تعارف:
امن وسلامتی کا ماحول ترقی کے لیے اشتراک عمل اور تعاون کی علامت بھی ہے اور اس کے لیے راہیں بھی ہموار کرتا ہے جبکہ جنگ سلامتی کے ماحول کو اور اس کے نتیجہ میں اقتصادی سرگرمی اور سماجی و معاشرتی ترقی کو براہ راست متاثر کرتی ہے اورجنگ میں شریک تمام ہی فریق اس کی غیرمعمولی انسانی و اقتصادی قیمت ادا کرتے ہیں۔
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے براعظم ایشیا نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک جانب تیزرفتار اقتصادی ترقی جن میں چین کی مثال نمایاں ترین ہے اور اسی سلسلہ میں باہم تعاون کے متعدد تجربات کا مشاہدہ کیا ہے اور دوسری جانب یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا میدان بھی بنا رہا ہے جس نے خطہ کے عوام کے ایک بڑے حصہ کو باہم تعاون اور اقتصادی ترقی کے بہت سے مواقع سے محروم کیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ امریکا کی زیرقیادت جو عالمی اقتصادی وسیاسی نظام کا اہم ترین اور کلیدی کردار ہے لڑی جارہی ہے۔ اس لیے اس کے اثرات کا دائرہ بھی کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہے اور اسی بناء پر چین کے لیے جو ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اس سے الگ تھلگ رہنا بھی ممکن نہیں۔ اس تناظر میں اس مقالہ میں دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کا جائزہ اس نقطۂ نظر سے لیاگیا ہے کہ اس نے عالمی سیاست واقتصادیات کے دائرے میں امریکا اور چین کے لیے کیا مواقع اور چیلنج پیدا کیے ہیں۔
مقالہ میں دہشت گردی اوردہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں اہم اور بنیادی سوالات پر بحث کرتے ہوئے اس جنگ میں ہونے والے انسانی و مالی نقصانات، امریکا کی ساکھ اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی نظام اور اداروں پر اس کے اثرات اورجنگ کے اہداف کے حوالہ سے کامیابیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسری جانب اس پوری صورتحال میں چین کے مؤقف اور طرزعمل کے محرکات اور اثرات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقالہ کے آخری حصہ میں انسانی ترقی و اشتراک عمل کے لیے سلامتی کے ماحول کی اہمیت کے تناظر میںمؤثر عالمی نظام اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے چین کے امکانی کردار اور متوقع طرزعمل کی نشان دہی کی گئی ہے۔
دہشت گردی، اس کے خلاف جنگ۔۔۔ بنیادی سوالات:
دہشت گردی کب شروع ہوئی؟ اس بارے میں ایک سے زائد تصورات موجود ہوسکتے ہیں جس کا ایک تعلق خود اس بات سے ہے کہ دہشت گردی کی تعریف کس طرح کی جارہی ہے۔ تاہم اس امر پر اتفاق ہے کہ دہشت گردی کوئی نیا عنصر نہیں ہے اوراس کا آغاز ۱۱/۹سے نہیں ہوا۔ کم وبیش ہر ملک اور معاشرہ میں اس کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ میں گزشتہ چند دہائیوں سے یہ مسئلہ آزادی کی تحریکوں کے تناظر میں زیربحث آتارہا ہے اور اس پر مسلسل بحث کے باوجود اتفاق رائے سے اس کی کوئی تعریف سامنے نہیںآسکی۔ اگرچہ ایسے تمام مواقع پراقوام متحدہ کے ارکان کی ایک بڑی اکثریت نے آزادی کی تحریکوں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات اور دہشت گردی کو یکساں قرار دینے سے انکارکیا۔
آج بھی دہشت گردی کی کسی ایک تعریف پر اتفاقِ رائے ہونے کا معاملہ زیرالتواء ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح کو سیاسی اور جذباتی تناظر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں۱۱/۹ کے بعد یہ سوال عملاً غیرمتعلق کردیاگیا ہے کہ دہشت گردی کیا ہے اور کیانہیں ہے؟
دوسرا مسئلہ دہشت گردی کے قصورواروں کے ساتھ نمٹنے سے متعلق ہے۔۱۱/۹ سے قبل تشدد کی کسی بھی ایسی کارروائی کو جس میں عام بے گناہ شہریوں کی جانیں چلی جاتیںاور تشدد کی کارروائی کرنے والے گروہوں کا محرک کسی بڑے واقعہ کے ذریعہ خوف وحراس کی فضا پیدا کرکے لوگوں کی توجہ اپنی جانب یا اپنے مسئلہ کی جانب مبذول کرانا ہوتاتھا دہشت گردی کا ایک ’جرم‘گردانا جاتا تھا۔ اس جرم کے خلاف عوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ ملزموں/ مجرموں کے خلاف قانون حرکت میں آتاتھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ عدالتی کارروائی کے ذریعہ جرم کو ثابت کرکے ذمہ داران کو سزادی جائے۔ اوریہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ جب عدالتی کارروائی ہوتو جرم ہی نہیں جرم کے محرکات ثابت کرنا بذات خود ایک اہم عنوان بن جاتا ہے۔
تاہم ۲۰۰۱ء میں جڑواں ٹاوروں (Twin Towers) پرحملہ کے بعدایسا نہیں ہوا۔ جڑواں ٹاوروں پر حملوں کے محرکات اور ثبوت کی موجودگی اور غیرموجودگی کوکلی طورپر نظرانداز کردیاگیا۔
ماضی میں کسی ایک ریاست میں سول وار ہوتی رہی ہے یا بعض اوقات کوئی ریاست علاحدگی پسندوں کے خلاف جنگ کرتی رہی ہے لیکن غیرریاستی گروہ کے خلاف بین الاقوامی جنگ کا یہ تصور اسی موقع پرسامنے آیاجس کے پس منظر میں دلیل یہ تھی کہ یہ کارروائی جس گروہ نے کی ہے وہ ایک بین الاقوامی گروہ ہے جس کا مقصد بڑے پیمانہ پر تباہی پھیلانا ہے اور جو موجودہ عالمی نظام کو جو عملاً امریکا کی زیرقیادت جاری ہے تلپٹ کردینا چاہتا ہے۔ اس دلیل کی بنیاد پر اٹھائے جانے والے اقدامات نے جو صورتحال پیدا کی اس نے نظری پہلو سے ایک بہت بڑی تبدیلی یہ پیدا کردی کہ دہشت گردی کے ذیل میں تشدد کے واقعات کے حوالہ سے جرم کے محرکات اور جرم کے ثبوت یا عدم ثبوت کی بحث غیرمتعلق ہو گئی ]اسامہ بن لادن کے مختلف بیانات پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابتدائی بیانات میں اس نے ٹوئن ٹاورز پر حملوں کی ذمہ داری اپنے سرنہ لی تھی ان بیانات میں حملوں کی محض تحسین ہی کی گئی تھی۔بعدمیں رفتہ رفتہ اس نے باالواسطہ طورپر اس کا کریڈٹ لینے کی بھی کوشش کی لیکن بہرحال حملہ آوروں کے ساتھ اس کا کوئی براہ راست تعلق ثبوت کے ساتھ منظرعام پرنہیں آسکا۔ یہ سوال ہمیشہ موجود رہے گا کہ اتنا بڑا واقعہ کرنے والے لوگوں نے آخر اس کا کریڈٹ لینے کی فوری کوشش کیوں نہ کی۔[ اور دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہوگئی جہاں ہر طاقتور کو یہ حق حاصل ہوگیا کہ وہ اپنے ناپسندیدہ عناصر کو دہشت گرد قرار دے کر کسی عدالتی کارروائی کے بغیران کاخاتمہ کرنے کی کوشش کرے۔
اس طرزعمل کے نتیجہ میں دہشت گردی اب ایک ایسا عنوان ہے جو ریاستی اور عالمی سطح پر طاقتور قوتوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جسے وہ اپنے اپنے مقاصد کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار میں کسی بھی ایسے مخالف کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جس سے ان کے عزائم کو خطرات لاحق ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی تعریف کے ابہام نے ۱۱/ ۹ کے بعد کی دنیا میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔
اس صورتحال کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۱/۹ کے واقعات کے بارے میںاٹھنے والے بہت سے سوالات کونظرانداز کردیا گیا۔ یہ سوالات آج تک جواب طلب ہیں اور اسی لیے ۱۱/۹ کے جواب میں شروع ہونے والی جنگ بھی سوالات سے خالی نہیں ہے۔
دہشت گردی کا جواب۔۔۔ بنیادی حکمت عملی:
۱۱/۹ کے بعد دہشت گردی کے خلاف اقدام کو چونکہ جنگ کا نام دیا گیا اس لیے تمام ترحکمت عملی جنگی اور فوجی اقدامات پر مبنی بنائی گئی اور معاملہ کے سیاسی پہلو کو نظرانداز کر دیا گیا۔ چنانچہ طالبان کی اس آمادگی کے باوجود کہ وہ اسامہ بن لادن کو(جسے امریکا نے۱۱/۹ کا ذمہ دار قرار دیا) ایک کھلے ٹرائل کے لیے پیش کرنے کو تیار ہیں ان کی اس پیشکش کو قبول کرنے کے بجائے افغانستان پر حملہ کرکے جنگ شروع کردی گئی۔اس طرزعمل نے ایک ایسی مثال قائم کر دی ہے جس میں دہشت گردی کو ریاستی اور عالمی سطح پر طاقتور کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
جنگ کے اہم اہداف میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا، القاعدہ کا خاتمہ کرنا اورطالبان کوافغانستان میں بے اختیار اور مکمل طورپرغیرمؤثر کرنا شامل تھا۔ جبکہ اس کے لیے امریکا نے اپنی فوجی، سیاسی اور معاشی قوت کا پورا پورا استعمال کیا۔ یورپی ممالک بھی فوری طورپر اس مہم میں شامل ہوگئے۔ بعدازاں اس مہم کے تسلسل میں جنگ کا دائرہ پاکستان کے قبائلی علاقوں تک پھیلا دیاگیا جبکہ ۲۰۰۳ء میں اگرچہ کسی قدر مختلف جواز کے ساتھ عراق پر بھی حملہ کیا گیا۔
جنگ اوراس کے اثرات:
جنگ کوئی بھی ہو اس میں متحارب فریق ایک دوسرے کاکلی طورپر خاتمہ کردینا چاہتے ہیں اوریا ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مخالف فریق کو کم ازکم اس حد تک غیر مؤثر کردیا جائے کہ وہ دوبارہ کوئی خطرہ بن کر سامنے نہ آسکے نیز اس کے آئندہ طرزعمل کو اپنی شرائط کا پابند بنایا جاسکے۔ اس حوالہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دس سالہ تجربات کی بنیا دپر یہ جائزہ لینا مفید ہوگا کہ امریکا اور اس کی زیرقیادت اتحادیوں کواپنی طاقت، ساکھ اور عالمی اثرات کے حوالہ سے کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہے اور اس کے مقابلہ میں فریق مخالف کے خاتمہ یا اسے غیرمؤثر کرنے میں کس قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
جنگ ایک ایسا عمل ہے جوزندگی کے تمام شعبوں پر براہ راست اثرانداز ہوتا ہے اور اثراندازی کا یہ عمل کئی نسلوں تک جاری رہتا ہے۔ اس اعتبار سے ۲۱ویں صدی کی جدید ترین ٹکنالوجی کے ساتھ لڑی جانے والی اس جنگ کے اثرات کے بہت سے عنوانات کا احاطہ شاید کبھی ممکن نہ ہو۔ دوسری جانب ’’دہشت گردی‘‘ کے نام سے جاری اس جنگ کواب اگرچہ دس سال مکمل ہونے کو ہیںلیکن جنگ اب بھی جاری ہے۔ حتمی طورپر یہ کہنا مشکل ہے کہ اس جنگ کے اختتام کی کیا صورت ہوگی اور اس وقت تک جنگ کی قیمت کی صورت میں فریقین کا بوجھ کس حدتک بڑھ جائے گا لیکن اس وقت تک جنگ کے حوالہ سے بالخصوص امریکا پر اب تک پڑنے والے بوجھ کا انسانی، اقتصادی ِ سماجی اور سیاسی عنوانات کے تحت جائزہ ہمیں نہ صرف یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ دہشت گردی کے خلاف ردعمل میں بطور حکمت عملی جنگ کرنے کا فیصلہ کس قدر درست یاغلط تھا بلکہ اس سے مستقبل کے امکانی منظرنامے کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی ]واٹسن انسٹی ٹیوٹ آف براون یونیورسٹی امریکا میں قائم آئزن ہاوراسٹڈی گروپ نے جنگی نقصانات کے محتاط اندازے لگانے کا قابل قدر کام کیا ہے۔ جون۲۰۱۱ میں اس کی شائع شدہ رپورٹ سے یہاں مدد لی گئی ہے[۔ نیز یہ جائزہ اس پس منظر میں اور بھی مفید ہوگا کہ چین نے اس جنگ کے حوالہ سے کیا طرزعمل اٗختیار کیا ہے۔
☼ انسانی قیمت: جنگ کی سب سے بڑی قیمت انسانی جانوں کی ہلاکتوں کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ اس وقت تک ۲ء۲ ملین سے زائد امریکی فوجیوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا ہے جن میں سے بڑی تعداد واپس آچکی ہے۔اپنے جانی نقصان کو صفر کی سطح پر رکھنے کے لیے ابتدائی سالوں میں امریکا نے بالخصوص اپنی فضائی قوت کا بے دریغ استعمال کیا جس نے امریکیوں کو توجانی نقصان سے کافی حدتک محفوظ رکھا لیکن اس کا نتیجہ زمین پر عام شہریوں کی بڑی تعداد کی ہلاکت کی صورت میں نکلا۔ تاہم محتاط اندازوں کے مطابق ۱۱/۹ کے واقعہ (جس میں ۳۰۰۰ سے بھی کم افراد ہلاک ہوئے تھے) کے جواب میں شروع ہونے والی اس جنگ میں افغانستان اور عراق میں اب تک تقریباً ۶۰۰۰ امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔ کل ہلاک شدگان کا اندازہ ۲۲۵۰۰۰ ہے۔ اس میں زیادہ تر عام شہری ہیں اور امریکا اور اس کے اتحادی جس میں عراقی اور افغانی فوجی اور امریکی کنٹریکٹر شامل ہیں تقریباً ۲۵۰۰۰ہیں۔ جنگ سے واپس آنے والوں میں سے کچھ امریکی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات بھی چلے ہیں جبکہ ان لوگوں میں خودکشی کے واقعات بھی روز افزوں ہیں۔
☼ دوسری جانب جسمانی طورپر زخمی ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ۳۶۵۰۰۰ کا اندازہ لگایا گیا ہے جن میں کم ازکم ۱۵۰۰۰۰ امریکی فوجی اور کنٹریکٹر اور اتحادی وعراقی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ۷۰۰۰۰ افراد جبکہ ۱۴۶۹۲۱عام شہری شامل ہیں۔
☼ ۱۱/۹ سے پہلے بھی افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ایران اور پاکستان میں مقیم تھی تاہم دس سال کے دوران مہاجرین اور بے دخل افراد (Displaced Persons) کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور افغانستان، عراق اور پاکستان میں اس وقت مہاجرین اور بے دخل افراد کی مجموعی تعداد ۷۸ لاکھ کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔
☼ آئزن ہاوراسٹڈی گروپ نے انسانی نقصانات کے حوالہ سے ایک اور اہم نکتہ بھی واضح کیا ہے۔ اس کے مطابق ہلاک شدگان، زخمی، معذور اور دیگر متاثرین اور جنگ کے تجربہ سے گزرنے والے فوجیوں اور ان کے پیچھے رہ جانے والے ان کے عزیز واقارب میں پیدا ہونے والے جذباتی و نفسیاتی مسائل کی بناء پر ان کے رویہ میں آنے والی تبدیلیوں (High Risk Behaviours) کے نتیجہ میں خودکشی، تشدد اور Car Crash کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری بھی ان ہی جنگوں پرعائد ہوتی ہے۔ امریکا میں بعض برسوں میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد میدان جنگ میں ان کے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد سے زائد رہی ہے۔
☼ انسانی نقصان کا ایک اور اہم حصہ عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہسپتالوں اور صحت کی دیگر سہولتوں کی تباہی اور خود ڈاکٹروںاور صحت کے عملہ کی عدم دستیابی اور دوائوں، صاف پانی کے فقدان اور امریکی زیرقیادت خطرناک اسلحہ کے بے تحاشہ استعمال کے تابکاری اثرات اوراس کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماریوں کی بناء پر ہوا ہے۔ یوں انسانی جانوں کا یہ نقصان اگرچہ براہ راست جنگ کی بناء پر نہیں انسانی جانوں کو بچانے والے انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں یہ وہ بالواسطہ قیمت ہے جسے کسی بھی طرح جنگ کی قیمت سے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
☼ معاشی قیمت: مارچ ۲۰۱۱ء میں تیار کی گئی کانگریشنل ریسرچ سروسز کی رپورٹ کے مطابق ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے عنوان سے ہونے والی جنگوں اور آپریشنوں کے مجموعی اخراجات ۱۲۸۳ ؍بلین ڈالر (۲۸ء۱؍ٹریلین) تک ہوچکے ہیں۔لیکن یہ کل اقتصادی بوجھ کی ترجمانی نہیں کرتا۔ ۲۰۰۸ء میں Joseph Stiglitz اور Linda Blimes نے مستقبل میںان جنگوں سے متعلق ہونے والے اخراجات کو شامل کرکے تخمینہ دیاتھا کہ یہ اخراجات تین ٹریلین ڈالر تک ہوں گے۔ آئزن ہاور اسٹڈی گروپ نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر ان جنگوں کے نتیجہ میں مرنے والے اور واپس آنے والے زخمی ومعذور فوجیوں کے لیے مستقبل میں واجب الادا ہونے والی ذمہ داریوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ اخراجات ۴ء۴ ٹریلین تک جا پہنچتے ہیں۔واضح رہے کہ جنگی اخراجات کا یہ تخمینہ صرف امریکا کے بارے میں ہے۔ ناٹو اور دیگر اتحادیوں کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔جبکہ افغانستان، عراق، اور پاکستان میں انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں ہونے والے اقتصادی نقصانات بھی اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج امریکا کو جس اقتصادی بحران کا سامنا ہے اس کے اسباب میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے عنوان سے لڑی جانے والی اس جنگ کا حصہ نمایاں ترین ہے۔
☼ سماجی قیمت: سماجی لحاظ سے پہنچنے والے نقصانات کوبعض صورتوں میں اعدادوشمار کی صورت میں بیان کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک جانب امریکا سمیت دنیا بھر میں شہری آزادیوں پر لگنے والی پابندیاں، اور ہر سطح پر سیکیورٹی اور نگرانی کے غیرمعمولی اقدامات ہیں تو دوسری جانب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات ہیں۔ عراق کے بارے میں محتاط اندازہ کے مطابق ایک لاکھ کے قریب لوگ ایسے ہیں جو امریکیوں کے زیرانتظام عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔بدنام زمانہ گوانتاناموبے اور عراق کے ابوغریب جیل کے علاوہ افغانستان میں بھی ایسے کئی مراکز ہیں جو سی آئی اے کے فنڈ سے چلائے جاتے ہیں۔ بگرام ایئربیس میں ۳۰۰۰ سے زائد لوگ مختلف اوقات میں قید رہے ہیں جن کی بڑی تعداد کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ درحقیقت امریکی زیرانتظام مراکز میں ہونے والے تشدد کے نتیجہ میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں اوران ساری کارروائیوں کے جواب میں عدالتی نظام سے ریلیف ملنے کے امکانات اب بھی بہت معدوم ہیں۔ افغانستان میںہیروئن کی پیداوار امریکا کے حملہ آور ہونے سے پہلے تقریباً ختم ہوچکی تھی لیکن اب ایک بار پھر بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار اور اسمگلنگ کی بنا پر ہونے والے دوررس اثرات اس کے علاوہ ہیں۔
جنگ کی سماجی قیمت کی اس بحث کا ایک اور اہم عنوان توانائی کے ذرائع پر بوجھ اور ماحولیاتی نقصان ہے جس کے اثرات کا حقیقی اندازہ توجنگ کے خاتمہ کے بعد ہی ممکن ہے لیکن جو شاید جنگ کے بعد بھی طویل عرصہ تک جاری رہے گا۔ ایک تخمینہ کے مطابق ۲۰۰۸ء کے صرف ایک مہینہ میں امریکی فوج نے ۲ء۱؍ملین بیرل تیل صرف عراق میں استعمال کیا۔
☼ سیاسی ساکھ: امریکا کے نقطۂ نظر سے دیکھاجائے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نقصانات کے جائزہ کا ایک اہم پہلو عالمی سطح پر اس کی ساکھ (Standing) ہے جس کے متعدد پہلوئوں میںسے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ یہ جنگ عالمی سطح پر امریکا کی ساکھ میں مسلسل کمی کا سبب بن رہی ہے۔ چنانچہ عالمی معاملات میں امریکا کے کردار اور طرزعمل کے بارے میں بڑے پیمانے پر شکوک وشبہات پیدا ہوئے ہیں جس کی ایک جھلک ذیل میں پیش کی جارہی ہے:
☼ امریکا کے بارے میں عام تاثر: سردجنگ کے خاتمہ کے بعد امریکا کو عالمی سطح پر قیادت پیش کرنے کا بہترین موقع میسر آیا۔ امریکا نے قیادت پیش ضرورکی لیکن وہ دلوں کو جیتنے کی بجائے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے فوجی، سیاسی اورابلاغی دائرے میں اپنی طاقت کے استعمال پر مبنی تھی جس کے نتیجہ میں یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ امریکا شدید احساس برتری میں مبتلاہے۔ امریکی انتظامیہ یا اس کے حامیوں کی طرف سے مسلمانوں کے حوالہ سے جاری کردہ ذیل کے جارحانہ الفاظ وتراکیب اس کی نمایاں مثال ہیں۔
you’re not with us, you’re against us … Bring it on … Axis of evil …Islamofascism … ACrusade
… U.S. soldiers are God’s warriors …The only thing (Arabs) understand is force … Shock and awe.
تکبر پر مبنی ایسے بیانات اور اس کے ساتھ ساتھ یکطرفہ فوجی طاقت کا استعمال بین الاقوامی سطح پر خیرسگالی کے ماحول اور ساکھ کے خاتمہ یا کمی کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔
☼ اعلان کردہ مقاصد سے مخلص ہونے کا تاثر: کوئی بھی جنگ عوام کی تائید کے بغیر محض فوجی طاقت کے بل پرجیتی نہیں جاسکتی۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے جنگ میں عالمی رائے عامہ کی تائید اور ’دہشت گردوں‘کے لیے اس تائید سے محرومی ایک ناگزیر ضرورت تھی۔ ۱۱/۹ میں ہونے والے انسانی نقصانات کی بناء پر عالمی ہمدردی امریکا کو حاصل تھی اور اسی بنا پر ردعمل میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے عنوان سے افغانستان پر حملہ کے لیے بھی اسے حکومتوں کی ہی نہیں عالمی رائے عامہ میں بھی کچھ نہ کچھ تائید حاصل تھی۔چنانچہ امریکی عزائم کے بارے میں شکوک وشبہات کے باوجود افغانستان پر حملہ کے لیے امریکا کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تائیدحاصل ہو گئی اور مجموعی طور پر ۴۰سے زائد ممالک کے فوجیوں کو کسی نہ کسی طرح افغانستان میں جاری جنگ کا حصہ بنالیاگیا۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ سے بننے والی فضامیں امریکا کے اپنے مقاصد کے تحت عراق پر حملہ اوراس کے جواز میںبڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حوالہ سے صریحاً جھوٹ اور دھوکہ پرمبنی مؤقف کے ساتھ ساتھ القاعدہ اور صدام حسین کے تعلق کو بھی بنیاد بنایاگیاتو اس سے تین فوری اثرات ہوئے:
٭ امریکی قیادت میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقاصد کے بارے میں رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوگیا۔
٭ القاعدہ و طالبان اور دیگر مخالفین کی اس دلیل کو تقویت ملی کہ اصل مسئلہ دہشت گردی کوختم کرنا نہیں بلکہ اس کے خلاف جنگ کو عنوان بنا کر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سیاسی، اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات ]اس حوالہ سے امریکی اہداف کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
☼ امریکا کی واحد سپرطاقت کی حیثیت کو برقرار رکھنا
☼ اپنی ٹیکنالوجی اورطاقت کا مظاہرہ کرنا
☼ دنیا کے اہم اسٹریٹجک مقامات پر کنٹرول
☼ توانائی اور دیگر اہم تیل کے ذخائر تک رسائی
☼ اسرائیل کا تحفظ اور نام نہاد اسلامی خطرے کا مقابلہ[ کی تکمیل ہے۔
٭ یہ عمومی احساس پختہ ہوگیا کہ موجودہ عالمی نظام میں طاقتور ملک کی نا انصافی کو روکنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
حکومتوں نے کسی نہ کسی شکل میں امریکا کا ساتھ اب بھی جاری رکھاہوا ہے لیکن جنگ کے لیے درکار عوامی تائید خود امریکا اور اس کے اتحادیوں میں بھی مسلسل کم ہوتی چلی گئی۔
(۔۔۔۔۔جاری ہے!)
]زیرنظر تحریر مصنف کے انگریزی مقالہ کا ترجمہ ہے جو انہوں نے ستمبر ۲۰۱۱ء میں بیجنگ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں پیش کیا۔[
Leave a Reply