
سرکاری پالیسی کے تحت جب سائبر اسپیس یعنی انٹرنیٹ کو بروئے کار لانے کی بات ہوتی ہے تو روس سے غلط بیانی کا تصور وابستہ ہے یعنی روسی حکومت چاہتی ہے کہ انٹر نیٹ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ غلط باتیں پھیلائی جائیں تاکہ حقیقت کہیں گم ہوکر رہ جائے۔ غلط بیانی کے ذریعے روسی حکومت سماجی خرابیوں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتی آئی ہے۔ چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ روایتی طور پر ذہنی اثاثوں کی چوری میں ملوث رہا ہے۔ اب اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ چین نے اپنا راستہ بدل لیا ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے غلط بیانی کے میدان میں قدم رکھ رہا ہے۔
ستمبر کے اوائل میں مینڈینٹ تھریٹ انٹیلی جنس نے چین کے حق میں چلائی جانے والی دو اہم مہمات کا ذکر کیا۔ پہلی تو یہ تھی کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر موجود اکاؤنٹس سے مختلف زبانوں میں چین کے حق میں مہم چلائی جائے اور دوسری یہ تھی کہ ہانگ کانگ کے مسئلے سے کورونا وائرس کی وبا تک بہت سے معاملات سے متعلق نظریہ ہائے سازش کی بنیاد پر احتجاج اور مظاہروں کا بندوبست کیا جائے۔ علاوہ ازیں مینڈینٹ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جس منظم انداز سے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملہ اعلیٰ ترین سطح کا ہے۔ رپورٹ میں یہ تو نہیں کہا گیا کہ یہ سب کچھ چینی ریاست کی مکمل رضامندی اور حمایت کے ساتھ ہے تاہم یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ آکسفرڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ اور ہارورڈ کینیڈی اسکول جیسے اداروں کی نظر میں، یہ سب کچھ ریاست کی سرپرستی اور مدد کے بغیر ہو نہیں سکتا۔
چین کے پروپیگنڈا آپریشن خاصے وسیع رہے ہیں، تاہم کچھ مدت پہلے تک اندرونی معاملات پر زیادہ توجہ تھی۔ بیجنگ کو اندازہ تھا کہ انٹرنیٹ کی آزاد و بے لگام دنیا چین میں مجموعی ہم آہنگی کی فضا اور حکومتی نظام کے استحکام کے لیے خطرہ ہے، اس لیے اُس نے ورلڈ وائڈ ویب کا سینسر کیا ہوا ورژن متعارف کرایا جسے گریٹ فائر وال کا نام دیا گیا۔ ٹوئٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چین میں مسدود ہیں اور گوگل کے ذریعے کچھ تلاش کرنے پر بھی چند ایک پابندیاں عائد ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے آنے والے مواد کو چھاننے پر تکنیکی مہارت رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد اندرونی ڈیجیٹل صارفین کو ملنے والے مواد کی چھان بین کرنے پر مامور ہے۔
اسٹینفرڈ انٹرنیٹ آبزرویٹری نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ عالمی سطح پر غلط بیانی کی مہم چلانے کے معاملے میں چین اب تک خاصا غیر موثر ثابت ہوا ہے۔ اس معاملے میں روس کی کارکردگی اُس سے کہیں بہتر رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بہت سے صارفین کو چین کی طرف سے موافق تبصرے لکھنے کے لیے ادائیگی کی جاتی ہے۔ یہ تبصرے بسا اوقات اُتھلے پانی جیسے اور سطحی ہوتے ہیں اور کوئی بھی تھوڑی سی توجہ دینے پر اندازہ لگاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی معاوضے کی بنیاد پر لکھا گیا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ چین نے روس کی پلے بک سے کچھ سیکھا ہے۔
چین نے اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے موضوعات کا تنوّع بھی پیدا کیا ہے اور مواد معیاری بنانے پر بھی خاصی توجہ دینا شروع کی ہے۔ ۳۰ فیصد سے زائد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اب چین کی حمایت میں لکھا جانے والا مواد ملتا ہے۔ روس کے علاوہ ارجنٹائن اور دوسرے دور افتادہ ممالک کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی اب چین کی حمایت میں لکھا جانے والا مواد بڑھ رہا ہے۔ ان ویب سائٹس پر روسی، ہسپانوی، جرمن، کورین اور جاپانی زبانوں میں بھی اچھا خاصا چین نواز مواد موجود ہے۔ ہاں، اِن زبانوں میں پیش کیے جانے والے مواد میں قواعدِ انشاء کی غلطیاں پائی جاتی ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مواد اُن لوگوں نے لکھا ہے جن کی یہ مادری زبانیں نہیں۔
ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ چین صرف اس بات پر توجہ نہیں دے رہا کہ سوشل میڈیا پورٹلز پر اُس کے حق میں مواد اور تجزیے پائے جائیں بلکہ وہ دنیا بھر میں لوگوں کو اپنی مرضی کے معاملات پر احتجاج کی تحریک دینے کی بھی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ مینڈینٹ کی رپورٹ کے مطابق جاپانی، کورین اور انگریزی سمیت متعدد زبانوں میں ہزاروں پوسٹس کے ذریعے ایشیائی امریکیوں کو اس بات پر اکسایا گیا کہ وہ ڈاکٹر لی مینگ یان اور گو وینگوئی اور اسٹیو بینن کے ذریعے پھیلائی جانے والی اس افواہ کے توڑ کے لیے ۲۴؍ اپریل کو نیو یارک میں بھرپور احتجاج کریں کہ کورونا وائرس دراصل چین نے تیار کرکے دنیا بھر میں پھیلایا ہے۔ بعض پوسٹس میں تو لوگوں کو گو وینگوئی کا پتا بھی دیا گیا۔
