
سعودی عرب میں سلمان بن عبدالعزیز کے فرماں روا بننے کے بعد اندرون ملک سیاسی تبدیلیاں اِس تیزی سے رونما ہوئی ہیں کہ اب دیگر پالیسیوں کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں ملک کو کس مقام پر لے جانا چاہیں گے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سعودی عرب سمیت پورے خطے کو ایسی سنگین صورت حال کا کبھی سامنا نہیں رہا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال اس قدر گنجلک ہے کہ کسی بھی علاقائی قوت کی طرف سے کوئی بھی اہم اقدام پورے خطے کی سیاست پر قابلِ ذکر حد تک اثر انداز ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب خطے کی بڑی طاقتوں میں سے ہے۔ سعودی عرب، ترکی اور مصر کی پوزیشن اب تک اتنی اہم ہے کہ اِن میں سے کسی کو بھی، علاقائی سیاست کے تناظر میں، نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی علاقائی طاقت کی طرف سے کیا جانے والا کوئی اہم اقدام خطے میں نئے سیاسی اور سلامتی کے رجحانات کو جنم دے سکتا ہے۔ سلمان بن عبدالعزیز کے فرماں روا بننے کے ساتھ ساتھ ایک اہم تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ سعودیہ میں طاقت کا ڈھانچا تھوڑا تبدیل ہوگیا ہے یا کردیا گیا ہے۔ ایسے میں مبصرین اور تجزیہ کار صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ سعودی پالیسیوں میں کوئی بھی اہم تبدیلی اور اُس کی طرف سے کوئی بھی نمایاں اقدام معاملات کو انتہائی نازک مرحلے میں داخل کرسکتا ہے۔ ہر اقدام نہایت اہم ہے اور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
سلمان بن عبدالعزیز نے مسندِ شاہی پر رونق افروز ہونے کے ایک ہفتے کے اندر ۳۴ فرامین جاری کیے۔ سعودی عرب میں فرماں روا کی طرف سے فرامین کا اجرا حیرت انگیز نہیں۔ مگر یہ بات یقیناً حیرت انگیز تھی کہ یہ فرامین بہت تیزی سے جاری کیے گئے۔ سعودی عرب میں عام طور پر نیا فرماں روا اہم عہدوں پر اپنے قریب ترین افراد کو فائز کرنے کے معاملے میں مرحلہ وار عمل کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ مگر سلمان بن عبدالعزیز نے بہت تیزی سے اہم عہدوں پر اپنے پسندیدہ افراد کو تعینات کیا۔ ان کے قریب ترین افراد نے سعودی عرب میں طاقت کے ڈھانچے میں اپنی پوزیشن انتہائی مستحکم کرلی۔ امید کی جارہی ہے کہ شاہ سلمان خارجہ پالیسی میں بھی غیر معمولی تبدیلیاں لائیں گے۔ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی دراصل داخلہ پالیسی ہی کی توسیع ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ شاہ سلمان خارجہ پالیسی کے معاملے میں بھی وہی طریقِ کار اختیار کریں گے، جو انہوں نے داخلہ پالیسی کے حوالے سے اختیار کیا۔
یہ بات بہت سے لوگوں نے ابتدائی مرحلے ہی میں محسوس کرلی تھی اور سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے اقدامات سے بھی ثابت کردی کہ وہ سعودی خارجہ پالیسی کو یکسر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ چند عشروں کے دوران سعودی عرب کی خارجہ پالیسی خاصی جارحانہ اور مہم جویانہ رہی ہے۔ سعودی عرب نے کئی اہم معاملات میں ایسا موقف اپنایا ہے کہ اُس کے موقف اور اقدامات کے باعث خطے میں بہت سی اہم (مثبت اور منفی) تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ شاہ سلمان چاہتے ہیں کہ سعودی عرب اب خارجہ پالیسی کے میدان میں مہم جویانہ رویہ ترک کرے، اپنے مسائل حل کرنے پر زیادہ توجہ دے۔ ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران سعودی عرب کی خارجہ پالیسی نے خطے میں اُس کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ بعض پالیسیوں نے سعودی عرب کو پورے خطے پر وہ سیاسی اثرات مرتب نہیں کرنے دیے، جو وہ کرسکتا تھا۔ اب سعودی قیادت چاہتی ہے کہ خارجہ پالیسی میں معقول تبدیلیاں یقینی بناکر خطے کے معاملات کو مزید الجھنے سے بچایا جائے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شاہ سلمان خطے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے شعبے میں خود کو محدود کرنے کے رجحان سے جان چُھڑانا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ شاہ سلمان نے خطے میں اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھنے والے ممالک اور گروپوں سے اپنے تعلقات کی نوعیت تبدیل کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
سعودی عرب اور اخوان المسلمون کے درمیان فاصلے عرب دنیا میں بیداری کی لہر دوڑنے کے ساتھ ہی شروع ہوئے۔ سعودی عرب نے محسوس کیا کہ اب ملک کی حدود میں اور اُس کے باہر اِخوان المسلمون کی طاقت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر پیدا ہونے پر مصر میں لوگوں نے اخوان المسلمون کو ووٹ دے کر ایوان میں بھیجا۔ اخوان المسلمون کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ یہی سبب ہے کہ سعودی عرب نے مصر میں اخوان المسلمون سے چھٹکارا پانے کے لیے مصر کی فوج کو اِخوان کی منتخب حکومت ختم کرنے پر بھرپور تعاون اور حمایت سے نوازا۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی تھا کہ خود سعودی عرب میں اِخوان کی طاقت مسلسل بڑھ رہی تھی۔ سعودی حکمراں خاندان کو اندازہ تھا کہ اگر اِخوان کو روکا نہ گیا تو ملک میں غیر معمولی سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ اس اقدام نے ترکی سے سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی۔ تیونس اور فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس بھی سعودی عرب سے متنفر ہوگئیں اور یمن کی الاصلاح پارٹی نے تو سعودی عرب سے تعلقات مکمل طور پر ختم کرلیے۔ سعودی قیادت کو بھی اندازہ رہا ہوگا کہ اِخوان کے خلاف جانے کی صورت میں ایسا ہوسکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ سعودی قیادت پورے خطے میں اِخوان المسلمون کے آؤٹ لیٹس سے پریشان تھی اور جو حکومت اِس کے خلاف جانا چاہتی تھی، اُس کی بھرپور مدد کرنے کو تیار تھی۔
اپنے پیش رُو شاہ فہد کے مقابلے میں شاہ سلمان زیادہ روایت پسند، مذہبی اور معاشرتی جڑوں سے نزدیک تر ہیں۔ انہوں نے تیونس میں النہضہ پارٹی کے قائد راشد الغنوشی کو سعودی عرب آنے کی اجازت دی ہے۔ شاہ عبداللہ مرحوم نے راشد الغنوشی کی طرف سے سعودی عرب آنے کا مطالبہ دو مرتبہ مسترد کیا تھا۔ خانہ کعبہ کے ایک امام سعود الشریم کو اخوان المسلمون سے تعلق کی بنیاد پر تبلیغ سے روک دیا گیا تھا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعود الشریم کو تبلیغ کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ایک مثبت اشارہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معاملات کو درست کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان کا حالیہ دورۂ سعودی عرب اور اِس دورے میں اُن کے شاندار خیر مقدم کا انداز بتاتا ہے کہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ اِسی دوران مصر کے صدر جنرل عبدالفتاح السیسی نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا۔ دو ملکوں کے صدور کا سعودی عرب ساتھ ساتھ آنا کوئی ایسی بات نہیں جو محض اتفاق سے ہوگئی ہو۔ سعودی عرب یقینا یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنے کے معاملے میں اب کسی بھی ملک کو ناراض کرنے کی راہ پر گامزن نہیں ہوگا۔ یہ مصر کے لیے واضح اشارہ تھا کہ سعودی مفادات کے لیے ترکی سے بہتر تعلقات قائم رکھنا بھی انتہائی اہم ہے اور یہ کہ خطے میں سلامتی و استحکام کے حوالے سے ترکی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اخوان المسلمون کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سعودی عرب نے ترکی کو دور کردیا تھا۔ سعودی حکام کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ ترکی سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کو مصر میں زیادہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ سعودی عرب کے لیے مصر بھی اہم ہے اور وہ مصری قیادت کو نظر انداز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سعودی حکام کو یہ بھی اندازہ ہے کہ مصر کے پاس اس وقت سعودی عرب سے بہتر اور خصوصی تعلقات قائم رکھے بغیر چارہ نہیں۔ جنرل عبدالفتاح السیسی کی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے مصر کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں سے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے۔ یہ بات سعودی قیادت اچھی طرح جانتی ہے، اِس لیے مصری قیادت کی تھوڑی بہت ناراضی بھی مول لے سکتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ مصری قیادت اس وقت سعودی عرب کا دامن چھوڑنے کی پوزیشن میں نہیں۔ مختصر مدت کے لیے تو مصر کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں۔ اُسے سعودی عرب سے اپنے تعلقات بہتر رکھنے پڑیں گے۔ سعودی عرب کے سلامتی سے متعلق مفادات کو ترجیح دیے بغیر مصر کے لیے بھی آگے چلنا بہت مشکل ہوگا۔
یہ بات اب آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب نے انقرہ کے حوالے سے اپنی سوچ بدل لی ہے۔ سعودی قیادت اس بات کو سمجھنے لگی ہے کہ پورے خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ترکی سے تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ شاہ سلمان نے اخوان المسلمون کے بارے میں جو سوچ اختیار کی ہے اور جس طور اُسے مثبت لینا شروع کیا ہے، اُس کے نتیجے میں ترکی بھی اب سعودی عرب کی طرف زیادہ رجائیت کے ساتھ دیکھنے لگا ہے۔ شام کے معاملے میں سعودی عرب اور ترکی شکست خوردہ ہیں۔ عراق میں بھی اُنہیں کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ پہلے اُنہوں نے عراق میں انتہا پسند گروپ ’’داعش‘‘ کو تیزی سے فروغ پاتے دیکھا۔ پھر امریکا نے عراق میں ’’داعش‘‘ کے خلاف جنگ چھیڑی۔ اِس صورت حال نے سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات کو کشیدہ کردیا۔ بعد میں اس کشیدگی کو دور کرنے کا واحد راستہ یہ دکھائی دیا کہ سعودی عرب اِخوان کے بارے میں اپنا رویہ لچکدار بنائے۔ شاہ سلمان نے تخت نشین ہونے کے بعد اِخوان کو قبول کرنے کا عندیہ دیا اور اب اس حوالے سے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ ایسے میں ترکی کا سعودی عرب کے نزدیک آنا فطری ہے۔ دونوں ممالک یہ بات سمجھتے ہیں کہ بہتر تعلقات رکھے بغیر وہ کچھ بھی حاصل نہ کرسکیں گے۔
رجب طیب ایردوان کا سعودی عرب میں جس شاندار انداز سے خیر مقدم کیا گیا ہے، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب دونوں ممالک کی قیادت علاقائی مسائل مل کر حل کرنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ شام کی حزب اختلاف کے لیے دونوں ممالک نے غیر معمولی حمایت و مدد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ شامی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کو سعودی عرب اور ترکی میں تربیت بھی دی جائے گی۔ سعودی عرب اور ترکی کی طرف سے غیر معمولی حمایت جاری رکھے جانے کے اعلان کے بعد ہی شام کے اپوزیشن گروپوں نے امریکا کی وساطت سے پیش کی جانے والی جنگ بندی کی اہم تجویز کو مسترد کردیا۔ یہ تجویز شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی متسورا کی طرف سے آئی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں ترکی اور شام کے تعلقات بہتر ہوجائیں۔ شام کی قیادت اس بات کو سمجھتی ہے کہ ترکی کو ناراض کرکے وہ خطے میں اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکتی۔
یمن بھی ایک ایسا ملک ہے جس کے حوالے سے سعودی عرب اور ترکی مل کر کوئی راہ اپنا سکتے ہیں۔ سعودی قیادت نے اب تک باضابطہ اعلان تو نہیں کیا مگر معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں الاصلاح پارٹی کی مدد کرنا شروع کردی ہے۔ الاصلاح پارٹی کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ یوں سعودی عرب اور ترکی مزید قریب آسکتے ہیں۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مصر میں جنرل السیسی کی حکومت کا دفاع اب سعودی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی ترجیح نہیں۔ مصر کے ساتھ ساتھ سعودی قیادت نے اب دیگر علاقائی ممالک کی طرف بھی دیکھنا شروع کردیا ہے تاکہ خارجہ پالیسی یک طرفہ ہوکر نہ رہ جائے۔ شام اور یمن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ترکی بھی جانتا ہے کہ اگر سعودی قیادت شام اور یمن کے معاملے میں ہم آہنگی کا مظاہرہ کرے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ دونوں ممالک میں بگاڑ پیدا کرنے والوں کو اشارہ ملے گا کہ اُن کے خلاف دو بڑی طاقتیں ایک ہو رہی ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی کو اس بات کا احساس بھی ہونا چاہیے کہ پالیسی کے حوالے سے ان کی چند غلطیوں نے شام اور یمن میں معاملات کو خطرناک حد تک بگاڑ دیا۔ اب اگر یہ دونوں ممالک خارجہ پالیسی کے میدان میں کچھ کرنا اور خطے میں استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ان کی سوچ یہ ہو کہ خطے میں استحکام پیدا کیا جائے۔ رجب طیب ایردوان کے دورۂ سعودی عرب کے حقیقی اثرات اب تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ دونوں ممالک نے بہت سے معاملات پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کے درمیان بڑھتا اشتراک عمل بہت سے معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔ خطے کے تمام ممالک، بالخصوص شام اور مصر بھی دیکھنا چاہیں گے کہ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان بہتر ہوتے ہوئے تعلقات معاملات کو کس سمت لے جاتے ہیں۔ جنرل السیسی معاملات کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان پنپتے ہوئے اتحاد کی راہ نہیں روک سکتے۔ وہ اس اتحاد کا حصہ تو نہیں بننا چاہیں گے مگر خیر، اِس کے خلاف جانے کی ہمت بھی نہیں کر پائیں گے۔
“Saudi Arabia, Turkey, Egypt and changing political groupings in Mideast – Analysis”. (“Iran Review”. March 11, 2015)
Leave a Reply