
وینزویلا کے صدر نے ’’ٹائم‘‘ کے نمائندے Tim Padgett سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے کہ وہ کیوں امریکی صدر بش کے خلاف اس قدر بولتے ہیں:
ٹائم: آپ اس قدر لرزہ خیز الفاظ کے ساتھ صدر بش پر کیوں حملہ آور ہوتے ہیں؟
شاویز: میرا خیال ہے کہ الفاظ میں بہت وزن ہوتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ میں صدر بش پر حملہ نہیں کر رہا ہوں بلکہ میں محض ان کے حملے کا جواب دے رہا ہوں۔ بش دنیا پر حملہ کرتے رہے ہیں اور وہ بھی صرف الفاظ کے ساتھ نہیں بلکہ بموں سے حملہ کرتے رہے ہیں۔ جب میں یہ باتیں کرتا ہوں تو میرا خیال ہے کہ میں بہت سارے لوگوں کی طرف سے کرتا ہوں‘ اس لیے کہ ان لوگوں کا بھی خیال ہے کہ یہ لمحہ ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم امریکی استعمار کی دھمکی کو روکیں جو اقوامِ متحدہ کا استعمال نصف دنیا کے خلاف اپنی جارحیت کو حق بجانب قرار دینے کے لیے کر رہا ہے۔ بش کی اقوامِ متحدہ میں تقریر اس لہجے میں تھی گویا کہ یہ دنیا کا مالک بننا چاہتا ہے۔ میں نے اس تقریر کو پڑھنے کے بعد اپنی اصل تقریر کو تبدیل کر دیا۔
ٹائم: لیکن کیا بش سے متعلق آپ کی غضبناکی مثلاً انہیں ’’شرابی‘‘ کہنا اس خطرے کو دعوت نہیں دیتی ہے کہ آپ کے ممکنہ حلیف ممالک آپ سے دور ہو جائیں۔
شاویز: پہلی بات تو یہ ہے کہ بش نے اس سے بھی بدتر الفاظ کے ساتھ مجھے پکارا مثلاً ظالم‘ عوامی ڈکٹیٹر‘ منشیات کا اسمگلر اور اس طرح کے چند القاب کے ساتھ۔ میں تو صرف ایک حقیقت بیان کر رہا تھا کہ لوگوں کو اس صدر کے بارے میں علم ہونا چاہیے جو کہ بہت بڑی طاقت کا مالک ہے۔
ٹائم: کیا یہ سب کچھ داخلی ضرورت کے تحت ہے کہ جب آپ وینزویلا واپس ہوں گے؟
شاویز: نہیں! امریکی مصنف نوم چومسکی اپنی کتاب Hegemony or Survival: America’s quest for global dominance میں آج کی دنیا میں دو بڑی طاقتوں کی بات کرتا ہے۔ ایک امریکا ہے جو جارحانہ طریقے سی دنیا پر اپنی حکمرانی مسلط کرنا چاہتا ہے اور دوسری عالمی رائے عامہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا‘ وہ صدر بش پر کوئی ذاتی حملہ ہے۔ میں امریکا اور دنیا کی رائے عامہ کو بیدار کرنا چاہتا ہوں۔
ٹائم: کیا بش سے متعلق آپ کے احساسات ترجمانی کرتے ہیں آپ کے امریکا سے متعلق احساسات کی؟
شاویز: نہیں! میں امریکا کا اس حیثیت سے احترام کرتا ہوں کہ یہ ابراہیم لنکن‘ مارٹن لوتھر کنگ اور مارک ٹوائن کی قوم ہے جو بہت سخت استعمار دشمن تھے اور جنہوں نے اسپین امریکا جنگ میں امریکی مہم جوئی کی سخت مخالفت کی تھی۔
ٹائم: آپ اکثر اس رابطے کے متعلق کہتے ہیں جو امریکا کی خارجہ پالیسی اور تیل کے لیے اس کی بھوک کے درمیان پایا جاتا ہے۔
شاویز: بش عراق کے تیل کا خواہاں ہے اور میرا یقین ہے کہ اس کی نظر وینزویلا کے تیل پر بھی ہے۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت کا الزام امریکا کے بے دریغ تیل خرچ کرنے کے انداز پر عائد ہوتا ہے۔ تیل خرچ کرنے کے متعلق اس کی غیرذمہ دارانہ روش خود کشی کی ایک شکل ہے۔
ٹائم: آپ کے اپنے مشاہدے کے نتیجے میں جس کا حال ہی میں آپ نے اظہار کیا ہے کہ بولیور کا فلسفہ (Bolivar Doctrine) حتمی طور سے مونرو کے فلسفے (Monroe Doctrine) کی جگہ لے رہا ہے۔ کیوں؟
شاویز: دو صدیوں سے ہم اس کرۂ نصف پر ان دونوں فلسفوں کے مابین تصادم کا تجربہ کر رہے ہیں یعنی امریکا کا مونرو فلسفہ جو یہ کہتا ہے کہ تمام دوسری جمہوریاؤں پر امریکا کی بالادستی ہونی چاہیے اور Simon Bolivar کا فلسفہ جو توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک عظیم جنوب امریکی جمہوریہ کا تصور پیش کرتا ہے‘ کے مابین تصادم۔ بش نے پورے عالم میں مونرو فلسفے کی ترویج کی ہے‘ امریکا کو دنیا کا پولیس بنانے کے واسطے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر تم ہمارے خلاف ہو۔ ہم یہی کام بولیور فلسفے کے لیے کر رہے ہیں جو اقوام کے مابین مساوات‘ خودمختاری اور طاقت کے توازن پر بہت زیادہ تاکید کرتا ہے۔
ٹائم: آپ کی ۲۱ویں صدی کے سوشلزم اور علاقے کی اقتصادی ناہمواری کو ختم کرنے کی لیے ماضی میں کی گئی کوششوں کے مابین کیافرق ہے؟
شاویز: جب میں ۱۹۹۴ء میں قید سے رہا ہوا اور اپنی سیاسی زندگی شروع کی تو میں نے سادہ لوحی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیپٹلزم اور سوشلزم کے مابین ایک تیسرا راستہ یعنی سرمایہ داری انسانی چہرے کے ساتھ جو کہ ٹونی بلیئر کی تجویز ہی کو نکتہ حوالہ بنایا۔ لیکن زیادہ دیر نہیں لگی کہ لاطینی امریکا میں امریکا کے زیرِ سایہ سرمایہ دارانہ نظام میں کی جانے والی اصلاحات کی ناکامی دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یہ تیسرا راستہ اب ممکن نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام شیطان اور استحصال کا نظام ہے اور یہ ایک ایسی بلا اور ناہمواری مسلط کرتا ہے جو معاشرتی قدروں کو تہ و بالا کر دیتی ہے۔ اگر آپ چیزوں کو واقعتا حضرت عیسیٰ مسیح کی نظروں سے دیکھیں جو میرے خیال میں سب سے بڑے سوشلسٹ تھے تو صرف ایسا سوشلزم حقیقتاً ایک سچا معاشرہ تخلیق کر سکتا ہے۔
ٹائم: آپ کی دوبارہ انتخابی مہم کا ایک نعرہ کہ ’’جو شاویز کے خلاف ہے وہ عوام کے خلاف ہے‘‘ کو آپ بھی تو اسی موقف کے حامل دکھائی دیتے ہیں کہ ’’یا میرے ساتھ ہو یا میرے خلاف ہو‘‘۔
شاویز: یہاں اخلاقیات کا فرق ہے۔ ہم کسی کو دھمکی نہیں دے رہے ہیں۔ یہ نعرہ محض قومی اتحاد پر شعوری بیداری کے اظہار کی دعوت ہے۔ ہم کسی پر بمباری یا جارحیت کے ذریعہ اسے نافذ العمل بنانے نہیں جارہے ہیں۔
ٹائم: تنقید نگاروں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جب امریکی سرزمین پر آپ آزادی کے ساتھ صدر بش پر تنقید کر رہے تھے تو بدنام کرنے کے حوالے سے ایک نئے قانون (Defamation Law) کے تحت لوگوں پر فردِ جرم عائد کیا جارہا تھا۔ اس بنا پر کہ انہوں نے آپ جیسے سرکاری حکام کے خلاف جھوٹے اور غلط بیانات دیے تھے۔
شاویز: ضرورت ہے کہ وہ وینزویلا کا دورہ کریں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ شاویز آزادیٔ رائے کا اظہار کرنے والوں کو ڈرا دھمکا رہا ہے تو وہاں ٹیلی ویژن کا مشاہدہ کریں۔ خدا کی قسم اپوزیشن وہ چیز ہے جو شیطان کو بھی مات کرتی ہے اور اسے اجازت ہے کہ وہ مجھے میڈیا پر طلب کر لے۔
ٹائم: کیا وینزویلا ایران اور امریکا کے مابین ایک ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ آپ میں اور صدر بش میں جو مشترک بات ہے وہ یہ کہ آپ دونوں ایک مہم جو ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور Clint Eastwood کی فلموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
شاویز: میں Danny Glover کی فلمیں زیادہ پسند کرتا ہوں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے‘ ایک ایسے رہنما کے ساتھ جو اپنے آپ کو دنیا کا مالک خیال کرتا ہے‘ جیسا کہ بش کرتا ہے۔ میرے خلاف ۲۰۰۲ء کی بغاوت کی کوشش سے پہلے‘ جسے بش کی حمایت حاصل تھی‘ دنیا کے بہت سارے صدور نے بش اور شاویز کے بیچ مصالحت کار بننے کی کوشش کی۔ میں نے یقینی طور سے کہا کہ آپ میری طرف سے اس کی خدمت میں آداب عرض کریں۔ لیکن انہوں نے اس امریکی صدر کے ساتھ سر کھپانے کو وقت کا زیاں قرار دیا۔ میں کلنٹن کے ساتھ تو گفتگو کر سکا مگر صدر بش کے ساتھ نہیں۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ: ۲ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply