روزنامہ ڈان جولائی ۳۰ کے شمارے میں شائع شدہ مضمون “Pakistan in the US-China Cold War” میں مضمون نگار ابوالفضل کے بعض مشاہدات محلِ نظر ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ میں ان کے اس خیال سے ہرگز متفق نہیں ہوں کہ تمام جواں سال امریکی اپنے ملک کے دفاع کے لیے مرنے کو تیار ہیں۔ حقائق بالکل مختلف ہیں۔ جنگی صورتحال میں امریکا کی پالیسی بالکل نمایاں ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے آدمیوں کو ڈھال کے پیچھے رکھتے ہیں۔ کسی کا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ یہ حکمتِ عملی بالکل درست ہے۔ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ اپنی اسی مستقل پالیسی کی وجہ سے امریکی مسلح افواج میں بہادری جو کہ کسی سپاہی کے لیے ایک اہم وصف ہے‘ صفِ اول کے سپاہیوں میں مفقود ہو گئی ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ آج ان کے بیشتر سپاہی کوئی بڑی جنگ لڑنے سے عاجز ہیں۔ ہم عراق میں آج اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں جہاں صفِ اول کے سپاہی اپنی وطن واپسی کے لیے پریشان ہیں۔ کوئی بھی امریکی کاز کے لیے مرنے کا آرزومند نہیں ہے جیسا کہ مضمون نگار کا خیال ہے۔ اپنے ملک کے لیے جان نہ دینے کا جو رویہ لوگوں کا ہے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ سپاہی ہوں یا کوئی اور‘ اس کے پیچھے ایک دوسری وجہ وہاں کا سوشل اسٹرکچر ہے۔ امریکا میں خرمستیوں کا رجحان (happy life bubble) عام ہے۔ شاید ہی کوئی امریکی کبھی مرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتا ہے (ہماری مراد یہاں یورپی نسل کے سفید فام امریکیوں سے ہے)۔ چنانچہ جب انہیں فرنٹ لائن پر بھیجا جاتا ہے تو وہ وہاں سخت قسم کے ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا برداشت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس میں کوئی تعجب نہیں کہ تمام امریکی سپاہی خاردار تاروں کے پیچھے رہتے ہیں‘ اس کے باوجود وہاں خودکش حملہ آوروں کے لیے پہنچنا آسان ہوتا ہے جیسا کہ پچھلے دنوں ایک تنہا خودکش بمبار ان کے کھانے کی میز تک بہ آسانی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اگر مضمون نگار کا خیال یہ ہے کہ عام امریکی اپنے وطن کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں تو اس حوالے سے بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ہم گیارہ ستمبر کے واقعے پر امریکیوں کا ردِعمل دیکھ چکے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکی ٹرکوں میں ایک معمولی سا الارم بھی کسی بڑے پینیک کا سبب بن جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ امریکیوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اگرچہ امریکی بہت سارے ممالک کے ساتھ کھلی اور چھپی دونوں جنگ میں مصروف رہے ہیں اور ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا اصل مسئلہ داخلی ہے۔ جنہیں باہر کے ملکوں میں لڑنے کی خاطر بھرتی کیا گیا ہے‘ وہ باہر جاکر لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ صورتحال امریکا کے توسیع پسندانہ منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ ہے‘ جو دور دراز کے علاقے دریائے کوچک اور جنوبی ایشیا سے متعلق ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان اور بھارت‘ چین کے ساتھ ڈیل میں امریکا کی اہم مدد کر سکتے ہیں۔ امریکا چین کی جانب سے کسی بھی خطرے کے امکان کو معدوم کرنا چاہتا ہے‘ خواہ وہ یہ عسکری حوالے سے ہو‘ سیاسی حوالے سے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے لیے اسے ایسے دوست ممالک کی ضرورت ہے جو اپنے سپاہیوں کی قربانی دے سکتے ہوں۔
یورپ اس جھانسے میں نہیں آئے گا۔ پاکستان پہلے ہی امریکی کاز کے لیے اپنی قربانی کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ پہلے افغانستان میں اور پھر جنوبی وزیرستان میں۔ بھارت خطے میں بلکہ دنیا میں چین کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے (اگرچہ صرف نفسیاتی سطح پر)۔ امریکا نے اس چیز کو محسوس کر لیا اور بعض عملی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سیاق و سباق میں ابوالفضل کی رائے سے میں متفق نہیں ہوں یعنی ان کی اس رائے سے کہ ’’چین امریکا کے لیے کوئی براہِ راست خطرہ نہیں ہے۔ اس کے روایتی اسلحوں کی رسائی اس کی سرحدوں سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ اس کی بھاری صنعت دوسری عظیم طاقت سے کوئی موازنہ نہیں رکھتی‘‘۔
پہلی بات تو یہ کہ چین جوہری طاقت کا حامل ملک ہے۔ یہی ایک بات صرف کافی ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کو اس پر حملہ آور ہونے سے باز رکھے‘ خواہ فوری طور سے یا دائمی طور سے۔ جہاں تک روایتی اسلحوں کا تعلق ہے‘ تو جوہری اسلحوں کی موجودگی میں اس کی اہمیت بہت زیادہ نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں امریکا چین کے قریب نہیں آئے گا۔ لہٰذا چین کو روایتی فوج سے متعلق کوئی پریشانی نہیں ہے۔ دوسری جانب یہ کہ امریکی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کے لیے جو سب سے پریشانی کی بات ہے‘ وہ یہ کہ چینی معیشت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ چین جیسے مخالف کی معیشت کا طاقتور ہونا یقینا امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس پس منظر میں امریکا کو ایسے طاقتور حلیف کی سخت ضرورت ہے جو امریکا کا ساتھ جارحانہ طریقے سے دے سکے اور جب معاملہ خراب ہو تو اس کی بھرپور مدد کر سکے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ بھارت اس کردار کے لیے تیار ہے۔ دوسرے الفاظ میں بھارت امریکا کو موافق آتا ہے اور خطے میں اس کے عزائم کی تکمیل میں مدد دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس سیاق میں امریکا اور بھارت کا معاہدہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت بھی دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ ایک بہت ہی طاقتور ملک ہے۔ امریکا چین کو چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے‘ جنہیں بعد میں اتنا سنگین بنایا جاسکتا ہو جو چین کی پھلتی پھولتی معیشت کو پٹری سے اتار دے۔ اس مقصد کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کی مدد درکار ہے۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ امریکا اپنی ایپروچ میں اس قدر بے نیاز ہے کہ وہ اس قسم کا کوئی ڈیل بھارت کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ اگر چین کی معیشت اسی رفتار سے آئندہ دس سالوں تک ترقی کرتی رہی تو وہ امریکا کی معیشت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ ایک اچھی معیشت کا لازمی مطلب ہے کہ ایک اچھی فوج بھی ہو گی۔ جو لوگ بش انتظامیہ کی پالیسی سے مانوس ہیں ان کے لیے یہ ڈیل ہرگز قابلِ تعجب نہیں ہے اور یہ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جبکہ ہرچیز امریکیوں کے خلاف جارہی ہے۔ یہ ڈیل پہلے ہی پاکستان کی اہمیت کو کم کر چکا ہے۔ پھر پاکستان کہاں نمایاں ہو گا؟ ابوالفضل اس ڈیل کی وجہ سے پاکستان پر آنے والے امریکی دبائو کے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ اس دبائو کا سمجھنا بہت آسان ہے۔ امریکا صاف لفظوں میں پاکستان سے کہے گا کہ وہ ایران کے خلاف کارروائی کرے اور چین کو پاکستان میں اپنے منصوبوں کی تکمیل سے روک دے۔ یہ پاکستان پر دبائو ڈالے گا کہ وہ اپنی سرزمین سے بھارت جانے والی پائپ لائن کو نہ گزارنے دے۔ اس طریقے سے امریکا ایران کی اقتصادی ترقی کو مسائل سے دوچار کر سکتا ہے اور بھارت پر چین کے خلاف مزید اقدامات کے لیے دبائو ڈال سکتا ہے۔ اگر پاکستانی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بہرحال ایک بہت ہی خطرناک صورتحال ہے۔ اس سے قبل افغان جنگ کے دوران ہم نے دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے میں مدد دی‘ جس کی بنیاد پر روس کے لیے اور کوئی راستہ نہیں رہ گیا‘ سوائے اس کے کہ وہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے۔ سوویت یونین کے خاتمے کا مطلب تھا کہ دنیا میں اب صرف ایک سپر پاور ہے اور اس صورتحال سے جو مسائل پیدا ہوئے اسے ہم پہلے بھگت چکے ہیں۔ یہ وقت کی شدید ضرورت ہے کہ دنیا میں طاقت کئی ہاتھوں میں ہو۔ پاکستان دوبارہ دنیا کی اس معاملے میں مدد کر سکتا ہے جسے ۲۱ویں صدی کا عظیم کھیل تصور کیا جارہا ہے۔ ہمیں مکمل طور سے امریکی کیمپ میں نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے اپنے تلخ تجربات یہ بتاتے ہیں کہ امریکا ضرورت میں کسی کا ساتھی نہیں ہے۔ لہٰذا امریکا کی جانب سے ہمیں اگر کوئی جوہری ڈیل کی پیشکش ہو تو ہمیں اسے مسترد کر دینا چاہیے۔ ہم بہت زیادہ اسلحے رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے پاس جو اسلحے موجود ہیں‘ وہ اپنے دشمن (بھارت اور اسرائیل) کو نشانہ بنانے کے لیے کافی ہیں۔ ہمیں اس پر مزید خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سخت صورتحال میں ہم چین کی حمایت کو نہیں کھو سکتے۔ لہٰذا ہمیں کدھر جانا چاہیے؟ جہاں تک ممکن ہو ہم غیرجانبدار رہنے کی کوشش کریں۔ ہمیں چین کے ساتھ بہتر تعلقات کو برقرار رکھنا چاہیے۔ ہماری خارجہ پالیسی کا اہم منصوبہ یہ ہونا چاہیے کہ ایک کثیرالقطبی دنیا وجود میں آئے‘ نہ کہ یک قطبی دنیا۔ اس لحاظ سے ہمیں چین کو ایک دوسری عظیم طاقت بننے میں ضرور مدد دینی چاہیے تاکہ دنیا معمول کی حالت پرواپس لوٹے۔ ہماری دہلیز پر کسی سپرپاور کا ہونا ہمارے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اس صورت میں کوئی بھی ملک حتیٰ کہ بھارت بھی ہمیں پانی‘ گیس اور کشمیر جیسے مسائل پر آنکھیں نہیں دکھا سکتا۔ اس میں شک نہیں ہمارے بہت سارے منصوبوں کی تکمیل میں چین نے ہماری بھرپور مدد کی ہے۔ فی الحال یہ ہمارا گوادر پورٹ تعمیر کر رہا ہے۔ اگر ہم غیرجانبدار رہیں گے تو چین کو ہم اپنے ملک میں مزید تعمیر و سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں ہم طاقت کے توازن میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں‘ نہ ہی امریکا کو اور نہ ہی چین کو ہمیں یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ اپنے حق میں اور دوسرے کے خلاف ہماری خارجہ پالیسی کو متاثر کرے۔ اس عظیم کھیل میں پاکستان کو اپنے کردار کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور نئے زمینی حقائق کا سامنا کرنے کے لیے اپنی قوتِ ارادی اور آمادگی دکھانی ہو گی۔ ہمیں ایک دوسری سرد جنگ کے ابھرتے ہوئے خوف سے اب آزاد ہونا چاہیے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی۔ شمارہ۔ ۶ اگست ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply