
انیسویں صدی کے آغاز میں جب مغرب کی استعماری طاقتوں نے دنیاے اسلام پر قبضہ کرنا شروع کیا تو اُن کو اسلامی علوم سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہ دلچسپی کسی اخلاص پر مبنی نہ تھی بلکہ علمی طور پر وہ اسلام کے اندر ایسی خورد برد کرنا چاہتے تھے جس سے نئی نسل متاثر ہو، خود مسلمانوں کو اس سے نفرت ہو جائے اور وہ اپنے دین کو بیکار اور خلافِ عقل سمجھ کر رَد کر دیں۔ انہی مقاصد کے پیشِ نظر غیرمسلم اسکالرز نے اسلامی علوم کے ہر شعبہ میں کام شروع کیا اور اپنے طور پر تحقیق کا بہت بلند معیار پیش کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے طریقۂ تحقیق، مسائل کے تجزیے اور طریقۂ استنتاج میں اس قدر کشش تھی کہ نئی تعلیم کے فارغ شدہ بہت سے مسلمان ان کے فریب میں آگئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
تمام اسلامی علوم کے بارے میں جو اُن مستشرقین نے کام کیا، اس کا احاطہ کرنا تو یہاں ممکن نہیں، البتہ زیرِ نظر مقالے میں ہم ایک موضوع پر ضرور گفتگو کریں گے اور وہ ہے قرآنی علوم کے بارے میں مستشرقین کی تحقیق۔ اس سلسلے میں پہلے تو ان لوگوں نے قرآن کے مغربی زبانوں میں ترجمے کیے بالخصوص انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور اطالوی میں۔ پھر کچھ بڑے مستشرقین نے ترجمے کے ساتھ تفسیر کی طرف بھی توجہ کی۔ اس طرح کی سب سے مشہور کتاب قرآن مجید کا وہ ترجمہ اور تفسیر ہے جیسے جارج سیل نے ۱۸۶۲ء میں انگریزی زبان میں شائع کیا۔ اس کے بعد آج تک مغرب میں جتنے ترجمے ہوئے ہیں، وہ سب کے سب اسی کے خوشہ چین ہیں۔ جو غلطیاں سیل (Sale) نے کی تھیں، وہی بعد کے مترجمین نے کیں۔
سیل (Sale) عربی زبان کا بہت برا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ یقینا اس نے یہ غلطیاں قصداً کی ہیں۔ اس کا مقصد تھا کہ ایک طرف اس متعصب ترجمے سے مغرب کے لوگوں کو اسلام سے بدظن کرے اور دوسری طرف مسلم تعلیم یافتہ طبقے کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں وہ سو فیصد کامیاب رہا۔ سیل (Sale) جس طرح انگریزی ادب پر قدرت رکھتا تھا، اسی طرح عربی میں بھی مہارت رکھتا تھا۔ قران کے اس انگریزی ترجمے میں وہی شان و شوکت نظر آتی تھی جیسے لاطینی سے انگریزی میں بائبل کے ترجمے میں۔ اس ظاہری ملمع سازی کے پردے میں اس نے قرآن کے سیکڑوں مفاہیم اور مطالب بدل کر رکھ دیے لیکن انگریزی داں طبقہ ترجمے کے اس ظاہری حسن سے بہت متاثر ہوا اور جب کوئی زبان و ادب سے متاثر ہوتا ہے تو اس پر حسنِ بیان کا ہی اثر نہیں ہوتا بلکہ کلام کے معانی بھی آہستہ آہستہ دل میں گھر کر لیتے ہیں۔
لہٰذا جن مسلمانوں نے یہ ترجمہ پڑھا، اس سے ان کے عقائد اور کچھ نہیں تو کم از کم مشکوک ضرور ہو گئے۔ ان کے دلوں میں تذبذب اور اندیشے ضرور پیدا ہو گئے۔ اور یہی سیل (Sale) کا مقصد تھا۔ اس کے علاوہ سیل نے ایک کام اور کیا وہ یہ کہ اس نے قرآن کا ایک مقدمہ لکھا اور اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تصنیف ہے اور بڑی حد تک محرف ہو چکا ہے۔ قرآن میں بہت سی علمی اور ادبی خرابیاں بھی ہیں اور یہ کہ اس کے تمام مضامین یہودیت اور عیسائیت سے لیے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیل (Sale) کی ان آرا سے بعد کے مستشرقین بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں بعد میں پوری شرح و بسط کے ساتھ اس نظریے کو پیش کیا مثلاً ملاحظہ ہو۔
Richard Bell, The Origin of Islam in its Christian environment, London, 1926; The Quran, Edinburgh 1937 c.c. Torrey, The Jewish Foundation of Islam, New York 1993.
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ کسی مسلم مفسر کے قلم سے آج تک اس ’’مقدمہ قرآن‘‘ کا علمی، مستند اور خاطر خواہ مدلل جواب نہیں لکھا گیا لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ علمی فساد جو اٹھارہویں صدی کے وسط میں شروع ہوا تھا، ابھی تک جاری ہے۔ سیل (Sale) نے ترجمہ کے ساتھ جو تفسیر لکھی ہے، وہ مقدمہ قرآن سے بھی زیادہ زہر آلود ہے۔ اس نے قرآن کی آیات میں ہر طرح کا نقص پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ مغرب میں آج تک قرآن پر جو کام ہوا ہے یا ہو رہا ہے، وہ سب اسی ترجمے اور تفسیر کو بنیاد بنا کر کیا جاتا ہے جیسا کہ اس سلسلے میں John Wansbrough کی Quranic Studies کو دیکھا جاسکتا ہے۔
مغرب میں دوسرا شخص جس نے قرآن پر سب سے زیادہ کام کیا ہے، وہ آسٹریا کا یہودی مستشرق گولڈزیہر ہے۔ اس نے اسلامی عقائد اور علوم پر متعدد کتابیں لکھی ہیں جن میں بلامبالغہ ہر ایک کو مغرب میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ انہی میں سے ایک کا نام ہے ’’مذاہب التفسیر الاسلامیہ‘‘۔ اس کتاب میں گولڈزیہر نے جہاں مختلف مذاہبِ تفسیر سے بحث کی ہے، اس کتاب کے شروع میں اس نے ایک طویل مقدمہ لکھا ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن میں بڑے پیمانے پر تحریف ہو چکی ہے اور اسی تحریف کی وجہ سے معنوی تحریف پیدا ہوتی ہے۔ اس کتاب کا اثر یہ ہوا کہ قرآن کے پڑھنے والے غیرمسلم خواہ مغرب میں ہوں یا مشرق میں، عام طور پر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ واقعی متن قرآن میں ابتدا ہی سے گڑبڑ ہو چکی تھی اور بعد میں اس کی اصلاح ممکن نہیں تھی۔ گولڈزیہر نے عربی تفسیروں سے بے شمار آیات کو لے کر ان کی متبادل روایات نقل کی ہیں۔ اس طرح اس نے اپنی دانست میں قرآن میں تحریف کو ثابت کیا ہے۔ چنانچہ یہ دوسری بڑی کتاب ہے جس نے دورِ جدید میں مغرب میں قرآن کے مطالعے پر گہرا اور منفی اثر ڈالا ہے۔ مغرب کی یونیورسٹیوں میں اسلامی علوم میں دلچسپی رکھنے والے اساتذہ اپنی ہر بات اور اسلام کے بارے میں اپنے تصورات کو گولڈزیہر کے کتابوں سے حوالے دے کر مستند قرار دیتے ہیں۔
پچھلی صدی کے آخر میں ایک مشہور جرمن یہودی مستشرق نولڈیکے (Noldeke) نے قرآن کی تاریخ لکھی۔ یہ تاریخ نامکمل تھی، بعد میں اس کے شاگرد ستوالی (Schwally) نے اس کو آگے بڑھایا۔ پھر اس کے شاگردوں نے اس کی تکمیل کی۔ یہ کام تقریباً پچاس برس میں مکمل ہوا اور یہ مغرب میں قرآن کے خلاف ایک منظم کارنامہ ہے۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے جو بڑے سائز کے ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
See: Theodor Noldeke, Geschiehte des Qoran, revised by Fried rich Schwally,
اس کتاب میں بھی بڑے منظم انداز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن محرف ہے۔ گولڈزیہر نے جو کام چھوٹے پیمانے پر کیا، نولڈیکے اور اس کے شاگردوں نے بڑے پیمانے پر کیا اور ثابت کیا کہ قرآن کی عبارت ہر جگہ سے بدلی ہوئی ہے۔ اس میں ایسا لسانی اور ادبی سقم ہے کہ اس کو الہامی کتاب تو کیا، ادب کا کوئی اچھا نمونہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نولڈیکے نے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن کے وہ علوم جو یہودیت اورعیسائیت سے تعلق نہیں رکھتے، وہ بالکل بیکار اور بے معنی ہیں۔ پھر اس نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ قرآن کا یہ دعویٰ کہ تمام تر وحی الٰہی ہے، بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے۔ لہٰذا نولڈیکے کے خیال میں نہ تو قرآن ادبی اعتبار سے کسی توجہ کے لائق ہے اور نہ علمی لحاظ سے اور دینی اعتبار سے تو بالکل ہی بے کار ہے۔
آج مغرب کا ہر مستشرق اس کتاب کو پڑھتا ہے اور اس سے متاثر ہوتا ہے، اس کے بعد اسلام پر تحقیق شروع کرتا ہے۔ اسلامی ممالک سے جو مسلمان اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈی کے لیے مغرب میں ان اساتذہ کے پاس جاتے ہیں، وہ اپنے شاگردوں کو انہی ماخذ کی طرف رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ وہ اپنے شاگردوں کو وہی کچھ بتاتے ہیں جو انھوں نے سیل، گولڈزیہر اور نولڈیکے سے وراثت میں حاصل کیا ہے۔
بیسویں صدی کے شروع میں اڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر بیل (Bell) نے قران کو نزول کے اعتبار سے ترتیب دیا چنانچہ اس نے کانٹ چھانٹ کر کے ایک نیا قرآن تیار کر دیا۔ اس ترتیب سے قرآن کی عبارت اور مفہوم گڈمڈ ہو کر رہ گئے۔ اس نئی ترتیب کے ذریعے اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حالات کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات بدلے اور برابر قرآن کو بدلتے رہے۔
بیل کہتا ہے کہ ناسخ و منسوخ کا مسئلہ اسی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ترتیب نزولی کے اس نظریہ میں بظاہر بہت جاذبیت نظر آتی ہے کیونکہ اس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اسلام کی ترقی اور رفتار کا صحیح پتا چل سکتا ہے۔ مشرکین، یہود و نصاریٰ سے تعلقات اور طرزِ سلوک میں تبدیلی، تمام باتوں کا علم ہو سکتا ہے لیکن یہ سب باتیں حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ قرآن مجید ایک سو چودہ ابواب میں بٹا ہوا ہے اور یہ تقسیم توقیفی ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور سورتوں کی ترتیب و تنظیم اس کے نفسِ مضمون کے اعتبار سے ہے اور ان کو اسی طرح مرتب کیا گیا ہے جیسا کہ خدا نے چاہا اور جس طرح اس کے رسول کو ہدایت کی تھی اور یہ معلوم ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی کئی سورتوں کے اجزا نازل ہوئے تھے جنھیں آنحضرتؐ کاتبینِ وحی سے لکھوا دیا کرتے تھے۔ اس لیے اگر ان کے نزول کا وقت معلوم بھی ہو جائے تو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔
رہا مسئلہ تدریج کا تو یہ بالکل ظاہر ہے کہ مکہ میں تیرہ برس کے دوران قرآن کے جو اجزا نازل ہوئے، اس میں صرف دعوت و ارشاد کا ذکر ہے اور عقائد اور ایمانیات کے مضامین بیان ہوئے ہیں لیکن جب آنحضرتؐ مدینہ میں تشریف لائے اور وہاں ایک آزاد سلطنت قائم کی تو خدا نے اپنی شریعت بھی بھیجی جو اس نئے معاشرے کے لیے ضروری تھی اور پھر یہ شریعت بھی تدریجاً دس سال کی مدت میں نازل ہوئی اور اکثر احکام وقت اور حالات کے اعتبار سے نازل ہوئے تاکہ ان کے قبول کرنے میں مسلمانوں کو کوئی گرانی یا حرج محسوس نہ ہو۔ لہٰذا اگر بعض آیات کا وقتِ نزول بھی معلوم ہو گیا تو اس سے قطعاً کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان آیات کا صحیح مفہوم تو تب ہی معلوم ہو گا کہ جب ان کو وہیں رکھ کر دیکھا جائے جہاں ان کو اﷲ کے رسولؐ نے رکھا ہے۔
پھر یہ بھی معلوم ہے کہ تمام کاوشوں کے باوجود ایک فیصدی بھی ایسی آیات نہیں جن کا زمانۂ نزول یقین سے ثابت کیا جاسکے تو پھر اس ظن و تخمین سے کیا فائدہ ہو گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ترتیبِ نزولی کی یہ ورزش صرف قرآن میں فساد کا دروازہ کھولنے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس طرح کا کام مغرب میں ابھی تک جاری ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پیرس یونیورسٹی کے ایک مشہور پروفیسر بلاشیر نے قرآن کا فرانسیسی زبان میں ایک ترجمہ اور تفسیر شائع کی ہے (Regis Blachere, LE coran, Paris, 1966) اس کے ساتھ تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک طویل مقدمہ بھی لکھا ہے۔ ترجمہ قرآن میں اس نے بھی سیل کی پیروی کی ہے اور سیل کے بعد جتنی خوشہ چینی مستشرقین نے کی ہے، اُن تمام کو اس میں سمو لیا ہے۔
اس کے علاوہ مقدمہ میں اس نے بہت سی نئی باتیں بھی لکھی ہیں جو نولڈیکے سے رہ گئی تھیں۔ اس طرح یہ کتاب مستشرقین کے تفسیری کمالات کا بہترین نمونہ بن گئی ہے۔ کتاب کو چھپے ایک عرصہ گزر گیا ہے مگر کسی مسلم مفسر یا طالب قرآن نے اس پر جامع تنقید نہیں کی۔ شرق اوسط اور افریقہ کے تمام مسلم ممالک میں فرانسیسی زبان عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے جہاں کے لوگ یقینا بلاشیر کا ترجمہ اور تفسیر پڑھتے ہوں گے لیکن کسی عرب عالم نے اس کی طرف قابلِ ذکر توجہ نہیں کی۔
لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ دورِ حاضر کے مسلم مفسرین اور علما کا یہ فرض ہے کہ وہ مستشرقین کے علمی کاموں کا جائزہ لے کر ان کی غلطیوں سے آگاہ کریں اور قرآنی ہدایت اور احکامات کے روشن پہلوئوں کو دنیا کے سامنے پیش کریں جن سے مستشریقین نے یا تو غفلت برتی ہے یا جان بوجھ کر ان پر پردہ ڈالا ہے یا قصداً ان میں تحریک کی ہے۔ یہ کام اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کا وہ طبقہ جو علومِ دین سے شغف رکھتا ہے اور جدید تعلیم سے بھی بہرہ مند ہے اور خصوصاً وہ لوگ جو ان مستشرقین کے سامنے زانوے ادب طے کرتے ہیں، اُن کی سوچ و فکر پر ان کے یہ یہودی، نصرانی اساتذہ بہت اثرانداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مغرب میں قرآن کی تفسیر کی یہ کوشش ان لوگوں کے نقطۂ نظر سے خواہ کچھ بھی ہو، جدید مسلم مفسرین کی راہ میں وہ ایک بڑی رکاوٹ اور ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔
پچھلے دو سو برس میں دنیا حیرت انگیز طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔ صرف سائنسی اور علمی فنون میں ہی نہیں بلکہ علوم اور عملی زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاست، معیشت، عائلی زندگی، معاشرے کی عام تقلیدات اور زندگی کے عام رجحانات کے بارے میں نظریات و تصورات بڑی حد تک بدل چکے ہیں۔ بہت سی پرانی قدریں بے معنی ہو گئی ہیں۔ زندگی کے بہت سے طریقے متروک ہو چکے ہیں اور بہت سا پرانا علم بھی بیکار اور توہم بن کر رہ گیا ہے۔ نئے علوم اور انکشافات کی روشنی میں دین کے بہت سے متداول اور مروجہ قدریں اور اصول و قاعدے عقل و تجربے اور حقیقت کے خلاف معلوم ہوتے ہیں۔ بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ آج دنیا کی اکثر سوسائٹیوں میں دین کی ضرورت ہی سرے سے محسوس نہیں کی جاتی۔ ایسے میں اس امر کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے کہ دنیا کے لوگوں کو یہ محسوس کرایا جائے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس سے ان کی زندگی کے اصلی اور بنیادی مقاصد پورے ہو سکتے ہیں۔ عصرِ حاضر کے تقاضوں کو سمجھ کر اسلام کی تشریح و تعبیر کی جائے جس سے لوگ نہ صرف متاثر ہوں بلکہ انھیں اس بات کا کامل یقین ہو جائے کہ کامل ہدایت صرف اسلام ہی سے مل سکتی ہے۔ یہی دین ان کی اس دنیا میں سچی رہنمائی کر سکتا ہے۔
( مضمون نگار جامعہ کراچی کے شعبہ علومِ اسلامی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
(بشکریہ: سہ ماہی ’’التفسیر‘‘ کراچی۔ شمارہ: اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply