہی خوشی کی ضامن ہے‘‘۔
امریکا اور یورپ زیادہ محتاط ہیں۔ شیورون اب بھی خطے کی سب سے بڑی آئل فیلڈ چلاتی ہے، اور روس کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں نے شاید وسطی ایشیائی تیل اور گیس میں یورپی دلچسپی کو بڑھاوا دے رکھا ہے۔ لیکن کمزور قانونی و بینکنگ نظام اور روز افزوں بدعنوانی کے پیش نظر بس چند یورپی و امریکی کمپنیاں ہی یہاں کا رخ کرتی ہیں۔
ترکمانستان کو ہٹاکر پانچ میں سے چار ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں، جسے علاقائی سطح پر چین فروغ دیتا ہے۔ یہی چاروں چین کی سرکردگی میں قائم ہونے والے ایشیائی انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے بھی بانی ارکان ہیں۔ اس کے علاوہ خطہ چین کے “One Belt, One Road” منصوبے کو بھی بہت اہمیت دیتا ہے۔ بہت سے عام شہری چینی معاشی سرگرمیوں کے بارے میں مضطرب ہیں مگر زیادہ تر تجارتی رہنما اور سیاست دان ان کے حامی ہیں۔ کرغزستان کے نئے وزیراعظم Djoomart Otorbaev کہتے ہیں کہ وہ ’’چین کو وسطی ایشیا سے قریب لانا چاہتے ہیں‘‘۔ چین کے بھی یہی ارادے ہیں: گزشتہ دہائی میں اس کی تجارت اور سرمایہ کاری نے روس کو دوسرے نمبر پر دھکیل دیا ہے۔
لیکن روس کا اثر و رسوخ پھر بھی بہت زیادہ ہے۔ زیادہ تر لوگ روسی زبان کے ٹی وی چینل دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر پروگرام امریکا مخالف ہوتے ہیں، جن میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مغرب وسطی ایشیا کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ بہت سے غریب باشندے سوویت یونین کو بھی یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جب ہمارے پاس نوکریاں اور فیکٹریاں تھیں مگر دکانوں پر سامان نہیں تھا، اب دکانوں پر سامان ہے مگر نوکریاں اور فیکٹریاں نہیں ہیں‘‘۔
روس چاہتا ہے کہ پانچوں ممالک یوریشیائی معاشی یونین (Eurasian Economic Union) میں شامل ہوجائیں، جو اس نے یورپی یونین کی ٹکر پر بنا رکھی ہے اور نیٹو کے جواب میں بنائی گئی مشترکہ سلامتی معاہداتی تنظیم (Collective Security Treaty Organisation) میں بھی شمولیت اختیار کریں۔ قازقستان اور کرغزستان معاشی یونین میں آچکے ہیں اور اس نے چین سے کچھ تجارت چھین بھی لی ہے مگر یہ خالص تجارتی تنظیم کے بجائے روسی اثر و رسوخ بڑھانے کا ایک آلہ ہے۔ روس چاہتا ہے کہ اس کی سابقہ ریاستیں اس کی سڑکوں، ٹرینوں اور پائپ لائنوں پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرتی رہیں۔
یہ معاملہ علاقائی سلامتی تک پھیلا ہوا ہے۔ قازقستان دنیا میں سب سے زیادہ یورینیم پیدا کرتا ہے، جس پر روس کی اجارہ داری ہے اور اس کے جنوب مغرب میں روس کا بہت بڑا میزائل لانچنگ اڈہ بھی ہے۔ کرغزستان میں دارالحکومت بشکیک کے نزدیک کانٹ میں روسی فضائی اڈہ ہے اور Issyk-Kul نامی جھیل کے پاس وہ تارپیڈو کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔ ۷۰۰۰؍اہلکاروں پر مشتمل روس کا بیرون ملک سب سے بڑا عسکری اڈہ تاجکستان میں ہے۔
امریکیوں اور چینیوں نے بھی کچھ علامتی اقدامات کیے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گزشتہ سال پانچوں ریاستوں کا دورہ کیا تاکہ تعلقات کو ’’بحال‘‘ کیا جاسکے کیونکہ ۲۰۰۵ء میں اسے جنوب مشرقی ازبکستان کے قرشی خان آباد فضائی اڈے سے اور دو سال قبل بشکیک کے قریب مناس سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ چین نے ان ممالک کو ڈرون اور میزائل شکن نظام سمیت کچھ فوجی اشیاء فروخت کی ہیں۔
گوکہ پانچوں ممالک کی تاریخ ایک ہی ہے مگر سوویت یونین سے ٹوٹنے کے بعد ان کے راستے جداگانہ بلکہ اکثر متصادم رہے ہیں۔ کرغزستان کے ایک سابق وزیر کے بقول ’’ہمارے مابین ہم آہنگی صفر ہے‘‘۔ تاجکوں کو ازبکستان سے شکوہ ہے کہ وہ اس کے شہروں سمرقند اور بخارا پر کیوں حکومت کررہا ہے، جبکہ اس کے چاروں ہمسائے جناب کریموف سے ناراض رہتے ہیں۔ ترکمانستان کی طرح ازبکستان بھی بہت زیادہ خول میں بند ہے۔
دنیا کا عظیم ترین ملک
آپ نے “Borat” فلم سے کچھ بھی تاثر لیا ہو مگر قازقستان اور اس کا حکمران پانچوں میں سب سے زیادہ متاثر کن ہیں۔ کچھ سال قبل جناب نذربایوف نے سوچا کہ ملک کا نام بدل کر قازق ییلی (Kazakh Yeli) یعنی قازقوں کا ملک رکھ دیا جائے کیونکہ انہیں ’’تان‘‘ کا لاحقہ برا لگتا ہے۔ اس کا تجارتی دارالحکومت الماتے خطے کا سب سے زیادہ متحرک اور نفیس شہر ہے۔ گزشتہ سال قازقستان کا فی کس جی ڈی پی روس سے زیادہ تھا۔ نذربایوف روس کے قریب رہتے ہوئے مغرب کی طرف بانہیں بھی پھیلا رہے ہیں اور چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بنا رہے ہیں۔ وہ طلبہ کو انگریزی سکھانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ملک کے جغرافیائی قلب کے نزدیک ۱۹ سال قبل بننے والے دارالحکومت الماتے میں جس معاشی مرکز کی تیاریاں ہورہی ہیں اس کا مآخذ انگریزی قانون ہوگا۔
لیکن سب کچھ اچھا بھی نہیں ہے۔ تیل کی گرتی قیمتوں نے قازقستان کو زک پہنچائی ہے۔ آستانہ اور الماتے سے باہر کئی شہر بدحال ہیں۔ اکتوبے ان شہروں میں سے ایک ہے جہاں لوگوں کی نوکریاں چھن رہی ہیں۔ بینکنگ سیکٹر چکردار ہے اور ٹیکس کا نظام بازنطینی ڈراؤنے خواب کے مانند ہے۔ معاہدے غیرمحفوظ ہیں اور بااثر قازق ہر سودے کا ۱۰ فیصد اڑا لے جاتے ہیں۔ یہ سب سرمایہ کاری کے لیے خطرہ ہے۔
معاشی بدحالی بے چینی کو جنم دے رہی ہے اور حکمراں طبقے کی بدعنوانی اس پر مستزاد ہے۔ اپریل میں مجوزہ زمینی اصلاحات کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ نذربایوف نے جلاوطنی، استحصال، پابندی، ہراسانی اور قید کے ذریعے سیاسی فضا میں شدید گھٹن پیدا کر رکھی ہے۔ وہ اب ۷۶ برس کے ہورہے ہیں اور ان کا کوئی جانشین نہیں ۔ البتہ ایک صاحبزادی ضرور پر تول رہی ہیں۔ لیکن دوسرے ممالک میں صورت حال زیادہ خراب ہے۔
ازبکستان کے کریموف سب سے زیادہ گھناؤنے اور شاید دیگر چاروں حکمرانوں سے زیادہ خر دماغ ہیں۔ تاجکستان کو سب سے کم مستحکم کہا جاسکتا ہے۔ جون میں وہاں کے آئین کو ریفرنڈم کے ذریعے تبدیل کیا گیا، جس میں ۹۷ فیصد لوگوں نے صدر کے لیے عمر کی حد کم کرکے ۳۰ سال کرنے کی حمایت کی تاکہ رحمانوف کے بیٹے رستم کی راہ ہموار ہوسکے۔ فی الحال وہ ملک کے انسداد بدعنوانی کمیشن کے سربراہ ہیں۔
سیاسی طور پر کرغزستان کو سب سے زیادہ آزاد کہا جاسکتا ہے لیکن شاید وہ لوگوں کو خوش رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ دو پیشروؤں کو جس افراتفری نے چلتا کیا، کرغز صدر اس سے بہت چوکنے رہتے ہیں۔ مارچ سے جون تک تختہ الٹنے کے الزام میں سات سیاست دان قید ہوچکے تھے۔ اس کے فوجی سرحدی تنازع پر تاجکستان سے اکثر الجھتے رہتے ہیں اور تینوں ملک مشترکہ وادیِ فرغانہ کی شورش سے آئے دن لرزجاتے ہیں۔
عوامی ناراضگی اور اس کو کچلنے میں حکمرانوں کی کوششیں ہر ملک میں الگ ہیں۔ لیکن وسطی ایشیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق تو دور کی بات، استحکام اور خوشحالی بھی اس سے بہت کم نظر آتی ہے جتنی ۲۵ سال پہلے تھی، جب پانچوں ریاستیں آزاد ہوئیں۔ گزشتہ دہائی میں بہت سے لوگ غریب ہوئے ہیں۔
جنوب میں عرب بہار نے حکمرانوں کو چلتا کیا اور مغرب میں یہی کام رنگین انقلابات نے کیے۔ لہٰذا یہاں کے حکمران اب دوراہے پر ہیں۔ فی الحال تو وہ محفوظ نظر آتے ہیں اور کہیں بھی مربوط اور اہل مخالفین اس قابل نہیں کہ بغاوت کرسکیں۔ کوئی بھی ملک ابال کی حد کو ابھی تک نہیں پہنچا ہوا، مگر حالات بدل بھی سکتے ہیں۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Central Asia: Stans undelivered”.(“The Economist”. July 2, 2016)
Leave a Reply