
امریکی خارجہ پالیسی میں اس وقت مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر کے تحفظ اور عراق و افغانستان میں جاری جنگ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے تاہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں امریکی پالیسی سازوں کی بھرپور توجہ نئے مشرق وسطیٰ یعنی چین کو حاصل ہوگی۔
ماہرین کئی عشروں سے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ چین تیزی سے ابھر رہا ہے اور وہ بہت جلد امریکی خارجہ پالیسی تیار کرنے والوں کی توجہ کا مرکز ہوگا۔ چین اس وقت دنیا کے بڑے مینوفیکچررز میں سے ہے۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی آٹو مارکیٹ ہے۔ سیمنٹ کی پیداوار میں بھی کوئی اس کا ثانی نہیں اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج کے معاملے میں بھی وہ سب سے آگے ہے۔ چین کی فوج تیزی سے وسعت اختیار کر رہی ہے۔ اس کی بحریہ خوب پنپ رہی ہے۔ چین کی مینوفیکچرنگ مشین دنیا بھر سے وسائل حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ چین کے لیے لکڑی اور توانائی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ خام لوہا بھی چین کی صنعتوں کو متحرک اور سرگرم رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ چین کے صنعت کار اور سرمایہ کار دنیا بھر سے خام مال حاصل کرنے کی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال افریقا، جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی امریکا میں بہت سی زمینی تبدیلیوں کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
چین کی معیشت کس تیزی سے نمو پا رہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس نے معاشی امور کے ماہرین کو حیران اور پریشان کر رکھا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین عالمی معیشت میں وسیع تر کردار کا حامل ہوکر رہے گا۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات رابرٹ فوگل کا کہنا ہے کہ ۲۰۴۰ء تک عالمی خام پیداوار میں چین کا حصہ ۴۰ فیصد ہوگا۔ اس پیش گوئی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین کی معیشت بہت تیزی سے پنپ رہی ہے۔
کچھ لوگ چین کی تیز رفتار ترقی کو امریکی طرز زندگی کے لیے بڑے خطرے کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ “When China Rules the World” کے مصنف مارٹن جیکس کہتے ہیں ’’چین کی ترقی کو مغرب کے روشن خیالی پر مبنی اصولوں کے لیے خطرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسرے بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح سابق سوویت یونین سے امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی سرد جنگ چلی تھی بالکل اسی طرز پر چین سے بھی امریکا کی سرد جنگ خارج از امکان نہیں۔
اکیسویں صدی میں امریکا اور چین ایک منفرد تعلق کے حامل ہوں گے۔ یہ دونوں مل کر عالمگیر حکمرانی کا نظام قائم کریں گے۔ یہ تعلق بیسویں صدی میں امریکا اور برطانیہ کے تعلق کی طرز پر نہیں ہوگا۔ یہ ایسا تعلق تھا جس میں دونوں فریق ایک دوسرے سے مسابقت بھی کرتے تھے اور تعاون بھی۔ چین اور امریکا کے درمیان خالص تعاون کا امکان زیادہ قوی نہیں۔ ماہرین کے نزدیک اس بات کا امکان قوی تر ہے کہ امریکا اور چین بعض معاملات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور بہت سے امور میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ اس کی ایک اچھی مثال جی۔۸ ہے۔ اس میں دنیا کے نمایان ترین صنعتی ممالک شامل ہیں جن کے مفادات کا تصادم بھی ہوتا رہتا ہے۔ بعض امور میں ان کے درمیان اختلافات بھی رونما ہوتے ہیں اور چند ایک معاملات میں یہ مکمل اتفاق رائے کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں۔ امریکا اور چین ایک دوسرے سے تعاون تو کریں گے تاہم ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کے اقدامات کے خلاف بھی کھڑے ہوتے رہیں گے۔
امریکا اور چین کے ممکنہ تعلق کو ہم دو مساوی قوتوں کا ملاپ قرار نہیں دے سکتے۔ امریکا اس وقت حقیقی مفہوم میں عالمگیر قوت ہے۔ چین کی معاشی قوت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اس کی عسکری قوت فی الحال توسیع کے مرحلے میں ہے۔ چین اپنی سرحد سے دور طاقت موثر طور پر استعمال کرنے کے فن سے واقف نہیں۔ جن بین الاقوامی امور کو اب تک مشترکہ ذمہ داری قرار دیا جاتا رہا ہے ان میں شرکت سے چین گریز کرتا آیا ہے۔ چین بین الاقوامی نظام میں اپنی مرضی کے مطابق الگ تھلگ سفر کرنے کا شوقین رہا ہے۔ وہ علاقائی استحکام چاہتا ہے تاکہ اندرونی چیلنجوں سے بہتر طور پر نمٹا جاسکے۔ حال ہی میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ماحولیات کی کانفرنس چین کے لیے عالمگیر لیڈر کا کردار حاصل کرنے کا ایک اچھا موقع نہیں تو اور کیا تھی؟ مگر چین کے وزیر اعظم وین جیا بائو نے امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات اور بات چیت میں دلچسپی نہیں لی۔ ایسا لگتا ہے کہ فی الحال چین عالمی لیڈر بننے کے لیے تیار نہیں۔
ایسے میں ایسی چوٹی کی ملاقاتوں کی توقع رکھنا غیر ضروری ہے جن میں دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک کے قائدین اس بات کو طے کرتے ہیں کہ دنیا کو کس طرح چلایا جائے۔ اس کے بجائے ایک ایسا تعلق سامنے آئے گا جو خاصا لچکدار، متنوع اور غیر مستقل نوعیت کا ہوگا۔ اس تعلق کو قائم رکھنے کے لیے مختلف بین الاقوامی اداروں کا سہارا لیا جاتا رہے گا۔ چین اپنی مینوفیکچرنگ مشین کو متحرک رکھنے کے لیے دنیا بھر سے تیل، لکڑی اور معدنیات حاصل کرتا رہے گا۔ اس مقصد کے لیے وہ دور افتادہ علاقوں کا رخ بھی کرے گا۔ یہ طریق کار امریکیوں کو مضطرب کرے گا۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ امریکا فی الحال چین کی ترقی کو کنٹرول کرنے کی خواہش کا حامل نہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ وہ بہت حد تک ایسا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ امریکا کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ چین کو عالمی نظام کے مشترک معاملات میں حصہ لینے کے لیے کس طور رضا مند کیا جائے۔ اس کوشش یا عمل کے دوران امریکی قائدین کو دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی دوسری یا تیسری معیشت سے کوئی کھلواڑ ممکن نہیں۔ اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے ساتھ ملانے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ چین کو برا بناکر پیش کرنے کے بجائے اسے اپنانے پر توجہ دینی ہوگی۔
(بحوالہ: ’’ٹائم‘‘۔ ۲۲ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply