
کرغیزستان کے مرکزی ہوائی اڈے مناس پر ’’امریکی ایئر فورس‘‘ کا، لوگو لگے بھدے سرمئی رنگ کے لڑاکا طیاروں کو رن وے پر کھڑا دیکھ کر مسافر سوچتے ہوں گے کہ وہ کسی مقبوضہ ملک میں ا تر گئے ہیں، لیکن اب اس عجیب مخلوق کا بسیرا یہاں چند مہینوں سے زیادہ نہیں ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان آنے والے ہر سپاہی کے لیے امریکا نے مناس ایئر بیس کو گیٹ وے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ لیکن اس سال کے اختتام تک امریکا اپنی جنگ وہاں سے سمیٹ لے گا۔ دریں اثنا روس نے ماضی میں اپنے زیر اثر رہنے والے وسط ایشیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کردیا ہے۔ روس نے اس شرط پر کہ امریکا کرغیزستان سے چلا جائے، کرغیزستان کو ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر سے زائد فوجی امداد دینے اور ۵۰۰ ملین ڈالر واجب الادا قرض معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں کرغیزستان کی قیادت نے امریکا کو جولائی میں مناس ایئربیس خالی کرنے کا کہنا ہے۔
اس صورت میں ایک دہائی پر محیط وسط ایشیا میں براہ راست امریکی مداخلت کا تقریباً اختتام ہو جائے گا۔ افغانستان کی شمالی سرحد پر واقع سابق سوویت ریاستوں میں امریکی جنگی مفادات دھندلا رہے ہیں۔ اسی طرح مغربی اثرورسوخ بھی خطے میں کمزور پڑ رہا ہے اور نئے کھلاڑیوں کو جگہ بنانے کے لیے کافی راستہ فراہم ہورہا ہے، جن میں قابل ذکر روس اور چین ہیں۔ اب بھی امریکا اپنی خواہش کے برعکس مناس بیس کو قبل از وقت خالی کر رہا ہے۔
امریکی حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پیچھے اپنی میراث چھوڑکر جارہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن جب ۲۰۱۱ء میں امریکی وزیر خارجہ تھیں تو انہوں نے ’’نئی شاہراہ ریشم‘‘ کے متعلق یہ الفاظ کہے تھے: ’’یہ ایک اقتصادی اور نقل و حمل کا جال ہے، جو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو افغانستان کے ذریعہ جوڑے گا‘‘۔ اب تک یہ تجویز بہت کمزور معلوم ہوئی ہے۔ کرغیزستان کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اس تجویز کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وسط ایشیا کی بجلی افغانستان اور پاکستان کو بر آمد کی جائے، جب کہ خود یہاں بجلی کی قلت ہو۔ لہٰذا یہ منصوبہ ہماری ضرورت نہیں۔ اس پس منظر میں امریکی منصوبے پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
امریکا کے مقابلے میں چین نے اپنا منصوبہ پیش کردیا ہے۔ گزشتہ موسم خزاں میں چینی صدر نے وسط ایشیا کے طوفانی دورے کے دوران امریکا کے مقابلے میں اپنی اقتصادی پٹی ’’شاہراہ ریشم‘‘ کی تجویز پیش کی۔ اربوں ڈالر کے اس منصوبے میں سڑک، ریلوے اور پائپ لائن کے منصوبے شامل ہیں، جو تمام کے تمام وسط ایشیا سے چین کو جاتے ہیں۔
چین کے پیسے کو وسط ایشیا میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ افغانستان میں نیٹو آپریشن سمٹنے کا درد وسط ایشیا میں محسوس کیا جائے گا۔ خطّے کے غریب ترین ممالک کرغیزستان اور تاجکستان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ گیس کے ذخائر سے مالا مال ازبکستان جو کہ شمال میں نیٹو کے نام نہاد تقسیم کار کے جال کا مرکز ہے، بھی متاثر ہوگا۔ قازقستان اور ترکمانستان ایندھن اور نقل و حمل کے منافع سے محروم ہو جائیں گے۔
کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں وزیراعظم جانتورو ستی بلدیوف نہیں بتا سکتے کہ قومی بجٹ کا کم و بیش ۳ فیصد یعنی ۶۰ ملین ڈالر کی رقم جو سالانہ مناس ایئر بیس کے کرائے کی صورت مل رہی تھی اوراضافی ۸۰ ملین ڈالر جو ہر سال مناس ایئربیس پر خرچ کر رہا تھا، یہ ملک کیسے پوری کرے گا۔ آئی ایم ایف نے ’’اقتصادی زوال‘‘ سے خبردار کردیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ روس ہمیشہ اپنے وعدے وفا نہیں کرتا۔
امریکی اب بھی وسط ایشیا کی حکومتوں کو فوجی امداد دینے پر مُصر ہیں۔ جو لوگ خطے میں انسانی حقوق کی ہولناک صورتحال اور خراب طرزِ حکمرانی سے واقف ہیں، ان کے نزدیک اس امداد نے امریکی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۲ء میں تاجکستان میں جس فوجی اشرافیہ نے ۳ ملین ڈالر کی امداد لی، ایک پراسرار آپریشن میں کئی شہریوں کو قتل کردیا اور واقعہ پربات کرنے سے بھی انکار کردیا۔ نیو یارک کے برنارڈ کالج میں وسط ایشیا کے امور کے ماہر الیگزینڈر کولے کے نزدیک یہ امریکی مصالحت کی قیمت ہے۔
امریکا نے ۲۰۰۵ء میں جب ازبکستان کے شمال مشرقی علاقے ادین جان (Andijan) میں سیکڑوں شہریوں کے قتل عام پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، تو ازبک حکومت نے امریکا سے کاشی خان آباد ایئربیس خالی کرنے کا مطالبہ کردیا۔ چونکہ امریکا کو وسط ایشیا میں رسد کی فراہمی (لاجسٹک سپورٹ) کی ضرورت ہے، تو خطے میں امریکی مصالحت سمجھ میں آتی ہے۔
جو بات سمجھ نہیں آتی، وہ خطے کے پانچ میں سے چار ممالک (کرغیزستان کی کمزور جمہوریت کے علاوہ) میں امریکی امدادی بجٹ کا سکڑنا ہے۔ اس امداد میں لینگویج ٹریننگ اور تعلیم کا بجٹ بھی شامل ہے۔ جو امریکی اثرورسوخ کو سہارا دینے یا بڑھانے میں مدد گار نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان کاروباری امکانات کاکیا بنے گا، جو امریکا کو اس خطے کی جانب متوجہ کر رہے ہیں؟ قازقستان جہاں توقع ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بعد سب سے بڑی آئل فیلڈ عنقریب کام کا آغاز کرنے والی ہے، وسط ایشیا کی معیشتوں میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ہوگی۔ ترکمانستان اور اُزبکستان تو توانائی کے ذخائر سے مالامال ہیں، لیکن ان کا مستقبل تاحال غیر واضح ہے۔ وہاں سرمایہ کاری خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کرغیزستان اور تاجکستان بھی اتنی ہی کرپشن اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں، جتنا کہ ان کے پڑوسی ممالک ہیں، لیکن کاروباری صلاحیت کے لحاظ سے کمزور ہیں۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار نے یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکی فوج افغانستان سے چلے جانے کے باوجود بھی وسط ایشیا کو نہیں بھولے گی۔ دشواری یہ ہے کہ امریکی فوجی امداد نے ان ممالک میں جائز حزب اختلاف کو ابھرنے اور افغانستان سے آنے والے خطرات سے نبٹنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بجائے آمر حکومتوں کو خراب حکمرانی کے باوجود اپنے اقتدار مضبوط کرنے میں مدد دی ہے۔
(مترجم: سید سمیع اﷲ حسینی) (“The United States in Central Asia: Going, going…” “The Economist”. Dec. 7, 2013)
Leave a Reply