چین کا یہ تجربہ ناکام رہا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روسیوں نے ۲۰۱۶ء میں امریکا کی صدارتی مہم کے دوران جو کچھ کیا تھا، چینیوں نے اس کی نقل کی ہے۔ مُولر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طور روس کی انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی کے ایجنٹس نے امریکا میں سیاسی جلسوں کا اہتمام کیا۔
چین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پیش کیے جانے والے مواد کے حوالے سے بھی تبدیلی کا پتا دیا ہے۔ چین کی طرف سے اب تک پیش کیا جانے والا مواد مجموعی طور پر حب الوطنی اور ایسے ہی دیگر موضوعات کے گرد گھومتا رہا ہے مگر اب نئی پالیسی کے تحت جارحانہ طریق اختیار کیا گیا ہے۔ دی آکسفرڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ سائبر ٹروپس رپورٹ برائے ۲۰۲۰ء میں بتایا گیا ہے کہ چین نے روس اور ایران کے ساتھ کورونا وائرس سے متعلق غلط بیانی کی مہم کے ذریعے دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس بیانیے کا ایک بنیادی مقصد صحتِ عامہ سے وابستہ افسران اور اہلکاروں کی ساکھ مجروح کرنا بھی تھا کہ عوام کا ان پر زیادہ اعتماد باقی نہ رہے۔ چین کی پروپیگنڈا مشینری نے کورونا وائرس سے متعلق مواد پیش کرتے کرتے کسی کے ذریعے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ یہ وائرس میری لینڈ کی فورٹ ڈیٹرک بیس میں واقع امریکی فوجی لیب میں تیار کرکے چین کے شہر ووہان منتقل کیا گیا تھا۔ اور یہ سب کچھ ۲۰۱۹ء کے ملٹری ورلڈ گیمز کے موقع پر ہوا تھا۔
چین نے امریکا کے حوالے سے دنیا بھر میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے حوالے سے بہت کچھ کیا ہے مگر اُس کے اثرات کے بارے میں ہمیں بہت زیادہ فکرمند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسی کسی بھی مہم کے اثرات ایک خاص حد تک ہی ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ سماجی معاملات کو پیچیدہ تر کرنے اور ریاستی عملداری کے بارے میں بدگمانی اور بے اعتباری پھیلانے کی نیت سے کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں روس غیر معمولی مہارت کا حامل ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں اپنائے جانے والے طریقوں کی بنیاد پر روس آج بھی پروپیگنڈا کے محاذ پر بہت حد تک کامیاب ہے۔ چین میں اب بھی اس حوالے سے اچھا خاصا تذبذب پایا جاتا ہے۔
روس، چین اور ایران اس وقت پروپیگنڈا کے محاذ پر خاصے متحرک ہیں۔ امریکا اور یورپ میں بہت سے لوگ بھی اِن کے ایجنڈے پر ہیں۔ یہ عمل چند برس کے دوران اور بالخصوص ۲۰۱۶ء کے بعد سے بہت تیز ہوا ہے۔ فیس بک کے مالک مارک زرک برگ نے تب اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے غیر اخلاقی یا ناجائز استعمال کا امکان مسترد کردیا تھا۔ وہ اس بات کو ماننے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ فیس بک کے ذریعے کوئی ملک امریکی انتخابات پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ آکسفرڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اب ۸۰ سے زائد ممالک کمپیوٹر کے ذریعے پروپیگنڈے کا محاذ مضبوط بنانے میں مصروف ہیں۔ مختلف ہتھکنڈوں، حکمت ہائے عملی اور وسائل کی مدد سے رائے عامہ کو زیادہ سے زیادہ متاثر کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
ایڈورڈ سنوڈن نے ۲۰۱۳ء میں جو انکشافات کیے تھے، اُن کے بعد اس کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال اور عوام پر نظر رکھنے کے پنپتے ہوئے رجحان پر بات کی جانی چاہیے۔ یہ معاملہ زیر بحث آیا اور بہت سے ممالک نے بہت تیزی سے سیکھ لیا کہ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے اور عوام کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے حوالے سے کیا کیا ہوسکتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں روس نے امریکا کے حوالے سے غلط بیانی کی مہم شروع کی، اُس نے دنیا کو بتایا کہ ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے لیے مختلف ہتھکنڈے اختیار کرنا کس قدر آسان ہے۔ ہاں، ان ہتھکنڈوں کے مطلوبہ معیار تک مؤثر ہونے کا معاملہ اب بھی غور طلب ہے۔
نیو یارک میں مظاہروں کا اہتمام کرنے کے حوالے سے چین کی کوششوں پر ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے … کہ اب چین اس شعبے میں اچھی خاصی فنڈنگ کر رہا ہے۔ یہ معاملہ سمجھنے کا ہے اور اسے سمجھنے کے لیے چین کا کیس بہت نمایاں ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“China is borrowing a page from Russia’s disinformation playbook”. (“worldpoliticsreview.com”. Sept. 28, 2021)
Leave a Reply