
چھ جولائی کو ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے اشارہ دیا کہ چین کے ساتھ ایک ۲۵ سالہ ساجھے دار سمجھوتے کو آخری شکل دی گئی ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس معاہدے کی حتمی نقل کے ۱۸ صفحات بھی فوراً میڈیا کے ہتھے چڑھ گئے۔ اگر یہ صفحات اصلی ہیں تو پھر یہ وہی سمجھوتہ ہے جس کی بازگشت سال بھر سے سنائی دے رہی ہے۔
گزشتہ برس ۳ ستمبر کو ’’ڈان‘‘ میں پاکستانی سفارت کار منیر اکرم کا مضمون شائع ہوا جس میں توانائی کے شعبے سے متعلق معتبر ماہانہ جریدے ’’پٹرولیم اکانومسٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا کہ چین ایران میں تیل و گیس، ٹرانسپورٹ، مواصلات اور تعمیراتی شعبوں میں لگ بھگ چار سو دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔اس سرمایہ کاری کے بدلے ایران اگلی چوتھائی صدی تک جتنے بھی بڑے ٹینڈر جاری کرے گا، ان میں اولین ترجیح چینی کمپنیوں کو دی جائے گی۔
ایران چین کو اس مدت میں کم ازکم ۱۲ فیصد رعایت پر تیل اور گیس فروخت کرے گا اور اس فروخت میں بھی چین کی ضروریات کو دیگر گاہکوں کی ضروریات پر اولیت حاصل ہو گی۔
رپورٹ کے مطابق ایران اگرچہ روزانہ ۴۔۵ ملین بیرل تیل کی پیداواری صلاحیت رکھتا ہے جو موجودہ امریکی پابندیوں کے سبب محض دو لاکھ بیرل روزانہ تک محدود ہے۔ چین کی توانائی ضروریات اتنی ہیں کہ وہ چاہے تو روس اور ایران ہی اس کی تمام ضروریات پوری کرنے کے قابل ہیں۔
روس اور ایران کو ایک مستقل اور مضبوط گاہک مل جائے گا اور چین کو دو مستقل قابلِ اعتماد سپلائر مل جائیں گے۔ ایرانی بندرگاہیں چین کے روڈ اینڈ ریل منصوبے کا حصہ بن جائیں گی۔ہائی اسپیڈ ریل لنک چین کو وسطی ایشیا، ایران اور ترکی کے راستے یورپ سے جوڑے گا۔ چین ترکمانستان گیس پائپ لائن کی اگر ایران تک توسیع ہو گئی تو آبنائے ہرمز سے بحیرہ جنوبی چین تک کے سمندری راستے میں درپیش ممکنہ خطرات سے کم ازکم چین تک پہنچنے والی توانائی کی رسد محفوظ ہو جائے گی۔
یوں ایک متبادل طلبی و رسدی زمینی گزرگاہ کے ہوتے چین بحیرہ جنوبی چین سے بحیرہ عرب تک خود کو گھیرنے والے امریکی دباؤ کا ثابت قدمی سے مقابلہ کر پائے گا۔ایران اپنے جوہری وسائل کو چین کی فراہم کردہ چھتری تلے یکسوئی سے ترقی دے سکے گا اور یمن، عراق، شام، لبنان وغیرہ میں اپنے علاقائی مفادات کا ایک مخصوص حد تک تحفظ کر سکے گا۔
امریکا کے برعکس چین ایسی سپر پاور ہے جس کے سعودی عرب، اسرائیل اور ایران سے قریبی اقتصادی تعلقات ہیں۔ لہٰذا اگلی بار اگر مشرقِ وسطیٰ کی ان تینوں طاقتوں کے مابین کوئی مناقشہ پھیلنے کا امکان بڑھتا ہے تو چین علاقائی ثالثی و سودے بازی کے ضمن میں امریکی اثر و رسوخ کے لگ بھگ ہم پلہ ہوگا۔اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ایران کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنی پالیسیاں چینی مفادات کے پیشِ نظر وضع کرنا پڑیں گی۔چنانچہ علاقائی پالیسی میں شدت پسندی کا عنصر نسبتاً کم ہو جائے گا۔
یہ وہ تجزیہ ہے، جو سال بھر پہلے ’’پٹرولیم اکانومسٹ‘‘ میں شائع ہوا۔اور اب جس مجوزہ اسٹرٹیجک سمجھوتے کا خاکہ بظاہر لیک ہوا ہے، اس میں اور سال بھر پہلے افشا ہونے والی تفصیلات میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔صرف یہ اضافی معلومات میسر آئی ہیں کہ چین اور ایران دفاعی پیداوار اور انٹیلی جینس کے میدان میں بھی قریبی تعاون کریں گے۔
۶ جولائی کو وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے چین ایران طویل المیعاد سمجھوتے کا عندیہ دیا اور اس کے ہفتے بھر بعد یہ خبر آئی کہ ایران نے چاہ بہار بندرگاہ اور چاہ بہار زاہدان ریلوے لائن منصوبے سے بھارت کو علیحدہ کر دیا ہے۔
ریلوے لائن کا مقصد پاکستان کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے لیے واہگہ طورخم راہداری کھولنے سے انکار کے بعد متبادل تجارتی راستے کی تعمیر تھی تاکہ بھارتی مال افغانستان اور وسطی ایشیا تک بلا رکاوٹ پہنچ سکے۔بھارت ۲۰۰۶ء سے چاہ بہار کو ترقی دینے میں دلچسپی لے رہا تھا۔مگر جوہری تنازعے کے سبب ایران پر بین الاقوامی پابندیوں نے بھارت کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ ۲۰۱۵ء میں جب یورپ، امریکا اور ایران کے مابین سمجھوتے کے بعد بین الاقوامی پابندیاں بتدریج اٹھنے لگیں تو بھارت نے اس منصوبے کو تیزی سے عملی جامہ پہنانے میں دلچسپی ظاہر کی۔
مئی ۲۰۱۶ء میں تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی، افغان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک سہ فریقی سمجھوتے پر دستخط کیے، جس کے تحت بھارت نے چاہ بہار کی شہید بہشتی بندرگاہ کے پہلے مرحلے کی تعمیرِ نو کے لیے ۵۰ کروڑ ڈالر اور ۶۲۸ کلو میٹر چاہ بہار زاہدان زرنج ریلوے لائن پر ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا۔
چاہ بہار چونکہ گوادر سے ۹۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ لہٰذا یہاں بھارت کے پیر جمنے کا مطلب چین اور بھارت کا ایک اور محاذ پر آمنے سامنے ہونا تھا۔ اگرچہ ایران نے بھارت کو چاہ بہار کا آپریشنل کنٹرول بھی دے دیا۔مگر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ جب بھارتی کمپنیوں نے چاہ بہار کی گودیوں کی تعمیر کے لیے بھاری مشینری کے ٹینڈر جاری کیے تب تک صدر ٹرمپ ایرانی جوہری سمجھوتے سے علیحدگی کا اعلان کر کے دوبارہ اقتصادی پابندیاں نافذ کرنے کا عندیہ دے چکے تھے۔ چنانچہ تین بار ٹینڈر جاری ہونے کے باوجود سوائے ایک چینی کمپنی کے کوئی بین الاقوامی کمپنی بولی میں شامل نہیں ہوئی۔ ہر کمپنی اور بینک ممکنہ امریکی غیض و غضب کے پیشِ نظر اس منصوبے کا حصہ بننے سے ہچکچا رہا تھا۔ حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ نے چاہ بہار اور ریلوے لائن منصوبے کو امریکی پابندیوں سے مستشنیٰ قرار دینے کا بھی وعدہ کیا تھا۔مگر سب کو معلوم تھا کہ ٹرمپ تو ٹرمپ ہے۔
بھارت ایرانی تیل کا تیسرا بڑا خریدار تھا۔مگر جب ایران اور امریکا کے مابین انتخاب کی گھڑی آئی تو بھارت نے امریکی پابندیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ایران سے تیل کی خریداری گزشتہ برس مکمل طور پر بند کر دی۔
اس پس منظر میں پچھلے ہفتے ایرانی وزیرِ مواصلات محمد اسلامی نے اعلان کیا کہ انھوں نے ریلوے لائن کی تعمیر کا افتتاح کر دیا ہے اور اب ایران خود اپنے قومی فنڈ سے اس منصوبے پر چالیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
چین اور ایران کا تزویراتی معاہدہ اور پھر ایرانی منصوبوں سے بھارت کی علیحدگی اور چین بھارت سرحدی تعلقات میں انتہائی درجے کی کشیدگی اور بھارت کے دوست امریکا اور چین کے مابین کھلی تجارتی جنگ۔ یعنی عالمی جغرافیائی گٹھ بندی کا نقشہ تیزی سے بدل رہا ہے۔افغانستان سے امریکا کو نکلنے کی جلدی ہے۔طالبان کو روس اور ایران کی مدد اور چینی خیر سگالی اور پاکستانی جغرافیائی قربت حاصل ہے۔چین ایران اسٹریٹجک سمجھوتے کا مطلب پاک ایران سرد تعلقات میں بھی ’’پیر بھائی‘‘ ہونے کے ناتے ممکنہ بہتری ہے۔
اب ذرا تصور کیجیے۔ نئی بساط پر چین، روس، ترکی، ایران، پاکستان ایک طرف اور امریکا و بھارت دوسری طرف۔ اور نیپال، بھوٹان، سری لنکا، بنگلادیش، مالدیپ اور برما غیر جانبدار تماشائی۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘۔ کراچی۔ ۱۸؍جولائی ۲۰۲۰ء)
Leave a Reply