جزائر کی ملکیت: چین اور جاپان تصادم کی راہ پر

جاپان اور چین کی تاریخ کئی باہمی رشتوں اور رنجشوں سے بھری پڑی ہے کیونکہ جغرافیائی لحاظ سے دونوں ممالک کے مابین پانی کی ایک تنگ سی پٹی حائل ہے، اس لیے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا ایک فطری بات ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات میں اُس وقت تیزی آئی، جب ۱۹۶۰ء کی دہائی میں روس اور چین کے تعلقات خراب ہوئے جس کی بنا پر روس نے اپنے تمام ماہرین واپس بلوا لیے اور ایسے میں چین کے پاس بہتر راستہ یہی تھا کہ وہ جاپان کی تکنیکی مہارت اور مستحکم مالی حیثیت سے استفادہ کرے۔ اس سلسلے میں پہلا بڑا قدم لیو ناگاساکی معاہدہ تھا، جس کی بدولت جاپان، چین کو صنعتی کارخانوں کی خرید کے لیے مالی معاونت دینے پر رضامند ہوا اور چین کو ٹوکیو میں اپنا تجارتی مشن کھولنے کی اجازت دی گئی۔

دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں اس وقت تیزی پیدا ہوئی جب ۱۹۷۲ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے عوامی جمہوریہ چین کا پہلی بار دورہ کیا۔ یہ دورہ اس وقت طے پایا جب اس وقت کے امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے پاکستان کے توسط سے بیجنگ جاکر باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے لیے نکسن کے دورے کا اہتمام کیا۔

جاپان کے اُس وقت کے وزیراعظم تاناکا کاکوئے نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بیجنگ کا دورہ کیا اور ستمبر ۱۹۷۲ء میں دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ مائوزے تنگ کی وفات کے بعد چین میں اقتصادی اصلاحات کا آغاز ہوا تو ٹوکیو اور بیجنگ کے تعلقات میں وسعت لانے کی مزید گنجائش پیدا ہوئی، کیونکہ اب چین میں نجی ملکیت کے کاروبار کو ترقی ملنے لگی تھی اور یوں جاپانی سرمایہ کاروں کے سرمایہ لگانے کے کئی شعبے پیدا ہوئے۔ جاپان اور چین کے مابین امن معاہدے کے لیے ۱۹۷۴ء میں بھی کوشش کی گئی تھی، لیکن کچھ شقوں پر اختلاف کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ شمالی تائیوان میں واقع سینکاکو جزائر پر اور ریوکیو جزائر کے جنوبی حصے پر بھی اختلاف تھا۔ چار سال بعد دونوں ممالک نے امن عمل کو ایک بار پھر بڑھایا اور ۱۲؍اگست ۱۹۷۸ء کو امن اور دوستی کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ چین کے ڈینگ ڈیائو پنگ اور جاپان کے وزیراعظم فوکوداتا کو نے اس معاہدے پر دستخط کیے اور یوں ایشیا کی دو بڑی طاقتوں کے مابین پرانی دشمنی دوستی میں بدلنے کی راہ ہموار ہوئی۔ مگر اب ایک بار پھر یہ دوستی جزائر کے معاملے پر آکر اختلافات میں ڈھلنے لگی ہے۔

گزشتہ دنوں سے جاپان اور چین پھر تصادم کی راہ پر چل پڑے ہیں، اس اختلاف کی وجہ مشرقی چینی سمندر میں واقع وہ جزیرے ہیں جن میں سے جاپان نے تین کو خرید لیا ہے۔ ان جزیروں کو ’’سینکاکو‘‘ جاپانی میں اور چین میں ’’دیالو‘‘ جزیرے کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ جزیرے ویتنام کے کوری بار، خاندان کی ملکیت تھے۔ جاپان نے ان کو باقاعدہ خریدا ہے، مگر مشرقی چینی سمندر میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ جزیرے متنازعہ حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ چین کے علاوہ تائیوان کو بھی یہ بات پسند نہیں آئی ہے۔ حالانکہ چین اور تائیوان کے درمیان بھی تعلقات کوئی مثالی نہیں ہیں مگر اس معاملے میں دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے ہیں۔

