
تیل چینی خارجہ پالیسی کو تبدیل کر رہا ہے۔ کیا امریکا نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟
اپنی تاریخ کے زیادہ تر حصے میں چین نے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے اجتناب برتا ہے۔ مگر گزشتہ برس اس میں تبدیلی ہوئی جب ’’درمیانی بادشاہت‘‘ (Middle Kingdom) اس طرح سے بین الاقوامی منظرنامے پر آئی جس طرح پہلے کبھی نہیں آئی تھی، یعنی اس نے ’’داعش‘‘ کی دہشت سے نمٹنے کے لیے رقم اور عسکری قوت، دونوں فراہم کیں۔ چین کی گزشتہ دہائی کی خارجہ پالیسی کی طرح یہ اقدام محض طاقت کے مظاہرے سے بڑھ کر تھا، جس کی جڑیں ایک پنپتے رواج میں ڈھونڈی جاسکتی ہیں، یعنی توانائی، خصوصاً تیل کی درآمد کی فوری اور روز افزوں ضرورت۔
یہاں ایک بڑا اہم سوال ابھرتا ہے جو آنے والی دہائیوں میں واشنگٹن اور بیجنگ کے تعلقات کو سمجھنے میں مدد دے گا: جس طرح چین کی توانائی کی ضروریات امریکا کی طرح بڑھ رہی ہیں، کیا اس کے عالمی کردار میں بھی اسی طرح اضافہ ہوگا؟
فقید المثال معاشی ترقی کی بدولت گزشتہ نسل کے مقابلے میں آج وہی چین جو خام تیل کی پیداوار میں خود کفیل تھا، اب اس کے سب سے بڑے درآمد کنندہ امریکا کو بھی پیچھے چھوڑنے والا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں چین نے یومیہ اوسط پر تقریباً ۲ء۶ ملین بیرل تیل درآمد کیا جبکہ امریکی درآمد ۴ء۷ ملین بیرل رہی۔ دسمبر میں پہلی مرتبہ چین نے سب سے زیادہ ۷ ملین بیرل تیل درآمد کیا جبکہ امریکی خام پیداوار بڑھتے بڑھتے ۹ ملین بیرل یومیہ تک جاپہنچی جو اَب تک سب سے زیادہ ہے۔
اتنا تیل کہاں سے اور کیسے حاصل کیا جائے، یہ اب چینی قیادت کے لیے دردِ سر بن چکا ہے جو کہ اب انہی مسائل کا سامنا کررہی ہے جن مسائل نے رچرڈ نکسن کے بعد تمام امریکی صدور کو پریشان کیے رکھا۔ بیجنگ ۷۴۔۱۹۷۳ء میں اوپیک کی جانب سے تیل کی بندش سے یہ سبق سیکھ رہا ہے کہ تیل کی مسلسل ترسیل، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ سے، مستحکم معاشی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ چین اب اپنی ضرورت کا تقریباً ۶۰ فیصد تیل درآمد کرتا ہے اور برآمد کنندگان کی فہرست میں دنیا کے چند غیر مستحکم ترین ممالک بھی شامل ہیں، جیسا کہ ایران اور عراق، اور مشرقِ وسطیٰ سے باہر سوڈان اور وینزویلا۔ ان تمام ریاستوں کی تیل کی پیداوار تشدد، دہشت گردی، عدم استحکام یا بین الاقوامی پابندیوں کے باعث متاثر ہوتی رہی ہے۔
غیر مستحکم ممالک پر بڑھتے ہوئے انحصار نے چین کو افریقا میں قیامِ امن کی غرض سے پہلی بار سمندر پار اپنے فوجیوں کی تعیناتی پر مجبور کیا جہاں وہ سرمایہ کاری، تعمیرات اور زرعی شعبوں میں سرگرمِ عمل ہے۔ ۲۰۱۳ء میں بیجنگ نے مالی میں ۱۷۰؍فوجی بھیجے تاکہ وہاں کے ہنگامے تیل کی دولت سے مالامال الجیریا اور لیبیا جیسے ہمسایوں تک نہ پھیل جائیں۔ ایک سال بعد ایک اور پہل کرتے ہوئے چین نے جنوبی سوڈان کے متحارب دھڑوں کے مابین بات چیت کے لیے بھی کردار ادا کیا۔
