بچے کسی بھی قوم اور ملک کا مستقبل ہوتے ہیں‘ یہی بچے آنے والے وقتوں میں اپنے ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنایا اور فلسطینی بچوں کو موت کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ جس میں اب تیزی آتی چلی جارہی ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ تحریکِ انتفاضہ کے ابتدائی ڈھائی سال کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے ۲۳۰۰ سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جس میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ خود اسرائیلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے بہت سے فلسطینی بچوں کی شہادت اس وقت واقع ہوئی جب مسلح اسرائیلی فوجیوں نے تصادم کے دوران فائرنگ کی۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بچے اس وقت شہید ہوتے ہیں جب وہ تصادم میں شریک ہوتے ہیں‘ حالانکہ اسرائیلی حکومت کا یہ بہانہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے کیونکہ سال ۲۰۰۲ء کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ۸۵ فیصد بچوں کی شہادتیں ہوئیں جبکہ وہ کسی تصادم یا مظاہرے میں شامل نہیں تھے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطین کی سرزمین خالی کرنے کے لیے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتی ہے اور جان بوجھ کر فلسطینی بچوں کو نشانہ بناتی ہے۔ بچوں کی ایک تنظیم ’’ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل‘‘ کے فلسطین سیکشن (DC1/PS) نے تحریکِ انتفاضہ کے پہلے تین ماہ کے دوران ۲۷ بچوں کی ہونے والی اموات کا تین مختلف ذرائع سے تقابلی جائزہ لیا۔ ان ذرائع میں اسرائیل اور یہودیوں کے ممتاز اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ کے عینی شاہدین کی رپورٹیں بھی شامل تھیں‘ اس تمام جائزہ سے یہ بات سامنے آئی کہ اسرائیلی فوجیوں نے جس وقت ان بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اس وقت فائرنگ کا کوئی تبادلہ نہیں ہوا۔ اس جائزہ کے دوران فلسطینی بچوں کی شہادت کی ایک وجہ سامنے آئی جو فلسطینی بچوں کو مکانوں کے ملبے تلے دب کر شہید کرنا تھی۔
اسرائیل کی سرکاری ملٹری رپورٹوں میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ اسرائیلی آرمی نے فلسطینی رہائشی علاقے پر بھی حملے کیے اور بہت سے بچے اس وقت شہید ہوئے جب اسرائیلی ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں نے شہری علاقوں میں اندھا دھند شیلنگ کی۔ اسرائیلی فوج نے بلڈوزروں‘ ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے مکانوں کے منہدم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو سال ۲۰۰۵ء کے آغاز میں سات بچوں کی شہادت یوں ہوئی کہ ان کے جسم گرنے والے مکانات کے ملبوں تلے دب گئے تھے اور یہ بچے ملبے تلے کچل کر شہید ہو گئے تھے۔ ایسے واقعات میں اب مزید اضافہ ہوا ہے اور ملبے تلے دب کر شہید ہونے والے بچوں کی تعداد سیکڑوں میں ہونے لگی ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی فوج نے ظلم و تشدد کی وجہ سے فلسطینی معیشت تباہ ہوتی چلی جارہی ہے جس کا سب سے بڑا اثر فلسطینی بچوں پر پڑ رہا ہے۔ سال ۲۰۰۲ء کے اواخر تک اقوامِ متحدہ نے کہا کہ فلسطینیوں کی ۷۵ فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اسی طرح جنوری ۲۰۰۳ء کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی پر بسنے والے ۹ء۵ فیصد بچے اور مغربی کنارے کے ۹ء۷ فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کے قد اور وزن میں کمی واقع ہو رہی ہے اور نشوونما متاثر ہوئی ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والے احباب نے اس صورتحال کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا جس نے اوچھے ہتھکنڈوں کی بنا پر فلسطینیوں کو جیتے جی موت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
فلسطین کی آبادی کا ۵۳ فیصد بچے ہیں اور سب اپنے بڑوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر کسی بچے کے والدین کو اسرائیلی فوجی شہید کر دیں یا پھر اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے والد بیروزگار ہو تو اس کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے علاوہ الخلیل‘ خان یونس اور غزہ شہر ایسے علاقے ہیں جہاں سب سے زیادہ غربت ہے اور اس کا اصل سبب فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری‘ کاروبار پر پابندی‘ نقل و حرکت محدود اور کرفیو کا آئے روز نفاذ ہے۔
اس دلدوز صورتحال کے علاوہ فلسطینی بچوں کا اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا ہے۔ ویسے تو یہودیوں نے عالمِ کفر کی مدد سے ۲۰۰۲ء میں ایک بلند اور طویل سیمنٹ کی دیوار تعمیر کرنا شروع کر رکھی ہے جو فلسطینیوں کی مقبوضہ زمین پر ہی تعمیر ہو رہی ہے۔ یوں فلسطینی ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جیسے وہ ایک بڑی جیل میں بند ہوں اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں قائم جیلوں میں سیکڑوں فلسطینی بچے آئے روز اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ فلسطینی بچوں کو جیلوں میں بند کرنے کا عمل ۱۹۶۷ء سے جاری ہے جس میں اب بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی معاونت کرنے والی تنظیم ’’حسام‘‘ نے پچھلے دنوں یہ انکشاف کیا کہ سیکڑوں فلسطینی بچے اسرائیل کی چار جیلوں میں قید ہیں اور انتہائی پریشانی کے عالم میں جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ قابض اسرائیل فوج آئے روز نئے حملوں اور چھاپوں کے دوران ۱۸ سال سے کم عمر بچوں کو پکڑ کر جیلوں میں قید کر رہی ہے جہاں ان پر بے پناہ تشدد کیا جاتا ہے اور انہیں بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ ان کے لیے بھیجی جانے والی امداد بھی ان تک نہیں پہنچائی جاتی۔ مڈل ایسٹ اسٹڈی ینٹر کی رپورٹ کے مطابق ۳۷۰ فلسطینی بچے جیلوں میں بند ایسی حالت میں ہیں کہ کسی وقت بھی وہ موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی پیش کردہ رپورٹس کے مطابق ۲۰۰۲ء میں جتنے فلسطینیوں کو جیلوں میں بند کیا گیا ان میں ۸۰ فیصد بچے تھے جب کہ ۲۰۰۳ء میں اسیر ہونے والے فلسطینیوں میں ۶۰ فیصد بچے ہیں۔ جیلوں میں بند ان بچوں پر تشدد کے لیے ایسے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں جو انسانیت کے لیے بھی باعثِ شرم ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی چارٹر میں درج بچوں کے حقوق کی بری طرح پامالی عمل میں آرہی ہے اور اسرائیل ان ظالمانہ ہتھکنڈوں کو قانون کا لبادہ پہنانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتا۔ ان جیلوں میں بند فلسطینی بچوں کو مارنے پیٹنے کے علاوہ کئی کئی دن بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے اور کئی بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی)
Leave a Reply