
تبدیلی کے نعرے زور و شور سے جاری ہیں، مگر نعرے لگانے والوں کی نظر میں صرف حکومت کی تبدیلی مطلوب ہے۔ کوئی یہ طے نہیں کرتاکہ تبدیلی کا اصل محور اور مرکزی نقطہ کون سا ہے اور تبدیلی کیسے آئے اور کون لائے؟ تبدیلی کے نعرہ بازوں کو ان عوامل کی بھی خبر نہیں ہے جو سیاسی، معاشی اور سماجی خرابیوں کو جنم دیتے ہیں۔ ان عوامل پر غور کرنے والے بہت سر مارتے ہیں تو بس اس نتیجے پر پہنچ کر رک جاتے ہیں کہ ہم تعلیمی میدان میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ یہی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ ان کی نظر میں تعلیمی ترقی ہی تبدیلی کا حقیقی راستہ ہے۔ درست کہ تعلیمی ترقی لازمی ہے لیکن ہمارے مسائل کا بڑا سبب یہ نہیں ہے۔ میں نے جتنا غور کیا مجھے جہالت سے بڑا مسئلہ جاہلیت ہی محسوس ہوا۔ ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو صاف عیاں ہے کہ اس جاہلیت شکار اَن پڑھ لوگوں سے زیادہ جدید ترین تعلیمی اداروں لاہور کے ایچی سن اور گورنمنٹ کالج اور اس سے بھی آگے آکسفورڈ تک کے تعلیم یافتگان جاہلیت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ جاہلی معتقدات، توہمات اور فرسودہ رسوم و رواج، خودساختہ مذہبی تصورات اور اخلاقی پستی کی دلدل میں یہ جدید تعلیم یافتہ لوگ اتنے ہی دھنسے ہوئے ہیں جتنے تعلیم سے محروم غریب اَن پڑھ طبقات۔ قومی زندگی کے سماجی اور سیاسی دائروں پر جاہلیت کے یہی شاہکار اعلیٰ تعلیم یافتہ گروہ قابض ہیں۔
اس جاہلیت کی فضا میں پروان چڑھنے والے جراثیموں نے معاشرے کو طرح طرح کے عوارض میں مبتلا کر رکھا ہے۔ انہی جاہلیت زدہ ہواؤں کے جھونکے اجتماعیت کو چھوتے ہیں تو اسے مسموم کر دیتے ہیں۔ یہیں سے سڑاند اٹھتی ہے اور سارا ماحول متعفن ہو جاتا ہے۔ وہ کرپشن جس کے خلاف آج بہت ہر ایک نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اس کے زہر آلود چشمے جاہلیت کے ان مراکز سے پھوٹتے ہیں۔ کرپشن محض مالی بددیانتی ہی کا نام نہیں ہے۔ قرآن پاک میں یہ جو ’فساد‘ کی اصطلاح آئی ہے، کتابِ پاک کے انگریزی ترجمہ نگاروں نے اس کا ترجمہ Corruption ہی کیا ہے۔ انگریزی کی ڈکشنریوں میں لفظ ’کرپشن‘ کا مطلب کسی چیز کی بنیادی اور حقیقی شکل بدل دینا ہے۔ بے ایمانی، بددیانتی اور غیر قانونی رویہ اور طرزِ عمل بھی کرپشن ہے۔ پاکیزہ چیز کے جوہر کو بدل کر اسے گندا کر دینا کرپشن ہے۔ سقراط کو موت کی سزا دینے کے لیے جس جرم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا، وہ یہ تھا کہ وہ نئی نسل کو یونانی معاشرے کی معتدل اقدار اور مروّج روایات کا باغی بنا رہا ہے۔ کہا گیا تھا کہ وہ فکری کرپشن پھیلا رہا ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ سقراط اپنے دَور کی جاہلیت سے لڑ رہا تھا۔ وہ جمود اور تعفن کی علامت رسوم و رواج، عقائد و نظریات اور توہمات کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا۔ اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے بالادست اور اونچے طبقات عوام کو فاسد اور گمراہ کن سوچ کا اسیر بنالیتے ہیں، یہ بھی کرپشن کی ایک شکل ہے۔ ہم اس نوعیت کی کرپشن میں سب سے زیادہ جاہلیت زدہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں ہی کو دیکھتے ہیں۔
جن کو جمود کی قوتوں نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، تبدیلی کے نعرے ہم انہی کے گلے سے نکلتے دیکھ رہے ہیں۔ تبدیلی قوم کو جاہلیت سے نجات دیے بغیر نہیں آسکتی۔ یہ جس طرح کی تبدیلی کے ہم مطالبے دیکھ رہے ہیں، یہ لگی ہوئی آگ کے ایک چھوٹے شعلے پر پانی کی ننھی سی دھار پھینکنے کا نام ہے۔ اس دھار سے ہولناک الاؤ نہیں بجھ سکتا۔ کرپشن یا فساد اور بگاڑ کی اصلاح کے لیے قوم نے پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج کے اداروں سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ ان اداروں کے اعلیٰ ذمہ دار بھی اسی جدید تعلیم سے آراستہ ہیں، جو جہالت سے تو نجات دیتی ہے مگر جاہلیت کی گرفت مضبوط بناتی ہے، لیکن وہ ذمہ دار اگر جاہلیت سے کچھ محفوظ بھی فرض کر لیے جائیں تو معاملہ یہ ہے کہ ملکی آئین نے ان اداروں کے لیے طاقت کا جو دائرہ مقرر کیا ہے اور اختیار کی جو حدود طے کر رکھی ہیں وہ آگ لگنے کے اسباب سے بحث نہیں کرتیں، آگ بجھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ملکی آئین کی ۶۲ ویں اور ۶۳ ویں شق صرف یہ کہتی ہے کہ جو صادق اور امین نہیں ہے، وہ پارلیمان کی رکنیت یا کسی بڑی حکومتی اور سرکاری ذمہ داری سنبھالنے کا اہل نہیں ہے۔ یہ دونوں شقیں اس اخلاقی فساد سے کوئی سروکار نہیں رکھتیں، کذب اور خیانت جس کی صرف دو شکلیں ہیں۔ اگر سارے کا سارا معاشرہ کاذب اور خائن بن جائے، معاشرے کے تمام لوگ صداقت اور امانت داری تَرک کر دیں تو آئین کی روشنی میں یہ ان اداروں کے سربراہوں کی پریشانی کا مسئلہ نہیں ہے۔ آئین کی روشنی میں عدالتیں یا دفاعی ادارے معاشرے کے سدھار میں کردار ادا کرنے کے مکلف ہیں ہی نہیں۔ کوئی جج یا جرنیل معاشرتی بگاڑ پر ذاتی حیثیت میں ممکن ہے کڑھتا بھی ہو، مگر اس کے منصبی دائرۂ اختیار میں نہیں ہے کہ آگے بڑھ کر معاشرے کی اصلاح کی کوئی مہم شروع کر دے۔ یہاں تک کہ ان اداروں کے سربراہ بہت نیک اور پارسا ہوں اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ان اداروں کے اندر کرپٹ اور سیرت و کردار کے لحاظ سے گھٹیا افراد گھس آئے ہیں تو وہ ازخود کوئی کارروائی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ انہیں بہرحال آئین اور محکمانہ قواعد و ضوابط سے مشورہ کرنا اور رہنمائی لینی پڑتی اور کسی سخت تادیبی اقدام کے لیے قانون کی کھڑکی سے جھانک کر اجازت کی چٹ لینی پڑتی ہے۔ جب تک ان کے اداروں میں قواعد و ضوابط کی کوئی کھلی خلاف ورزی سرزد نہ ہو، فوج یا اعلیٰ عدالتوں کے چیف اپنے کسی ماتحت کے محض پست کردار اور گھٹیا سیرت ہونے کی وجہ سے اسے ادارے میں رہنے سے روک نہیں سکتے۔ اہم ترین اور طاقتور قومی اداروں کو قوم کی اصلاح کی ذمہ داری سونپی ہی نہیں گئی ہے۔ سپریم کورٹ کسی معاملے کا نوٹس صرف اس صورت میں لے سکتی ہے، جب کسی ایک فرد یا کچھ افراد کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہوں یا صوبوں میں کوئی تنازع پیدا ہو یا کسی مسئلے میں آئین کی تشریح کی ضرورت پیش آئے۔ اور فوج اسی وقت مداخلت کی مجاز ہے، جب امن و امان یا قومی سلامتی کا کوئی سنگین مسئلہ درپیش ہو، تو پھر معاشرے کی اصلاح کا کون ذمہ دار ہے؟ کون پہرا دے کہ کوئی دین و ایمان سے نہ پھرے، شرافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے، کوئی بے حیائی اور فحاشی کا مظاہرہ نہ کرے، کوئی بدعنوانی کا مرتکب نہ ہو، کوئی صداقت اور امانت کی قدروں کو پامال نہ کرے، کوئی بدزبان اور بداعمال نہ ہو، شرافت کے معروف معیار سے گرا ہوا نہ ہو، کسی کے لیے اذیت اور آزار کا موجب نہ بنے، دین و وطن اور قوم و ملت سے بے وفائی کی حرکت نہ کرے؟
