
پالیسیوں کا تسلسل نئے چینی صدر کے لیے ایک سوال رہے گا۔ آنے والا سال کتنا ہی بہتر کیوں نہ ہو، نئے چینی رہنما ژی جن پنگ کے لیے اسے مشکل ہی ثابت ہونا ہے۔ اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کی سست رفتاری کے باعث بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کے سائے میں آٹھ کروڑ ارکان پر مشتمل کمیونسٹ پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا آسان نہیں۔ خصوصاً ایسے دور میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا اور بھی کٹھن ثابت ہوگا جب معاشی نمو کی رفتار سست پڑ رہی ہو اور سماجی دبائو میں اضافہ ہو رہا ہو۔
نومبر ۲۰۱۲ء میں صدر ہوجنتائو سے بطور پارٹی سربراہ کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد ژی جن پنگ کو مارچ میں چین کی رسمی مجلس قانون ساز نیشنل پیپلز کانگریس کے ذریعے صدر منتخب کیا جائے گا۔ یہ بنیادی طور پر ایک نمائشی لقب ہے جو کہ ان کے پارٹی سربراہ کے عہدے سے کہیں کم اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم صدارت ملنے کے بعد انہیں چین کے نمائندے کی حیثیت سے دیگر عالمی رہنمائوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا موقع ملے گا۔
قانون ساز اسمبلی کے اُسی سیشن میں چینی وزیراعظم وین جیابائو کی جگہ اُن کے نائب لی کے کیانگ کو بھی منتخب کیا جائے گا۔ وین جیا بائو کی طرح لی کے کیانگ بھی اصلاح پسند ہیں اور انہیں اپنے پیش رو کی طرح طاقتور، مفاد پرست عناصر کا سامنا رہے گا، خاص طور پر ان بڑی سرکاری کمپنیوں کا جو مالیات اور ٹیلی مواصلات جیسی اہم صنعتیں کنٹرول کرتی ہیں۔
چین میں نئے رہنما عام طور پر تبدیلی کے بجائے پالیسیوں کے تسلسل کو ترجیح دیتے ہیں اور ژی جن پنگ بھی اپنے پیش روئوں کے نقش قدم پر چلیں گے۔ بارہویں پانچ سالہ منصوبے میں ملک کی معاشی ترجیحات کو پہلے ہی بیان کیا جاچکا ہے۔ یہ منصوبہ صدر ہوجنتائو نے تیار کیا تھا اور ۲۰۱۵ء تک ملکی ترقی اسی کے تابع رہے گی۔ چینی معیشت اب تک ترقی یافتہ ملکوں کے بحران سے متاثر ہے اور ایسے میں ژی جن پنگ کی پہلی ترجیح ملک میں سیاسی و سماجی استحکام کو یقینی بنانا ہوگا۔ ۲۰۰۸ء کے عالمی مالی بحران کے بعد چین نے داخلی سطح پر مالی امداد کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اُس میں وقت کے ساتھ کمی آنے سے ملکی معیشت کو مزید تکالیف کا سامنا ہے۔
اعانتوں کا نیا دور شروع ہونے سے ۲۰۱۳ء کے دوران معاشی نمو ۲۰۱۲ء سے قدرے زیادہ ہوسکتی ہے۔ کم ازکم بعض حلقوں کو یہ امید ہے کہ شہری ترقی ملکی معیشت کو آگے بڑھانے میں مضبوط کردار ادا کرتی رہے گی۔ وسطی صوبے حنان کی ایک نجی کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومت چانگ شا میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت ’اسکائے سٹی‘ کی تعمیر کا کام مارچ میں مکمل کرلے گی (اس حوالے سے ناقدین کی بھی کمی نہیں، کیونکہ عمارت پر کام شروع ہی نومبر ۲۰۱۲ء میں ہونا تھا) تاہم اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ہوجنتائو کے دس سالہ اقتدار کے دوران رہنے والی دو عددی شرح ترقی کی رفتار کو ژی جن پنگ برقرار رکھ سکیں۔ بعض چینی ماہرین کے نزدیک نئے صدر کو آئندہ برسوں میں جو چیلنج درپیش ہوں گے، اُن میں کثیر الآبادی کے فوائد میں کمی بھی ہے، کیونکہ ۲۰۱۳ء سے فعال افرادی قوت کم ہونا شروع ہو جائے گی۔
پارٹی کی اندرونی خامیوں کو دور کرنا بھی ان کے لیے ایک دشوار کام ہوگا۔ ۲۰۱۲ء میں پولٹ بیورو کے رکن بوزی لائی کی ڈرامائی بے دخلی اس تاثر کی نفی کرتی ہے کہ پارٹی اقتدار کی منتقلی کا عمل بآسانی کر سکتی ہے۔ امکان ہے کہ ۲۰۱۳ء میں بوزی لائی کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں مقدمہ چلے گا۔ چین نے دو اور پارٹی افسران کو اسی طرح کے الزامات کی بنیاد پر نوے کی دہائی سے قید کر رکھا ہے۔ لیکن یہ نیا مقدمہ سیاسی اعتبار سے زیادہ حساس ثابت ہو سکتا ہے۔
دیگر افراد کے مقابلے میں بوزی لائی طلسماتی شخصیت کے مالک ہیں اور سنگ دل ہونے کی ساکھ رکھنے کے باوجود عوام میں خاصی مقبولیت رکھتے ہیں۔ ژی جن پنگ کی طرح ان کا تعلق بھی چین کے ایک انتہائی بااثر خاندان سے ہے۔ سماجی میڈیا کے دور میں ان کی عدالت میں آمد پہلا موقع ہوگا جس میں اتنی مضبوط شخصیت کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ چین میں ٹوئٹر اور اسی طرح کی دیگر سروسز استعمال کرنے والے افراد اس مقدمے پر گہری نظر رکھیں گے اور اپنی مثبت و منفی آرا کا استعمال بھی کریں گے۔
نئے صدر کو چینی عوام کا بڑھتا ہوا اضطراب کم کرنے کے بعض مواقع بھی ملیں گے۔ سال کی دوسری ششماہی میں چین کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ایک بیس سے ’’چینگ تھری‘‘ نامی جائزہ مشن چاند پر بھیجا جائے گا۔ اگر وہ کامیابی سے ہمکنار ہو گیا تو یہ چاند پر اترنے والا چین کا پہلا سالم خلائی جہاز ہوگا۔ اس مشن کے تحت ایک روور بھی اتارا جائے گا جو نمونے حاصل کرنے کے ساتھ وہاں ایک دوربین بھی نصب کرے گا۔ چین کے مطابق یہ چاند پر نصب کی جانے والی پہلی دوربین ہوگی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ اپنے دس سالہ ممکنہ دورِ اقتدار کے اواخر میں ژی جن پنگ چاند پر چینی شہری بھیجنے کے منصوبے کا اعلان بھی کردیں۔
نیز، چینی قیادت ۲۰۱۳ء میں جنوبی و شمالی پانی کا راستہ بدلنے کی عظیم الشان اسکیم کے افتتاح کا ڈھنڈورا بھی پیٹے گی۔ اس منصوبے پر اربوں ڈالر کی لاگت آئی ہے اور لاکھوں افراد کو بے دخل کیا جاچکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مشرقی حصے کی پہلی نہر ۲۰۱۳ء میں کام شروع کر دے گی جو یانگ زی آبی ذخیرے سے لے کر شمالی بندرگاہی شہر ٹیان جن تک ۱۱۵۶؍ کلومیٹر طویل ہوگی۔ اس کے بعد ۲۰۱۴ء سے دوسری نہر کھولی جائے گی۔ مشرقی نہر کے لیے ’گرینڈ کنال‘ کا راستہ استعمال کیا جائے گا جو انسان کی بنائی گئی دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم آبی گزرگاہ ہے۔
۲۰۱۳ء کے اختتام پر پارٹی کو جشن منانے کا ایک اور موقع میسر آئے گا، جب ۲۶ دسمبر کو چین کے آنجہانی رہنما مائوزے تنگ کی ۱۲۰؍ ویں سالگرہ شایان شان طریقے سے منائی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے ان کے آبائی شہر میں نئے ہوٹل اور شاپنگ مراکز کی تعمیر و تزئین پر بھاری رقوم خرچ ہو رہی ہیں۔ لیکن قیادت کو سنبھل کر چلنا ہوگا۔ وہ یقینا مائوزے تنگ کے سخت گیر حامیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہے گی جو بوزی لائی کے مداحوں میں شامل ہیں۔ ژی جن پنگ کے تیزی سے بدلتے ہوئے چین میں مائوزے تنگ کے سائے اب بھی کافی لمبے ہیں۔
(مضمون نگار بیجنگ میں ’’دی اکنامسٹ‘‘ کے بیورو چیف ہیں۔)
(بحوالہ: میگزین ’’کیسا ہوگا ۲۰۱۳ء؟‘‘)
Leave a Reply