چیچنیا جنگِ آزادی کی خونچکاں داستان

گزشتہ ۹ مئی کو چیچنیا کے صدر احمد قادروف کی بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاکت نے ایک بار پھر چیچنیا کی جنگِ آزادی کو عالمی میڈیا کا موضوع بنا دیا ہے۔ قادروف کے قتل کے چند روز بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے چیچنیا کا اچانک دورہ کر کے وہاں مزید روسی فوجی بھیجنے کی اپیل کی‘ جس کا مطلب صاف ہے کہ اس اسلامی جمہوریہ میں مسلمانوں کا مزید خون بہایا جائے گا۔ چیچنیا میں روسی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی مسلح جدوجہد کا دوسرا دور پانچویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ اس لڑائی میں چیچن مسلم آبادی کے انسانی حقوق کی جس بڑے پیمانے پر پامالی کی گئی ہے‘ اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ امریکی درندے تو عراق کے قیدخانوں اور جیلوں میں بے گناہ شہریوں پر بدترین مظالم ڈھا رہے ہیں‘ لیکن روس کے فوجیوں نے تو سارے چیچنیا کو ابو غریب بنا دیا ہے۔ ان مظالم کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے اس کی طرف سے آنکھیں موند لی ہیں اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے‘ حالانکہ چیچنیا اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو ان کے بنیادی اور انسانی حقوق بحال کرنا عالمی برادری کا فرض ہے۔ عالمی برادری کو روسی حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ چیچن باشندوں کو اغوا کر کے انہیں لاپتا کرنے‘ انہیں غیرقانونی طور پر حراست میں لے کر جسمانی اذیتیں دینے اور ان کے خلاف بدترین تشدد کرنے نیز بڑے پیمانے پر خواتین کی عصمت دری کرنے کے واقعات پر قابو پائیں۔ لیکن افسوس کہ عالمی برادری اپنے فرائض کو پورا نہیں کر رہی ہے اور چیچنیا میں انسانیت کا قتل پہلے کی طرح جاری ہے۔

چیچن تنازعہ کیا ہے اور وہاں کے عوام روسی تسلط کو کیوں پسند نہیں کرتے؟ ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں چیچن کی تاریخ کا ایک سرسری جائزہ لینا پڑے گا۔ چیچن سماجی روایتی طور پر مقامی قبائل پر مشتمل ہے اور ہر قبیلہ اپنے اپنے معاملات میں خودمختار ہے۔ آج جبکہ چیچنیا کا سماجی ڈھانچہ کافی حد تک بدل چکا ہے‘ پھر بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ اب بھی اپنے اپنے قبیلوں کا وفادار ہے اور روس کے خلاف مکمل اتحاد میں ایک رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ چیچنیا میں روس کی دخل اندازی کا سلسلہ ۱۸۳۰ء سے شروع ہوا جب خلافتِ عثمانیہ کے مقابلے میں اپنی سرحدوں کو مضبوط کرنے کے لیے روسی کی شاہی فوج وہاں داخل ہوئی۔ چیچن باشندوں نے امام شامل کی قیادت میں زبردست مزاحمت کی لیکن بالآخر ۱۸۵۹ء میں روس نے چیچنیا کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ۱۹۳۶ء میں چیچنیا سویت یونین کے ماتحت ایک خودمختار ری پبلک بن گیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں سویت یونین نے چیچنیا پر نازی جرمنی کی حمایت کا الزام لگایا اور اسٹالن نے تمام چیچن آبادی کو قازقستان اور کرغیزستان کی طرف جبری طور پر دھکیل دیا۔ دربدری کی صعوبتوں سے تقریباً ایک چوتھائی آبادی ہلاک ہو گئی۔ ۱۹۵۳ء میں اسٹالن کی موت واقع ہو گئی اور اس کے ۴ سال بعد ۱۹۵۷ء میں چیچن آبادی کو دوبارہ وطن واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد چیچنیا کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہونے لگی۔ اس سلسلے میں اہم باتیں حسبِ ذیل ہیں:

٭ سویت یونین کے دور میں چیچنیا کا نام Checheno-Ingushkaja ASSR تھا۔ ۱۹۹۰ء میں اسے تبدیل کر کے چیچن انگوش ری پبلک رکھا گیا۔

٭ یکم ستمبر ۱۹۹۱ء: بعض چیچن سیاستدانوں نے نیشنل کانگریس آف چیچن پیوپل‘ کی تشکیل کی اور اعلان کیا کہ چیچن انگوش ری پبلک‘ چیچن ری پبلک کے نام سے ایک آزاد ریاست ہو گی۔ پارٹی نے یہ بھی اعلان کیا کہ ریاست پر حکمرانی کا اختیار جو خردودایف کی قیادت میں ایگزیکٹو کمیٹی کو ہو گا۔

٭ ۲ ستمبر ۱۹۹۱ء کو دودایف کے محافظوں نے سپریم سویت کی عمارت پر قبضہ کر لیا۔

٭ ۱۵ ستمبر ۱۹۹۱ء چیچن انگوش ری پبلک کی سپریم سویت کا آخری اجلاس ہوا جس میں اس کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

٭ ۲۷ ستمبر ۱۹۹۱ء کو چیچنیا میں الیکشن۔

٭ یکم نومبر ۱۹۹۱ء میں دودایف نے آزاد چیچنیا ریاست کا اعلان کر دیا۔

٭ ۲ نومبر ۱۹۹۱ء کو روسی پارلیمنٹ نے چیچن ریاست اور اس کے لیڈر دودایف کو غیرقانونی قرار دے دیا۔

٭ مئی ۱۹۹۳ء چیچن پارلیمنٹ اور اسلامی ہائی کونسل نے چیچن عوام سے اپیل کی کہ پرانے دستور کا احترام کریں اور سابقہ حکومت کو بحال کریں۔ چیچن کی آئینی عدالت نے دودایف کے اقدام کو غیرقانونی قرار دیا۔

اس کے بعد چیچنیا میں خانہ جنگی شرو ہو گئی۔ ۱۹۹۴ء میں روس کی حمایت کے باوجود دودایف کے خلاف بغاوت ناکام ہو گئی۔ روسی وفاقی حکومت نے چیچنیا کی آزادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس دوران چیچنیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کئی بار کوششیں کیں لیکن کامیابی نہیں ملی۔

چیچنیا کی پہلی جنگ (۱۹۹۴ء۔۱۹۹۶ء)

چیچنیا کی آزادی کو کچلنے کے لیے روس نے پوری طاقت جھونک دی اور وفاقی فوج نے نومبر ۱۹۹۹ء کو چیچنیا کے دارالخلافہ گروزنی کو روند ڈالا لیکن اس ابتدائی کامیابی کے دوران فوج نے کئی اہم غلطیاں کیں۔ چیچن جانبازوں نے اسلان مسخادوف کی قیادت میں گوریلا جنگ شروع کر دی اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ اپریل ۱۹۹۵ء میں روسی صدر بورس یلسن نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ اسی سال جون میں چیچن حریت پسندوں نے ایک اسپتال پر دھاوا بول دیا اور ۱۰۰۰ افراد کو یرغمال بنا لیا۔ اس واقعہ کو الیکٹرونک میڈیا نے کافی اچھالا اور اس کا نتیجہ روسی فوج کو واپس آنے اور ۲۱ مارچ ۱۹۹۶ء سے بات چیت کے آغاز کی صورت میں نکلا۔ لیکن ۲۱ اپریل کو روسی فوج کو اس وقت زبردست کامیابی ملی جب چیچن لیڈر دودایف روسی راکٹ حملے میں ہلاک ہو گئے۔ چیچنیا کی پہلی لڑائی میں ایک لاکھ چیچن باشندے ہلاک ہوئے جبکہ ۴ ہزار روسی فوجی بھی مارے گئے۔ اس جنگ میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات بڑے پیمانے پر ہوئے اور عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ نے اسے کافی اچھالا مگر روسی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور امریکا اور دیگر مغربی ممالک روس کی مذمت کر کے خاموش ہو گئے۔

چیچنیا کی دوسری جنگ (۱۹۹۹ء۔۲۰۰۲ء)

۹ ستمبر ۱۹۹۹ء میں ماسکو کی ایک عمارت میں کئی دیگر مقامات پر بم دھماکوں کے لیے چیچن جانبازوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ان دھماکوں کے پس پردہ چیچن جانبازوں کا ہاتھ ہے لیکن روس کے نئے وزیراعظم والا دیمیر پیوٹن نے ان دھماکوں کو بنیاد بنا کر چیچنیا میں فوج کو واپس بھیجنے کا حکم دیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ چیچنیا کا زیادہ تر حصہ فیڈرل حکومت کی فوج اور پولیس کے قبضے میں ہے لیکن پیوٹن نے ۲۰۰۲ء کے ابتدائی دنوں میں چیچن جنگ کے خاتمہ کا اعلان کر دیا۔ ۲۰۰۳ء میں چیچنیا میں دستور سے متعلق ریفرنڈم کیا گیا اور ایک حکومت تشکیل کرنے کے لیے صدر کا انتخاب کیا گیا۔ لیکن چیچن جانبازوں نے ابھی تک اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے۔ ان کے قبضے میں اب بھی جنوب کے پہاڑی علاقے ہیں‘ جہاں سے وہ روسی فوجوں پر حملے کرتے ہیں۔ چیچن جانباز حکومت میں شامل چیچن عہدیداروں کو کبھی معاف نہیں کرتے اور موقع ملتے ہی انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ احمد قادروف کا قتل اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔

احمد قادروف کی زندگی اور سیاسی سرگرمیوں کا مختصر جائزہ

چیچنیا کے مقتول صدر احمد قادروف روسی حکومت کے آلۂ کار تھے۔ ماسکو کا خیال تھا کہ قادروف چیچنیا میں اسلام پسندوں کو قائل کرنے اور ان کی تحریک کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن ۵۲ سالہ صدر کا ریکارڈ بہت خراب رہا۔ انہوں نے چیچن حریت پسندوں کو دوست بنانے کے بجائے انہیں اپنا دشمن بنانا پسند کیا۔

٭ پیدائش: ۱۹۵۱ء میں قزاقستان میں ہوئی تھی‘ جہاں اسٹالن کے حکم پر دوسری جنگِ عظیم کے دوران چیچن باشندوں کو ان کے وطن سے نکال کر پناہ لینے پر مجبور کیا گیا تھا۔

٭ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں انہوں نے سویت ازبکستان میں اسلامی تعلیم حاصل کی اور ۱۹۸۹ء میں شمالی قفقاز میں قائم کیے گئے پہلے اسلامی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا۔

٭ ۱۹۹۳: جب دودایف کی قیادت میں چیچنیا‘ روس کے تسلط سے آزاد تھا‘ قادروف کو وہاں کا نائب مفتی بنایا گیا۔

٭ ۱۹۹۵: چیچنیا کی پہلی جنگ (۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۶ء) کے شروع ہونے کے ایک سال بعد انہیں مفتی بنا دیا گیا۔

٭ ۱۹۹۵: روسی فوجی کارروائی کے پیشِ نظر قادروف نے ماسکو کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیا۔

٭ ۱۹۹۶: چیچنیا پر کنٹرول حاصل کیے بغیر روسی فوج زبردست جانی نقصان اٹھانے کے بعد واپس ہو گئی۔

٭ ۱۹۹۹: حالات میں اچانک تبدیلی واقع ہو گئی اور قادروف نے چیچن لیڈر شامل بسایوف کی طرف سے پڑوسی ریاست داغستان میں بزور طاقت اسلامی حریت پسندوں سے کہا کہ وہ روسی فوجوں کے خلاف مسلح جدوجہد نہ کریں۔

٭ حریت پسندوں کے لیڈر اسلان مسخادوف نے انہیں ’’دشمن نمبر ایک‘‘ قرار دیا۔ یہیں سے روسی حکومت نے قادروف کو چیچن اسلام پسندوں کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ روس کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو ماسکو نواز حکومت کی قیادت کر سکے۔

٭ ۲۰۰۰ء میں کریملن نے قادروف کو چیچنیا شہری انتظامیہ کا صدر نامزد کیا۔

٭ ۲۰۰۳ء چیچنیا کے صدر کے لیے اکتوبر کے الیکشن میں قادروف بھاری فرق کے ساتھ جیت گئے لیکن متعدد سیاستدانوں اور صحافیوں نے اس الیکشن پر بہت تنقید کی کیونکہ اوپینین پول میں قادروف سے آگے جانے والے دو امیدواروں کے نام بیلٹ پیپر سے غالب کر دیے گئے اور الیکشن کے آبزرور نے کہا بھاری پولنگ کے سرکاری دعوے کے برخلاف زیادہ تر پولنگ بوتھ بالکل ویران تھے۔

٭ ۱۹۹۳ء کے بعد قادروف کی مقبولیت تیزی سے گھٹنے لگی۔ انہوں نے اپنے بیٹے رمضان کی قیادت میں ایک سکیورٹی سروس قائم کی جس نے بڑی تعداد میں چیچن باشندوں کو اغوا کر کے قتل کیا۔

٭ ماضی میں کئی بار قاتلانہ حملے سے بچنے کے بعد آخرکار قادروف ۹ مئی ۲۰۰۴ء کو بم دھماکے میں ہلاک کر دیے گئے۔

چیچنیا میں ہونے والے خوفناک دھماکوں اور ہلاکتوں پر ایک نظر

٭ فروری ۲۰۰۴: چیچن خودکش بمبار نے ماسکو کی ٹیوب ریلوے میں دھماکہ کر کے کم از کم ۴۰ افراد کو ہلاک کر دیا اور کئی دیگر افراد کو زخمی کر دیا۔

٭ ۹ دسمبر ۲۰۰۳: ایک خاتون خودکش بمبار نے ماسکو نیشنل ہوٹل کے باہر دھماکہ کر کے اپنے ساتھ ۵ افراد کو ہلاک اور ۱۴ کو زخمی کر دیا۔

٭ ۵ دسمبر ۲۰۰۳ء روسی شہر یسنتوکی میں ایک خودکش بمبار نے ایک ٹرین میں دھماکہ کر کی ۴۲ افراد کو ہلاک اور ۱۵۰ افراد کو زخمی کر دیا۔

٭ یکم اگست ۲۰۰۳: روسی شہر مزدوک کے ایک فوجی اسپتال میں ایک خود کش بمبار نے بارود سے بھرے ہوئے ٹرک کے ذریعہ دھماہ کر کے ۵۰ افراد کو ہلاک کر دیا۔ اسلان مسخادوف نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

٭ جولائی ۲۰۰۳: خودکش بمبار نے راک موسیقی کے ایک پروگرام میں دھماکہ کر کے ۱۲ افراد کو ہلاک کر دیا۔

٭ جون ۲۰۰۳: خود کش بمبار نے مزدوک میں فوجیوں سے بھری ایک بس میں دھماکہ کر کے ۲۰ روسی فوجی کو ہلاک کر دیا۔ یہ بس فوجیوں کو لے کر ان کے ہیڈ کوارٹر جارہی تھی۔

٭ ۱۲ مئی ۲۰۰۳: دو خاتون خودکش بمبار نے السان یورت میں ایک مذہبی تقریب کے دوران چیچن کے ناظم اعلیٰ احمد قادروف پر قاتلانہ حملہ کیا۔ قادروف اس حملے میں بال بال بچ گئے لیکن ۱۴ افراد ہلاک اور ۴۳ دیگر زخمی ہو گئے۔ چیچن لیڈر شامل بسایف نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

٭ ۱۲ مئی ۲۰۰۳ء چیچنیا کے ایک ٹائون میں ایک ٹرک بم دھماکے میں ۵۴ افراد ہلاک ہوئے۔ روسی حکام نے اس کا الزام ایک سعودی باشندے کی تنظیم پر عائد کیا جبکہ صدر پیوٹن نے اس کے لیے القاعدہ کو ذمہ دار قرار دیا۔

٭ ۲۷ دسمبر ۲۰۰۲: گروزنی میں روس نواز چیچن حکومت کے دفاتر پر بارود بھرے ہوئے دو ٹرک کے ذریعہ خودکش بمبار نے حملہ کیا‘ جس میں ۸۰ افراد ہلاک اور ۱۲۰ دیگر زخمی ہو گئے۔ شامل بسایف نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

٭ ۲۳ سے ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۲: چیچن حریت پسندوں نے ماسکو کے کلچر تھیٹر پر حملہ کر کے ۸۰۰ تماش بینوں کو یرغمال بنا لیا جن میں ۱۳ ملکوں کے شہری شامل تھے۔ ۲۶ اکتوبر کو روس کے خصوصی دستے نے زہریلی گیس کا استعمال کرتے ہوئے تھیٹر پر دھاوا بول دیا اور تقریباً ۵۰ چیچن جانبازوں کو ہلاک کر دیا جن میں ۱۹ خاتون بھی شامل تھیں لیکن اس کارروائی میں ایک امریکی سمیت کم از کم ۹۴ افراد بھی مارے گئے اور ۲۵۰ سے ۳۰۰ افراد زخمی ہوئے۔ ان میں کئی افراد نے اسپتال میں دم توڑ دیا۔

٭ ۹ مئی ۲۰۰۲: داغستان میں مئی ڈے کی پیریڈ کے دوران ریمورٹ کنٹرول کے ذریعہ کیے گئے بم دھماکے میں ۴۲ افراد ہلاک اور ۱۵۰ زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ۱۴ اور زخمی ہونے والوں میں ۵۰ فوجی تھے۔

٭ ۱۵ مارچ ۲۰۰۱: تین چیچن حریت پسندوں نے استنبول سے ماسکو جانے والے ایک طیارے کو اغوا کر لیا اور اسے مدینہ اترنے پر مجبور کیا۔ ہائی جیکروں سے سعودی افسروں نے ۲۲ گھنٹے تک بات چیت کی اور اس دوران ۴۰ مسافروں کو رہا کرانے میں کامیاب ہوئی۔ بعد ازیں سعودی دستے نے طیارہ پر دھاوا بول دیا اور مسافروں کو رہائی دلائی۔ اس کارروائی میں ایک ہائر جیکر‘ ایک مسافر اور عملے کا ایک کارکن مارا گیا۔ طیارے میں ۱۶۲ مسافر اور عملہ کے ۱۲ اراکین سوار تھے۔

چیچن خواتین نے ہتھیار کیوں اٹھائے؟

اکثر لوگوں نے کوہ قاف کی پریوں کی کہانیاں ضرور پڑھی یا سنی ہوں گی۔ چیچنیا کی سرزمین اسی کوہ قاف کی وادی ہے جسے قفقاز بھی کہتے ہیں اور جن پریوں کا ذکر کہانیوں میں ملتا ہے وہ اسی زمین پر رہنے والی دوشیزائیں ہیں۔ لیکن آج ان کے چہرے آنسوئوں سے بھیگے رہتے ہیں۔ روس کے ظالموں نے ان کا سکھ چین سب کچھ چھین لیا ہے اور انہیں اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ یہ اپنے جسموں میں بارود لپیٹ کر دشمنوں کے درمیان اپنے آپ کو بھک سے اُڑا دیتی ہیں اور اپنے ساتھ درجنوں روسیوں کو بھی موت کا شکار کر دیتی ہیں۔ اپنی آزادی کی حصولیابی کے لیے چیچن مجاہدین جو جدوجہد کر رہے ہیں ان میں خواتین اب بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور خودکش بمبار بن کر اپنی جان پر کھیلنے میں بھی عار نہیں کرتی ہیں۔ انکی اس جدوجہد کا اندازہ اس وقت ہوا جب اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ماسکو کے تھیٹر میں انہوں نے ۸۰۰ افراد کو یرغمال بنا لیا۔ اغوا کے اس خطرناک کام میں ۱۹ خواتین شامل تھیں۔ دراصل چیچنیا کی جنگ میں جب روسی فوجیوں نے مردوں کے ساتھ عورتوں پر بھی مظالم شروع کیے تو ان کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ چیچن سماج میں ایک خاتون کی اگر عزت لوٹی جاتی ہے تو اسے معاشرہ میں پناہ نہیں ملتی۔ اگر وہ کنواری رہتی ہے تو اس کی شادی نہیں ہوتی اور اگر شادی شدہ ہوتی ہے تو اسے شوہر کی طرف سے طلاق ملتی ہے۔ چیچن خواتین کا بڑی تعداد میں جان پر کھیل کر خودکش حملوں کے لیے خود کو تیار کرنے کا سب سے اہم سبب یہی ہے کہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق چیچن خواتین کی بڑی تعداد مجاہدہ ہو چکی ہے اور گھر بار کو چھوڑ کر انہوں نے اپنی زندگی جہاد کے لیے وقف کر دی ہے۔ کہ اب یہاں کی عورتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہوں نے میدانِ جنگ میں کودنے کو ہی ترجیح دی ہے۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*