
یونان کے شہر ایتھینز کے بیچ بازار Kolonaki Square میں ایک پُرہجوم فیشنیبل کافی ہاؤس ہے جس کا نام DA CAPO CAFE ہے۔ یونانی پروفیشنلز جو ۳۰ اور ۴۰ کی دہائی میں ہوتے ہیں‘ یہاں آکر جھاگ والی ٹھنڈی کافی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ موضوع گفتگو یقیناً معاشرتی تعلقات ہوتا ہے۔ مثلاً مردوں کی طرف سے عورتوں کو آزادی فراہم کرنے کی یقین دہانی سے گریز کرنا اور یہ کہ کب بچے پیدا کرنے ہیں اور کب ان کا سلسلہ روک دینا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک ۳۷ سالہ خاتون Eirini Petropoulou جو کہ AP نیوز ایجنسی میں انتظامی معاون ہے‘ کا کہنا ہے کہ ’’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے یہاں بچے کی پیدائش کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن میں نے کسی سے شادی صرف اس لیے نہیں کی تھی کہ مجھے بچہ چاہیے‘‘۔ وہ اپنے کام سے محبت رکھتی ہے اور معاشرتی غذا “Parea” جو ہم خیال دوستوں کو آپس میں باندھنے والی ایک انجمن ہے‘ سے حاصل کرتی ہے۔ انجمن کے لوگ نوعمر یونانیوں کے لیے خاندان کا کردار ادا کرتے ہیں۔ بہرحال اس خاتون کا کہنا ہے کہ اگر ۴۵ سال تک میں بے اولاد ہی رہی تو پھر میں اپنے طور سے اس کے لیے کوشش کروں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کی ذاتی آسودگی اسی پر منحصر ہے۔ کچھ دہائیوں پہلے Petropoulou اور اس کی دوستیں عجب سا محسوس کر تی تھیں۔ یونان یورپ کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ روایتی معاشرہ پایا جاتا تھا۔ جہاں شادی کرنے کے حوالے سے سخت احکام آرتھوڈاکس چرچ کی طرف سے جاری ہوتے تھے اور جہاں چرچ کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔ ایک مضبوط مذہبی و معاشرتی روایت کی بنا پر لاولد خواتین کو ’’بانجھ کنواریاں‘‘ قرار دیا جاتا تھا اور کنوارے ادھیڑ عمر کے مردوں کو ان کی جنسی ترجیحات کے حوالے سے شک و شبے کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ نئی نسل میں اب یہ سختی ناپید ہو چکی ہے۔ اس کے کئی عوامل ہیں‘ جن میں عورتوں کے لیے بہتر تعلیم اور ملازمت کے مواقع کا فراہم ہونا اور ساتھ ہی یونان کی یورپ کے عام ثقافتی دھارے میں شمولیت بھی شامل ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شادی کی اوسط شرح یورپ سے بھی گھٹ گئی اور شرح پیدائش تو یہاں دنیا میں سب سے کم ہو گئی ہے یعنی ۳ء۱ بچے فی خاتون۔ Petropoulou کی مانند جوان یونانیوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر وقت پر سلسلہ شروع ہو جائے تو لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔
دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح یونان میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے ہجوم کے پیش نظر بچے جننے کا رجحان نہیں رہا ہے۔ کیتھرائن حاکم جو لندن اسکول آف اکانومکس میں اس موضوع کا مطالعہ کررہی ہیں کا کہنا ہے کہ ’’اس سے پہلے کبھی بھی اتنے سارے معاشروں میں لاولدیت عورتوں کے لیے کوئی قانونی آپشن نہیں رہی ہے۔ سوئٹزر لینڈ و سنگاپور‘ کینیڈا و جنوبی کوریا جیسے مختلف المزاج ممالک میں اس تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں کہ جواں سال لوگ بچوں سے آزاد اپنے لمحات کو وسعت دے رہے ہیں۔ وہ اس وقت تک بچوں کی پیدائش کے لیے پروگرام ملتوی رکھتے ہیں تاآنکہ ۳۰ یا ۴۰ کی دہائی میں پہنچ جائیں بلکہ اس سے بھی زیادہ‘ لاولدیت کی بڑھتی ہوئی مدت ایک ایسے نکتے تک بالاخر پہنچ جاتی ہے جہاں کہ سرے سے کوئی اولاد ہی نہیں ہوتی ہے۔ عمر بھر لاولد رہنے والی یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ خواتین کی شرح جرمنی میں ۳۰ فیصد پہنچ گئی ہے۔ جبکہ یہاں یہ شرح نچلے طبقے کے مردوں میں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ میں ایسی عورتوں کی تعداد جو لاولد ہیں گزشتہ بیس سالوں میں دوگنی ہوگئی ہے۔ جاپان میں جہاں کہ شرح پیدائش فی خاتون ۲۵ء۱ بچے ہیں‘ ۳۰ سالہ خواتین کی ۵۶ فیصد تعداد ہنوز لاولد ہے جبکہ یہ شرح ۱۹۸۵ء میں ۲۴ فیصد تھی۔ جاپان نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن ریسرچ سے وابستہ Miho Iwasawa کا کہنا ہے کہ ’’جاپان کے مستقبل کا تعین۔ اس پر منحصر ہے کہ آیا یہ خواتین مائیں بنتی ہیں یا نہیں۔‘‘
اس رجحان نے لاولدیت کی نئی شناخت کو جنم دیا ہے۔ برطانیہ میں ایسی کتابوں کے بازار میں روز بروز اضافہ ہورہاہے جن کے موضوعات ہیں ’’بچوں سے آزاد ‘‘یا ’’بچوں سے آزاد زندگی سے محبت‘‘ وغیرہ وغیرہ جن کے متعلق خاتون صحافی Nicki Defago فرماتی ہیں کہ انہوں نے اس لیے لکھا ہے کہ اُن عورتوں کو جنہوں نے بچے نہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیاہے بتائیں کہ ان کے احساسات مکمل طور سے نارمل ہیں۔ اب بچے نہ رکھنے کے موقف کے حامی گروہوں کا دائرہ پھیل گیا ہے‘ وینکور سے No Kidding (کوئی بچہ نہیں) گروہ سے لے کر برطانیہ کے Child Free Association (بچوں سے بے نیاز افراد کی انجمن) تک ۔ جاپان میں بچوں کی پیدائش کو معرض التواء میں ڈالنے کا عمل یا سرے سے بچے نہ پیدا کرنے کا عمل اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے کہ اس کمی کی تلافی کے لیے متعدد مصنوعات مارکیٹ میں آچکی ہیں مثلاً چادرفروخت کرنے والی کمپنی kameo کاBoyfriend Arm Pillowاس کے علاوہ پالتور جانور رکھنے کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ بچوں کی تلافی کی متبادل صورتوں سے منافع کمانے کے لیے ہونڈا اب ایسی کار ڈیزائن کررہا ہے جس میں بچوں کی نشست کی جگہ کتوں کے صندوق ہوں گے۔ حتی کہ اُس نے اگلی نشست کے سامنے سامان رکھنے کے جھوٹے سے بکس کو جسے Glove Compartment کہتے ہیں چینی نسل کے بال والے کتے جسے Pekingese کہتے کے بیٹھنے کی جگہ میں تبدیل کردیا ہے۔ آسٹریلیا میں رئیل اسٹیٹ کے کاروباری یا ایجنٹ نے اپنی توجہ لاولد فیملی پر مرکوز کر رکھی ہے جو تیزی سے روز افزوں ہے۔ چونکہ اُن کے پاس قوتِ خرید بہت زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ مہنگے علاقوں میں مثلاً مین ہٹن یا سینٹرل لندن میں رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں اضافے کا سبب ہوتے ہیں۔ ایک تازہ برطانوی سروے کے مطابق ایسے مکانوں کی قیمت ۵ فیصد کم ہوجاتی ہے اگر اس کے پڑوس میں ایسا خاندان آجاتا ہے جس میں نو عمر بچے شامل ہوں۔ ہوٹل بھی لاولد جوڑے کا خیال رکھتے ہیں۔ اٹلی کا La veduta نامی Country Resort (دیہی عافیت خانہ) ایک ایسی فضا فراہم کرنے کی پیشکش کرتا ہے جو بچوں کے شوروغل سے پاک ہے ’’آپ کا یومِ تعطیل بچوں کے شور غل سے پامال نہیں ہوگا۔‘‘ روم میں بہت سارے ریسٹورنٹ ایسے ہیں جہاں یہ واضح کردیا جاتا ہے کہ بچوں کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا ہے۔ بہت سارے کلب ایسے قائم کیے گئے جن میں شرکت کے لیے ارکان کا ۱۸ سال سے زائد عمر کا ہونا شرط ہے۔ لاولدیت میں تازہ اضافہ تاریخی نہج کی پیروی نہیں ہے۔ صدیوں سے مغربی یورپ میں ایک چوتھائی عورتوں کا لاولد رہنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ یہ شرح آج کسی بھی ملک سے زیادہ ہے (درحقیقت مردم شماری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ۵۰ ۱۹اور ۱۹۶۰کی دہائیوں میں کسی خاندان کے لیے یہ امر باعث مسرت تھاکہ وہ تاریخی روایت کی خلاف ورزی کریں۔) لیکن ماضی میں لاولدیت عام طور سے غربت اور پریشان حالی کا نتیجہ ہوتی تھی۔ یا یہ جنگوں میں مردوں کے لاپتہ ہونے کی وجہ سے ہوتی تھی۔ یا بانجھوں کی وجہ سے جس کی زد میں زیادہ سے زیادہ تین فیصد جوڑے ہوتے تھے۔آج بچہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کئی عوامل کے پیچیدہ مجموعے کے سبب ہے جس میں تعلقات ‘ کیریئر بنانے کے مواقع‘ طرز زندگی اور اقتصادیات شامل ہیں۔ لاولدیت کا نیا معمول تمام سماجی طبقوں کو متاثر کرتا ہے ۔ یہ صرف شہر کے سست افراد کو ہی نہیں متاثر کرتا ہے جو یکسانیت کی زندگی گزارتے ہیں یا صرف انہیں کو متاثر نہیں کرتا ہے جو دوہری آمدنی اور کوئی بچہ نہیں‘‘ کے اصول پر گامزن ہیں۔ برلن سے ایک گھنٹے کی دوری پر واقع Friesack نامی گاؤں میں رہنے والی آرائشِ گیسو کی ماہر ۳۷ سالہ Katy Hoffmann کا کہنا ہے کہ ’’حتی کہ جب میں ایک چھوٹی لڑکی تھی تو گہرائی تک باتوں کو جانتی تھی اور اس کی وجہ سے میں بچوں کی خواہش سے بے نیاز تھی۔‘‘
مشرقی جرمنی میں پرورش پانے کی بناء پر ۱۸ سال کی عمر میں شادی شدہ ہونے اور حاملہ ہونے کے لیے شدید دباؤ رہتا تھا اس لیے کہ اس کے بغیر حکومت کی طرف سے رہائشی فلیٹ نہیں ملتا تھا۔ جب دیوارِ برلن منہدم ہوگئی تو اپنی پسند کی زندگی گزارنے کی آزادی ملی۔ اس کا ۳۹ سالہ شوہر جو فائر فائٹر ہے کا کہنا ہے کہ کافی عرصے تک اُس کو بھی اولاد سے بے رغبتی رہی۔’’اسٹیشن پر موجود ہمارے وہ ساتھی جو بچے والے تھے ہم بغیر بچوں کو تلقین کیا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں ناکہ ہم جرمنی لوگ صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائیں۔ لیکن جب میں آج ہر طرف بے روزگاری کی کیفیت دیکھتا ہوں تو میں یہ کہتا ہوں کہ تھوڑی بہت آبادی کی کمی سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘ جبکہ امریکا اور مغربی یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں بغیر بچے والے گھرانوں کا رواج عام رہا ہے لیکن اب ایسے گھرانوں کا رواج دیہی معاشروں میں بھی جو قدرے روایتی ہوتے ہیں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ صرف چند دہائیوں پہلے جنوبی یورپی ممالک مثلاً اٹلی‘ یونان اور اسپین ثمر بار خاندان اور باہم پیوستہ قبائل کے آئینہ دار تھے اور یہاں وہ لوگ معاشرتی تنہائی کا شکار ہوتے تھے جو اس طرزِ معاشرت پر پورا نہیں اترتے تھے۔ لیکن آج یہ تینوں ممالک یورپ میں کمترین شرحِ پیدائش کے لیے مشہور ہیں۔ آج اٹلی کی ۴۰ سالہ خواتین کی ایک چوتھائی تعداد لاولد رہنے کی توقع کرتی ہے ۔ بعض معاملات میں تو خواتین میں لاولدیت ایک طرح خاموش طرز احتجاج کا مظہر ہے۔ جاپان جہاں کہ ایک بچہ آزاد انقلاب راہ میں ہے برسرکار خواتین کے ساتھ تعاون تقریباً ناپید ہے(اگرچہ حال ہی میں یہ صورتحال بدلنا شروع ہوئی ہے۔) بچوں کی پرورش و نگہداشت ایک مہنگا کام ہے‘مرد مدد نہیں کرتے ہیں اور بعض کمپنیاں ماؤں کو کام پر لوٹنے کی سختی سے حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔
ایسی صورت میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ جاپان میں خواتین سوچتی ہوں کہ یہ اتفاق کی بات نہیں ہے کہ بچہ کے لیے جو جاپانی لفظ ہے اس کا تلف انگریزی کے لفظ Lonely (تنہا) جیسا ہے۔’’بچے پیار کے قابل ہوتے ہیں لیکن جاپان میں یا تو کیریئر ہے یا بچہ‘‘ یہ احساسات Kaori Haishi کے ہیں جنہوں نے بچہ نہ رکھنے کے اسباب (Reasons for not Having Baby) نامی کتاب تصنیف کی ہے۔ یہ صرف عورتیں نہیں ہیں جو بچوں کے بکھیروں سے آزاد رہنا چاہتی ہیں بلکہ ایک تازہ مطالعہ کے مطابق جاپانی مرد بھی شادی اور بچوں میں بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگرچہ اس کے پیچھے جو محرکات ہیں وہ بیشتر اقتصادی عوامل پر مشتمل ہیں۔ ماہرین خاندانی زندگی بسر کرنے سے متعلق عدم دلچسپی کا ذمہ دار ملازمت کے حوالے سے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ اور ملک کی اقتصادی سمت سے متعلق پائی جانے والی تشویش کو بتاتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دنیا کے اطراف میں یہ مرد ہی ہیں جو لاولدیت کے خلاف بڑھتے ہوئے ردعمل کی تحریک میں پیش پیش ہیں۔ سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں نے لاولدیت کے بڑھتے ہوئے وبائی مرض کے خلاف سختی سے متنبہ کیا ہے کہ یہ اقوام کی اخلاقی بنیادوں کو گھن کی طرح چاٹ جائے گا۔ انہوں نے بچوں سے آزاد رہنے کے رجحان کو ہی آبادی میں مستقل کمی‘ پنشن نظام کی تباہی اور ترکِ وطن کے رجحان میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیاہے۔ جاپان میں مبصرین نے ’’جرثومۂ تنہا‘‘ (Parasite Single) کی شناخت کرلی ہے جو معاشرے سے الگ تھلگ رہنے کو خاندانی زندگی کے آغاز کے ذریعہ معاشرے میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے بجائے ترجیح دیتا ہے۔ جرمنی میں جہاں کہ لاولدیت کی شرح سب سے اونچی ہے یعنی ۲۵ فیصد سب سے زیادہ بکنے والی کتب کی فہرست میں زیادہ وہی کتابیں ہیں جن میں آبادی کے خاتمے کے حوالے سے پیش گوئی ملتی ہے۔ کتاب ”Minimum” میں قدامت پرست مبصر Frank Schirrmacher لاولدیت کے بڑھتے ہوئے دائرے کی وہاں نشاندہی کرتا ہے‘ جہاں آبادی روز افزوں مائل بہ زوال ہے اور یہ کہ جب پہلے کی بہ نسبت بچوں سے زیادہ بے نیازی و بے رغبتی پائی جاتی ہے۔
میڈیا کی رپورٹ میں ایسی مسترد خواتین کو جو اپنے کیریئر سے محبت کرتی ہیں کی برائی کی گئی ہے۔ ایسے ہی ایک مضمون میں جسے غیر شادی شدہ اور بے بچوں والی چند خواتین کی تصاویر کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ان پر تنقید کی گئی ہے کہ وہ بچوں پراپنی ملازمت کو فوقیت دیتی ہیں۔ اس بات کو کبھی محسوس نہ کیجیے کہ جرمنی بچوں کی نگہداہشت کی فراہمی یا مردوں کی جانب سے گھر میں وقت دیئے جانے کے مقابلے میں ہمیشہ اپنے ہمسایہ ممالک کے پیچھے چلتا ہے۔ جرمنی سے روس تک اب اس چرچے میں اضافہ ہورہا ہے کہ لاولد لوگوں کے خلاف پابندیاں عائد کیا جانا چاہیے۔ سلوواکیا حکومت کی اقتصادی ترقی سے متعلق اسٹراٹیجک کونسل کے ایک اہم مشیر نے مارچ میں یہ تجویز پیش کی کہ غیر مقبول پیرول ٹیکس کی جگہ ۲۵ سے ۳۵ سال عمر کے لاو لد سلوا کیوں پر لیوی عائد کردی جائے۔ روس جہاں کہ ۸۰ء کی دہائی میں ۳ء۲ شرحِ پیدائش تھی گر کر آج ۳ء۱ ہوگئی ہے۔ وہاں ایک طاقتور تجارتی لابی نے مطالبہ کیا ہے کہ بچے نہ رکھنے والے جوڑوں سے انکم ٹیکس سرچارج وصول کیاجائے۔ جرمنی میں بہت سارے ماہرین اقتصادیات و سیاستدانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بغیر اولاد والوں کے حکومتی پنشن میں ۵۰ فیصد کمی کردی جائے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ پنشن متعارف ہی اس لیے ہوا تھا کہ یہ بزرگ شہریوں کے لیے انحصار ہر اولاد کا ایک متبادل ثابت ہو۔ یہ اقدامات ووٹرز اور میڈیا سے ہم آہنگ ہیں۔ چونکہ تمام ممالک میں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت صاحبِ اولاد ہے‘ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات عملاً معاشرتی پالیسی کے بھیس میں مڈل کلاس کے لیے ٹیکس کا دروازہ کھولے گا۔بہرحال معاملہ جو بھی ہو یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ بغیر بچوں والے افراد کے خلاف پابندیاں شرح پیدائش کے اضافے میں معاون ہوں گی۔ مثلاً جرمنی پہلے سے خاندانی مراعات (Family Subsidies) کے نام پر کافی رقوم خرچ کرچکا ہے اور بلیجیئم کے بعد یہ دوسرا ملک ہے جس نے لاولد فردِ تنہا (Single) پر سب سے زیادہ ٹیکس عائد کر رکھا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی شرح پیدائش میں اضافہ نہیں ہوا۔
ناقدین اور ماہرین مردم شماری کا کہنا ہے کہ بے اولادوں کو ہدف بنانا۔ ایک غلط اقدام ہے۔ مطالعہ در مطالعہ سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اصل مجرم خاندان کے حجم میں کی جانے والی کمی ہے۔ کم تر شرحِ پیدائش والے ممالک میں بچے نہ رکھنے والوں کا مطلب صرف ایک یا زیادہ سے زیادہ دو بچوں کا رکھنا ہے نہ کہ ۳ اور ۴ کا۔ جاپان اور اٹلی میں ۸۰ فیصد یا اس کے آس پاس عورتیں اب بھی صاحب اولاد ہیں لیکن نیا معاشرتی رجحان ایک بچے پر مشتمل فیملی کا ہے۔یہ بھی جدید ایک طرزِ زندگی رکھنے والوں کا انتخاب ہے۔
ماہرین سماجیات میکم کا کہنا ہے کہ انتہائی چھوٹی فیملی ہی ہوتی ہے جو آپ کو والدین اور سماجی توقعات سے فرار کا موقع دیتی ہے او رآپ کی طرز زندگی پر نہایت معمولی بوجھ ڈالتی ہے۔ ضرورت ہے کہ عوامی بحث ایک نیا اپروچ اختیار کرے۔ ماہر سماجیات حاکم کا کہنا ہے کہ جرمنی کی طرح کے ممالک لاولدیت کو جب وجۂ خفت قرار دیتے ہیں تو وہ شواہد کے خلاف رُخ اختیار کرتے ہیں۔ سنگاپور کے Wei siang Yuجو ’’ڈاکٹر محبت‘‘ کے عنوان سے معروف ہیں کی طرح عمل کرتے ہوئے لاولد جوڑوں کو رومانوی سفر پر بھیجنا بھول جایئے۔ حکومتوں کو پالیسی بدلنی چاہیے اور انہیں ایسے والدین کو ترغیب دینی چاہیے جو پہلے ہی سے ایک یا دو بچے رکھتے ہوں اور انہیں مزید کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔ انہیں فرانس سے سبق لینا چاہیے جس نے حال ہی میں بچوں کے لیے دی جانی والی مراعات میں اضافہ کردیا ہے تاکہ فی خاندان بچوں کی تعدادمیں تیزی سے اضافہ ہو او ریہ بڑھ کر تین یا چار ہوجائیں۔ اس تدبیر سے ممکن ہے عورتیں اپنی ازدواجی زندگی مزید پہلے شروع کرنے کے لیے آمادہ ہوجائیں۔
تولیدی صلاحیت میں ۳۵ سال کی عمرکے بعد تیزی سے کمی آتی ہے اس کے باوجود کہ ایسی نئی ٹیکنالوجی دریافت ہوئی ہیں جو نسوانی بیضہ کو تادیر فعال رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ وہ خواتین جو بچے جنتی ہیں ۱۹۷۱ء میں ایسے خواتین کے پہلے حمل کی اوسط عمر ۲۴ سال ہوا کرتی تھی جو کہ آج بڑھ کر ۳۰ سال ہوگئی ہے۔
ویانا انسٹیٹیوٹ فار ڈیمو گرافی کے مطابق ۳۰ سے ۴۰ کے درمیان یا اس سے ماورا عورتوں میں بچے جننے کا رجحان زور پکڑ گیا ہے۔ مثلاً یونان میں اوسط شرح پیدائش فی خاتون ۳ء۱ بچے ہیں لیکن جن عورتوں کی پیدائش ‘۱۹۶۰ء کی ہے تو اٹلی میں ایسے خواتین کے درمیان اوسط شرحِ پیدائش فی خاتون ۹ء۱ بچوں کی ہے۔ ۱۹۶۰ء کی تاریخ پیدائش والی عورتوں کی باقی دنیا میں فی خاتون شرحِ ۷ء۱ بچوں کی ہے جبکہ باقی ایج گروپ میں فی خاتون اوسط شرح پیدائش ۲ء۱ بچوں کی ہے۔ ۱۹۶۰ء کی پیدائش والی جرمن عورتوں میں فی خاتون شرح پیدائش ۴ء۱ بچوں سے بڑھ کر ۶ء۱ ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیر سے بچے جننے کی کیفیت کو لاولدیت پر محمول کرلیا گیا ہے لیکن تاخیر بڑی آسانی سے کچھ نہیں میں بدل سکتی ہے۔بہت سارے لاولد جوڑے لمبا وقت گزار کر بچے جنم دینا چاہتے ہیں۔ ویپانا انسٹی ٹیوٹ کے ڈیمو گرافر Thomas Sobotka کا کہنا ہے کہ صرف ایک تہائی جوڑے ایسے ہیں جو دانستہ طور پر لاولد زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح پہلے حمل کی اوسط عمر میں اضافہ ہورہا ہے اسی کے ساتھ ساتھ عمر بھر لاولد رہنے والے جوڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہور ہاہے۔ آج کے نوجوانوں کے سروے سے اندازہ ہوتا ہے ایک آئیڈیل فیملی سائز کو وہ مسلسل کم سے کم تر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے ممالک کی تعداد میں بھی زیادہ سے زیادہ اضافہ ہورہا ہے جہاں تولیدی صلاحیت مانند پڑتی جارہی ہے۔Sobotka کا کہنا ہے کہ ہمیں کوئی پتہ نہیں ہے کہ نیا توازن کہاں قائم ہوگا۔ اس کا انحصار یقیناً اس بات پر ہے کہ Eirini Petropulau جیسے لوگ اپنا حتمی ذہن کیا بناتے ہیں۔
۱۸ سے ۳۹ سال کے درمیان لاولد یورپیوں کے ایک سروے سے اولاد سے گریز کے درج ذیل محرکات سامنے آتے ہیں۔
48 فیصد | مستقبل کے حوالے سے تشویش |
---|---|
46 فیصد | کوئی مستقبل شریک حیات نہیں |
44 فیصد | موجودہ زندگی سے اچھی طرح لطف اندوز ہونا |
38 فیصد | اخراجات |
37 فیصد | زندگی سے لطف اندوز نہ ہونے پائیں گے |
33 فیصد | صحت سے متعلق تشویش |
33 فیصد | ٔملازمت کا دباو |
32 فیصد | فارغ اوقات کو ترجیح دینا |
25 فیصد | بہت زیادہ عمر ہوجانے کے سبب |
25 فیصد | سرے سے بچوں کی خواہش نہ ہونا |
لاولد عورتیں
غریب ممالک | امیر ممالک | |
---|---|---|
فیصد | ایج گروپ | فیصد |
8ء8 | 25-39 | 12ء7 |
7ء3 | 40-44 | 11ء00 |
7ء00 | 45-49 | 11ء6 |
(بشکریہ:’’نیوز ویک‘‘ ۴ستمبر۲۰۰۶ء)
Leave a Reply