پاکستان سے برطانیہ، وہاں سے آسٹریلیا، آسٹریلیا سے امریکا، اور امریکا سے واپس پاکستان تک ایک ظالمانہ تعلیمی نظام مسلّط ہو چکا ہے، جو طالب علم کوعلم اورکتاب سے بیزار بلکہ متنفّر کیے دیتا ہے۔
گریڈ ون، ٹو میں پڑھنے والے ایک معصوم سے بچے کے روزمرہ کے معمول ملاحظہ ہوں:
۷:۵۰ پر اسکول گیٹ پر جلوہ گر ہونا ہے، ورنہ جرم پیشہ late comers کی لائن میں لگ جاؤ۔کبھی مائیں جاگے سوئے بچوں کو یونیفارم پہنا کر دروازے پر کھڑی وین میں ٹھونسے دیتی ہیں۔ جن کو اسکول پہنچ کر پے در پے ۸ پیریڈز لینا ہیں جن سے متعلق کتابیں اور کاپیاں بستے میں ٹھونس رکھی ہیں۔ اساتذہ پر کام کروانے اور ہفتہ وار سلیبس ختم کروانے کا جنون سوار ہے۔ اُدھر بیشتر بچوں پر کام سے پناہ مانگنے، اور ذہنی اور عملی فرار ہو نے کا جنون۔جھوٹ، بہانے بازیاں۔ ذہنی دباؤ اور فرسٹریشن۔
اس بھاری بستے کو دیکھو۔اٹھانے کے لیے ایک گدھا چاہیے!
مختصر سی بریک میں کھانے پینے تک کا ہوش نہیں، کہ بچہ موقع ملتے ہی بھاگنا اور کھیلنا چاہتا ہے۔لنچ باکس اکثر جیسا تیسا واپس آ جاتا ہے۔گھر سے کھا کر جانے کا ہوش نہیں رہا کہ بھوک محسوس نہیں ہوتی۔ اُدھر اساتذہ کا بھی یہی معمول ہے۔ چھٹی کے بعد گھر آکر بچوں نے ہوم ورک کرنا ہے۔ امتحان کے دنوں میں ان بچوں کی شکلیں دیکھیں تو چہرے کارنگ زردی مائل دیکھ کر ترس آجاتا ہے۔اکثر رٹا پر مبنی مواد دماغ میں ٹھونسا جا رہا ہے اور معصوم سی جان کو فیل ہونے کا خوف لاحق ہے۔ ماں باپ پڑھا نہیں سکتے تو ٹیوشن کا انتظام کررکھا ہے۔گویا اب شام کو پھر کلاسیں۔ پڑھائی الگ، نہ پڑھ سکنے پر نالائقی کے طعنے الگ۔ اور یہ معمول ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ایک سیشن ختم، تو دوسرا شروع۔نئی کتابیں، نئی کاپیاں، نیا عذاب!
کیا کوئی حل ہے؟
بس دیکھتے رہو، کڑھتے رہو،خون کے گھونٹ بھرتے رہو۔ یہ دنیا اب اسی طرح چلے گی۔
ایک روز شدتِ احساس میں ایک کاغذ لیا، اس پر کچھ لکیریں کھینچ کر، چند الفاظ انڈیل کر، پاس بیٹھے ایک دوست کی جانب میں جھک سا گیا۔
’’سر، یوں ہونا چاہیے۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا، آخر؟‘‘
’’اسکول صبح نو یا ساڑھے نو بجے کھلنا چاہیے۔ آپا دھاپی والے طوفانی انداز میں دن کا آغاز کرنے کے بجائے پُرسکون انداز میں گھروں سے رخصت ہوں‘‘۔
Why rush?
اسی طرح، ورکشاپ والے انداز میں، ۸۰ منٹس دورانیہ کی بس تین عدد کلاسیں ہوں۔ جن میں کوئی سے تین مضمون پڑھائے جائیں جن کے لیے استاد بولے کم اور ورک شیٹس پر خود بچوں کے ہاتھوں کیا کام زیادہ مقدار میں ہو جس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ان تین پیریڈز کے بیچ میں ہر مرتبہ آدھ گھنٹے کی بریک ہو۔ بچے بڑے ہوں یا چھوٹے، ان معصوم جانوں کو تازہ دم ہونے کا موقع ملے۔ وہ سکون سے کچھ کھا پی لیں۔ آخر دماغ ہے۔ اس کی استعداد ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد کچھ وقفہ مانگتی ہے۔
’’ہمایوں صاحب، آپ کی سوچ انقلابی ہے۔ مگر اس طرح کی غیر حقیقی باتیں سوچنے کا کوئی فائدہ! باہر آجائیں اس ’’یوٹوپین ورلڈ‘‘ سے۔ بس ایسا ہی چلنا ہے یہ سب کچھ‘‘۔ کولیگ نے آہ بھری۔
شب و روز پھر وہی معمول۔وہی جگر خراش مناظر۔ معصوم چہرے۔چھوٹے بچے، بڑے بچے، ان سے بڑے بچے۔ سب ایک سے معصوم۔ جلد باز۔ کھیلنے اور بھاگنے کے شوقین۔ ’’پڑھائی‘‘ کے بوجھ تلے دبے، طعنے سہتے، کسی انجانے خوف کا شکار۔ ’’کاش تم محنت کرو، اور پڑھائی کو سنجیدہ لو‘‘ کی تکرار۔
پھر وہی شام، وہی غم، وہی تنہائی ہے۔۔۔
وقت کی بے رحم موجیں۔ اور بے شعور،بے بس، برق رفتار، بے رحم نظام۔
دسمبر ۲۰۱۶ء کی سرما کی تعطیلات میں البتہ ایک روز دماغ میں کچھ عجیب جھماکا ہوا۔
ذرا دیکھا تو جائے، اس طوفان میں آیا کوئی ملک، کوئی علاقہ، کوئی بستی ایسی بھی ہے جہاں طلبہ کے لیے حالات مختلف ہوں؟
انٹرنیٹ پر جا کر گوگل کی انگلی تھام لی۔سرچ پر سرچ داغنے لگا۔ جذبہ اور امید یہ رہی کہ بقول شاعر
’’ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں‘‘
تلاش کے اس سفر میں بہت دور نہیں جانا پڑا۔ایک مقام، ایک ملک جلد ہی ہاتھ لگ گیا۔
میں تو جیسے اچھل پڑا۔
گوگل سرچ بار میں آغاز یوں کیا تھا: ’’دنیا کا بہترین نظام تعلیم‘‘، ’’دنیا کا اعلیٰ نظام تعلیم‘‘ وغیرہ۔
گوگل جلد ہی مجھے PISA Test میں ٹاپ اسکور کرنے والے ملکوں کی فہرست دکھا رہا تھا۔
PISA Test جس کا آغاز ۲۰۰۰ء میں ہوا، ہر تین برس بعد منعقد ہوتا ہے۔ یہ ہائی اسکول کی سطح کے بچوں کے مابین ریاضی، انگریزی اور سائنس کے مضامین میں مقابلے کا امتحان ہے۔اس کے رکن ملکوں کی تعداد ۷۲ ہو چکی ہے۔ ایک بار بھارت نے بھی اس میں شرکت کی، مگر چونکہ اس ٹیسٹ کا مواد مغربی ممالک کی اپنی مخصوص ثقافت سے میل کھاتا ہے، بھارت دوبارہ شامل نہیں ہوا۔
آگے سنیں
۲۰۰۰ء، ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۶ء میں PISA Test میں ٹاپ کرنے والاایک ایسا ملک سامنے آیا، جس کا نام بہت سے لوگ پہلے جانتے تک نہ تھے۔ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا وغیرہ اس فہرست میں خاصے دور کھڑے تھے۔بارہویں اور چھبیسویں نمبر پر۔ دنیا بھر میں شور مچ گیا کہ آخر اس چھوٹے سے، بے نام ملک کے تعلیمی نظام نے اپنے طلبہ میں ایسا کون سا فسوں پھونک رکھا ہے جو امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کے تعلیمی نظام کو مات کر گیا؟
بیدار دنیا کے ہوشمند، متجسس لوگ اس کا رخ کرنے لگے کہ دیکھا جائے آخر یہاں ایسا کیا ہو رہا ہے؟ اس ملک کے لوگوں سے جب پوچھا گیا کہ آپ اپنے بچوں کو کیسے تیار کرتے ہیں، تو وہ خود ہکا بکا نظر آئے۔
جواب ندارد۔’’ہم نے تو کوئی تیاری نہیں کرائی۔ بس بچے بھیج دیے تھے‘‘۔
اللہ اللہ، خیر صلّا!
دنیا اور بھی متجسس ہو گئی۔ آخر ان کا تعلیمی نظام ہے کیا؟ کیوں کر مختلف ہے، کن کن باتوں میں؟کن بنیادوں پر؟
خود اس ملک نے ایسی پذیرائی، تجسس اور سوالات کی بھرمار دیکھی تو ایک پورا شعبہ کھول ڈالا جو باہر سے آئے لوگوں کو آگاہی دے گا کہ ہمارا تعلیمی نظام کیا ہے، اور کیسے باقی دنیا سے مختلف ہے۔ (نیز خود بھی غورو فکر کرے گا کہ ہمارا نظام کیوں کر ’بہت اچھا‘ نظام ہے؟!!)
اسٹڈی شروع ہو گئی۔ جلد ہی سارے راز طشت از بام ہوگئے۔
سب سے بڑا راز یہی تھا: ’’ہم تو کچھ نہیں کرتے۔ کوئی تیاری نہیں کراتے‘‘۔
اگلوں نے چپہ چپہ کھوج ڈالا، مگر ’’عراق والے کیمیائی ہتھیار‘‘ بر آمد ہو کر نہ دیے۔ پتا چلا وہ لوگ واقعی کچھ نہیں کرتے۔ وہ ڈنڈا لے کر بچوں کا تعاقب نہیں کرتے۔ پیپر فارمیٹ پر کسی بھی امتحان کی تیاری کرانے، اکیڈمی کلاسز، ایکسٹرا کلاسز، ٹیوٹر وغیرہ کا وہاں نام و نشان تک نہ ملا۔
پھر وہ ایساکرتے کیا ہیں؟ یا ان کا نظام کیوں کر ایسا ہے کہ میٹرک تک پہنچنے والا بچہ خوش باش ہے۔ مطمئن ہے۔ لائق فائق ہے۔ خود اپنے احساس ذمہ داری سے پڑھتا، اور تعلیمی مراحل بصد شوق طے کرتا ہے؟
یہ فِن لینڈ ہے۔ یورپ کے شمال میں واقع سویڈن، ناروے اور روس کے بارڈر پر کسی ستارے کی مانند ٹمٹماتا ایک ننھا سا، جگنو سا ملک، جہاں کے تعلیمی نظام نے ایک دم شہرت پائی۔ جہاں کے تعلیمی نظام کو دنیا کا بہترین تعلیمی نظام قرار دیا گیا۔ اس نظام کو دنیا کا “most stress-free education system” ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
کیوں اورکیسے؟
یہ ایک فطری نظام ہے۔ جبر سے یکسر آزاد۔ کیسے؟
یہاں تعلیمی ادارے صبح نو بجے اور ساڑھے نو بجے کھلتے ہیں۔
۷۰منٹس کی، ورکشاپ کی طرز پر، تین اور زیادہ سے زیادہ چار کلاسیں جن کے درمیان ۳۵ منٹ کا وقفہ ہوتا ہے، جس میں بچوں کو دودھ اور فروٹ وغیرہ یعنی healthy food پیش کیا جاتا ہے تا کہ دماغی توانائی پھر سے بحال ہو۔ تب وہ خوب کھیلتے ہیں۔
پورے ملک میں ایک تعلیمی نظام ہے!
اساتذہ کا انتخاب انتہائی احتیاط سے کیا جاتا ہے اور استاد ہونا اس معاشرے میں قابل فخر ترین بات ہے۔ ہر برس شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے متمنّی حضرات و خواتین کی ہزارہا درخواستیں رد کر دی جاتی ہیں کہ انہیں شعبہ تدریس کے لیے ’فِٹ‘ تصور نہیں کیا جاتا۔
اساتذہ مثالی تنخواہیں اور دیگر مراعات رکھتے ہیں۔
یہاں کسی سالانہ یا ٹرمینل امتحان کا کوئی تصور نہیں۔ اسی لیے اسے most stress-free education system کا نام دیا گیا ہے۔
ثانوی یعنی میٹرک کی سطح پر جا کر بس ایک امتحان ہے، جس کے بعد ہر طالب علم کے لیے تین راستے کھلے ہیں:
چاہو تو ورک فورس میں شامل ہو جاؤ۔ کام کرو اور کمائی کرو۔ اگرچہ اس آپشن پر جانے والے بس ایک یا دو فیصدہی ہوتے ہیں۔
چاہو تو پیشہ ورانہ تعلیم دیتے اداروں میں داخلہ لے لو، اور دو چار سالہ تربیتی تعلیم کے حصول کے بعد ہنر مند بن کر کوئی پیشہ اختیار کرو۔
اور آپ پڑھاکو ٹائپ ہو تو کسی جامعہ میں داخلہ لے لو۔ ماسٹر، ایم فل، اور پی ایچ ڈی تک جا پہنچو۔
یہاں کا پرائمری سطح کا استاد خاص طور پر بڑی چھان پھٹک، متعدد انٹرویو اور اسکریننگ ٹیسٹوں کے بعد رکھا جاتا ہے۔ اسے بہر صورت ماسٹر ڈگری رکھنے والا ہونا چاہیے اور پیشہ ورانہ تعلیم سے آراستہ۔ خوش اخلاق اور ضبط و برداشت کی بے پناہ قوت لیے ہوئے۔تدریس کے لیے خاص و مطلوبہ مزاج کا حامل۔اس نے اپنے ماسٹر کے لیے بہر صورت تھیسز لکھا ہو، اور اس کی تحریری صلاحیت و قابلیت عمدہ ہو۔
مشہور ادارے او، ای، سی، ڈی کے مطابق یہاں کے اساتذہ بھی حد درجہ اسٹریس فری ہیں کہ سالانہ انہیں صرف چھ سو گھنٹے پڑھانا ہوتا ہے اور یومیہ زیادہ سے زیادہ چار کلاسیں لینا ہوتی ہیں اور اسکول و کالج کے اوقات کے بعد انہیں ٹیوشن پڑھا پڑھا کر مغز ماری کرنے اور گھر چلانے کے لیے آمدنی میں اضافہ کا کوئی تردد نہیں کرنا پڑتا۔
ثانوی درجے کے اساتذہ کے لیے یہ بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ اگر ایک استاد نے ۱۰ سے ۱۱ بجے تک والی کلاس لی ہے تو اسے اگلی کلاس نہ دی جائے، بلکہ ایک پیریڈ کے وقفہ کے بعد دی جائے۔
(جبکہ یہاں پاکستان سے لے کر برطانیہ اور امریکا تک گھنٹوں کی یہ تعداد دوگنی ہے، یعنی ۱۰۸۰ گھنٹے، اور یومیہ ۵ سے ۶ پیریڈ جو ہفتے میں کچھ روز تواتر سے بھی پڑھانا پڑتے ہیں۔)
یہاں، یعنی فِن لینڈ میں،ضروری نہیں ہر مضمون ہر روز پڑھایا جائے۔
ایک کلاس میں طلبہ کی تعداد ۱۵ سے ۲۰ ہو سکتی ہے، ۲۱ نہیں۔
استاد اور طالب علم پر نصاب مکمل کرنے کا کوئی دباؤ نہیں۔ کہ یہاں سرے سے کوئی ٹرمینل اور سالانہ امتحان ہی نہیں۔
پرائمری سطح پر ایک استاد پورے چھ برس اپنی کلاس کے بچوں سے منسلک رہتا ہے۔ انتظامیہ اور والدین اس استا داور بچوں پر پورا اعتماد کرتے ہیں۔ جبکہ استاد، والدین، انتظامیہ بچوں پر اور بچے اپنے استاد پر، اس کی رفتارِ کار پر۔ یوں یہ ایک دوسرے پر اعتماد کرنے والا معاشرہ ہے۔ کسی کو کوئی جلدی نہیں۔ کسی طالب علم کے لیے کوئی طعنہ نہیں۔فیل ہو جانے، شرمندہ ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ صرف حوصلہ افزائی ہے اور بس۔
جب حسنِ سلوک ایسا ہے تو بچے جب جب موڈ میں ہوں، یا صرف متاثر ہو کر دل و جان سے پڑھتے اور تعلیم و ہنر کی منزلیں مزے سے طے کرتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا کہ فِن لینڈ میں نصاب کا مواد بہت مختصر رکھا جاتا ہے۔ پانچویں سے دسویں جماعت تک کا جتنا نصاب باقی ممالک میں بچوں پر ٹھونسا جاتا ہے، وہ ایک صریحاً ظلم ہے۔ امریکا سے آئی ایک حساب کی استانی نے نوٹ کیا کہ فن لینڈ میں ۵ برسوں میں مکمل کرایا جانے والا مواد وہ اپنے ملک میں صرف ایک برس میں مکمل کرانے پر مجبور تھی۔ پھر کیا یہی وجہ ہے کہ امریکا میں ڈراپ آؤٹ ہو جانے والے بچوں کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جن کے لیے پھر الگ سے کمیونٹی کالج قائم کیے گئے ہیں، جہاں بچے اس ذہنیت کے ساتھ وقت گزارتے ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والے، سست رو، اور نکمے طالب علم ہیں۔ Kelly Day نام کی وہ امریکی استانی لکھتی ہے کہ فِن لینڈ کے نظام تعلیم کے مطابق یہ بھی ضروری نہیں کہ حساب ہر روز کیا جائے اور بے پناہ کیا جائے۔ فن لینڈ میں یہ تصور نہیں پا یا جاتا اور یہاں یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، کہ بوجوہ بچے حساب میں بہت اچھے ہیں۔
او،ای،سی،ڈی تنظیم کے مطابق فن لینڈ کے طلبہ کو سب سے کم ہوم ورک ملتا ہے۔ یہاں اکیڈمیز اور ٹیوٹر کا بھی رواج نہیں۔ ایک بچے کو زیادہ سے زیادہ آدھ گھنٹے کا ہوم ورک کرنا ہوتا ہے۔
امریکی استانی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ فن لینڈ کا ایک استاد دن بھر میں زیادہ سے زیادہ ۸۰ طلبہ سے رابطے میں آتا ہے۔ یعنی اگر اسے چار کلاسوں میں جانا ہے تو ہر کلاس میں ۲۰ بچوں سے ملاقات ہے۔ بس ان کے مسائل ہیں۔ انہی کا ہوم ورک وغیرہ۔ جبکہ وہ خود اپنے ملک میں ہر کلاس میں ۳۰ سے ۳۵ بچوں سے ہم رابطہ ہوتی، اور چھ لگاتار کلاسیں لیا کرتی ہے۔ ایک عجیب، جنونی سی دوڑ لگی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں اساتذہ اور طلبہ سال کے اختتام پر جل بُھن چکے ہوتے ہیں۔
کیلی لکھتی ہے اسٹرکچر نہیں، اعتماد کلید ہے۔ ’’فنش سوسائٹی‘‘ کے بجائے اس کے اسٹرکچر، قوانین، نوع بہ نوع ٹیسٹوں کی بھرمار کر دی جائے (اور ہنوز بہت سے طلبہ دلبرداشتہ ہو کر رہ جائیں، ناکام ہو جائیں)، نظام پر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے۔ سارے عمل کو خوشگوار اور سہل بنایا جائے تاکہ کوئی ناکام نہ ہو۔
ہم جانتے ہیں ایسی بیداری ہمارے یہاں آنے میں نہ معلوم کتنا وقت لے، تاہم اگر استطاعت رکھنے والے کچھ حضرات ساتھ دیں تو کم سے کم ایک ایسا ادارہ تو ضرور ہی بنایا جائے جسے ہم اپنی وزارتِ تعلیم کے روبرو بطور نمونہ رکھ سکیں۔ کیا کوئی درد مند خواتین و حضرات ایسے ہی ایک ماڈل کے قیام میں تعاون کر سکیں گے؟ اس پر بہ صد خلوص نہ صرف سوچ سکیں بلکہ عملاً اس کے اطلاق کے لیے کمر بستہ ہو جائیں؟
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
(اقبالؔ)
(بشکریہ: ’’دانش ڈاٹ کام‘‘۔ ۶ مارچ ۲۰۱۷ء)
I am a mother of four , belong to Pakistan, living in Riyadh
I totally agree with you . This was always my question in every PT meeting that why so much ??? For such small children .
I never put any stress on my children and tried to give them enough time to play and get relaxedand All four of them gave me good results Alhamdulillah .
Unfortunately we are forced to put our beloved ones in this race of insane .
I
Very true….pr kis tarah idara banaya jaye?? School walo ko koi samjhay….
ہوم سکولرز اس طرح کا کام بآسانی کرسکتے ہیں بلکہ کررہے ہیں۔
Dear All, aoa,
This is very sensitive issue, all stakeholders, govt, Edu deptt, Edu Institutions, parents and students; have to strive for change. In last 70 years we have reached to this point where school/college administrations charge students to facilitate them in exam halls. They will go to any extent to show their top performance.
Syllabii need to be reviewed, and all that is not needed, be truncated and material related to our history, cause, ethics, culture, science and languages need to be included.
Govt should commit for higher share for education in budget, empower Text Book Boards, avoid ‘foreign aid’ to sustain our edu deptt, because ‘who pays the bill takes the control’. One of the worst things, our previous govts did was allocation of quotas, to MPs in recruitment of School Teachers, patwaries, and police. Teachers recruited thru this route, were incapable but vocal and had support from their masters, so have derailed the whole system.
No doubt it is a challenging task, needs thorough discussion and sincere contribution from all stakeholders. IRAK.Pk should initiate the process.
Regards
Afzal