گزشتہ چالیس برسوں سے افریقا کے مسلم اکثریتی ملک چاڈ کے عوام بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ انہوں ۱۲نے اپنے ملک میں کبھی مستقل امن و سلامتی کی فضا نہیں دیکھی۔ جس طرح براعظم افریقا کے دیگر ممالک کے باشندے امن و سکون کی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ چاڈ کے عوام اس سے محروم ہیں۔ چاڈ میں امن و سلامتی کی صورت حال انتہائی مخدوش رہی ہے۔ چاہے اس کے اسباب خارجی نوعیت کے ہوں یا داخلی۔ چاڈ میں جب بھی کوئی نئی حکومت آئی‘ ملک کے وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے اس نے کسی نہ کسی قبیلہ کا سہارا لیا اور ملک کے دوسرے قبیلے نے شدت کے ساتھ اس حکومت کو مسترد کر دیا۔ پھر حکومت سے یہ عداوت بتدریج عسکری عمل کی شکل اختیار کرتی جاتی بلکہ بسا اوقات حالات انتہائی دھماکہ خیر ہو جاتے۔
فرانس کی جانب سے مسلط کردہ حکومت کے خلاف ۱۹۵۸ء میں برپا کیے گئے پہلے عوامی انقلاب سے ۱۹۶۲ء کے انقلاب تک جس میں چاڈ کے سب سے پہلے صدر اور فرانس کے ایجنٹ ’’فرانسو تملبائی‘‘ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیا‘ مسلسل چاڈ میں خانہ جنگی کا سلسلہ جاری ہے اور چاڈ مستقل جنگوں کا سامنا کر رہا ہے شاید ان جنگوں میں سے سب سے خطرناک جنگ وہ تھی‘ جو سابقہ دو صدور‘ قوکونی عویدی اور حسین ہبیری کے درمیان ۹ ماہ تک جاری رہی‘ جس میں فوج اور عام شہری ملا کر تقریباً دس ہزار افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ چاڈ میں وقفہ وقفہ سے بارہا جنگی صورتحال پیدا ہوتی رہی ہے۔ کبھی ملک کے شمال میں تو کبھی مغربی علاقہ میں اور کبھی مشرقی چاڈ میں۔ ملک کے یہ تین ایسے علاقے ہیں جہاں حکومت کے مختلف معاہدوں کے بعد مغربی چاڈ جنگ کے حصار سے نکل گیا ہے۔ لیکن ملک کے شمالی اور مشرقی علاقہ میں جنگوں کی آگ بھڑکتی رہتی ہے۔ مرحوم لیڈر یوسف تقویمی کے زمانہ میں جنہیں قتل کر دیا گیا‘ شمالی علاقہ جنگی لحاظ سے کافی طاقتور تھا۔ یوسف تقویمی کی ہلاکت کے بعد سے ان کا حامی باغی گروہ بہت سے ان اصولوں سے پیچھے ہٹتا جارہا ہے جن پر وہ سختی سے کاربند تھے۔ اس وقت براعظم افریقا کے بیشتر ممالک میں باغیوں کے لیے حالات کچھ زیادہ سازگار نظر نہیں آتے۔ بالخصوص افریقی یونین کے اجتماعات میں کیے گئے اس اقدام کے بعد جس میں تمام حکومتوں کے سربراہوں نے ہر اس حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو بغاوت کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہو۔
اِلّا یہ کہ ایسی کسی بغاوت کو امریکا‘ فرانس یا برطانیہ کی تائید حاصل ہو اور یہ ممالک اسے تسلیم کر لیں۔ اگر کسی عوامی انقلاب کو دنیا کے یہ طاقتور ممالک تسلیم کر لیں تو پھر افریقی یونین بھی اسے تسلیم کر لے گی۔ چنانچہ موریطانیہ کے بحران میں ایسی ہی صورتحال پیش آئی۔ افریقی یونین کے لیے ایک طرف یہ خارجی چیلنجز ہیں‘ دوسری جانب یونین میں اندرونی اختلافات پیدا ہونے کے خدشات بھی لاحق ہیں۔ اس طور پر کہ مرکزی حکومتوں میں ایسے ایجنٹ گھسائے جاتے رہے ہیں جو خفیہ طریقہ سے انتشار پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ان حالات میں چاڈ کی مختلف پارٹیاں تنازعات کو باہمی گفت و شنید کے ذریعہ حل کرتے ہوئے ملک کی سلامتی کو ترجیح دینا چاہتی ہیں تاکہ خون خرابہ کم سے کم ہو۔ چاڈ کی جماعت ’’تحریکِ انصاف و عدالت‘‘ نے اپنے لیڈر یوسف تقویمی کی ہلاکت سے قبل ملک میں سلامتی کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے حکومت کے ساتھ گفت و شنید کر کے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ۲۰۰۰ء سے یہ پارٹی حکومت کے ساتھ کئی مذاکرات کرتی آئی ہے۔ اس سلسلہ کے آخری مذاکرات لیبیا کی وساطت سے کیے گئے تھے جس میں دونوں فریقوں نے بہت سی باتوں پر اتفاق کیا جن میں جنگ بندی اور تین ماہ کی مدت میں سابقہ باغیوں کو عام شہری زندگی میں شمولیت اور تحریکِ انصاف و عدالت کے بعض ارکان کو حکومت کے عہدوں پر فائز کرنا شامل ہے۔ ساتھ ہی اس معاہدہ میں تحریکِ انصاف و عدالت کی حلیف جماعتوں کے لیے معاہدہ میں شامل ہونے کے لیے تین ماہ تک دروازہ کھلا رکھا گیا تھا۔ حکومت کے ساتھ کیے گئے سابقہ معاہدوں کی دفعات بھی تقریباً یہی ہوا کرتی تھیں لیکن بعض اسباب و عوامل کی وجہ سے وہ سارے معاہدے اور ان کی دفعات ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ دفعات کی ناکامی کا ایک اہم سبب بیرونی مداخلت ہے۔ بیرونی طاقتوں کی نگرانی طاقتوں کے معیار کو بدل دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے معاہدہ میں طے شدہ باتوں سے فریقین میں سے کوئی نہ کوئی دستبردار ہو جاتا ہے۔
چنانچہ ۱۹۹۹ء میں قائم مسلح تحریکوں اور سیاسی پارٹیوں کا اتحاد حالیہ معاہدہ میں فریق کے طور پر شامل نہیں تھا‘ جس کی وجہ سے یہ معاہدہ بھی سابقہ معاہدوں کی طرح بے معنی ہو کر رہ گیا۔ سیاسی اور فوجی نقطہ نظر سے سابقہ معاہدوں کی ناکامی کے بعد اس معاہدے نے دونوں فریقوں کو برابر کے موقف میں لاکھڑا کر دیا ہے۔ حکومت کی مصیبت یہ ہے کہ اس نے اب تک جتنے بھی معاہدے کیے‘ کسی بھی موقع پر بنیادی مسائل کے حل کے سلسلہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور معاہدوں کے باوجود مسئلہ سرد خانوں کے حوالے کر دیا جاتا رہا۔ خصوصیت کے ساتھ حکومت کا یہ رویہ افسوسناک ہے کہ اس نے اپنے مخالفین کے ساتھ متحدہ سیاست کی راہ اپنائی۔ مخالفین کو معاہدہ کی رو سے حکومت میں اعلیٰ عہدہ تفویض کیا جاتا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد حکومت تحلیل کر دی جاتی جس کی وجہ سے یہ مخالف خود بخود سیاست کے گلیاروں سے باہر ہو کر رہ جاتے۔ اس رویہ سے ان مخالفین کی عوامی پذیرائی بھی متاثر ہو کر رہ جاتی۔ یہ سیاست کئی ایک مخالف حکومت عناصر کے ساتھ اختیار کی گئی‘ پھر جب کسی مخالف حکومت فرد سے چھٹکارا پانے کی کوئی شکل باقی نہ رہتی تو آخری حربہ دھوکے سے قتل کر دینے کا اپنایا جاتا ہے۔ یہی وہ سیاست ہے جس سے تحریکِ انصاف و عدالت کے سابق صدر یوسف تقویمی سخت نفرت کرتے تھے اور حکومت سے کسی طرح گفت و شنید کے لیے ملک کے موجودہ صدر کے استعفیٰ کو بنیادی شرط قرار دیتے تھے۔ تقویمی کے بعد ان کی پارٹی نے اس شرط سے دستبرداری اختیار کر لی اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔
چاڈ کے بحران میں بیرونی مداخلت کے کردار پر گفتگو کی جائے تو اس سلسلہ میں فرانس سرفہرست نظر آتا ہے۔ چونکہ فرانس کا مفاد اسی میں ہے کہ چاڈ داخلی انتشار اور مسلسل بحران کا شکار ہے۔ چاڈ کے قدرتی وسائل کپاس اور دیگر معدنیات سے فرانس بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ چاڈ کے مختلف علاقوں میں معدنیات کی تلاش میں فرانس کے ہیلی کاپٹر مسلسل منڈلاتے رہتے ہیں اور چاڈ کے ذخائر پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے چاڈ میں فرانس کے پندرہ سو فوجی تعینات ہیں۔
فرانس چاڈ کے داخلی انتشار کا استحصال کرتے ہوئے برسراقتدار قبیلہ کی حامی بھرتا ہے۔ چنانچہ چاڈ میں متعین فرانس کے ایک سرکاری ملازم نے ایک روزنامے میں چاڈ میں فرانس کی پالیسی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارا کام برسرِ اقتدار قبیلہ کی حمایت ہے اور قوت و طاقت کی منطق بھی یہی ہے‘‘۔ چاڈ میں شروع خانہ جنگی کے آغاز ہی سے فرانس اسی پالیسی پر کاربند رہا ہے۔ اس لیے کہ فرانس کے مفادات کا تحفظ اسی پالیسی میں مضمر ہے۔ اگرچہ سابق صدر حسین ہبیری کے دورِ صدارت سے چاڈ کا وہائٹ ہائوس کی طرف جھکائو کافی حد تک بڑھ گیا ہے اور چاڈ کے موجودہ صدر ادریس دیبی بھی اپنے پیش رو صدر کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود چاڈ میں فرانس کے ایجنٹ اتنا اثر و رسوخ حاصل کر چکے ہیں کہ ان کے بل بوتے پر فرانس لوگوں کی نگاہ میں ناپسند حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے۔ چاہے حکومت کی تبدیلی مختلف قبیلوں کے درمیان تنازعات پیدا کر کے ہی کیوں نہ ہو۔ فرانس کی جانب سے اس طرح کے اِقدام کا امکان اس وجہ سے بھی ہے کہ ادھر کچھ عرصہ سے چاڈ کی موجودہ حکومت سے فرانس کو کافی زَک پہنچی ہے۔ چاڈ حکومت نے اپنے حالیہ اِقدامات کے دوران فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دیا اور فرانس کی خفیہ ایجنسی کے بعض افراد کا ملک سے اِخراج کر دیا۔ ان ساری کارروائیوں پر فرانس اس لیے خاموش ہے کہ اس کے چاڈ سے کافی مفادات وابستہ ہیں۔ چاڈ کی موجودہ حکومت کے مخالف فرانس اِقدامات کا اثر یہ ہوا کہ شمالی و جنوبی چاڈ کے اپوزیشن لیڈروں کا جھکائو فرانس کی جانب ہونے لگا ہے۔
چاڈ میں بیرونی مداخلت کا دوسرا فریق امریکا ہے۔ امریکا نے ۱۹۸۰ء کے اواخر سے چاڈ میں دلچسپی لینا شروع کی اور پوری قوت کے ساتھ چاڈ کی طرف رُخ کیا۔ اس وقت چاڈ کے قدرتی وسائل‘ بشمول زمین سے نکالے جانے والے وسائل‘ جیسے پیٹرول یا اور کوئی معدنیات جن کو آئندہ نکالا جاسکتا ہے‘ سب پر امریکا اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا ہمیشہ چاڈ کے طاقتور فریق کے ساتھ نظر آتا ہے‘ چاہے چاڈ کی موجودہ حکومت ہو یا اپوزیشن۔
چاڈ بحران میں دلچسپی لینے والے دیگر ممالک میں چاڈ کے پڑوسی ممالک لیبیا‘ نائیجیریا‘ سوڈان وغیرہ بھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ملک کے چاڈ سے الگ الگ مفادات وابستہ ہیں۔ بلکہ بعض ممالک کا تو یہ ایقان ہے کہ چاڈ کے عدم استحکام میں ہی ہماری معیشت کا استحکام ہے۔ ’’انجمنا‘‘ (چاڈ کا صدر مقام) میں اگر مستحکم حکومت قائم ہوتی ہے تو ان ممالک کے مفادات بُری طرح متاثر ہونے کا امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک حکومت کے مخالفین میں سے کسی نہ کسی کو اپنے یہاں پناہ دیتے ہیں اور ان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں لیبیا اور سوڈان کا کردار اہم ہے۔ سوڈان چونکہ دارفور کے مسئلہ میں الجھا ہوا ہے‘ اس لیے اپوزیشن سے زیادہ وہ چاڈ کی موجودہ حکومت کے قریب نظر آتا ہے۔ جہاں تک لیبیا کا تعلق ہے تو وہ چاڈ کے بارے میں متضاد موقف رکھتا ہے۔ خود کو امریکا کے حوالے کرنے کے بعد لیبیا کچھ ٹھوس فیصلہ کرنے سے قاصر ہے بلکہ وہ بیرونی اِشاروں پر چلنے ہی میں عافیت سمجھتا ہے۔ جو بھی ہو چاڈ کی حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ آئندہ بھی امکان ہے کہ لیبیا کوئی واضح موقف نہ اپنائے۔ حالیہ واقعات بتاتے ہیں کہ امریکا چاڈ کے داخلی تنازعات میں لیبیا کو غیرجانب دار رکھنا چاہتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر پڑوی ممالک میں کیمرون اور نائیجریا ہیں۔ کیمرون کے لیے موجودہ حالات میں چاڈ کے استحکام میں فائدہ ہے‘ س لیے کہ اسی ملک سے ہو کر پیٹرول پائپ لائن گزر رہی ہے‘ جس میں اس کے لیے چاڈ کے پیٹرول میں حصہ داری کا حق حاصل ہونے کا امکان ہے۔ کسی دوسری حکومت آنے پر پیٹرول پائپ لائن کا قبضہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ جہاں تک نائیجیریا کی بات ہے تو چاڈ کا استحکام اس کے مفاد میں نہیں جاتا۔ نائیجیریا چاڈ کی اپوزیشن سے زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ چاڈ کے بے شمار حکومت مخالف عناصر کو پناہ دے رہا ہے۔
چاڈ کے لیے سب سے بڑا خطرہ عیسائی مشنریوں کی شکل میں پایا جانا ہے جو کہ بیشتر افریقی ممالک کی سیاست میں کافی دخیل بن چکی ہیں۔ ان مشنریوں کے پاس وسائل کی بہتات ہے۔ بسا اوقات وسائل اور ذرائع کی بدولت یہ مشنریاں بہت سے افریقی ملکوں کی حکومتوں پر اپنا گہرا اثر و نفوذ رکھتی ہیں۔ چاڈ کی بہت سی وزارتوں پر عیسائی مشنریوں کی ایسی ذمہ دار شخصیتیں فائز ہیں جو چاڈ کے باشندوں پر براہِ راست اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ یہ مشنریاں جنوبی چاڈ کے عیسائیوں کی بھرپور مدد کرتی ہیں‘ بالخصوص ان عیسائیوں کی جو حکومت مخالف ہیں۔ اسی طرح شمالی چاڈ کے مخالفین کے ساتھ بھی حتی الوسیع تعاون کرتی رہتی ہیں۔ ان مشنریوں کا مفاد بھی چاڈ کے عدم استحکام ہی میں ہے۔ مستحکم حکومت کے قیام کی صورت میں ان مشنریوں کو افراد بلاخوف و خطر نقل و حرکت کے مواقع حاصل نہیں رہ سکتے۔ چنانچہ ویٹکن کے وزیرِ خارجہ پوپ اشوجیری نے اس سوال کا کہ ’’چاڈ سے پیٹرول نکالے جانا عیسائیوں کے مفاد میں ہے یا نہیں؟ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم عیسائی اس وقت چاڈ پر جو کچھ پیسے خرچ کر رہے ہیں‘ آنے والے چند ہی برسوں میں اسے لَوٹا لیں گے۔ اس لیے کہ چاڈ افریقی ملکوں میں سب سے زیادہ قدرتی وسائل رکھنے والا ملک ہے اور چاڈ کے سرکاری ملازمین میں ۹۰ فیصد ملازمین ہماری مشنری مدارس میں تعلیم پائے ہوئے ہیں جو ہم سے بھرپور تعاون کریں گے‘‘۔
الغرض چاڈ اپنے استحکام میں دوسری طاقتوں کا مرہون نظر آتا ہے۔ ایسے میں آنے والے دنوں میں بھی چاڈ میں مستحکم حکومت کا قیام مشکل نظر آرہا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply