
اصلاح کی بنیاد غلطی پر اصرار نہیں بلکہ اس کا اعتراف ہے۔ یہ ’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘ والی ضرب المثل اسی حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ غلطی کرنے والا اپنی بے ہنری اور نالائقی کا ذمہ دار خارجی عوامل کو ٹھہراتا ہے۔ یوں خود احتسابی کی روایت پروان چڑھ ہی نہیں سکتی۔ احتسابِ نفس نہ ہو تو اصلاحِ نفس اور تہذیبِ نفس تک نوبت ہی نہیں پہنچتی۔ کہیں وقتی مفادات کا جادو چل جاتا ہے تو کہیں شخصیات اصولوں پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ سیاست کی منڈی میں موروثیت اور سرمایہ دارانہ طاقت اور جاگیردارانہ اثر و رسوخ کا چلن عام ہے۔ چنانچہ ہر بوالہوس اور حریص دولت اور سماجی قوت کے لیے سیاست ہی کو وسیلہ بناتا ہے۔ سیاست کے میدان میں پیش قدمی اور ہر حال میں انتخابی کامیابی کی خواہش اور کوشش کی وجہ سے قاعدے قانون مٹی میں مل رہے ہیں۔ دیانت و امانت جیسی اخلاقی خوبیوں کی قدر گھٹ گئی۔ اصول بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں۔ جب ’’گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے‘‘ کی بات ہے تو کارکن غریب کو کوئی انسان کیوں سمجھے؟ یہ سیاسی کھیت کی کھاد ہے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ حاصل کی کوشش ہوتی ہے۔ کم ازکم جماعت اسلامی میں ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا کہ کارکن کی قدر و اہمیت نہ ہو۔ یہ اس کا سب سے بڑا اثاثہ تصور ہوتا تھا۔ لیکن اب خربوزوں کو دیکھ دیکھ کر مذہبی جماعتیں بھی وہی رنگ پکڑنے لگی ہیں۔ ایک صحت مند اور متحرک اور مضبوط سماج کی ساخت سے زیادہ ان کا ہدف بھی اب بلدیاتی اداروں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی نشستیں حاصل کرنا رہ گیا ہے۔ زندگی کی ساری روحانی اور اخلاقی صلاحیتوں سے مالامال معاشرے کی تعمیر سیاست کے مقاصد سے یکسر خارج ہو گئی ہے۔ اسی لیے سیاسی اور مذہبی تنظیموں کو اپنی صفوں میں کارکنوں کے دماغوں سے زیادہ ان کے کاندھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کارکنوں کے کندھے، وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے وہ اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں قائداعظم کے بعد جس لیڈر نے عوام کو سب سے زیادہ اپنی کرشماتی شخصیت کا اسیر بنایا، وہ تھے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور وہی کارکنوں کے جذبات سے سب سے زیادہ کھیلے۔ ان کے کارکنوں کے جذبات بھٹو کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی لہروں کے ساتھ حرکت کرتے تھے۔ آج سے ۴۵ برس قبل تعلیم اتنی عام نہیں تھی جیسی آج ہے۔ بھٹو کے شیدائیوں کی کثیر تعداد نیم خواندہ مزدوروں اور کسانوں اور عام آدمیوں پر مشتمل تھی۔ پیپلز پارٹی کی اس دور کی سیاست نے سماجی ڈھانچے میں بڑی خوفناک دراڑیں ڈال دی تھیں۔ مخالفین کی توہین و تذلیل اور تمسخر اور ایذا بھٹو کے مزاج میں شامل تھا اور کارکنوں کو بھی انہوں نے یہی سبق سکھایا تھا۔ نعروں کی دھوم ہوئی، پر ایشیا سرخ نہ ہوا۔ مغرب کی اعلیٰ جامعات سے بڑی بڑی ڈگریاں لینے کے باوجود جناب بھٹو کی فکر جمہوری سے زیادہ جاگیردارانہ تھی۔ ان کے عہد میں جمہوری قدروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ مذہب سے ان کا رشتہ واجبی سا تھا، لہٰذا یہ ممکن نہ تھا کہ وہ کارکنوں میں کوئی مذہبی سوچ پیدا کرتے۔ انہوں نے کارکنوں کو دنیا میں جس جنت کا خواب دکھایا گیا تھا، وہ نہ بھٹو کی زندگی میں انہیں نصیب ہوئی اور نہ بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کے دو ادوار میں، اور نہ بھٹو کے داماد کی پانچ برس کی حکومت میں ان کے مقدر ہوئی۔ نہ آتما ٹھنڈی ہوئی نہ پرماتما کی خوشی ملی۔ ڈھائی سال پہلے ہونے والے قومی اور حالیہ عرصے میں ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ حسرتوں کی برف نے وابستگی کی چنگاریوں کو افسردہ کر دیا ہے۔ جن میں تعلق کی کوئی رمق باقی ہے، وہ کارکن اس طرح حیران و سرگرداں ہیں جیسے خزاں رسیدہ پیڑوں پر جاڑے کی بارش میں ٹھٹرے ہوئے پرندے۔
جن تین جماعتوں کو جدید تعلیم یافتہ کارکنوں کا سرمایہ میسر آیا تھا، ان میں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پاکستان تحریکِ انصاف خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جماعت اسلامی کے مقاصد کا تقاضا بھی ہے اور اس نے اپنے لیے جو منہاجِ کار تجویز کیے تھے، اُن کی ضرورت بھی یہی تھی کہ یہ جذبات سے زیادہ فکر اور شعور کو اپیل کرے۔ انسان سازی پر توجہ دے۔ جو لوگ بھی اس کے مقاصد سے اتفاق کریں، اُن کی عقلی اور فکری صلاحیتوں کو جِلا بخشے۔ ان کی تعمیرِ اخلاق کرے۔ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اُن کی سطح بلند کرے۔ ان کے دینی فہم کو پختہ کرے۔ اس سارے عظیم منصوبے کے لیے اس کی جستجو رہی ہے کہ تعلیم یافتہ افراد ہی اس کے اولین مخاطب بنیں جو اُس کے نظریے اور نصب العین کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکیں۔ ان کی فکری تشکیل، ذہن سازی اور اخلاقی تربیت اس کی ضرورت ہے۔ اس بھٹی سے اس کے کارکن تیار ہوتے رہے۔ یہ کام مدتوں تک بطریقِ احسن انجام پاتا رہا۔ سخت آزمائش اور مشکل حالات میں بھی جماعت اسلامی کے کارکنوں کو کمال درجے کی نظریاتی یکسوئی حاصل رہی۔ دینی جدوجہد کے دوران میں جماعتی کارکنوں پر سخت آزمائشیں بھی آتی رہیں، لیکن ان کی نظریاتی اور فکری یکسوئی کبھی متاثر نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اب معاملہ جب دعوت الیٰ اللہ، اصلاحِ معاشرہ اور اسلامی انقلاب کا نہیں بلکہ حالیہ انتخابات میں خالص سیاسی ذہن کے ساتھ ووٹ کا آیا تو پہلی بار انتشارِ فکر مشاہدے میں آیا ہے کہ جماعت کی قیادت نے ایک ہی شہر کے ایک حلقے کے کارکنوں سے کہا کہ ترازو پر مہر لگائیں، دوسرے حلقے میں انہیں بلّے پر ٹھپّہ لگانے کی ہدایت ہوئی اور کہیں اسی شہر میں شیر کا انتخاب کرنے کی تاکید ہوئی۔ اندرونِ سندھ بعض مقامات پر پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی مصالحت ہوئی اور تیر پر نشان لگانے کا حکم ہوا۔ اطاعتِ نظم کے جذبوں کا یہ عجیب استحصال تھا جو سارے ملک میں ہوا۔