لیکن تیل کی پیداوار کی ضمانت حاصل کرلینا ہی چین کی واحد پریشانی نہیں بلکہ اس کی ترسیل بھی کلیدی مسئلہ ہے۔ بیجنگ کے درآمد کردہ ۸۰ فیصد سے زائد تیل کو ملاکا کی کھاڑی سے گزرنا پڑتا ہے جو سنگاپور کے قریب دو میل سے بھی کم ایسا تنگ بحری راستہ ہے، جہاں سے روزانہ ۱۵؍ملین بیرل سے زائد تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں تقریر کرتے ہوئے اس وقت کے چینی صدر ہُو جِن تاؤ نے ’’ملاکا کے المیے‘‘ کو ایک خطرے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے ساتھ کیا تھا، اسی طرح ’’کچھ بڑی طاقتیں‘‘ (مُراد امریکا ہی تھا) اس تنگ گزرگاہ میں چین کی توانائی کی شہ رگ کو کاٹ سکتی ہیں۔ جواباً ہُو جِن تاؤ نے بحریہ کو ترقی دینے کا پروگرام شروع کیا جو شی جِن پنگ کی صدارت میں بھی جاری ہے، جس میں چین کے پہلے طیارہ بردار بحری بیڑے کا افتتاح، پہلے بحری جہاز شکن بیلسٹک میزائل کو متعارف کروانا اور جنگی بحری جہازوں، فریگیٹس اور لڑاکا آبدوزوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ شامل ہیں۔ اس ترقی کے اثرات ۲۰۰۸ء میں سامنے آئے جب چین نے ۶۰۰ برس میں پہلی دفعہ سمندر پار بحری مشن بھیجتے ہوئے صومالیہ کے ساحلوں اور خلیجِ عدن کے ساتھ طویل مدتی انسدادِ قزاقی گشت شروع کیا اور اپنی بحری کمزوریوں پر قابو پانے کے اقدام کے طور پر جنوری ۲۰۱۵ء کے اواخر میں برما کے راستے تیل اور گیس کی پائپ لائن بچھائی۔
تیل سے متعلق چینی سرگرمیوں کا رخ واضح طور پر مشرقِ وسطیٰ کی جانب مڑتا نظر آیا، جب نومبر ۲۰۱۴ء میں بیجنگ نے واشنگٹن کو عراقی پناہ گزینوں کی امداد کے لیے رقم (تقریباً ۱۰؍ملین ڈالر) کی پیشکش کی۔ ایک ماہ بعد چین نے عراقی فوج کو داعش سے لڑنے کے لیے فضائی حملوں کی شکل میں مدد دینے کا عندیہ دیا۔ یہ پیشکشیں حیران کن تھیں کیونکہ یہ ایک ایسے ملک کی جانب سے کی جارہی تھیں جس نے ایک عرصے تک امریکی فوجی مداخلتوں کو معاندانہ مغربی مقاصد کی تکمیل کا حربہ سمجھا تھا۔ مگر یہ خطے میں تیزی سے مؤثر ہوتے چینی کردار کے بارے میں وزیر خارجہ وانگ یی سمیت اعلیٰ حکام کے کھلے مباحثوں سے مطابقت رکھتی تھیں۔ مثال کے طور پر مشرقِ وسطیٰ کے لیے بیجنگ کا نیا نمائندہ فلسطین، اسرائیل امن مذاکرات کے حوالے سے ماہر ہے، یہ ایک اشارہ ہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ کے سب سے زیادہ تصفیہ طلب امور میں سے ایک میں اپنی مکمل مداخلت کی تیاری کررہا ہے۔
چینی خارجہ پالیسی میں یہ تبدیلی اس وقت آرہی ہے، جب امریکا ایک دہائی کی مشکل جنگوں سے خود کو نکالنے کی کوشش کررہا ہے۔ داعش کے نمودار ہونے اور امریکی اتحادیوں تک محفوظ ترسیلِ توانائی کے پرانے وعدے کو دیکھتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ سے مکمل امریکی انخلا ناممکن ہے۔ نتیجتاً امریکا کو دیکھنا ہوگا کہ ایک بااعتماد چین کے ساتھ کیسے کام کیا جائے؛ صرف ایشیا میں امریکی مفادات کے تناظر میں نہیں بلکہ مغرب میں بیجنگ کے مفادات کے تناظر میں بھی۔
ایک طرح سے واشنگٹن یہی چاہ رہا تھا۔ امریکی حکام ایک عرصے سے چین پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اپنا بین الاقوامی وزن ظاہر کرے۔ صدر براک اوباما کو شکایت ہے کہ چین کئی دہائیوں سے ایک ’’آزاد سوار‘‘ رہا ہے جس نے امریکی بحریہ کی وجہ سے ممکن ہونے والی عالمی تجارت اور توانائی کی ترسیل سے بے پناہ فائدہ اٹھایا ہے۔ اس لحاظ سے افریقا میں چینی امن فوج اور انسدادِ قزاقی گشت کا اس علامت کے طور پر خیرمقدم کیا گیا کہ بیجنگ، سابق نائب وزیر خارجہ رابرٹ زولیک کے الفاظ میں، بین الاقوامی نظام میں ایک ’’ذمہ دار شراکت دار‘‘ بنتا جارہا ہے۔
مگر اس کا ایک اہم اور ممکنہ طور پر خطرناک پہلو بھی ہے، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں جہاں چین اتنی بڑی طاقت بن رہا ہے کہ اپنا وزن ظاہر کرے، وہیں وہ اس قابل بھی ہوجائے گا کہ پانسا اپنے حق میں پلٹ لے۔ یہ حقیقت چین کے اطراف میں ظاہر ہورہی ہے جہاں فضائی دفاعی زون اور لڑاکا کشتیاں چھوٹے ہمسایوں کے خلاف جغرافیائی دعوے کرنے میں اس کی مدد کررہی ہیں۔ یہاں چینی فوج کارروائی کرنے میں آسانی محسوس کرتی ہے، مثال کے طور پر بحیرئہ جنوبی چین میں اس نے متعدد بار دھڑلے سے امریکی طیارہ بردار جہازوں تک کو چیلنج کیا ہے۔ واشنگٹن کو ایک خطرہ ہے کہ یہ رویہ مشرقِ وسطیٰ تک پہنچ جائے گا۔ امریکا یہ کبھی نہیں دیکھنا چاہے گا کہ خطے میں حالات بدلنے کی اس کی آزادی کو ایک متحرک اور اہل چین زک پہنچائے۔
یہ طے ہے کہ ایسا ایک ہی روز میں ہونے نہیں جارہا۔ چین کے پاس کم از کم فی الوقت کسی بھی لحاظ سے نہ تو امریکا کی طرح مشرقِ وسطیٰ میں باقاعدہ اتحادی ہیں اور نہ ہی قرب و جوار میں فضائی اور بحری اڈے موجود ہیں۔ اور حالیہ ترقی کے باوجود چینی بحریہ امریکی جنگی صلاحیت حاصل کرنے سے کئی دہائی دُور ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ چین میدان خالی چھوڑ دے گا۔ اس کے پاس ابھی بھی بہت گنجائش ہے، مثلاً: معاشی اثر و رسوخ، امداد اور سرمایہ کاری کے لیے ہر بندش سے آزاد طرزِ عمل، اور ایک تیزی سے متحرک ہوتا سفارتی دستہ جسے مضبوط قیادت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ امریکا کو ابھی خلیجِ فارس میں چینی طیارہ بردار جہازوں کا سامنا تو شاید نہ کرنا پڑے، لیکن اس کو یگانگت یا تصادم میں سے کسی ایک یا پھر دونوں کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“China is the new power broker in the Persian Gulf”. (“Foreign Policy”. March-April, 2015)
Leave a Reply