
ویسے تو امریکی بالا دستی کے لیے اور بھی کئی خطرات ہیں تاہم جو خطرہ واضح طور پر ابھر رہا ہے وہ چین ہے اور امریکی بھی چین کے عزائم کا باریکی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کے تھام شنکر نے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے ۱۳؍ اگست کو ایک رپورٹ میں اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ چین اپنی عسکری قوت کا کچھ اس طرح اطلاق کر رہا ہے کہ امریکا کے لیے بین الاقوامی پانیوں میں جنگی جہازوں کی نقل و حرکت مشکل ہوتی جارہی ہے۔ امریکا کو اس بات سے بجا طور پر پریشانی لاحق ہے کہ چین اپنی عسکری قوت، عزائم اور حکمت عملی کے بارے میں کھلی پالیسی اپنانے سے واضح گریز کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بڑے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ امریکا اپنے عسکری عزائم کے معاملے میں کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رکھتا۔ چین سے ملحق سمندر اور دیگر خطوں میں اس کی پالیسی واضح ہے۔
امریکا اپنی عسکری قوت کو دوسروں پر ظاہر کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا۔ دنیا بھر میں سیکڑوں امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔ امریکی دفاعی یا جنگی بجٹ دیگر تمام ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ تباہی اور اجارہ داری کی ٹیکنالوجی میں بھی امریکا نے غیر معمولی پیش رفت کی ہے۔
جولائی میں امریکا نے جنوبی کوریا کے ساتھ جنگی مشقوں کے دوران جوہری قوت سے چلنے والے طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس واشنگٹن کے ساتھ شرکت کی خواہش ظاہر کی تو چین نے یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا کہ امریکا اس کے دارالحکومت کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کے حامل جہاز کے ساتھ آ رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چین بین الاقوامی امور کے معاملے میں کس حد تک محدود سوچ رکھتا ہے۔ دوسری جانب امریکا اس بات کو سمجھتا ہے کہ اس نوعیت کے تمام آپریشنز اس کی اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں لفظ ’’استحکام‘‘ کا بنیادی مفہوم امریکی بالا دستی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب مشہور جریدے فارن افیئرز کے سابق ایڈیٹر جیمز چانس نے ۱۹۷۳ء میں جنوبی امریکا کے ملک چلی میں ’’استحکام‘‘ پیدا کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے چِلی کی منتخب حکومت کے سربراہ سلواڈور ایلنڈے کو برطرف کرکے ڈکٹیٹر آگستو پنوشے کی حکومت کی راہ ہموار کرنے کے بارے میں لکھا تو کسی نے توجہ دینے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ پنوشے کی حکومت نے مخالفین کو کچلنے کے معاملے میں جبر کی انتہا کردی۔ ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہوا اور تمام حقوق چھین لیے گئے۔ جبر کے اس نظام نے چلی میں کئی آمر حکومتوں کے لیے ماحول سازگار بنادیا۔ ان حکومتوں کو امریکا کی حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی۔
اس حقیقت کو اب ایک معمول کی حیثیت سے قبول کرلیا گیا ہے کہ امریکی سلامتی کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے تمام معاملات پر مکمل کنٹرول ناگزیر ہے۔ ییل یونیورسٹی کے جان لیوئس گیڈس نے اپنی کتاب ’’سرپرائز، سیکورٹی اینڈ امریکن ایکسپیریئنس‘‘ میں سابق صدر جارج ہربرٹ بش کی پیشگی حملوں کی پالیسی کا مفہوم پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ گیڈس نے لکھا ہے کہ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے وسعت ناگزیر ہے۔ اس نظریے کو انہوں نے دو سو سال قبل امریکی صدر جان کوئنسی ایڈمز کے ہاں بھی تلاش کیا ہے جنہوں نے غیر معمولی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’مینی فیسٹ ڈیسٹینی‘‘ تحریر کی تھی۔ گیڈس لکھتے ہیں کہ جب جارج بش سینئر نے کہا کہ امریکیوں کو اپنی سیکورٹی یقینی بنانے کی خاطر پیشگی حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے تو وہ کوئی نیا نظریہ پیش نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک ایسے نظریے کو نئی زندگی بخش رہے تھے جسے جان کوئنسی ایڈمز سے ووڈرو ولسن تک تمام امریکی صدر اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ولسن کے بعد کے تمام صدور نے بھی یہی کیا۔ بل کلنٹن اس تصور کے حامل تھے کہ دنیا کی مارکیٹوں تک رسائی کے لیے امریکا کو طاقت کے بھرپور استعمال کا حق حاصل ہے اور اس معاملے میں سیاق و سباق پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ بل کلنٹن کی کابینہ میں وزیر دفاع ولیم کوہن کا کہنا تھا کہ امریکا کو یورپ اور ایشیا میں اپنی افواج اگلے مورچوں پر رکھنی چاہئیں تاکہ وہاں کے لوگوں کے امریکا سے متعلق تصورات کو متاثر کیا جاسکے امریکی معیشت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے میں مدد مل سکے۔ عسکری مؤرخ اینڈریو بیسیوچ نے لکھا ہے کہ مستقل جنگ کے نظریے کو سابق امریکی صدر جارج واکر بش نے مزید آگے بڑھایا اور اب صدر بارک اوباما بھی اسی پر عمل کر رہے ہیں۔
ہر مافیا ڈان جانتا ہے کہ طاقت کو برقرار رکھنے میں معمولی سی بھی ناکامی تسلط کے خاتمے اور دوسروں کی اجارہ داری کے قیام پر منتج ہوتی ہے۔
پینٹاگون نے تخمینہ لگایا ہے کہ چین نے ۲۰۰۹ء میں دفاعی بجٹ کی مد میں ۱۵۰ ارب ڈالر خرچ کیے جو اس سال افغانستان اور عراق میں امریکا کی جانب سے جنگوں پر خرچ کی جانے والی رقم کا محض پانچواں حصہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ امریکا کے مجموعی دفاعی بجٹ کے مقابلے میں تو یہ کچھ بھی نہیں۔
امریکا جس طرح عسکری اور معاشی طور پر پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے اس کے پیش نظر چین کی سرگرمیاں امریکا کے لیے واقعی پریشان کن ہیں۔ یہ سب کچھ اس مفروضے کے تناظر میں ہے کہ امریکا کو کسی بھی رکاوٹ کے بغیر دنیا پر حکمرانی جاری رکھنی چاہیے۔ اور ہر وہ ریاست امریکا کی آنکھوں میں کھٹکے گی جو اس کے بین الاقوامی عزائم کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہی ہوگی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کے مرتب کرنے والوں نے مغربی نصف کرّے کے علاوہ دیگر خطوں کے بڑے حصوں کو بھی امریکی بالا دستی میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی شروع ہوچکا تھا۔ مشرق بعید کے علاوہ سابق برطانوی سلطنت کے علاقے بھی امریکا کو زیر نگیں کرنے تھے۔ مشرق وسطیٰ میں توانائی کے ذخائر پر بھی امریکا کو کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران روس نے جب نازی افواج کے سامنے زیادہ طاقت کا مظاہرہ نہ کیا تب امریکا کو اندازہ ہوا کہ اب اس زیر اثر خطوں میں یوریشیا کو بھی شامل ہو جانا چاہیے۔ یورپ نے اپنے لیے محدود علاقہ چن لیا تھا اور اسے امریکی اثرات سے قدرے محفوظ رکھنے کے لیے معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم تشکیل دی گئی۔ اب نیٹو کے لیے امریکی اثرات کا سامنا کرنا مزید بڑا چیلنج ہوگیا ہے کیونکہ یورپ کے لیے توانائی کی فراہمی کے راستوں پر بھی امریکی افواج متصرف ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں سپر طاقت کی حیثیت سے ابھرنے کے بعد امریکا نے عالمگیر بالا دستی برقرار رکھنے پر توجہ دی اور اس کے لیے پالیسیاں بھی مرتب کیں مگر اس کی بالا دستی کے لیے شدید خطرات ابھرچکے ہیں۔ چین سب سے بڑا خطرہ ہے اور امریکا کو فی الحال اسی سے نمٹنا ہے۔
(بحوالہ: “www.inthesetimes.com”۔ ۵ ستمبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply