
کورونا وائرس کے حوالے سے چین اور امریکا کے درمیان الزامات کا تبادلہ تیز ہوگیا ہے۔ چین نے امریکا پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا پر محاذ کھل گیا ہے۔ دونوں ممالک کورونا وائرس کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ امریکی حکام پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ صورتِ حال واضح نہیں کر رہے اور اس نئی بیماری سے متعلق بعض حقائق کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ الزام تراشی کے باعث امریکا اور چین کے تعلقات میں غیر معمولی گراوٹ رونما ہوئی ہے۔ کشیدگی بڑھتی جارہی ہے، جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان ایسے نکات گھٹتے جارہے ہیں جن پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہو۔
ٹوئٹر پر چینی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان ژاؤ لی جیان نے کورونا وائرس کے حوالے سے امریکی قیادت کے خلاف خاصا عقابی انداز اختیار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ابتدائی مرحلے میں چند ایک غلطیاں کیں، بروقت اقدامات نہ کیے۔ امریکا میں بھی چین پر ایسے ہی الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ ایک امریکی سینیٹر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ چین سے جراثیمی ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی ’’بھنڈ‘‘ ہوگیا ہے۔ ہارورڈ میں ویدر ہیڈ سینٹر فار انٹرنیشنل افیئرز کے اسکالر جولین بھی گِورٹز نے کہا کہ امریکا اور چین کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید نقصان پہنچارہا ہے۔ گِورٹز نے مزید کہا کہ چند چینی سفارت کار ’’ڈونلڈ ٹرمپ اسکول آف ڈپلومیسی‘‘ کے پیرو دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ چین نے ایڈز سے نمٹنے کے معاملے میں بھی غیر معمولی کوتاہی کا ارتکاب کیا تھا اور بعد میں امریکا کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کیا تھا۔ گِورٹز کا کہنا ہے کہ بیانیے کی نوعیت چین کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ دنیا کو چین سے مثبت نوعیت کی باتیں درکار ہیں۔ چینی قیادت جو کچھ کر رہی ہے وہ معاملات کو مزید خراب کرے گی۔
امریکا اور چین کے درمیان الزام تراشی نئی بات نہیں۔ گزشتہ برس ہانگ کانگ میں عوامی مظاہروں کا الزام بھی چین نے امریکا پر عائد کیا تھا۔ چین کا کہنا تھا کہ امریکا مظاہرین کی مدد کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے مزید آگ لگائی۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا (سان ڈیاگو) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر وکٹر شیہہ کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر چین کے بعض افسران نے نظریۂ سازش کے تحت ایک بیانیہ تیار کیا اور پھر اپنے قائدین سے اسے منظور بھی کرالیا۔ اگر چینی قیادت نے چند افسران کے تیار کردہ اس منفی بیانیے پر مکمل یقین کرلیا تو اس کے مطابق اختیار کیا جانے والا طرزِ عمل دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ کردے گا۔
چین کے صدر شی جن پنگ کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے معاملے میں ابتدائی مرحلے میں مطلوب حد تک سنجیدگی نہ دکھانے کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ فروری میں ووہان شہر میں جس ڈاکٹر کو اس وائرس کی نشاندہی پر سزا کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہ مرچکا ہے۔ چینی حکام نے دیگر ممالک کے حکام پر زور دیا کہ وہ عالمگیر سطح پر پائی جانے والی میڈیکل ایمرجنسی کو سیاسی رنگ نہ دیں۔ یہ التماس اس وقت سامنے آیا جب امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کورونا وائرس کو ’’ووہان وائرس‘‘ کہا اور کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے ایک رکن نے اسے ’’چائنیز کورونا وائرس‘‘ کا نام دیا۔ چین کا کہنا ہے کہ امریکا نے اس معاملے کو سیاسی رنگ دیا ہے۔ چین کے ایک سرکاری اخبار کے لیے تجزیے میں گاؤ وین چینگ نے لکھا کہ امریکا نے کورونا وائرس پر قابو پانے کے حوالے سے جو طرزِ فکر و عمل اپنائی ہے وہ خوف، تقسیم اور نفرت کو جنم دے رہی ہے۔ وائرس اپنی جگہ خطرناک سہی مگر اسِ کے نتیجے میں سیاسی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ زیادہ خطرناک ہے۔
ان تک یہی بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس ووہان سے پھیلا ہے۔ چینی حکام اور میڈیا کی کوشش ہے کہ اس وائرس کا منبع ملک سے باہر دکھایا جائے۔ یو ایس سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ڈائریکٹر رابرٹ آر ریڈ فیلڈ کا کہنا ہے کہ امریکا میں چند ہلاکتیں فلو سے ہوئی ہیں مگر ایسا لگتا ہے یہ فلو دراصل کورونا وائرس کا نتیجہ تھا۔ اس بیان کو بنیاد بناکر چینی حکام نے امریکا پر الزام لگایا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متعلق حقائق چھپا رہا ہے۔ ژاؤ لی جیان کا کہنا ہے کہ امریکا کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے صورتِ حال کیا ہے، بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں ملٹری ورلڈ گیمز کے لیے امریکی محکمۂ دفاع نے ۱۷ ٹیمیں بھیجی تھیں، جن میں ۲۸۰ ایتھلیٹ تھے۔ غالب امکان اس بات کا ہے کہ ان کے ذریعے کورونا وائرس پھیلایا گیا ہے۔ دوسری طرف امریکا کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا اور اٹلی میں تعینات امریکی فوجی تو کورونا وائرس کے شکار پائے گئے ہیں تاہم چین کا دورہ کرنے والے امریکی فوجی دستے کے کسی بھی رکن میں کورونا وائرس نہیں پایا گیا۔
چینی حکومت کے ایک اور ترجمان گینگ شوآنگ نے بھی امریکا کو موردِ الزام ٹھہرانے میں دیر نہیں لگائی۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے بہت سے حقائق چھپائے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ معاملے کو کچھ کا کچھ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گینگ شوآنگ کا کہنا ہے کہ ہم ابتدا ہی سے کہتے آئے ہیں کہ یہ ایک سائنسی معاملہ ہے اور تحقیقات بھی سائنسی بنیاد ہی پر ہونی چاہئیں۔
بہرکیف، کورونا وائرس کے حوالے سے امریکا اور چین کے درمیان الزامات کا تبادلہ مجموعی طور پر انتہائی خطرناک حقیقت ہے۔ دو بڑی طاقتیں صورتِ حال کی خرابی کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں۔ یہ معاملہ آگے بڑھا تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی اور اِن خرابیوں پر قابو پانے میں ایک زمانہ لگے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“China spins tale that the U.S. army started the Corona virus epidemic”.(“New York Times “. March 13, 2020)
Leave a Reply