
مصر میں تمام دبائو کے باوجود مصری انتخاب کے تیسرے مرحلے میں اخوان المسلمین کی ۱۴ نشستوں پر کامیابی خوش آئند ہے۔ اس سے پہلے حکمران نیشنل ڈیمو کریٹ پارٹی جو صدر حسنی مبارک کے زیر قیادت ہے نے اپنی تمام تر کوششیں اس بات پر صرف کی تھیں کہ پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمین کو تنہا کرکے کنارے لگا دیا جائے۔ بہرحال اس دبائو کا الٹا اثر ہوا۔ جس کے نتیجے میں اسلامی جماعت کے امیدواروں کے لیے عوامی حمایت میں اضافہ ہی ہوا۔
پہلے تین مرحلوں کے دوران اخوان المسلمین نے مصری پارلیمان کی ۴۴۴ نشستوں میں سے ۹۰ نشستیں حاصل کیں اوریہ قیاس کیا جارہا ہے کہ انتخابات کے آخری مرحلے میں انہیں ۱۰ مزید نشستیں حاصل ہوں گی۔
اسلامی جماعتوں کے متعلق مصری عوام کا نیا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ مصری قوم اپنے رویے پر نظرثانی کررہی ہے اور سیاسی اسلام کی جانب راغب ہوتے ہوئے بتدریج عرب قومیت کو ترک کررہی ہے۔
اخوان المسلمین جو کہ کبھی واضح طور پر اور کبھی غیر محسوس طریقے سے مصر کی سیاسی اور معاشرتی زندگی پر گزشتہ ۸۰ سال سے اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ اس نے ایک جامع معاشرتی پروگرام معاشرہ کی راہنمائی کے لیے تیار کرلیا ہے۔اخوان المسلمین اپنی تاسیس کے بعد سے بہت سارے نشیب و فراز سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ اس کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں امام حسن البناء شہید نے رکھی تھی۔ سید قطب شہید‘ شیخ عمر تلمسانی اور شیخ محمد متولی الٹراوی اس کے ابتدائی قائدین میں سے ہیں۔
۱۹۵۰ء کی دہائی کے آغاز میں اخوان المسلمین نے فری افیسرز موومنٹ تک رسائی حاصل کی۔ جسے ۲۳ جولائی کے انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے سربراہ جمال عبدالناصر‘ محمد نقیب اور انور سادات تھے۔ ان حضرات کو دراصل جنرل نقیب کی کابینہ میں کلیدی مناصب دیے گئے تھے۔
فری آفیسرز موومنٹ کے ساتھ بعض اختلافات کی بناء پر اخوان المسلمین بعض زیر زمین سرگرمیوں پر مجبور ہوئی۔ بعد میں ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اخوان المسلمین کے بہت سارے اراکین و قائدین کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں ناصر کے قتل کی مبینہ سازش کے الزام میں پھانسی دیدی گئی۔
اس کے فوراً بعد ’’اخوان‘‘ کے حامیوں کو تمام سرکاری اداروں سے نکال دیا گیا اور اخوان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔
مصر کی سیکورٹی سروسز کے تمام تر دبائو کے باوجود مصری قوم کا اخوان المسلمین کی جانب رجحان بڑھا ہے اور ان کے حامیوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
۱۹۸۱ء میں سابق مصری صدر انورسادات کے قتل کے بعد اخوان پر دبائو بہت زیادہ بڑھ گیا اور اخوان المسلمین کے بے شمار حامیوں کو گرفتار کرلیا گیا گزشتہ دہائی میں عالمی سیاسی فضاء میں غیر معمولی تبدیلی کے باعث اخوان المسلمین کو اپنی قومی اور عوامی مقبولیت کو آزمانے کاا یک بار پھر موقع مل گیا۔
اخوان المسلمین کی موجودہ کامیابی یقیناً مصر پر بہت ہی سنجیدہ‘ معاشرتی اور سیاسی اثرات مرتب کرے گی جو ملک میں ایک بڑی تبدیلی کے رونما ہونے کا سبب بن سکتا ہے بالخصوص پارلیمانی امور و معاملات میں اخوان کی فتح یقینی طور سے مصر کی خارجہ پالیسی میں نئی تبدیلی کا سبب بنے گی۔ جس کا اثر صرف مصر پر ہی نہیں پڑے گا بلکہ تمام عالم عرب اس کے زیرِ اثر آئے گا۔
اخوان المسلمین کو مصر کی حکمران پارٹی کی جانب سے سختی سے کنٹرول کیے جانے اور دبائو میں لیے جانے کی کوشش کی جائے گی تاہم اسلامی جماعت کا اس موقف کو مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی ضرورت ہے کو کافی تقویت ملے گی اور اس کی بناء پر مستقبل میں مصر کے سیاسی ڈھانچے میں بھی تبدیلی رونما ہوگی۔
مصر کے پارلیمانی انتخاب میں اخوان المسلمین کی فتح ظاہر کرتی ہے کہ اسلام ہنوز ایک مثبت اور کلیدی کردار ملک میں ادا کرسکتا ہے او ریہ کہ مصری معاشرے کو اب بھی یقین ہے کہ قانون سازی میں اسلامی جماعتوں کی شمولیت سے ملک کے بہت سارے مسائل حل ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔
سیاسی منظر نامے پر اخوان المسلمین کی واپسی یقینی طور سے تمام عرب ممالک کی سیاسی و سماجی زندگی پر اثر انداز ہوگی اور عرب اور اسلامی ممالک کے عوام میں اس رجحان کو پروان چڑھائے گی کہ وہ اپنے مسائل کا حل اسلام میں تلاش کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’تہران ٹائمز‘‘۔ شمارہ۔ ۵ دسمبر ۲۰۰۵)
Leave a Reply