کراچی میں ایم کیو ایم ایک پڑھے لکھے ماحول میں بنی۔ اس کے کارکنوں میں تعلیم یافتہ افراد کی معتدبہ تعداد موجود تھی، لیکن اس کے کارکنوں کو پہلی غذا نفرت اور لسانی تعصب کی دی گئی۔ انہیں دہشت اور تخریب کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ ہمارا سیکولر لبرل دانشور طبقہ ہی نہیں، بلکہ نیم لبرل اسلام پسندوں کا ایک نوزائیدہ گروہ بھی پاکستان میں دہشت گردی کا کُھرا ڈھونڈتا ہے تو سیدھا طالبان اور دینی مدارس تک پہنچ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے ظہور سے بہت پہلے دہشت گردی کراچی کا مقدر بن چکی تھی۔ دہشت گردی کی یہ زہریلی فصل سیکولر، لبرل اور ترقی پسند اور جدید تعلیمی اداروں سے نکلی ہوئی ایم کیو ایم کے کھیت میں اُگی۔ جرائم کی بڑی بڑی ہولناک صورتیں وہاں ایجاد ہوئیں۔ بوری بند لاشوں کی طرح اسی گروہ نے ڈالی۔ مخالفین کے جسموں کو ڈرل مشینوں سے چھیدنے کے وحشیانہ طریقے اسی تنظیم نے ایجاد کیے۔ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا کلچر اسی نے وضع کیا۔ اغوا برائے تاوان کو اسی نے کاروبار بنایا۔ ’’جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے‘‘ کا فلسفہ اسی کے شیطانی ذہن میں پیدا ہوا۔ اپنے کارکنوں کو شرفِ انسانیت سے گرا کر ’’کے ٹو، موٹا، پہاڑی، لنگڑا، کانا، کنکٹا، دھوبی‘‘ اور اسی طرح کی مضحکہ خیز پہچان اسی نے دی۔ ایم کیو ایم کے تعلیم یافتہ کارکنوں میں سے جو ذرا اُبھر کر ایم پی اے، ایم این اے بن گئے، اُن کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لیے الطاف حسین نے لندن سے نشر ہونے والی تقریروں میں بھرے جلسوں کے اندر تھپڑ اور جوتے لگوائے۔ یہ ہے قیمت کارکنوں کی، اس جماعت میں جو مڈل کلاس سے اٹھی اور کراچی پر ایک Ghost بن کر قابض ہو ئی پڑی ہے۔
قیامِ پاکستان سے لے کر ماضی قریب تک متوسط بالائی اور اعلیٰ طبقے کے نوجوان تعلیم یافتہ لڑکوں لڑکیوں نے سیاست سے کم ہی کبھی دلچسپی لی تھی۔ عیش و نشاط کی فضائوں میں بے فکری ہی ان کی زندگی تھی۔ یہودی بڑوں کے پروٹوکولز ہیں، یہ جو Gentiles (غیر یہودی لوگ خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں) کی نسلوں کو jazz موسیقی، بھڑکیلے اور شوخ لباسوں اور کچھ کھیلوں میں دیوانگی کی حد تک مبتلا کر دینے کو اپنا خاص مقصد ٹھہرایا تھا، ہمارے ہاں ان طبقات کی یہ نئی نسل اس کا نمونہ اور نمائندہ تھی۔ اس وقت سارا یورپ اور مشرقِ وسطیٰ فٹ بال کا دیوانہ ہے اور برطانوی نوآبادیاتی نظام کے تابع رہنے والے تقریباً تمام ملک کرکٹ کے دیوانے ہیں۔ عمران خان کا اپنا تعلق بھی پوش کلاس سے ہے، اس لیے کرکٹ ان کی پہچان ہے۔ وہ کرکٹ ہی کے راستے قومی ہیرو بنے۔ کرکٹ اب شوبز کی دنیا اور اونچے طبقے کی لڑکیوں کا بھی جنون بن چکا ہے۔ اس لبرل ماڈرن کلاس کے نوجوان لڑکیاں لڑکے کرکٹ سے دیوانگی کی حد تک لگائو کی وجہ سے عمران خان کے پرستار ہیں۔ عمران خان کو سیاست میں داخل ہوئے بیس سال ہو رہے ہیں، لیکن ۲۰۱۱ء میں کچھ نادیدہ قوتوں نے انہیں آگے بڑھانے کا منصوبہ بنایا تو یہی بالائی طبقے کے نوجوان سونامی کی لہروں پر ہلکورے لینے اور جھومنے لگے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں کی رونق اور ان کے تمام پروگراموں کی رنگینی و دلکشی کا سامان تھے۔ سونامی کے غیر متوقع تلاطم نے خود عمران خان کو بھی چکرا دیا تھا۔ اقتدار چونکہ ان کا مطمحِ نظر تھا، اس لیے ان کی ساری توجہ Electables پر مبذول رہی۔ تعلیم یافتہ کارکنوں کا جو قیمتی سرمایہ ہاتھ آیا تھا، اس کی تنظیم و تربیت ان کے سیاسی منصوبے میں کبھی شامل ہی نہیں رہی۔ عمران خان کسی بلند اصول کو لے کر سیاست میں نہیں اترے تھے۔ کارکنوں کی یہ قیمتی کھیپ تو ان کو مل گئی لیکن وہ خود ان کے لیے سیرت و کردار کے اعتبار سے کوئی رول ماڈل ثابت نہ ہو سکے۔ ان کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ انہیں کارکنوں میں سنجیدگی، شائستگی اور وقار کی آبیاری کرنی ہے۔ ان کی تہذیبِ نفس اور تربیتِ کردار ان کی جماعت کی ذمہ داری ہے۔ ان کے اپنے اندر تکبر، خودپرستی، بدمزاجی، بدزبانی، جھوٹ کی جو خامیاں ہیں، وہ کارکنوں کی نفسیات میں بھی داخل ہو گئیں۔ وہ مخالفین کے لیے حسد، نفرت و حقارت کا دہکتا ہوا تنور ہے۔ وہ احتجاج اور ہیجان کو اپنی سیاست کی جان باور کرتے ہیں۔ یہی ان کے کارکنوں کا شعار بن گیا ہے۔ انٹرنیٹ کا استعمال سب سے زیادہ انہی کے کارکن کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو انہوں نے میدانِ جنگ بنا لیا اور اس کے ذریعے ایسی ایسی گندگی بکھیری کہ نہ ان کی تعلیم کا کچھ بھرم رہا اور نہ ان میں انسانیت کا کوئی جوہر بچا۔ ہمارے ملک میں سیاست کے اندر نظریات کا چلن چونکہ کم ہی رہا ہے۔ اصولوں پر شخصیات غالب رہیں۔ بھٹو مرحوم کے مزاج میں فسطائیت کا عنصر بھاری رہا ہے۔ انہوں نے سیاسی اختلاف کو مخالفت اور مخاصمت و عداوت میں بدلا تھا۔ الطاف حسین نے اس مذموم روش کو اپنا کلچر بنایا۔ سیاسی زندگی میں جو تھوڑی بہت رواداری اور شرافت و معقولیت باقی تھی، اس پر عمران خان کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے جھاڑو پھیر دی۔ اس وقت سب بڑی جماعتوں کے کارکنوں کو جانوروں کے اوصاف سے متصف کیا جاتا ہے۔ وہ جیالے ہیں یا متوالے اور یا پھر جنونی اور دیوانے۔ کوئی انہیں ٹائیگر کہتا ہے تو کسی کے ہاں وہ شیر ہیں۔ انہیں تربیت دے کر انسانی اوصاف سے آراستہ کرنے کی نہ مسلم لیگ (ن) کو ضرورت ہے اور نہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو۔ اس بہترین قومی سرمائے کو سب نے مٹی میں ملا رکھا ہے۔ یہ سیاست کی منڈی کے جانور ہیں جنہیں لیڈر اپنی خواہشات کی قربان گاہ پر جب چاہتے ہیں، ذبح کرتے ہیں۔
(بحوالہ “munir-khalili.blogspot.ae”۔ ۹ دسمبر ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply