کیا چین قدامت پسند ہو رہا ہے؟

چین نئے قمری سال کا جشن منا رہا ہے اور اس سال بھی عالمی معیشت پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ لیکن ملک کی قیادت کے لیے ایک اہم بحث یہ ہے کہ دنیا چین کو کس قدر متاثر کر رہی ہے۔ ایسے اشاروں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین مزید قدامت پرست ہو رہا ہے۔

۲۰۱۲ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدر شی جن پنگ ملک کے انتظامات چلانے کے معاملے میں اختیارات اپنے ہاتھ میں قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے ’چین کا خواب‘ کا تصور پیش کر چکے ہیں، انہوں نے کرپشن کے خلاف لگاتار مہم چلائی اور اس بات پر زور دیا کہ تمام کمیونسٹ عہدیدار پارٹی کو زیادہ بے باکی سے کنٹرول کریں۔

اکتوبر میں صدر شی جن پنگ نے اپنی ایک تقریر میں فنونِ لطیفہ اور ادب کا ذکر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’’فنونِ لطیفہ کو سوشلزم اور عوام کی خدمت کرنا چاہیے‘‘۔ انہوں نے فنکاروں سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایسا فن پیش کریں جو ’’چینی اقدار اور چین کی حسِ خوبصورتی‘‘ کو ظاہر کرے۔ انہوں نے تنبیہ کی کہ ’’فنون لطیفہ مارکیٹ کے غلام نہیں بن سکتے اور نہ کمرشلزم میں ڈوب سکتے ہیں‘‘۔

ایسا کیا ہو رہا ہے؟
بی بی سی چائنیز کے یوون وو نے چین میں حال ہی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔

مغربی اقدار کو فروغ دینے والی درسی کتب پر پابندی

چینی وزیر تعلیم ۲۹ جنوری کو یونیورسٹی عہدیداران سے کیے گئے خطاب کی وجہ سے مشکل میں پھنس گئے۔

وزیرِ تعلیم یوان گیرن نے مغربی درسی کتب کے استعمال پر سخت پابندی کا عہد کیا اور اس امر کا اظہار کیا کہ ’’ایسی درسی کتب کی بالکل اجازت نہیں دی جائے جو کمرۂ جماعت میں مغربی اقدار کے فروغ کا باعث بنیں‘‘۔

اس تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر دھواں دھار بحث کا آغاز ہو گیا، جس میں بیشتر افراد نے وزیرتعلیم کی جانب سے پیش کی گئی ’’مغربی اقدار‘‘ کی تعریف پر سوال اٹھایا اور یہ پوچھا گیا کہ ان پر پابندی کیوں عائد ہونی چاہیے۔

۱۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ چینی مارکس ازم پر پابندی عائد کر دینی چاہیے کیونکہ یہ بھی کسی حد تک ’’مغربی اقدار‘‘ کا حصہ ہے؟ بذریعہ وائبو

۲۔ قانون کی بالادستی کے بارے میں کیا کہیں گے؟ جمہوریت اور انسانی حقوق کے بارے میں کیا کہیں گے؟ سوشلزم کے بارے میں کیا کہیں گے؟ بذیعہ وائبو

۳۔ اگر آپ ان درسی کتب پر پابندی عائد کرتے ہیں تو آپ میرا کورس بھی منسوخ کر سکتے ہیں یا میرا شعبہ بھی تحلیل کر سکتے ہیں۔ بذریعہ وی چیٹ

دیگر نے سوال اٹھایا کہ چین کے بہت سارے اعلیٰ عہدیداران کے بچے مغرب میں زیرتعلیم ہیں، کیا وہ مغربی اقدار سیکھ رہے ہیں۔

ایک ناقد نے کہا
’’اعلیٰ طبقے کے لیے الگ اور عام لوگوں کے لیے الگ اصول و ضوابط ہیں، کیا ایسا نہیں ہے؟‘‘

بی بی سی چائنیز نے مجوزہ پابندی کا ردعمل جاننے کے لیے کئی پروفیسروں سے بات چیت کی۔

بیجنگ کی فارن اسٹڈیز یونیورسٹی کے پروفیسر زہان جیانگ کا ماننا ہے کہ مغربی درسی کتب پر پابندی عملی طور پر ممکن نہیں، کیونکہ بہت سارے مضامین انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں، خاص طور پر معاشیات اور قانون، جن کے لیے اکثر مغربی درسی کتب کی ضرورت پیش آتی ہے۔

شنگھائی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر زہو ژوئکن یاد کرتے ہیں کہ ۲۰۱۱ء میں وزیرتعلیم یوان نے غیر ملکی درسی کتب کے استعمال کی حمایت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’وقت تبدیل ہوگیا ہے اور وہ ہوا کا بدلتا ہوا رخ دیکھ رہے ہیں‘‘۔

چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے زہو جدونگ وزیر تعلیم کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے روزنامہ ’’گوانگمنگ‘‘ میں لکھا کہ جب وزیرتعلیم نے مغربی اقدار کی بات کی تو ان کا اشارہ مغرب اور خاص طور پر امریکا کے ان رجحانات کی طرف تھا جنہیں منفی سمجھا جاتا ہے، جو آئینی جمہوریت، عالمگیری اقدار، شہری معاشرہ، نیو لبرل ازم وغیرہ کو فروغ دیتے ہیں۔ (اس تنقید میں مغرب کی سائنسی تعلیمات شامل نہیں تھیں)۔

تاہم زہو جدونگ کے تمام قارئین ان سے متفق نہیں تھے۔
ان کے اس مضمون کے نیچے لکھا گیا ایک تبصرہ یہ تھا:

’آئینی جمہوریت، عالمگیری اقدار، شہری معاشرہ کیسے منفی خیالات ہو سکتے ہیں؟ کیا آپ صدر شی جن پنگ کے لیے مشکلات پیدا نہیں کر رہے؟‘

یہ بحث جاری ہے اور ہر کوئی دلچسپی سے دیکھ رہا ہے کہ ان اب مغربی درسی کتب کا کیا ہوگا۔

ٹی وی ڈراموں میں نیم عریانیت پر پابندی

’’ایمپریس آف چائنا‘‘ معروف ٹی وی ڈراما ہے، جو ساتویں صدی عیسویں کے پس منظر میں فلمایا گیا ہے، اس ڈرامے میں چینی تاریخ کی واحد خاتون حکمران وو زیتین کی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ کثیر لاگت سے تیار کیے گئے اس ڈرامے میں عصرِ حاضر کی بہترین کاریگری اور شاندار ملبوسات کا استعمال کیا گیا ہے، ان ملبوسات میں بیشتر کھلے گلے والے لباس شامل ہیں جو عام طور پر چینی ڈراموں میں دکھائی نہیں دیتے۔

نئے سال کے آغاز سے قبل چند قسطوں کے بعد اس کی نشریات ’’تکنیکی وجوہات‘‘ کی بنا پر روک دی گئیں۔ جب اس کو دوبارہ نشر کیا گیا تو یہ بالکل مختلف تھا۔ خواتین کی عکاسی کرنے والے تمام مناظر کو ری فریم کیا جا چکا تھا، جس میں سر کافی بڑا دکھائی دے رہا تھا اور گلے کے نیچے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے محسوس کیا کہ ڈرامے کے مناظر بے ربط ہیں، مناظر سے ملبوسات کے غائب ہونے سے خوبصورتی کا عنصر بھی ختم ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ بیوروکریٹس نے ’’پروڈکشن ٹیم کی محنت ضائع کر دی ہے، جنھوں نے تاریخی ماحول پیدا کرنے کے لیے غیرمعمولی کوششیں کی تھیں‘‘۔

لیکن اس کی حمایت میں بھی کچھ آوازیں تھیں۔ کچھ نے محسوس کیا کہ ایک بار جب یہ رجحان (ٹی وی اسکرین پر بہت زیادہ جسم کی نمائش) شروع ہو جائے گا تو دوسرے بھی اس کی پیروی کریں گے، اور ایک دن یہ صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی۔

قومی ٹیلی ویژن کی انتظامیہ نے وضاحت کی کہ دسمبر ۲۰۱۴ء میں ابتدائی نشریات کے مخصوص مناظر کے بارے میں بہت ساری شکایات موصول ہوئیں کہ یہ مناظر نوجوان افراد کے لیے ’’غیر موزوں‘‘ ہیں۔

سینسرز نے ان کا معائنہ کیا اور یہ سچ ثابت ہوا چنانچہ انہیں کاٹ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فنون لطیفہ کو چینی اقدار کا فروغ کرنا چاہیے اور ’’اصل‘‘ خوبصورتی کو پھیلانا چاہیے۔

موٹر شوز میں ماڈلز پر پابندی

نئے سال کے آغاز پر شنگھائی موٹر شو کی انتظامی کمیٹی نے ایک حیرت انگیز اعلان کیا کہ اس سال سے گاڑیوں کی نمائش میں ماڈلوں پر پابندی ہوگی۔

یہ شو ۲۲ سے ۲۹؍اپریل کو منعقد ہوگا اور منتظمین کا کہنا ہے کہ اس سال وہ ’’اپنی بنیاد کی طرف لوٹیں گے اور عوام کے دیکھنے کے لیے نیا اور مہذب ماحول پیدا کریں گے‘‘۔

چینی گاڑیوں کے شو میں خواتین ماڈل ۱۹۹۳ء میں پہلی بار متعارف کروائی گئی تھیں، لیکن وہ کسی بھی موٹر شو کا لازمی جز بن چکی تھیں، جس میں ماڈل مختصر لباس زیب تن کرتی ہیں، جسے ’’جسم کا معرکہ‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔

چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ مارکیٹنگ کا یہ انداز ’’معاشرے کے صبر کی سطح کو چیلنج کرتا ہے‘‘۔

پہلی دو پابندیوں کے مقابلے میں اس پابندی کے بارے میں سوشل میڈیا میں خاصا مثبت ردعمل سامنے آیا۔ بہت سارے افراد نے اس کی تعریف میں کہا کہ ’’بہت اچھا، اب ہم اپنی توجہ گاڑیوں پر مرکوز رکھ سکیں گے‘‘۔

کچھ نے محسوس کیا کہ گاڑیوں پر توجہ رکھنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے، جب آپ کے ارد گرد مختصر لباس میں ملبوس ماڈل ہوں۔ اگر انہیں ہٹا دیا گیا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔

اب تمام نگاہیں اپریل میں ہونے والے شنگھائی موٹر شو پر مرکوز ہیں کہ کیا واقعی اس پابندی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

(بحوالہ ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۹؍فروری ۲۰۱۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*