
نریندر مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تب ہی چین میں بہت سے تجزیہ کاروں اور حکام نے کہنا شروع کردیا تھا کہ وہ بھارت کے لیے ڈین ژیاؤ پنگ ثابت ہوں گے۔ ڈین ژیاؤ پنگ ہی نے اپنی دانش اور شبانہ روز محنت سے چین کو غیر معمولی ترقی دے کر تیسری دنیا کے ایک ملک سے سپر پاور میں تبدیل کیا تھا۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی، کیونکہ اِس سے قبل محض اقتصادی قوت کے بَل پر کسی ملک کا عالمی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرنا مثال کا درجہ نہیں رکھتا تھا۔
نریندر مودی جب وزیراعظم نہیں تھے، تب اُنہوں نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے چین کا تین مرتبہ دورہ کیا۔ ہر بار اُن کا شاندار خیر مقدم کیا گیا۔ آخری دورے میں پولٹ بیورو کے چار ارکان سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ عام طور پر کسی بھی ملک سے آنے والا وزیراعلیٰ پولٹ بیورو کے ایک رکن سے مل پاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ چینی قیادت کو اندازہ تھا کہ نریندر مودی میں وزیراعظم بننے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے مودی کو بھارت کے نئے لیڈر کے روپ میں بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔
بات یہیں تک محدود نہ تھی۔ نریندر مودی نے چینی حکام سے اپنی ملاقاتوں میں اقتصادی امور کے ساتھ ساتھ سلامتی کے معاملات پر بھی بات کی تھی۔ چینیوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ نریندر مودی بھارت کے لیڈر بننے والے ہیں کیونکہ اُنہوں نے بیجنگ کے میئر اور دیگر حکام سے گفت و شنید کے دوران جموں و کشمیر میں پاکستان کی طرف سے مبینہ دراندازی اور پاکستان کی طرف سے چین کو مبیّنہ طور پر بھارت کے خلاف استعمال کیے جانے کا معاملہ بھی اہم نکتے کے طور پر اٹھایا تھا۔ انہوں نے ایک صوبائی لیڈر کی حیثیت سے بھی مرکزی لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے چینی قیادت کو خبردار کیا تھا کہ وہ بھارت میں اپنے نہیں بلکہ بھارت کے تیار کردہ نقشے استعمال کریں۔ چین نے کئی مواقع پر ایسے نقشے استعمال کیے ہیں، جن میں مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں دکھایا گیا۔ چینی کمپنی ٹی بی ای اے نے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں بزنس کی ایک تقریب میں ایسے نقشے پیش کیے تھے جن میں مقبوضہ جموں و کشمیر ہی نہیں بلکہ اروناچل پردیش کو بھی بھارت کا حصہ نہیں دکھایا گیا تھا۔
چینی حکام نے اگر نریندر مودی کو آتا ہوا دیکھ لیا تھا تو بھارت کو بھی آتا ہوا دیکھ لینا چاہیے تھا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگانے میں اُنہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یا انہوں نے اس طرف کچھ خاص توجہ نہیں دی۔
اِس سے پہلے کہ چینی قیادت کچھ سمجھنے میں کامیاب ہوتی، نریندر مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی تقریب حلف برداری میں پاکستان سمیت سارک ممالک کی پوری قیادت کو مدعو کرلیا۔ معاملہ یہیں تک نہیں رکا۔ مودی نے جاپان اور امریکا کو بھی رام کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ چین کے حریفوں سے بہتر ہم آہنگی کے ذریعے معاملات کو اپنے حق میں کرلیا جائے۔
سری لنکا ہی کی مثال لیجیے۔ مہندر راجا پاکسے نے سری لنکا کو طویل خانہ جنگی کے جہنم سے نکالا تھا۔ سری لنکا کے باشندوں کی اکثریت نے راجا پاکسے کو اپنے حقیقی لیڈر کی حیثیت سے قبول کر رکھا تھا مگر صدارتی انتخاب میں بھارت نے کچھ ایسا جادو جگایا کہ راجا پاکسے کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ بات راجا پاکسے کے ساتھ ساتھ خود سری لنکا کے باشندوں کی اکثریت کے لیے بھی انتہائی حیران کن ہے۔ اب یہ بات کھل کر کہی جارہی ہے کہ راجا پاکسے کی شکست میں بھارت کی قیادت اور خفیہ اداروں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
سری لنکا میں صدارتی انتخاب کا نتیجہ جیسے ہی سامنے آیا، پورے خطے میں یہ بات کہیں دبے اور کہیں کھلے لفظوں میں کہی جانے لگی کہ صدارتی انتخاب کو بھارت کے خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے سبوتاژ کیا ہے اور بھارت نواز قیادت لانے کے لیے پس پردہ گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ بھارت نے اس نوعیت کے الزامات کو مسترد کیا ہے مگر بعض معاملات حالات کی خرابی میں بھارتی کردار کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔ جب راجا پاکسے سری لنکا کے صدر تھے، تب انہوں نے ملکی سیاست میں ’’را‘‘ کے کردار پر اعتراض کیا تھا اور یہی سبب ہے کہ بھارتی قیادت کو سری لنکن دارالحکومت کولمبو سے ’’را‘‘ کے اسٹیشن چیف کو واپس بلانا پڑا۔ جب معاملات اِس نہج تک پہنچ گئے تھے تو کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بھارت نے سری لنکن کے معاملات میں کس حد تک مداخلت کی ہوگی۔ ’’را‘‘ کے اسٹیشن چیف پر الزام تھا کہ اس نے سری لنکن اپوزیشن کے ایک اہم رہنما میتھری پالا سری سینا کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ راجا پاکسے کی حمایت مکمل طور پر ترک کردیں۔
سری لنکا ایک زمانے تک بھارت کے زیر سایا رہا ہے۔ سری لنکن پالیسیوں پر بھارت کے اثرات کو محسوس کرنا چنداں دشوار نہ تھا مگر مہندرا راجا پاکسے کی قیادت میں سری لنکا کا جھکاؤ چین کی طرف ہوگیا۔ چین نے سری لنکا میں تعمیرات کے شعبے میں اربوں ڈالر لگائے ہیں۔ راجا پاکسے نے سری لنکا کو چین کے لیے ایک اہم اسٹریٹجک اڈے کا درجہ دینے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے ستمبر ۲۰۱۴ء میں سری لنکا کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے ڈیڑھ ارب ڈالر کے ایک منصوبے کا سنگِ بنیاد بھی رکھا تھا۔ اس پر بھارت نے شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔
سری لنکن حکومت بحرِ ہند میں چین کو وسیع تر کردار کے حصول کی راہ دے رہی تھی۔ یہ بھارت کو گوارا نہ تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ چینی قیادت سری لنکا کی مدد سے بحر ہند کے خطے میں قدم جمائے مگر وہ اس معاملے میں راجا پاکسے پر کھل کر دباؤ بھی نہیں ڈال سکتا تھا، کیونکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھارت پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کر رکھے ہیں۔ ساتھ ہی بھارت کو یہ بھی ڈر تھا کہ اگر اس نے زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تو کہیں راجا پاکسے کا چین کی طرف جھکاؤ بڑھ نہ جائے۔
ستمبر ۲۰۱۴ء میں ایک چینی آبدوز سری لنکا کے پانیوں میں داخل ہی نہیں ہوئی بلکہ ایک سری لنکن بندر گاہ پر لنگر انداز بھی ہوئی۔ بھارتی قیادت کے خیال میں یہ حد سے گزری ہوئی بات تھی۔ ایک معاہدے کے تحت سری لنکا اس بات کا پابند ہے کہ ایسی کسی بھی سرگرمی کی پہلے سے اطلاع دے۔ سری لنکا نے بھارتی قیادت کو مطلع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ چینی آبدوز نومبر میں پھر لنگر انداز ہوئی مگر اِس بات بھی سری لنکن قیادت نے بھارت کو مطلع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ سب کچھ بھارت کو سیخ پا کرنے کے لیے کافی تھا۔
سری سینا اب سری لنکا کے صدر ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارت کی کسی بھی تشویش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے چین سے کیے جانے والے تمام معاہدوں پر نظرثانی کا اعلان کیا ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت کے لیے بہت سے معاملات میں ابھی بہت سے چیلنجز موجود ہیں۔ چین کو ایک طرف ہٹانا بھارتی قیادت کے لیے بہت بڑا دردِ سر ہے۔ بحر ہند کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات سے بھارت بہت پریشان ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ چین اپنے علاقے تک محدود رہے۔ دوسری طرف چین چاہتا ہے کہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرات کے آگے بند باندھے۔ مودی حکومت نے فی الحال جنوب مشرقی ایشیا میں چین کو ایک حد تک رکھنے کا ٹاسک شروع کر رکھا ہے۔ سری لنکا کی پالیسیاں اس معاملے میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔
نریندر مودی نے بھوٹان اور نیپال کے دورے کرکے معاملات کو بہت حد تک بھارت کے حق میں کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ نیپال کا انہوں نے دو بار دورہ کیا ہے جو اس امر کا غماز ہے کہ بھارت اب بھی نیپال کو اپنے لیے بہت اہم سمجھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ وہ کسی اور ملک کی طرف دیکھے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کا دائرہ محدود کرنے کے لیے مودی حکومت نے نیپال کو بعض معاملات میں بھرپور معاونت سے نوازنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اقتصادی امور میں اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے نیپال کی بھرپور مدد کی جائے تاکہ اُس کی پسماندگی دور ہو اور نیپالی عوام کو بلند تر معیارِ زندگی میسر ہو۔ بھارت نے نیپال کو توانائی کے شعبے میں بھی غیر معمولی معاونت کا یقین دلایا ہے۔ اس حوالے سے پاور ٹریڈ ایگریمنٹ کیا گیا ہے جس کے تحت بھارت نیپال کی سرزمین پر پن بجلی منصوبے بھی شروع کرے گا۔
بنگلا دیش میں بھی بھارت نے چین کے اثرات کم کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ بندر گاہوں پر توانائی کے آٹھ ارب ڈالر کے منصوبے چائنا ہاربر کمپنی کو ملنے والے تھے مگر اب اچانک بھارتی ریاست گجرات سے کوئی کمپنی ابھر کر سامنے آئی ہے اور یہ منصوبے بھارت کی طرف آتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اور اب بھارت زیادہ بلندی پر اڑ رہا ہے کیونکہ امریکی صدر براک اوباما نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون کے نئے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ بھارت نے امریکا کو ہر اعتبار سے رام کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اُسے اندازہ ہے کہ بھارت کو اپنی طرف کرنے کا سب سے بڑا فائدہ خطے کی بادشاہی ملنے کی صورت میں برآمد ہوگا۔ دونوں ممالک خطے میں اسٹریٹجک گہرائی پیدا کرنے کے لیے بھی ہاتھ ملا رہے ہیں۔ مشترکہ مقصد یہ ہے کہ چین کو ایک طرف ہٹا دیا جائے۔ دونوں مل کر ایشیا بحرالکاہل میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ چین کو اس بات سے مزید دھچکا لگا ہے کہ امریکا نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کرلیا ہے۔
یہ سب کچھ چین کو پریشان اور نروس کرنے کے لیے کافی ہے۔ چینی قیادت صورت حال کی بہتر تفہیم کے لیے کوشاں ہے تاکہ موزوں ترین اقدامات کیے جاسکیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے زیر سایہ شائع ہونے والے اخبار ’’چائنا ٹائمز‘‘ نے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ امریکا اور بھارت دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی دوستی کا گراف بلند نہیں ہوا ہے۔ یہ جملہ اس امر کا غماز ہے کہ چینی قیادت کو بھارت اور امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے تھوڑی بہت تشویش تو ضرور لاحق ہے۔
“China saw Modi coming but not Modi’s India”. (“foreignpolicyblogs.com”. Jan. 29, 2015)
you done great writing job and very nice analysis as well best wishes for you