دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے اپنی قیادت میں ایک عالمی نظام تیار کیا اور اُسے کم و بیش سات عشروں تک چلایا۔ اب امریکی قیادت اور پالیسی سازوں نے طے کیا ہے کہ یہ نظام مزید چلایا نہیں جاسکتا۔ امریکا نے معاملات سے ہاتھ اٹھانا شروع کیا ہے تو چین نے سامنے آکر ایک ایسا نظام تیار کرنے کی تیاری شروع کردی ہے، جس کی سربراہی اُس کے ہاتھ میں ہو۔
امریکا کے بعد کی دنیا میں بہتر انداز سے آگے بڑھنے کے لیے چین جو کچھ کر رہا ہے، وہ اب واضح ہوتا جارہا ہے۔ چین نے ایسے ادارے بھی تیار کرلیے ہیں، جو بیرون ملک سرمایہ کاری اور دیگر متعلقہ اقدامات کے حوالے سے اپنا کردار خوب ادا کر رہے ہیں۔ ایشین انفرا اسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ بینک سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو اور پھر ایک اور سیٹ اپ کے ذریعے مشرقی یورپ اور بلقان کے خطے میں سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے متعلق منصوبے تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ چین شمسی توانائی اور پون بجلی کے ایسے عالمگیر گرڈ کی بھی تیاری کر رہا ہے، جس کے ذریعے ایک طرف تو پائیدار ترقی کو ممکن بنایا جاسکے اور دوسری طرف ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا گراف بھی نیچے رکھنا ممکن ہو۔
نیا عالمی نظام پرانے یعنی موجودہ عالمی نظام جیسا نہیں ہوگا۔ اب تک تو کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔ چینی قیادت بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ چند کام کے ممالک سے دو طرفہ تعلقات استوار کیے جائیں اور پھر ان تعلقات کو آپس میں جوڑ کر ایک ایسا نظام تیار کیا جائے، جس کے مرکز میں چین ہو۔ چین نے اب تک ’’ایک دنیا، بہت سے نظام‘‘ کے تصور کو گلے لگایا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ چین کے تحت معرضِ وجود میں آنے والے عالمی نظام میں اقدار سے زیادہ مفادات کی اہمیت ہوگی۔
امریکی کالم نگار جارج ایف وِل کہتے ہیں کہ امریکی صدر کو اب دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی ہم منصب ژی جن پنگ کے مقابل اپنی کمتر حیثیت قبول کرلی ہے اور ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ان کی معاشی پالیسی بھی اس نوعیت کی ہے کہ چین کے مقابل کوئی بڑا ایڈوانٹیج حاصل کرنا ممکن نہیں رہا۔ چینی صدر شی جنگ پنگ نے اب تک ایسا کوئی اشارا نہیں دیا کہ چین باقی دنیا کو یا کمزور ممالک کو ہڑپ کر جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے اب تک ایک ایسے مستقبل کی بات کہی ہے، جس میں سبھی مل کر رہیں اور کسی سے بھی غیر ضروری یا غیر معمولی حق تلفی نہ ہو۔ دوسری طرف چین کے کٹّر مخالف ناقدین اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ معاشی سطح پر ہے۔ چین کو اس وقت اضافی پیداوار کے مسئلے کا سامنا ہے۔ اُسے نئی اور مضبوط منڈیوں کی تلاش ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے، جب وہ معاشی اقدامات کھل کر کرے۔ یہ ناقدین کہتے ہیں کہ چین کو صرف نئی منڈیاں درکار ہیں تاکہ اپنی سُست پڑتی ہوئی معیشت کو سہارا دے سکے۔
چین کو اس وقت دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ جن ممالک سے اس نے دوستی بڑھائی ہے اور اشتراکِ عمل کا سوچا ہے اُن پر اُس کے دیے ہوئے قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ اور دوسرا مسئلہ اس تاثر کا ہے کہ چینی ادارے جہاں بھی کاروبار کر رہے ہیں، وہاں سیاست دانوں اور پالیسی سازوں کو رشوت دے رہے ہیں تاکہ اپنی مرضی کے فیصلے اور پالیسیاں یقینی بناسکیں۔ سری لنکا میں چین نے ایک بندر گاہ تعمیر کی اور اب اس کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے کیونکہ سری لنکا قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں ہے ہی نہیں۔ پاکستان (گوادر پورٹ) اور لاؤس میں بھی ایسی ہی صورتِ حال ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملائیشیا میں نئی حکومت نے ایک ریل منصوبہ یہ کہتے ہوئے روک دیا ہے کہ رشوت کی شکایات ہیں اور سابق حکومت نے ایسی شرائط پر یہ منصوبہ شروع کیا تھا جو قومی مفادات سے ہم آہنگ نہ تھیں۔
اس گمان میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ چین کی پالیسیاں زیادہ خطرناک نہیں اور اپنے قومی مفادات تک محدود ہیں، مگر خیر، دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور امریکا کو غیر معمولی فوائد سے ہم کنار کرنے والے مارشل پلان کے حوالے سے جوزف اسٹالن نے جو رویہ اپنایا وہ رویہ اپنانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا نے انیسویں صدی میں مغرب کی سمت ریل روڈ کو توسیع دی تو بدعنوانی بھی پھیلی اور قرضوں کا بوجھ بھی بڑھا۔ بعد میں جب معاملات درست ہوئے تو امریکا کو بہرحال اس رجحان سے فائدہ ہی پہنچا۔
بہت سی خرابیوں کے باوجود آج سے بیس سال بعد یوریشیا اور افریقا کو بھی چین کے موجودہ اقدامات اور پالیسیوں سے فائدہ ہی پہنچے گا۔ اس پورے عمل کو خرابیوں سے بچانے کی ایک ہی صورت ہے۔ مغرب کو چین کے ساتھ مل کر یہ تمام منصوبے مکمل کروانے چاہییں تاکہ بدعنوانی کی گنجائش کم ہو، کسی بھی کمزور ملک یا خطے پر قرضے کا غیر معمولی دباؤ مرتب نہ ہو اور کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ قرضوں کے اجرا کے ذریعے نیا نو آبادیاتی نظام یقینی بنایا جارہا ہے۔ ایشین انفرااسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ بینک نے جو منصوبے شروع کیے ہیں، اُن میں کئی مغربی ممالک بھی شریک ہوچکے ہیں۔ امریکا اب تک دور دور ہے۔ کئی دوسرے مغربی ممالک بھی امریکا کی پیروی کرتے ہوئے ان منصوبوں سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ امریکا اور یورپ دونوں مل کر چین کے ساتھ ان منصوبوں میں شریک ہوں تاکہ شفافیت یقینی بنائی جاسکے اور جو کچھ بھی ہو وہ باہمی رضامندی سے ہو یعنی کسی بھی نوع کی رنجش اور مخاصمت کی گنجائش ہی پیدا نہ ہو۔
اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مغربی اقوام دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی پر کچھ زیادہ خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں۔ یہ بات بتانے کی کچھ خاص ضرورت تو نہیں کہ امریکا اب اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنی حدود میں بھی کوئی ایک ہائی اسپیڈ ریل پراجیکٹ لگاسکے۔ مجموعی طور پر معاملہ یہ ہے کہ امریکا موجودہ بنیادی ڈھانچے کو ڈھنگ سے درست حالت میں لانے کے قابل بھی نہیں۔ ایسے میں نئے بنیادی ڈھانچے کے لیے سرمایا کاری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یورپی یونین اس بات پر اندرونی الجھنوں کا شکار ہے کہ بڑے پیمانے پر مالیات کے مسئلے سے کس طور نمٹے۔ بہت سے بڑے منصوبوں کے لیے مالیات کا بندوبست کرنا آسان نہیں رہا۔ یورپی یونین کے بیشتر ارکان چاہتے ہیں کہ بجٹ کی حدود میں رہتے ہوئے کام کیا جائے۔ بہت سے ممالک اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ جب انہیں بحران کا سامنا تھا تب امریکا اور یورپی یونین نے ہری جھنڈی دکھادی مگر چین نے ساتھ دیا۔ یونین کے سابق صدر جارج پاپائیندرو کہتے ہیں کہ چین نے یونین کے مالیاتی بحران کو حل کرنے میں غیر معمولی حد تک ساتھ دیا۔ یونان کے سوورین بونڈز خریدنے والے چند ممالک میں چین سرِفہرست تھا۔ یہ گویا یونان کے حق میں چین کی طرف سے اعتماد کا ووٹ تھا۔ یونان کو مالیاتی بحران میں سہارے کی ضرورت تھی اور سہارا چین نے دیا۔ ایسے میں یونان کی قیادت امریکا اور یورپی یونین کی طرف دیکھنے کی زحمت کیوں گوارا کرے گی؟ چین نے یونان کی بندر گاہ Piraeus میں بڑے پیمانے پر سرمایا کاری بھی کی ہے۔ یہ گویا نئی بحری شاہراہِ ریشم کی قیام کی سمت پہلا بڑا قدم تھا۔ جب چین نے آگے بڑھ کر یونان کی معیشت پر اعتماد کا اظہار کیا تو یونانی قیادت کو بھی حوصلہ ملا اور یوں مالیاتی بحران ختم کرنے میں غیر معمولی مدد ملی۔
آج کی دنیا میں ایک بڑا مسئلہ عالمی نظام کے حوالے سے خلا کا ہے اور چین اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپی یونین نے مجموعی طور پر ہاتھ اٹھالیا ہے۔ امریکا کی اپنی معاشی حالت ایسی نہیں کہ وہ معاملات کو درست کرنے کی سمت بڑھ سکے۔ یورپی یونین نے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ وہ کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتی، جس سے معاملات خرابی کی طرف جائیں۔ عالمی سیاست و معیشت میں یورپی یونین اپنے لیے ایک لگا بندھا کردار چاہتی ہے۔ امریکا کی مہم جوئی سے وہ اب اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنے کی راہ پر گامزن ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت عالمی سیاسی و معاشی نظام جس خرابی سے دوچار ہے، وہ صدر ٹرمپ کے اقدامات کا پیدا کردہ نہیں بلکہ امریکا کی اپنی کامیابیوں کا پیدا کردہ ہے۔ امریکا نے غیر معمولی طاقت جمع کرکے بہت سی خرابیوں کو راہ دی اور اب ان خرابیوں کے انتہائی بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک ایسا عالمی نظام درکار تھا جو بڑی طاقتوں کے درمیان کسی اور بڑی جنگ کی راہ مسدودکرے۔ امریکا اور یورپی یونین نے یہ مقصد حاصل تو کرلیا مگر اس دوران امریکا نے اتنی زیادہ طاقت حاصل کرلی کہ اس کے لیے اپنے وجود کو سنبھالنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ اس کا نتیجہ پالیسیوں کے عدم توازن کی شکل میں برآمد ہوا۔ آج امریکا پالیسیوں کے شدید عدم توازن کے نتائج بھگت رہا ہے۔ اس نے بہت سے معاملات میں ذمہ داریاں اپنے سر لے لی تھیں۔ اب وہ ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہا ہے۔
امریکا نے عالمی تجارت کو زیادہ سے زیادہ آزاد بنانے پر توجہ دی۔ اس کا فائدہ چین کو بھی پہنچا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ چین نے عالمی تجارت کے آزاد ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عالمی نظام کو بہتر طور پر کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے فوری طور پر جو اصلاحات درکار ہوا کرتی ہیں وہ نہیں کی جارہیں۔ کئی عشروں سے معاملہ یہ ہے کہ عالمی نظام سے فائدہ تو اٹھایا جارہا ہے، اُسے مضبوط بنائے رکھنے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ معاملات الجھتے ہی گئے ہیں۔
جن ممالک کو موجودہ عالمی نظام سے شدید نقصان پہنچا ہے وہاں عوام نے سڑکوں پر آکر اس نظام کو چیلنج کیا ہے۔ کئی ممالک میں عوام کے لیے شدید معاشی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اس خلا کو پُر کرنے پر کسی اور سے زیادہ چین نے توجہ دی ہے۔ روس، ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر وہ اپنی عالمی پوزیشن مستحکم تر کرتا جارہا ہے۔ یورپی یونین نے میدان خالی چھوڑنے کو ترجیح دی ہے۔ اس کی اندرونی پیچیدگیاں اِتنی زیادہ ہیں کہ فی الحال عالمی سطح پر وہ کسی بڑی مہم جوئی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ نئے عالمی نظام کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔ دنیا اب امریکا پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔
معروف سیاسی تجزیہ کار ایلی وائن کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی عالمی نظام دم توڑتا ہے اور نیا لایا جاتا ہے تب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پورے پورے خطوں کو لپیٹ میں لینے والی جنگیں بھی ہوتی ہیں۔ ہم جوہری ہتھیاروں کے دور میں جی رہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ اگر نئے عالمی نظام کی تیاری اور نفاذ کے دوران کوئی عالمی جنگ چھڑ گئی تو کیا ہوگا۔
جوناتھن ہل مین کہتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کے پیدا کردہ خلا کو پُر کرنے کے لیے چین تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، اس کا دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو جیو پولیٹیکل ایڈورٹائزنگ میں ماسٹر اسٹروک ہے۔ اگر یہ منصوبہ طے کردہ خاکے کے مطابق مکمل ہوگیا تو امریکا اور یورپ دونوں کے لیے مشکلات اِتنی بڑھ جائیں گی کہ چین سے لڑے بغیر اُس کے آگے ہتھیار ڈالنے کے سوا چارہ نہ ہوگا۔ شاہراہِ ریشم کی دیومالا کو آگے بڑھانے کی بات کرتے ہوئے چین کے صدر شی جن پنگ بہت تیزی سے ایک ایسی دنیا کی راہ ہموار کر رہے ہیں، جس میں مرکزی حیثیت چین کی ہو، تمام اہم فیصلے چین کی پالیسیوں کے گرد گھومتے ہوں۔ چین دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط تر بنانے پر توجہ دے رہا ہے۔ جن ممالک کی معیشت کمزور ہے، وہ اپنے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں چین سے مدد لے رہے ہیں۔ جن وسائل سے وہ اپنے طور پر مستفید ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اُن سے مستفید ہونے میں وہ چین کا سہارا لے رہے ہیں۔
جوناتھن ہل مین کہتے ہیں کہ متعدد ممالک کی بدعنوان قیادت چین کے ساتھ مل کر کام تو کر رہی ہے مگر یہ طریقہ زیادہ کارگر ثابت نہ ہوگا۔ کسی قوم کو حقیقی ترقی کے لیے شفافیت درکار ہوا کرتی ہے۔ اگر کرپٹ قیادتیں چین کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں گی تو متعلقہ ممالک کے عوام کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا اور اس کے نتیجے میں شدید اضطراب پیدا ہوگا۔
چین نے دنیا بھر میں جو سرمایا کاری کی ہے، وہ اتنی زیادہ ہے کہ اب بہت سے ممالک یہ سوچ کر خوفزدہ ہیں کہ اگر چینی قیادت نے اس سرمایا کاری کو قومی مفادات کے لیے بروئے کار لانا شروع کیا تو کیا ہوگا۔ بہت سے افریقی ممالک میں آئل فیلڈز کا ۴۰ فیصد حصہ چین نے خرید رکھا ہے۔ سری لنکا سمیت کئی ممالک میں چین کی تعمیر کردہ بندر گاہیں اب چینی مفادات کے لیے استعمال کی جارہی ہیں۔ امریکا نے بھی تو یہی کیا تھا۔ اس نے ترقی کے عمل میں بنیادی حقوق کو یکسر نظر انداز کردیا تھا۔ چین بھی فی الحال اسی راہ پر گامزن دکھائی دیتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور یورپ نے آگے بڑھنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے، وہی چین نے بھی اختیار کیے ہیں۔ ایک زمانے سے امریکا اور یورپ کی بھرپور ترقی کا مدار جدید علوم و فنون کے حوالے سے پیش رفت پر رہا ہے۔ امریکا میں جدید ترین علوم و فنون کے حوالے سے تحقیق کو وفاقی ڈھانچے سے جوڑا جاتا رہا ہے تاکہ جو کچھ بھی نیا سامنے آئے اس کا بھرپور معاشی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ یہی طریقہ یورپ نے بھی اپنایا۔ یورپ سے یہ طریق ایشیا پہنچا، جہاں سب سے زیادہ اثرات جاپان میں رونما ہوئے۔ اور اب چین بھی جدید ترین علوم و فنون کے حوالے سے تحقیق کے ذریعے آگے بڑھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“China is laying the groundwork for a post-American world order”.(“Washington Post”. July 27, 2018)
China is the real leader of the future .