چین نے اس مسئلے کو اتنا سنجیدہ لیا کہ اس نے اپنی فوج ان جزیروں کے آس پاس بھیج دی۔ جاپان کو یہ بات ناگوار گزری، مگر وہ چین کے اس امر سے خوفزدہ نہیں ہے کیونکہ بے شک امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو جوہری بموں سے تباہ کر دیا تھا، مگر اب دونوں کے درمیان گہری دوستی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اقتصادی رشتے ہیں۔ امریکا اور جاپان کے درمیان اسٹریٹجک معاہدہ بھی ہے۔ اس معاہدے کے تحت جاپان پر اگر کوئی حملہ ہوتا ہے تو امریکا کو اس کی مدد کرنی ہی پڑے گی، اور یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے چین جاپان پر حملہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا دونوں کے درمیان جنگ چھڑنے کا تو کوئی امکان نہیں لیکن دونوں کے درمیان جو اختلاف چل رہا ہے اس کی وجہ سے دنیا میں بحران کا خطرہ بڑھے گا۔

چین دنیا کے دوسرے نمبر کی اقتصادی قوت ہے جبکہ جاپان تیسرے نمبر کی۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ٹھیک نہ ہونے کے باوجود اربوں ڈالر کا کاروبار ہر سال ہوتا ہے۔ جاپان کی کاروں اور الیکٹرانک اشیا سے چین کے بازار بھرے ہوئے ہیں۔ چین کی کار مارکیٹ میں جاپان کی حصہ داری ۶۰ فیصد کے قریب ہے۔ ان جزیروں کو لے کر دونوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ جاپان اور چین کے مابین متنازعہ جزائر کی ملکیت کا معاملہ اب تجارت پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے، چین میں ان دنوں جاپان مخالف جذبات ابھرے ہوئے ہیں، ایسے میں جاپانی موٹر ساز اداروں ’’ٹویوٹا، نسان اور سوزوکی‘‘ کا پیداواری عمل بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ چینی دارالحکومت بیجنگ میں ٹویوٹا کمپنی کے ذرائع نے بھی اس صورتحال کے تجارت پر پڑنے والے اثرات کی تصدیق کی ہے۔ ایک اعلیٰ کمپنی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آنے والے ہفتوں میں پیداوار کم کر دینے کا فیصلہ کر لیا جائے گا۔ کمپنی نے باضابطہ طور پر کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ تیسری جاپانی کمپنی سوزوکی نے واضح کیا ہے کہ چین میں دو شفٹوں میں سے ایک شفٹ ختم کر دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ امریکا جیسی منڈیوں میں موٹر ساز اداروں کا معمول ہے کہ تجارتی پالیسی کے تحت مختصر عرصے کے لیے پیداواری عمل روک دیا جاتا ہے، مگر چین جیسی ابھرتی ہوئی منڈی میں گاڑیوں کی پیداوار رُکنا غیر معمولی ہے۔ کیونکہ یہاں کھپت کی وسیع گنجائش نے موٹر سازی کی عالمی صنعت کو ایک مضبوط سہارا فراہم کر رکھا ہے۔ ماہرین کے مطابق چین میں جاپان مخالف جذبات کے سبب جاپانی گاڑیوں کی مانگ میں ۶۰ فیصد تک کمی ہو چکی ہے جس کے برعکس جرمن، امریکی اور کوریائی گاڑیوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ چینی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹویوٹا کمپنی گوانڈونگ صوبے میں پیداواری عمل کے دوبارہ آغاز پر ایک شفٹ ختم کرے گی، جہاں اس وقت ماہانہ بنیادوں پر تیس ہزار نئی گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔

ان جزائر کے بارے میں تنازعے کا آغاز ۱۹۷۰ء میں ہوا، جب اس خطے میں تیل اور گیس کے منبع کا انکشاف ہوا تھا۔ متنازعہ جزائر کے تنازعہ پر شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان جزائر کو جسے چینی ’’دیائویوئی دائو‘‘ کہتے ہیں کہ اپنی ملکیت ثابت کرنے کے لیے دو ہزار ماہی گیر ٹرالر بھی آگے بڑھے۔ چین کے سو سے زیادہ شہر جاپان مخالف مظاہروں کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ مظاہرین نے جاپان کے ریستورانوں اور دکانوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ جاپان کے کئی کارخانوں کو نذرآتش کر دیا گیا۔ کمپنی ’’کینن‘‘ کے کارخانے میں کام روک دیا گیا۔ چین میں چونکہ کمیونسٹ حکومت ہے، اس لیے وہاں کے عوام کو تحریکیں چلانے کی اجازت نہیں ہے مگر اس وقت احتجاج کو روکنا حکومت کے لیے ناممکن ہو گیا ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ چینی حکومت چاہتی ہے کہ ان جزائر کے حوالے سے چینی عوام کے جذبات و احساسات سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ جاپانی کارخانوں، شوروموں اور سفارت خانوں پر زبردست مظاہرے کیے گئے۔ یہ مظاہرے پُرتشدد بھی ہو گئے۔ ان مظاہروں کے دوران ایک جاپانی سفارتکار ’’سوسو کے جونو‘‘ بیجنگ میں پُرتشدد ہجوم کی سنگباری کی زَد میں آگئے۔ ابھی یہ مظاہرے مکمل طور پر تھمے نہیں، بس وقتی طور پر رُکے ہیں۔

چین میں متنازع جزیروں کے مسئلے پر جاپان مخالف مظاہروں کے بعد الیکٹرانک مصنوعات تیار کرنے والی جاپانی کمپنی نے اپنے بعض آپریشن بند کر دیے۔ چین میں ان مظاہروں کے دوران پیناسونک کمپنی کی دو فیکٹریوں پر حملے ہوئے۔ کیمرہ اور دیگر الیکٹرانک اشیا بنانے والی معروف کمپنی ’’کینن‘‘ نے بھی چین میں اپنی تین فیکٹریوں میں کام روک دیا۔ کاریں تیار کرنے والی کمپنی ٹویوٹا سمیت دیگر جاپانی کمپنیوں پر بھی حملے کیے گئے۔

چین نے گزشتہ دنوں ان متنازع جزیروں پر نگرانی کرنے والے چھ بحری جہاز بھی روانہ کیے تھے۔ مبصرین کے مطابق چین میں جاپان کے تجارتی مراکز پر حملے سے ملک میں جاپانی سرمایہ کاری کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق کم اجرت پر مزدوری کی دستیابی کی وجہ سے چین میں لوگ بڑی سرمایہ کاری کرتے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں چین نے مزدوری میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں چین کو جو ایڈوانٹج حاصل تھا اس پر منفی اثر پڑا ہے اور حالیہ احتجاجی لہر سے جاپان سرمایہ کاری کے لیے متبادل جگہوں کو تلاش کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کے پُرتشدد مظاہروں سے دونوں ملکوں کے تجارتی روابط متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے چین اور جاپان کے درمیان جاری تنازع کے بارے میں تنبیہ کی ہے کہ اگر اشتعال انگیز سرگرمیاں کم نہ کی گئیں تو یہ تنازع بڑھ کر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

چین اور جاپان کے درمیان مشرقی بحیرۂ چین کے جزائر پرملکیت کا تنازع ہے جس کا تیسرا دعویدار تائیوان بھی ہے۔ یہ جزائر اِس وقت جاپان کے کنٹرول میںہیں اور وہ چینی حکومت اور عوام پراپنے ازلی حق کا خوب پرچار کر رہے ہیں، اور خطے میں فوجی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا جارہا ہے، چین کے عوام بے حد قوم پرست ہیں، وطن سے محبت ان کی گھٹی میں شامل ہے، وہاں کی ہان برادری تو اپنے ملک کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ چین کے عوام کی وجہ سے ہی دنیا میں چین کا رتبہ بڑھا ہے۔ چین کے مقابلے میں جاپان کے شہری بھی قوم پرست ہیں۔ اپنے ملک کے لیے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ چین اور جاپان کے عوام کے درمیان ٹکرائو کا نقصان پورے ایشیا کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یہ جاپان کے سرمایہ، ہنر اور چین کے سستے لیبر کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا میں ایشیا کی معیشت کا طوطی بول رہا ہے۔

اگر حقیقتِ حال پر غور کیا جائے تو اس معاملے میں غلطی جاپان کی ہے کیونکہ اس نے یہ قدم جان بوجھ کر اٹھایا ہے۔ یہ جزیرے رہائش کے قابل نہیں جب یہاں شہری رہ نہیں سکتے، تو پھر ان کو خرید کر چین کے ساتھ معاملات بگاڑنے کی ضرورت کیا تھی۔ سچ یہ ہے کہ ان جزیروں کے قریب سمندر میں تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر بھاری مقدار میں موجود ہیں، اس لیے جاپان نے ان جزیروں کو خرید لیا۔ چین نہیں چاہتا کہ گیس اور تیل کا اتنا بڑا ذخیرہ جاپان کے قبضے میں جائے۔ جاپان کو یہ جزائر خریدنے نہیں چاہیے تھے، مگر دوسری طرف جب یہ جزائر نہ چین کی ملکیت تھے اور نہ جاپان کی تو پھر ان پر ملکیت کا دعویٰ تو باطل ہے۔

درحقیقت سمندری معدنی املاک کو لے کر اس وقت دنیا بھر میں تنازعات چل رہے ہیں لیکن ان دونوں ممالک کے درمیان تنازعات زیادہ طول اختیار کرتے چلے جارہے ہیں، معدنی تیل اور گیس کے حصول کے لیے ہاتھ پائوں مارنا سب کا حق ہے لیکن دنیا کی دو اقتصادی معیشتوں میں تصادم کی صورتحال عالمی امن کے لیے مزید بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے۔ تائیوان کو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔ اس کو اس معاملے میں غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ امریکا کو بھی جاپان کی حمایت کے بجائے غیر جانبداری کا راستہ اپنانا چاہیے۔

اپریل کے مہینے میں ان جزیروں پر تنازع اس وقت شروع ہوا تھا، جب ٹوکیو کے گورنر شنتا نے کہا کہ وہ عوام کے پیسے سے یہ جزیرہ خرید لیں گے۔ اس کے بعد جاپان نے ۳ جزیرے خریدنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے، جس کے بعد چین کی نگرانی کرنے والے چھ بحری جہاز ان متنازع جزیروں کے قریب پہنچ گئے۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے تصادم کی شکل اختیار کر گیا اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جاپان کے وزیراعظم یوشی ہی کونوڈا (Yoshihiko Noda) نے چین میں جاپان مخالف مظاہرے چھڑنے پر کہا کہ چین کی حکومت جاپان کے شہریوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرے، علاوہ ازیں چینی جہازوں کی جزیرے پر روانگی پر بھی اعتراض کیا، چین نے اس پر یہ موقف پیش کیا کہ یہ جہاز جزیروں پر قانون نافذ کرنے کے مقصد سے گئے تھے۔

جاپان کے وزیراعظم یوشی ہی کونوڈا (Yoshihiko Noda) نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے اور ادھر چین میں بھی ان جزائر کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی جارہی ہے۔ بہرطور یہ مسئلہ ٹھنڈے دماغ سے حل ہو سکتا ہے، غصہ اس معاملے کو مزید بھڑکا سکتا ہے، اس کو سلجھا نہیں سکتا۔ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کا آپس میں الجھنا عالمی امن کے لیے اچھا شگون نہیں۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ دہلی۔ ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*