
اس میں کوئی شک نہیں کہ رمضان قادروف اپنی اتھارٹی قائم کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہا۔ اس نے اندرونی سلامتی کی صورت حال بہتر بنانے کے حوالے سے اہم اقدامات کیے جو بارآور ثابت ہوئے۔ فوجی عملہ براہِ راست اسے رپورٹ کرنے کا پابند کیا گیا اور اس پابندی کا احترام بھی کیا گیا۔ اس نے اشرافیہ سے بہتر تعلقات استوار کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ سیاست کے معاملے میں عوام کے بیشتر مطالبات نظر انداز کردیے گئے۔ ویسے لوگوں کے مطالبات کچھ زیادہ اور پیچیدہ نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پورے خطے میں کہیں بھی آزادانہ آ اور جاسکیں۔ وہ چاہتے تھے کہ فیڈرل چیک پوائنٹس ہٹادی جائیں، کیونکہ ان چیک پوائنٹس سے ان کی حرکت پذیری میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ رمضان قادروف نے عوام کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی۔ اسے اس کی بہت بڑی سیاسی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔
رمضان قادروف نے قوم پرستوں کے خلاف جانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ انہیں کمزور کرکے اس نے چیچنیا کو روسی فیڈریشن کا حصہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب رمضان قادروف کا اقتدار مضبوط ہوگیا اور اس نے اپنے فیصلوں پر سختی سے عمل کرانا شروع کیا تب چیچن باشندوں نے سوالات پوچھنا ترک کردیے۔ روس سے بہتر تعلقات استوار کرنے اور کسی حد تک اُس میں انضمام کے حق میں سوچ دکھائی دینے لگی۔ رمضان قادروف کی توجہ اس نکتے پر مرکوز رہی کہ چیچنیا میں زندگی بسر کرنا دشوار نہ ہو اور معاملات اُسی طور خوش اسلوبی سے چلتے رہیں، جس طور داخلی خود مختاری سے متصف دیگر علاقوں میں رہے ہیں۔ اس دوران روس نے چیچنیا کی معیشت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور ساتھ ہی ساتھ اس خطے سے الگ تھلگ رہنے پر بھی آمادہ ہوا۔ یہ گویا چیچنیا کو رشین فیڈریشن کا حصہ بنانے کی طرف واضح قدم تھا اور یوں چیچنیا میں کسی حد تک استحکام کی راہ ہموار ہوئی۔
شخصی سیاست
احمد قادروف کی موت سے روس اور آزاد خطوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوئی۔ رشین فیڈریشن چیچنیا، تاتارستان، داغستان وغیرہ کو طاقت سے دباتی آئی تھی اور اس کے نتیجے میں غیر معمولی حد تک خرابیاں بھی پیدا ہوئی تھیں مگر احمد قادروف کے بعد رشین فیڈریشن نے طاقت کے استعمال کو بہترین حل کی حیثیت سے قبول کرنے سے گریز شروع کیا۔ ماسکو نے گورنروں اور مقامی رہنماؤں کی ’’رہنمائی اور معاونت‘‘ کے لیے اپنے نمائندے بھیجنا ترک کیے۔ رمضان قادروف نے مقامی رہنماؤں اور کریملن کے درمیان بہتر تعلقاتِ کار کی راہ ہموار کی۔ اس پورے عمل میں نظام کو زیادہ مضبوط بنانے کے بجائے شخصی قوت میں اضافے پر توجہ دی گئی۔ روسی لیڈر ولادیمیر پوٹن بھی تو یہی چاہتے تھے کہ اہم منصب پر فائز ہونے والوں کو غیر معمولی اختیارات حاصل رہیں۔ چیچنیا اور دیگر علاقوں کے رہنماؤں کو ماسکو کے جونیئر پارٹنرز کا درجہ مل گیا۔ رشین فیڈریشن چاہتی تھی کہ ان کی مدد سے ان کے علاقوں کو بہتر انداز سے کنٹرول کیا جائے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رمضان قادروف پر ماسکو کا انحصار بڑھتا گیا۔ چیچنیا کی بحالی میں رمضان قادروف کے چند اقدامات نے اہم کردار ادا کیا۔ اس نے تعمیرات کے شعبے کو نئی زندگی دی۔ ماسکو نے اس معاملے میں بہت حد تک تماشائی کا کردار ادا کیا تاہم رمضان قادروف کی مدد کرنے سے گریز کی پالیسی بھی اختیار نہیں کی۔ ماسکو کے تعاون سے چیچنیا کے طول و عرض میں تعمیرات کا کام تیز کردیا گیا۔ ایک مدت تک جاری رہنے والی لڑائی کے باعث کئی علاقے مکمل طور پر تباہ ہوچکے تھے۔ جب ماسکو نے بحالی کے کام میں معاونت پر رضامندی ظاہر کی تو چیچن عوام نے بھرپور دلچسپی کے ساتھ ماسکو کو خوش آمدید کہا۔ بہت سے دیہاتوں کی انتظامیہ کو قرضے دیے گئے تاکہ وہ بنیادی ڈھانچا تعمیر کرسکیں اور لوگوں کے لیے زندگی آسان بنائیں۔ ان قرضوں کی ادائیگی کو آسان بنانے کے لیے ماسکو نے امداد فراہم کی۔
چیچنیا میں امن برقرار رکھنے کے لیے رمضان قادروف کو ماسکو کی طرف سے آزادی دی گئی۔ مخالفین کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مکانات منہدم کرنے پر بھی ماسکو نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ سارا زور اس نکتے پر تھا کہ پورے چیچنیا میں صرف امن دکھائی دینا چاہیے۔ جب بنیادی ڈھانچا مضبوط ہوا اور شورش کے خلاف اقدامات نے زور پکڑا تب حکومتی ڈھانچا مستحکم تر ہوتا گیا۔ ۲۰۱۵ء کے اوائل میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ پورے چیچنیا میں کم و بیش سات ہزار افراد نے حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیچنیا کی باضابطہ فورس تیار کرنے کے حوالے سے اقدامات بڑھتے گئے ہیں۔ بھرتی اور تربیت کا عمل تیز ہوا ہے، جس کے نتیجے میں نوجوان شورش کی طرف جاتے ہوئے کترانے لگے ہیں۔ طویل عرصے سے لڑتے لڑتے وہ بھی تنگ آچکے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ ریاستی ڈھانچے کا حصہ بنیں۔ کل تک جو نجی فوج تھی وہ اب بہت حد تک سرکاری فورس میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس فوج کے بہت سے یونٹس کو قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں کا حصہ بنادیا گیا تاکہ خانہ جنگی کا گراف نیچے لانے میں مدد مل سکے۔ مختلف ناموں سے کام کرنے والے بہت سے یونٹس کو پولیس کا حصہ بنادیا گیا ہے تاکہ وہ ریاست بھر میں امن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔
نظریاتی سطح پر رونما ہونے والے خلا نے چیچنیا میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی۔ سیکیورٹی فورسز کے نام پر لڑنے والے گروپوں میں شامل نوجوانوں کو کسی کاز کے لیے لڑنے سے زیادہ اس بات سے غرض تھی کہ انہیں ہتھیار آسانی سے میسر رہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ پورے چیچنیا میں ہتھیاروں کی بھرمار ہے اس لیے لازم ہے کہ اپنا تحفظ یقینی بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ہتھیار حاصل کیے جائیں۔ بہت سے زیر زمین گروپ کام کر رہے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ ایک باضابطہ فورس تشکیل پارہی ہے تو ان میں بھی باہر آکر نارمل زندگی بسر کرنے کا شوق پیدا ہوا۔
اس دوران رمضان قادروف کی سربراہی میں کام کرنے والی اشرافیہ نے نوآبادیاتی دور کی بیورو کریسی کو ایک ایسے نظام سے تبدیل کیا، جو بہت حد تک انڈر ورلڈ کے طریق کار سے مناسبت رکھتا تھا۔ اس نظام میں سب کو کسی ایک فرد کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا تھا۔ قانون کی حدوں سے باہر رہتے ہوئے کام کرنے پر بھی انہیں اپنے انتہائی مضبوط لیڈر کے ماتحت ہی رہنا پڑتا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ہنسی خوشی ہی ہوتا رہا ہے۔ آج بھی مخالفین سر ابھارتے رہتے ہیں۔ رمضان قادروف سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمام اختیارات کسی ایک فرد کے ہاتھ میں نہ رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ چیچنیا میں وہ تبدیلیاں رونما نہیں ہوئیں جو ہونی چاہییں۔ جو لوگ اختلاف کرتے ہیں ان کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ رمضان قادروف کا قریبی ساتھی موولادی بیساروف ۲۰۰۶ء میں ماسکو میں مارا گیا تھا۔ ۲۰۰۷ء میں جب ماسکو نے سیکنڈ آپریشنل انوسٹی گیشن بیورو کے سربراہ کو اختیارات دینے سے انکار کیا تو رمضان قادروف کے لیے اسے تبدیل کرنا ناگزیر ہوگیا۔
ماسکو کو بظاہر اس بات سے کچھ غرض نہ تھی کہ چیچنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کریملن میں بیٹھے ہوئے پالیسی ساز تو صرف یہ چاہتے تھے کہ چیچنیا میں رشین فیڈریشن کے لیے پائی جانے والی مخالفت ختم ہوجائے۔ اس مقصد کا حصول اگرچہ مشکل تھا مگر ایسا نہ تھا کہ بات بن ہی نہ سکتی تھی۔ جب رمضان قادروف نے بہت سے اقدامات کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ رشین فیڈریشن سے اچھے تعلقات چاہتا ہے اور چیچنیا میں باغیانہ روش کو مکمل طور پر کچلنے کے موڈ میں ہے تو اسے پوٹن کے پیادے کی سی حیثیت حاصل ہوگئی اور یوں اس کے لیے ممکن ہوگیا کہ اپنی بات زیادہ کھل کر بیان کرسکے اور جو کچھ مانگنا ہے وہ بھی کھل کر مانگے۔ رفتہ رفتہ یہ بات بھی سامنے آنے لگی کہ رمضان قادروف اپنے اختیارات کا دائرہ وسیع تر کرنے کے موڈ میں ہے۔ یہ غیر محسوس عمل تھا۔
کرشمے پر کرشمہ
رمضان قادروف نے اپنے اثرات کا دائرہ بہت عمدگی سے وسیع کیا۔ ابتداء میں تو سلامتی کی صورت حال بہتر بنانے پر توجہ دی گئی۔ سڑکیں تعمیر کی گئیں، چیک پوائنٹس ختم کی گئیں اور لوگوں کو گھروں میں سکون سے سونے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اس کے بعد بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کا عمل شروع ہوا۔ اسکول تعمیر کیے گئے۔ پارک بنائے گئے۔ نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیوں کی طرف مائل کرنے کے لیے چیچنیا کے طول و عرض میں اسٹیڈیم تعمیر کیے گئے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا۔ ایک پوری نسل نے یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھا اور پھر ان کی نظر میں رمضان قادروف ہیرو ٹھہرا۔ والی بال اور فٹبال کی قومی ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ جو لوگ ایک عشرے سے زیادہ کی لڑائی سے تنگ آئے ہوئے تھے ان کے لیے یہ تبدیلیاں غیر معمولی اور مثبت تھیں۔ لوگوں کے گلے شکوے دور کرنے کے لیے سرکاری فنڈ کی مدد سے بہت سی سہولتوں کا اہتمام کیا گیا۔ تعلیم، صحت عامہ اور کھیلوں پر خاص توجہ دی گئی۔
ماسکو کو رمضان قادروف سے بہت کچھ درکار تھا اور وہ ملا بھی۔ اس کے بدلے ماسکو نے رمضان قادروف کو بہت کچھ دیا بھی مگر اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ ماسکو کے لیے وہ ناگزیر ہوگیا۔ ماسکو نے اپنے حقیقی اور بنیادی مفادات پر کبھی سودے بازی نہیں کی۔ چیچنیا کو جس حد تک آزادی، خود مختاری اور سہولتیں دی جاسکتی تھیں ضرور دی گئیں مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سے معاملات میں بلیک میل ہونے سے صاف انکار کردیا گیا۔ رشین فیڈریشن نے گروزنی میں قائم کی جانے والی توانائی کی ایک بڑی فرم میں چیچنیا کو مرکزی اسٹیک ہولڈر بنانے سے صاف انکار کیا۔ یہ ایسا اقدام تھا جس سے رمضان قادروف کی شہرت داغ دار ہوئی۔ گروزنی کے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ماسکو سے اپنی ہر بات منوانے میں کامیاب ہوتا چلا جائے گا۔ ماسکو کے پالیسی سازوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کسے کس حد تک قبول اور برداشت کرنا ہے۔ انگوشیتیا اور داغستان میں رمضان قادروف کی شہرت داغ دار ہوئی تو ماسکو سے تعلقات تھوڑے سے کشیدہ ہوئے۔ توانائی کے اس بڑے منصوبے سے چیچنیا کو کچھ خاص مل نہیں سکا ہے۔ روس نے ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ بھی اپنے پاس رکھا ہے۔ اس حوالے سے چیچنیا میں عوامی سطح پر شدید جذبات پائے جاتے ہیں مگر ماسکو نے ان جذبات کی پروا نہیں کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماسکو نے چیچنیا کی سیاست اور معیشت دونوں کو مستحکم کرنے میں دلچسپی لی ہے، اہم کردار ادا کیا ہے۔ ماسکو سے ملنے والے فنڈز کی مدد سے رمضان قادروف نے معیشت کو مستحکم کرنے میں دلچسپی لی اور پھر اس کا کریڈٹ بھی لیا۔ اس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ رشین فیڈریشن چیچنیا کی سیاست اور معیشت میں زیادہ مداخلت نہیں کرے گی۔ یہ سوچ غلط تھی۔ رشین فیڈریشن علاقائی سپر پاور ہے۔ وہ اگر کچھ دے رہی تھی تو لازمی طور پر اس کے بدلے کچھ چاہتی بھی تھی۔ یہ تو ممکن ہی نہ تھا کہ چیچنیا کو سب کچھ بلا معاوضہ دے دیا جاتا۔ اس دنیا میں ’’فری لنچ‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں۔
واپسی کا سفر
ولادیمیر پوٹن نے ۲۰۱۲ء میں اقتدار کی تیسری مدت شروع کی تو بہت کچھ بہت تیزی سے تبدیل ہونے لگا۔ رمضان قادروف نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب اس کے اقتدار کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ روس سے ملنے والی غیر معمولی امداد اور زر اعانت کے ذریعے اس نے چیچنیا میں بنیادی ڈھانچا مضبوط بنایا اور لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کیں، جس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تاہم وہ یہ بات بھول گیا کہ اس کی کامیابی نے بہت سے دشمن بھی پیدا کیے ہیں۔ یہ دشمن کاکیشیا کے علاوہ روس میں بھی تھے۔ چیچنیا میں امن قائم کرنے کے لیے رمضان قادروف نے ایک طرف تو جنگجوؤں کو ختم کرنے کی پالیسی اپنائی اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے جنگجوؤں کو داغستان اور انگوشیتیا میں پناہ لینے پر مجبور بھی کیا۔ چیچنیا کے مسلح جنگجو جب دیگر روسی ریاستوں میں گئے تو وہاں کے حکمران رمضان قادروف کے حوالے سے منفی جذبات کے حامل ہوئے۔ اس کے نتیجے میں رمضان قادروف کے دشمنوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ جن نوجوانوں کو چیچنیا کی حدود سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا تھا، انہوں نے داغستان، تاتارستان اور انگوشیتیا میں منظم جرائم کے گروہوں سے مل کر رمضان قادروف کے خلاف لڑائی کی تیاری کی اور پھر لڑے بھی۔
رمضان قادروف کے لیے سب سے بڑے دشمن کا درجہ فیڈرل سیکیورٹی سروسز کو حاصل رہا۔ یہ سب کچھ رمضان کو اپنے والد سے ورثے میں ملا تھا۔ رمضان قادروف کو اندازہ تھا کہ بہت سے معاملات میں اس کا ماسکو سے تصادم تو ہوگا۔ مفادات کا ٹکراؤ بہت سے دوسرے اختلافات کو ہوا دینے کا باعث بھی بنا۔ رشین فیڈریشن ہر بات سنتی آئی ہے اور جس قدر ضروری ہو اتنی امداد بھی دیتی آئی ہے مگر وہ آزادی اور خودمختاری کے حوالے سے کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں۔ رمضان قادروف کے ذہن میں یہ بات تھی کہ وہ کسی نہ کسی طور اندرونی خود مختاری حاصل کرکے عوام کی نظر میں ہیرو بن جائیں گے، مگر انہیں اندازہ نہ تھا کہ ماسکو کی طرف سے چیچنیا کو آزادی یا محدود خود مختاری کسی بھی طور میسر نہ ہوگی۔ ولادیمیر پوٹن کے لیے جب رمضان قادروف اور فیڈرل سیکیورٹی سروسز کے درمیان کسی ایک کو منتخب کرنے کا وقت آیا تب انہوں نے رمضان قادروف کو منتخب کیا۔ اس کے نتیجے میں فیڈرل سیکیورٹی سروسز کی نظر میں رمضان قادروف نے ناپسندیدہ شخصیت کا درجہ پایا۔
ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ رمضان قادروف نے روسی حکومت اور کاروباری طبقے کی طرف سے چیچنیا کی معیشت مضبوط کرنے کے اقدامات کے تمام فوائد اپنے منظور نظر افراد کو دیے۔ روس کے بڑے کاروباری اداروں کو بھی اس بات پر اعتراض تھا کہ رمضان قادروف نے اپنے پسندیدہ افراد کو چن چن کر ٹھیکے اور عہدے دیے ہیں۔ روس کے اعلیٰ حکام اور کاروباری شخصیات یہ بے ڈھنگی صورت حال برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ چیچنیا پر پیسہ لگایا ضرور جارہا ہے مگر اس کے حقیقی فوائد عوام تک نہیں پہنچ پارہے۔ رمضان قادروف نے تمام کاروباری فوائد اپنے منظور نظر افراد تک محدود رکھ کر ثابت کیا کہ وہ تمام اختیارات کے ساتھ ساتھ ریاست کو ملنے والے تمام فوائد بھی اپنے حلقے تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے۔ یہ صورت حال مجموعی طور پر چیچنیا کے خلاف تھی۔ چیچنیا کے طول و عرض میں ایسے اقدامات کی ضرورت تھی، جن کی مدد سے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوتا۔ لوگوں کو چند بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کو بہت کچھ تصور کرلیا گیا۔
جب رمضان قادروف نے بھرپور معاونت کے باوجود ڈلیور کرنا مناسب نہ جانا تب ماسکو کی جانب سے فنڈ روکے جانے لگے۔ اختیارات گھٹانے کا عمل بھی شروع ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ماسکو اور گروزنی کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے لگی۔ ماسکو جو کچھ چاہتا تھا وہ کرنے کے لیے گروزنی تیار نہ تھا۔ بہت سے قانونی امور میں بھی روس اور چیچنیا کے مابین بات بگڑتی چلی گئی۔
چیچنیا میں اسلام
عوام میں اپنی جڑیں گہری اور مضبوط رکھنے کے لیے رمضان قادروف نے ’’انقلابی اسلام‘‘ کے مقابل ’’سیاسی اسلام‘‘ کو آگے بڑھایا۔ ۲۰۱۲ء میں بی بی سی سے ایک انٹرویو میں رمضان قادروف نے کہا کہ ہم اسلام کی وہی تعبیر و تشریح قبول کرتے ہیں، جو روایتی طور پر چلی آرہی ہے۔ ہم ایسی کسی بھی تشریح کو زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ پائی جاتی ہو۔ چیچنیا میں صوفی ازم کو ہر دور میں غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ایسے میں سیاسی اسلام کو ان لوگوں کے مقابل لانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی تھی جو انقلابی اسلام پر یقین رکھتے ہیں۔ رمضان قادروف نے ساتھ ہی ساتھ اسلامی شریعت کے متعدد اصولوں کو قوانین کا حصہ بنانے کا بھی عندیہ دیا۔
اسلام کی بات کرکے رمضان قادروف نے اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی۔ چیچنیا کے لوگوں نے اسلام خاصی تاخیر سے قبول کیا۔ داغستان اور دیگر خطوں کا معاملہ مختلف ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسلام سے متعلق نظریات کی تشکیل و ترویج میں داغستان وغیرہ کا کردار بہت اہم ہے۔
اسلام کو ثقافت اور قوانین کا حصہ بنانے کی بات کرکے رمضان قادروف نے بہت سے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی۔ وہ چاہتا تھا کہ اسلامائزیشن کا عمل جاری رہے تاکہ اس کی حکومت کے ہاتھ مضبوط رہیں۔ بہت سے مخالفین نے رمضان قادروف پر الزام لگایا کہ وہ اسلام کا سہارا لے کر اپنا اقتدار مضبوط کرنا چاہتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ رشین فیڈریشن کو ایک بار پھر اسلام سے متصادم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس دعوے یا الزام میں زیادہ دم نہیں۔ رمضان قادروف خود انقلابی نہیں تھا اور وہ اسلام کے معاملے میں ویسا شدت پسند بھی نہیں تھا، جیسے دوسرے بہت سے لوگ تھے۔ کریملن کے پالیسی ساز اچھی طرح جانتے تھے کہ رمضان قادروف اسلام کو صرف اقتدار مستحکم کرنے کے لیے بروئے کار لارہا ہے۔
جب رمضان قادروف نے ماسکو سے کچھ زیادہ مانگا یا استحقاق سے بڑھ کر نوازے جانے کی فرمائش کی تو معاملات بگڑنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیچنیا کو، جو رشین فیڈریشن کے پسندیدہ خطوں میں تھا، ایک بار پھر ایسے علاقے کا درجہ دے دیا گیا جو ماسکو کے لیے زیادہ پسندیدہ یا قابل ترجیح نہیں۔ کریملن کے پالیسی ساز جانتے تھے کہ چیچنیا ان کے لیے کس حد تک کام کا ہے اور کس حد تک نہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب رمضان قادروف نے اپنی منطقی حد سے آگے بڑھ کر کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی تو معاملات اور تعلقات میں گرم جوشی نہ رہی۔ رمضان قادروف اپنا اقتدار ہر حال میں مستحکم رکھنا چاہتا تھا۔ ۲۰۱۳ء تک معاملات اتنے بگڑگئے کہ پوٹن نے رمضان قادروف سے ٹیلی فون پر بات کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ رمضان قادروف پر مخالفین کو قتل کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے بگاڑ مول لینے کا الزام عائد کیا جانے لگا۔ وہ اپنے اقتدار کو ہر قیمت پر طول دینا چاہتا تھا۔ اس کے لیے وہ کوئی بھی حربہ آزمانے کو تیار تھا۔
کریملن سے گروزنی کے معاملات بگڑے تو روس کے متعلق وزراء نے رمضان قادروف کے ’’اوصافِ خبیثہ‘‘ گنوانا شروع کیے۔ داغستان اور انگوشیتیا کو اس سے جو بھی شکایت تھی، وہ کھل کر سامنے لائی گئی۔ ماسکو چاہتا تھا کہ رمضان قادروف کے خلاف کیس غیر معمولی حد تک مضبوط ہو تاکہ جب اس سے گلوخلاصی تک نوبت پہنچے تو کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ کہیں کوئی نا انصافی کی گئی ہے۔ ماسکو نے جب علاقائی رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا عمل شروع کیا تو حقیقی تبدیلی کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ ۲۰۱۳ء میں داغستان کے دارالحکومت کے میئر اور بڑے پاور بروکر کی گرفتاری نے علاقائی اشرافیہ کو ہلاکر رکھ دیا۔ خدشات پھر سر اٹھانے لگے۔ ۲۷ فروری ۲۰۱۵ء کو روس میں اپوزیشن کے ایک رہنما بورس نیمستوف کے قتل میں چیچن جانبازوں کے ملوث ہونے کی اطلاعات نے ماسکو اور گروزنی کے تعلقات کو مزید نقصان سے دوچار کیا۔ اس کے بعد ماسکو نے قتل کی تفتیش میں چیچن جانبازوں کو باضابطہ فوکس کرنا شروع کیا۔
چھوٹے کردار کے ساتھ
رمضان قادروف نے بہت سے معاملات میں سمجھوتا کرلیا ہے۔ اس کی قیادت کا انداز اگرچہ زیادہ تبدیل نہیں ہوا، مگر ماسکو کی بہت سی شرائط اس نے خاموشی سے مان لی ہیں۔ وہ بہت سے معاملات میں اپنی مرضی منوانے کی راہ پر گامزن نہیں۔ کوشش یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور اقتدار برقرار رکھا جائے۔ مخالفین کو کچلنے کی پالیسی برقرار ہے۔ اس نے اپنے لیے ایک گھٹا ہوا کردار قبول کرلیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ماسکو سے رمضان قادروف کو کچھ ملے تو ملے، گروزنی کو اب کچھ زیادہ نہ مل سکے گا۔ رمضان قادروف نے طے کرلیا ہے کہ اختیارات اس کی ذات تک محدود رہیں اور کسی نہ کسی طور اقتدار کی گاڑی چلتی رہے تو بس ٹھیک ہے۔ چیچن عوام کے لیے یہ فائدے کا سودا نہیں ہے تو نہ سہی۔ وہ اب جو کچھ بھی کر رہا ہے اس سے ماسکو زیادہ متاثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ رمضان قادروف نے پوٹن کے قریبی حلقے میں داخل ہونے یا اس کی نظر میں پسندیدہ قرار پانے میں بھی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ اب ان کا پوٹن سے براہِ راست رابطہ بھی نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رمضان قادروف نے اپنا اقتدار کس قیمت پر برقرار رکھا ہے۔
رمضان قادروف نے چیچنیا میں علیحدگی پسند رجحانات کا خاتمہ کیا ہے۔ یہ بات روس کے لیے غیر معمولی حد تک اہم اور قابل قبول ہے اور اسی کے عوض رمضان قادروف کو اب تک برداشت بھی کیا جارہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کب تک چلتا رہے گا۔ اگر چیچنیا کے عوام کو روس سے بہتر تعلقات کا ثمر نہ ملا تو کیا وہ رمضان قادروف اور رشین فیڈریشن دونوں کو اپنا سمجھتے رہیں گے؟ بنیادی مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں چیچن عوام ایک بار پھر کبیدہ خاطر ہوں گے اور اس کے نتیجے میں ایک بار بھی باغیانہ روش پر گامزن ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
جدید چیچنیا جنگ زدہ خطہ نہیں، یہ نارمل ہوچکا ہے۔ اب عوام چاہتے ہیں کہ ان کے بنیادی مسائل حل ہوں۔ مشکل یہ ہے کہ رمضان قادروف اب راہنما یا علامت کی حیثیت سے اپنی چارم کھو چکا ہے۔ لوگوں کو اس پر زیادہ بھروسا نہیں رہا۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ چیچنیا میں بہت جلد کس طرح کے جذبات سر اٹھا سکتے ہیں۔
رمضان قادروف نے ماسکو سے اپنے اقتدار کے حوالے سے جو تازہ معاہدہ کیا ہے، وہ خطے کی قیادت کے چیچن دعوے کے لیے موت ثابت ہوگا۔ گھٹائے ہوئے اختیارات کے ساتھ رمضان قادروف کا چیچن کے معاملات پر متصرف ہونا عوام کے لیے کسی بھی کام کا نہیں یہ خالص ذاتی نوعیت کا معاہدہ ہے، جس میں چیچنیا اور اس میں بسنے والوں کے لیے کچھ بھی نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Chechnya’s new contract with the Kremlin”. (“carnegie.ru”. October 27, 2016)
Leave a Reply