یہ بات میں اپنے کئی کالموں میں پہلے بھی کرچکا ہوں کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی ہی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو دین کی روشنی میں educate کریں۔ لوگوں کی اعتقادی اور اخلاقی تربیت اور خیر و شر، نیک و بد اور جائز و ناجائز کے معاملے میں لوگوں کی رہنمائی کریں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اپنی ذمہ داری کے اس اہم پہلو کا سرے سے شعور ہی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں نہ صرف یہ کہ سماج کی اخلاقی بنیادوں پر تعمیر اور صالح اقدار کی ترویج کو اپنا کام نہیں سمجھتی ہیں بلکہ ان کے ہر سطح کے لیڈر راستی اور نیکی کا نمونہ کیا بنیں گے، وہ خود بڑی بڑی برائیوں میں ملوث ہیں۔ ان کی گفتگوئیں، تقریریں، میڈیا پر اظہارات سنیں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شائستگی، معقولیت اور شرافت کی ان کو ہوا تک نہیں لگی۔ پچھلے پانچ سالہ اقتدار میں اور موجودہ حکومت کے تین سال میں صرف برسراقتدار جماعتوں ہی نے نہیں بلکہ حزب اختلاف نے بھی ثابت کیا ہے کہ اس حمام میں سب یکساں طور پر ننگے ہیں۔ پانامہ لیکس کے کچرے کی طرف انگلی اٹھانے والے اور جن کی طرف انگلی اٹھ رہی ہے، برابر لتھڑے ہوئے ہیں۔ سب کے وجود سے ایک جیسی بدبو اٹھ رہی ہے۔
تبدیلی کے چرچوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کا حالیہ بحران چھاج اور چھلنی کے درمیان کشمکش ہے۔ معاشرے کا نیچے سے اوپر تک ہر طبقہ کرپشن کی کسی نہ کسی صورت میں مبتلا ہے۔ چھاج میں اگر دو چار سوراخ ہیں تو چھلنی میں ہزاروں سوراخ ہیں۔ مگر دونوں ایک دوسرے کو سوراخوں کے طعنے دے رہے ہیں۔ وہ طاقتور قوتیں جو سیاست دانوں کو ان کی بدعنوانیوں پر آنکھیں دکھاتی اور نظام کی بساط لپیٹ دینے کی درپردہ دھمکیوں سے ان کے اعصاب توڑے رکھتی ہیں وہ جس طریقے سے اقتدار چھینتی رہی ہیں، وہ پرلے درجے کی ایک کرپشن تھی۔ وہ عدلیہ کے ادارے جو ان سیاست دانوں کو کبھی سامنے اور کبھی غائبانہ جھاڑ پلاتے ہیں اور ان کی حماقتوں پر انہیں شرمندہ اور خائف بھی رکھتے ہیں، وہی اقتدار پر آئین و قانون اور اخلاقی اصولوں سے ماورا قوتوں کے قبضۂ اقتدار کو سندِ جواز بخشتے رہے ہیں، ان کا یہ عمل بھی کرپشن کی ایک مکروہ صورت تھی۔ جنہوں نے منظم پارٹیوں میں نقب لگا کر اپنے غیر آئینی چہرے کے لیے سیاسی ماسک تیار کیا تھا یا جو ابھی تک آئینی اور اخلاقی تجاوزات کے مرتکب اپنے ادارے کے سابق سربراہ کو عدالتوں اور آئین و قانون سے بچانے پر بضد ہیں، ان کا یہ عمل بھی کرپشن کی بدترین صورت ہے۔
عمران خان اور بلاول کی شادیوں اور چائے والے کی پرکشش آنکھوں پر گھنٹوں ٹِکر چلانے والا میڈیا اور ایک دوسرے سے دست و گریباں سیاسی پارٹیاں، کرپشن کی ان صورتوں پر کوئی جاندار موقف پیش نہیں کرتیں۔ عدلیہ کی اعلیٰ مسندوں پر براجمان مقدس ہستیاں، دفاعی اداروں کے تقدس مآب سربراہ، انتظامی مشینری کے اعلیٰ کارندے، پارلیمنٹ کے ارکان سب عوام ہی سے اٹھتے ہیں۔ عوام کو صالحیت اور پاکیزگی کی تعلیم دینے اور راست عملی کی راہ پر ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسی لیے کرپشن کے ایک بہت بڑی برائی ہونے کے احساس کے بغیر وہ کسی نہ کسی طرح کی کرپشن سے داغدار رہتے ہیں۔ عوام کے اندر سے جو قیادت اٹھتی ہے، عوام کے دامن کے داغ اس کے دامن کے دھبے بن جاتے ہیں۔ پھر سیاست کا کھیل سارے کا سارا کرپشن ہی پر کھڑا ہے۔ سیاسی مصلحتیں اور مفادات جو سیاسی اتحاد یا محاذ تشکیل دلاتے ہیں بجائے خود کرپشن کی گھناؤنی قسمیں ہیں۔ الیکشن کے موقعوں پر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مقام پر ایک پارٹی دوسری کو گالیاں دے رہی ہوتی ہے اور دوسرے مقام پر اس کے ساتھ اتحاد بنتا اور مفاہمت قائم ہوتی ہے۔ ایک دور میں ایک حکومت کے اتحادی ہوتے ہیں تو دوسرے دور میں پہلی حکومت کی مخالف پارٹی کی حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ منافقت اور موقع پرستی و ابن الوقتی اپنی طرز کی ایک کرپشن ہے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کے تین اتحادی ہیں۔ سب ایک دوسرے کے لیڈروں کے کردار و عمل سے خوب واقف ہیں۔ جانتے ہیں کہ اونچی لے میں کرپشن کے خلاف تانیں اٹھانے والی پارٹی کی پہلی صف کے کون کون سے لیڈر ہیں جنہوں نے بنکوں سے کروڑوں کے قرضے معاف کرائے اور کون ہیں جو پراپرٹی کی دنیا کے ڈان ہیں اور کون ہیں جو مشرف دور میں پہلے کرپشن کے کیسوں کی وجہ سے مفرور تھے اور پھر وہ وزارتِ داخلہ کے منصب پر فائز ہوگئے تھے۔ لیکن سب کچھ جانتے بوجھتے سب میں خوشی خوشی گزارہ ہو رہا ہے۔ یہ ’گزارہ‘ بھی ایک کرپشن ہے۔
بات پھر وہیں پہنچتی ہے کہ آخر اصلاحِ احوال کسے اور کیسے کرنی ہے؟ خرابیاں عوام میں ہیں اور ان کی چھوت سیاست اور حکمرانی کو لگ جاتی ہے۔ بگاڑ سیاست دانوں اور حکمرانوں میں ہے اور اس کے گندے چھینٹے عوام پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جن مخلص اور سنجیدہ دینی قوتوں سے اصلاح کی توقع ہوسکتی تھی وہ بھی سیاست کے گندے تالاب میں اتری ہوئی ہیں۔ وہ عوام کا دینی شعور بیدار کرنے میں ناکام ہیں۔ اجتماعیت کی ایمانی اور اخلاقی حس میں جان نہیں ہے، عوام کی اعتقادی خرابیاں رفع نہیں ہو رہی ہیں، رسوم و رواج کے بندھن ٹوٹ نہیں رہے ہیں اور میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جانے والی عریانی و فحاشی کے تابکاری اثرات سے قلوب و اذہان اور روحیں محفوظ نہیں ہیں۔ تین چار پرتوں میں بٹا ہوا تعلیمی نظام بالواسطہ طریقے سے زہر معاشرے کے وجود میں داخل کر رہا ہے۔ تبدیلی کے میدان کچھ اور ہیں اور وہ دینی قوتیں اپنی توانائیوں کا نناوے فیصد کچھ دوسرے میدانوں میں صَرف کررہی ہیں۔ اس بے حکمتی سے تبدیلی نہیں آسکتی۔ کہیں یہ سمجھ نہیں کہ بگاڑ کہاں ہے اور تبدیلی اور اصلاح کی نہر نکالنے کے لیے یہ فرہاد کن چٹانوں پر تیشہ زنی کر رہے ہیں۔ اس وقت تک تو یہ حیلۂ پرویزی کے شکار ہیں۔
(بحوالہ: ’’منیر خلیل بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام‘‘۔ ۸ نومبر ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply