ایران ہو یا سعودی عرب، چین کی موجودگی بخوبی محسوس کی جاسکتی ہے۔ تہران کی دکانیں چینی مال سے بھری پڑی ہیں۔ سعودی عرب نے ۲۰۱۰ء میں چائنا ریلوے کنسٹرکشن کارپوریشن کے ذریعے مکۂ مکرمہ میں مونو ریل کا منصوبہ مکمل کرایا۔ حج کے سیزن میں یہ منصوبہ کم و بیش ۲۸ لاکھ افراد کو سفر کی بہترین سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ ایران نے بھی چین سے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت چائنا ریلوے کنسٹرکشن کارپوریشن تہران سے عراقی سرحد تک ریلوے لائن تعمیر کرے گی۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد عرب دنیا کے سِرے سے وسطِ ایشیا کی سرحد تک رابطے کی سہولت فراہم کرنا ہے۔
چین کئی خطوں سے تیل اور گیس درآمد کر رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ بھی اس کے لیے تیل کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے مگر چینی قیادت نے پوری کوشش کی ہے کہ مشرق وسطیٰ کی کچھ اور حیثیت بھی ہو۔ چین علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی اہمیت منوانا چاہتا ہے۔ وہ اہلِ جہاں کو دکھانا چاہتا ہے کہ معاشی اعتبار سے اس کی قوت غیر معمولی ہے اور وہ اب اپنی حدود سے نکل کر دوسرے خطوں کو اپنے دائرۂ اثر میں لینا چاہتا ہے۔ چین کی قیادت مشرقِ وسطیٰ پر خاص توجہ دے رہی ہے تاکہ دنیا والوں کو معلوم ہو اور وہ اندازہ لگاسکیں کہ چین میں کتنی قوت ہے اور کس حد تک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتا ہے۔ چینی قیادت نے مشرقِ وسطیٰ سے تیل درآمد کرنے کا سلسلہ تو جاری رکھا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اس خطے میں اپنی قوت کا مظاہرہ بھی کر رہا ہے۔ یہ قوت عسکری نہیں، معاشی اور تکنیکی ہے۔ چین کے ماہرین مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک کو تیزی سے فروغ دینے اور مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، مصر اور کئی دوسرے ممالک میں چین کے ماہرین بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے اور دوسرے بہت سے شعبوں میں تکنیکی معاونت فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ جن خطوں میں معدنی ذخائر غیر معمولی ہیں، ان پر چین نے زیادہ توجہ دی ہے تاکہ اپنی معیشت کی تمام ضروریات کو بہت حد تک پورا کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ ممالک کے عوام کو بھی احساس دلایا جاسکے کہ چینی قیادت محض اقتصادی امور پر توجہ نہیں دیتی بلکہ اُن کی حقیقی ترقی بھی چاہتی ہے۔ افریقا میں چین نے یہی کیا ہے۔ کئی ممالک سے معدنیات نکالنے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے چین نے افرادی قوت کا معیار بلند کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین کے بارے میں تمام بڑے ماہرین اور اقتصادی و اسٹریٹجک امور پر نظر رکھنے والے ادارے یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ اگلی سپر پاور ہے۔ چین کی قیادت چاہتی ہے کہ ان کی سپر پاور والی حیثیت کا کچھ نہ کچھ اندازہ لوگوں کو مشرقِ وسطیٰ میں ہوجائے۔
تین عشروں کے دوران چین تیل کا سب سے بڑا صارف بن چکا ہے۔ غیر معمولی رفتار سے کی جانے والی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری نے چین کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ جب بھی چاہے، اپنی مرضی کی یعنی متوازن قیمت پر تیل خریدے یا خام تیل خرید کر صاف کرے۔ چین کی مستحکم اور متوازن معیشت نے تیل، گیس اور معدنیات کی دولت سے مالا مال کئی ممالک بلکہ خطوں کو اس بات کی تحریک دی ہے کہ وہ چین سے معاملات طے کریں تاکہ انہیں اپنے مال کی وہی قیمت ملے جو وہ چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ قدرے استحکام بھی حاصل ہو۔ اس وقت چین یومیہ ۶۰ لاکھ بیرل خام تیل درآمد کر رہا ہے۔ ۲۰۴۰ء تک چین کی توانائی کی طلب میں ۷۰ فیصد اضافے کی توقع ہے۔ یعنی تب تک چین امریکا کے مقابلے میں دگنی توانائی صرف کر رہا ہوگا۔
چین توانائی کے حصول کے لیے وسطِ ایشیا اور دیگر خطوں کی طرف بھی دیکھ رہا ہے مگر اب تک اس کا انحصار سب سے زیادہ مشرقِ وسطیٰ پر ہے۔ ۲۰۲۰ء تک چین اپنی ضرورت کا ۷۰ سے زائد تیل مشرقِ وسطیٰ سے درآمد کر رہا ہوگا۔ کئی برسوں کے دوران مشرقِ وسطیٰ سے چین کے لیے تیل کی برآمدات میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب اس وقت چین کی تیل کی ۲۰ فیصد ضرورت پوری کر رہا ہے۔ انگولا اور ایران ۱۰، ۱۰ فیصد ضرورت پوری کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی پابندیوں کی تھوڑی بہت حمایت نے بھی چین اور ایران کے تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ایران توانائی کے شعبے میں چین کی ضرورت ۱۶ فیصد کی حد تک پوری کر رہا تھا۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس وقت چین ایندھن کے معاملے میں مشرق وسطیٰ پر غیر معمولی انحصار کر رہا ہے مگر یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ چین نے توانائی کے معاملے میں مشرقی وسطیٰ کو بنیادی سہارا بنانے کی کوششیں عشروں پہلے شروع کردی تھیں۔ ۱۹۸۳ء میں چین کی معیشت نے بھرپور کامیابی کی طرف سفر شروع نہیں کیا تھا مگر تب بھی منصوبہ بندی کے محاذ پر چین آگے تھا۔ چائنا نیشنل پٹرولیم کارپوریشن نے کویت میں تیل ذخیرہ کرنے کی ایک تنصیب کا ٹھیکہ حاصل کرنے کی کوشش کی اور ۱۹۹۵ء میں یہ ٹھیکہ حاصل کرلیا۔ اس کے بعد سعودی عرب سے چین کے تعلقات میں گہرائی اور گیرائی آئی۔ اب سعودی عرب ہی چین کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے عوض چین نے سعودی عرب کو تیل صاف کرنے کے حوالے سے غیر معمولی تکنیکی معاونت فراہم کرنا جاری رکھا ہے۔ چائنا پٹرولیم اینڈ کیمیکل کارپوریشن نے سعودی آرامکو سے ایک ارب ۲۰کروڑ ڈالر کی لاگت سے چین کے شہر گنگڈو میں تیل صاف کرنے کا کارخانہ قائم کرنے سے متعلق مذاکرات کیے ہیں۔ دونوں ممالک چین کے صوبے فوجیان میں بھی تیل صاف کرنے کا ایک بڑا کارخانہ لگانا چاہتے ہیں جس کی مجموعی لاگت ساڑھے تین ارب ڈالر ہوگی۔
چین نے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی تعلقات بہتر رکھے ہیں۔ ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے حوالے سے چین کا رویہ زیادہ سخت نہیں رہا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ توانائی کے معاملے میں چین حقائق پر مبنی پالیسی اختیار کرتا ہے کہ کسی بھی ناگہانی صورت حال میں کوئی بڑا بحران پیدا نہ ہو۔ جن خطوں میں توانائی کے ذرائع زیادہ تناسب سے موجود ہیں ان پر چین کی زیادہ توجہ ہے۔
تیل سے کچھ بڑھ کر
تیل کے معاملے میں چین اور مشرق وسطیٰ کا گٹھ جوڑ کچھ اور کہانی بھی سناتا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی معاونت سے اپنی اقتصادی برتری کے حصول کی خواہش پوری کرے۔ چین نے دیگر خطوں کی طرح مشرق وسطیٰ سے بھی تجارت کے ذریعے اپنے مراسم گہرے کیے ہیں تاکہ مزید تعاون کی راہ ہموار ہو۔ ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۹ء کے دوران مشرق وسطیٰ سے چین کی تجارت میں ۸۷ فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد یہ ۱۰۰؍ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور ۲۰۱۲ء میں تجارت کا حجم ۲۱۲؍ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ ۲۰۱۰ء میں مشرق وسطیٰ کے لیے چین کی برآمدات امریکی برآمدات سے زیادہ تھیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے چین عام طور پر کم لاگت کی ایسی اشیاء برآمد کرتا ہے جو کم آمدنی والے افراد بھی اپنے گھروں میں بروئے کار لاسکتے ہیں۔ مصر کی مثال بہت واضح ہے۔ بیشتر مصری اب چین کی کم لاگت کی کاریں رکھنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کی ناکہ بندی سے تنگ آئے ہوئے غزہ کے شہری بھی چین کی سستی اشیاء کی مدد سے اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں چین کی سرمایہ کاری بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ۲۰۰۵ء میں یہ سرمایہ کاری ایک ارب ڈالر تھی جو ۲۰۰۹ء تک ۱۱؍ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ ۲۰۰۵ء سے ۲۰۱۲ء کے دوران ایران میں چین نے کم و بیش ۱۸؍ارب ۶۰ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ان میں ۱۳؍ارب ۹۰ کروڑ ڈالر توانائی کے شعبے میں، ۲؍ارب ۱۰ کروڑ ڈالر ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں اور ۲؍ارب ۸۰ کروڑ ڈالر دھاتوں کے شعبے میں لگائے گئے ہیں۔ چین نے سعودی عرب میں ۱۳؍ارب ۶۰ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ان میں سے ۵؍ارب ۲۰ کروڑ ڈالر دھات، ۳؍ارب ۳۰ کروڑ ڈالر توانائی، ۲؍ارب ۲۰ کروڑ ڈالر ریئل اسٹیٹ اور باقی ٹرانسپورٹیشن اور دیگر شعبوں میں لگائے گئے ہیں۔ چین نے ترکی میں ۶؍ارب ۴۰ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں سے ۴؍ارب ۳۰ کروڑ ڈالر توانائی کے شعبے میں لگائے گئے ہیں۔ ایران اور عراق میں سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار چین ہے۔ افریقا کی طرح اب مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے بھی بڑے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے چینیوں کو دینا شروع کر دیے ہیں۔ مصر نے نہر سوئز سے متصل اقتصادی زون کی تعمیر و ترقی میں بھی چین سے بھرپور مدد لی ہے۔ افریقا اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے اپنے ہاں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی چین سے غیر معمولی معاونت پائی ہے مگر حقیقت اب بھی یہی ہے کہ ان خطوں میں چین کے سرمائے کا غالب حصہ توانائی کے شعبے میں ہے۔
ایشیا اور یورپ کے درمیان دروازے کا کردار ادا کرنے والے دبئی پر چین نے بھی توجہ دی ہے اور اس کی تجارت کا بڑا حصہ دبئی کی معیشت سے وابستہ ہے۔ ۲۰۰۹ء تک چین اور متحدہ عرب امارات کی تجارت کا حجم ۲۱؍ارب ڈالر تھا۔ ۲۰۱۳ء میں یہ حجم ۴۰؍ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ ۲۰۱۵ء تک یہ حجم ۱۰۰؍ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ دبئی انٹر نیشنل فنانس سینٹر کے مطابق ۲۰۱۱ء تک ۲۳۰۰ چینی کمپنیوں نے رجسٹریشن کرائی تھی۔ کاروبار اور تجارت کی غرض سے کم و بیش دو لاکھ چینی متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر ہیں۔ انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا سمیت تمام بڑے چینی بینکوں نے متحدہ عرب امارات میں شاخیں قائم کر رکھی ہیں۔ متحدہ عرب امارات پہنچنے والی ۷۰ فیصد سے زائد چینی برآمدات وہاں سے ایران، سعودی عرب اور دیگر نزدیکی منازل تک روانہ کی جاتی ہیں۔ دبئی کے جبل علی فری زون میں چین کی ۱۷۰ سے زائد کمپنیوں کے دفاتر اور گودام ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں اس جبل علی فری زون سے چین کی تجارت ۱۱؍ارب ڈالر تھی جو اس زون کی مجموعی تجارت ۸۲؍ارب ڈالر کا ۱۴ فیصد تھی۔
چین نے مشرق وسطیٰ میں تیل سے ہٹ کر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی رفتار تیز کردی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خطے میں اُس کے اثرات کتنی تیزی سے وسعت اختیار کر رہے ہیں اور مضبوط بھی ہو رہے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے اور ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں بھی چین نے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلانا شروع کردیا ہے۔ کئی ممالک کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور بڑے پیمانے پر ٹرانسپورٹیشن سے متعلق سہولت فراہم کرکے اپنی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔
چین نے بھرپور کوشش کی ہے کہ توانائی کے شعبے سے ہٹ کر بھی بنیادی شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ کئی ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ نقل و حمل کے ذرائع کو فروغ دینے میں بھی چین کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقا کے متعدد ممالک میں چین نے مختلف شعبوں میں متوازن سرمایہ کاری کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ مغربی طاقتوں کے لیے یہ سب کچھ بہت حد تک حیرت انگیز ہے کیونکہ اب تک کسی اور ملک نے اتنے بڑے پیمانے پر خود کو منوانے کی کوشش نہیں کی۔
چین نے اسلامی دنیا میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔ وہ تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ ہاؤسنگ، بنیادی ڈھانچا اور دیگر شعبوں میں بھی اپنی اہمیت متعلقہ ممالک پر اجاگر کر رہا ہے۔ ایران سے بھی اقتصادی تعاون بڑھانے پر چینی قیادت نے خاص توجہ دی ہے۔ مکۂ مکرمہ، مدینہ منورہ، نجفِ اشرف، کربلائے معلیٰ، قم اور مذہب کے حوالے سے اہمیت رکھنے والے دیگر شہروں میں چین کی بہت سی مصنوعات اہلِ ایمان میں مقبول ہیں۔ چین ڈجیٹل قرآن، مشینی تسبیح، جا نماز، اسکارف، نقاب اور دیگر بہت سی مصنوعات تیار کر رہا ہے جن میں مسلمان غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔
اسلامی دنیا میں پائے جانے والے کسی بھی بحران کے حوالے سے چین نے غیر معمولی اعتدال کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیبیا، عراق اور شام کے معاملے میں چینی قیادت کا رویہ متوازن رہا ہے تاکہ کوئی بھی فریق جانب داری کا الزام عائد نہ کرسکے۔ شام کے پناہ گزینوں کے لیے اردن میں چین نے طبی سہولتوں کا اہتمام بھی کیا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مسلح تصادم کے حوالے سے بھی چین قدرے غیر جانب دار رہا ہے اور فریقین کی نظر میں اس کے لیے برابر کا احترام ہے۔
۲۰۰۲ء میں قائم کیے جانے والے دی چائنا عرب اسٹیٹس کوآپریشن فورم کے ذریعے چین نے عرب دنیا میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے پر توجہ دی ہے۔ مصر سمیت کئی ممالک میں چینی زبان، ادب اور ثقافت کی تعلیم دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۹ء کے دوران عرب دنیا کے ۲۰۰ نوجوانوں نے چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ چند نئے معاہدوں کے نتیجے میں چینی سیاحوں پر عرب دنیا کے دروازے کھلے ہیں۔ چین کے سیاح نسبتاً پرسکون عرب ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ مصر میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے قبل کم و بیش ۶۵ ہزار چینی سیاحوں نے وہاں کا رخ کیا تھا۔ متحدہ عرب امارات میں چینی سیاحوں کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے جو کسی بھی ملک کے سیاحوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ہر سال پندرہ ہزار سے زائد چینی حج کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چین محض اقتصادی امور پر توجہ نہیں دے رہا بلکہ اس نے تعلقات کے ثقافتی پہلو کو بھی نظر انداز کرنے سے گریز کیا ہے۔
مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا سے چین کا تجارتی اور ثقافتی تعلق بہت پرانا ہے۔ شاہراہِ ریشم کی معرفت چین کا مال ان خطوں کی منڈیوں تک پہنچتا تھا اور ان خطوں کا مال چین تک پہنچایا جاتا تھا۔ چین نے توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ان خطوں سے اپنے روابط کو مزید وسعت دی ہے۔ پائپ لائنیں بچھانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ گرڈ بھی قائم کیے جارہے ہیں۔ سیاسی اور اسٹریٹجک نقطۂ نظر سے بھی چین کے ان خطوں سے تعلق میں مزید گہرائی اور گیرائی پیدا ہوئی ہے۔
چین نے قیادت کا جو انداز اپنایا ہے وہ بھی جنوبی ایشیا، وسطِ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے لیے بہت پُرکشش ہے۔ کئی ممالک چین کی بھرپور ترقی سے متاثر اور اُسے نمونہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ چین کی ترقی کا بلند ہوتا ہوا گراف کئی خطوں کو اس بات کی تحریک دے رہا ہے کہ وہ بھی چینی قیادت کے طے کردہ راستے پر چلیں اور تیزی سے اپنے وجود کو منوائیں۔ چین مسلم دنیا سے اپنے تعلقات کو محض تجارت اور سرمایہ کاری تک محدود نہیں رکھنا چاہتا۔ وہ علم و فن اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کی راہیں بھی تلاش کر رہا ہے۔ وہ سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے اپنی پوزیشن کو نقصان پہنچائے بغیر کئی خطوں سے اقتصادی روابط بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سفارتی سطح پر بھی چین کی پالیسیاں متوازن ہیں اور اب تک کسی بھی خطے نے کسی بڑی نا انصافی یا غلط رویے کی شکایت نہیں کی ہے۔ چین کی سوچ یہ ہے کہ اقتصادی امور کے ساتھ ساتھ ثقافت کے میدان میں بھی تعلقات کو وسعت دی جائے تاکہ معاملات خوش اُسلوبی سے چلتے رہیں۔ مشرق وسطیٰ وہ خطہ ہے جس میں چین کا تیزی سے ابھرنا محسوس کیا جاسکتا ہے۔
“China and the Middle East: More than Oil”. (“eurasiareview.com”. March 2, 2014)
Leave a Reply