چین۔۔۔ پاکستان سے دور رہنے پر مجبور!

Pak China

امریکا سے بگڑتے ہوئے تعلقات نے پاکستان کو مجبور کردیا ہے کہ چین سے تعلقات مزید مستحکم کیے جائیں اور امریکا سمیت پوری مغربی دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ اگر اُسے الگ تھلگ کردیا گیا یا امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا تو چین کا آپشن موجود ہے۔ امریکی پالیسی ساز بھی صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اِس لیے کسی بھی طرح کی غیر معمولی سفارتی اور عسکری مہم جوئی کے موڈ میں نہیں۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ پاکستان نے اِس اہم مرحلے پر امریکا اور افغانستان کا ساتھ چھوڑا تو افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کا بحفاظت نکلنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ چین کیا چاہتا ہے؟ کیا وہ اس پوزیشن میں ہے کہ پاکستان کی طرف سے مزید مستحکم تعلقات کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا مثبت جواب دے؟ کیا وہ اس مرحلے پر امریکا یا کسی اور طاقت سے تصادم کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں اور ہر سوال حالات پر منحصر ہے۔ چین کے لیے کئی معاملات بہت اہم ہیں۔ وہ پاکستان سے دوستی نباہتے رہنا ضرور چاہتا ہے مگر اس کے لیے سبھی کچھ داؤ پر لگانے کو تیار نہیں۔ بھارت اس کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں کی سالانہ تجارت کا حجم ۲۰۱۰ء میں ۶۲ ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ دوسری طرف پاکستان سے چین کی تجارت کا حجم 8 ارب ڈالر تک محدود ہے۔ ایسے میں چین تمام انڈے ایک ٹوکری میں رکھنے والی سوچ بھلا کس طور اپنا سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ چین کی قیادت بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ پاکستان کو اپنا بنانے کے چکر میں وہ بہت کچھ داؤ پر لگاسکتی ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جائے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ چین نے پاک امریکا تعلقات کی بدلتی ہوئی نوعیت پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ اس صورت حال سے وہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے مگر خاصی احتیاط کے ساتھ۔ چین کو اندازہ ہے کہ پاکستان کو ایک واضح سہارا درکار ہے۔ امریکا اس کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ رہا ہے۔ چینی قیادت بھی یقینی طور پر یہ چاہتی ہے کہ امریکا اس کے پڑوس میں نہ رہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی خلاء پیدا ہونے دیا جائے۔ بیجنگ کے پالیسی سازوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر امریکا نے راتوں رات پاکستان کی سرپرستی سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی تو اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہوگا اور صورت حال یکسر غیر مستحکم ہو جائے گی۔

۲؍ مئی کو امریکی فوج کے ایبٹ آباد آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت کے بعد بیجنگ میں چینی قیادت نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو یقین دلایا تھا کہ وہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیتا رہے گا۔ یہ یقین دہانی پاکستان کے لیے کافی تھی۔ مگر مبصرین کی رائے یہ ہے کہ چین اب بھی بہت دیکھ بھال کر آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے حوالے سے کوئی بھی غلط یا خطرناک اشارہ نہیں دینا چاہتا۔ مواصلات، بنیادی ڈھانچے اور گوادر پورٹ میں چین نے اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ گوادر پورٹ میں چین کی سرمایہ کاری ۲۰ کروڑ ڈالر تک ہے۔ اس بندرگاہ کے مکمل فنکشنل ہونے سے چین خلیج سے اپنی مغربی سرحد تک توانائی اور تجارت کے لیے ایک اہم کوریڈور قدرے آسانی سے حاصل کرسکے گا۔ مگر معنی خیز بات یہ ہے کہ پاکستان سے دفاعی معاہدے کے معاملے میں چین احتیاط آمیز تذبذب کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ وہ کوئی بھی واضح اور جامع دفاعی معاہدہ کرکے بھارت سمیت خطے کے کسی بھی ملک کو کوئی غلط سگنل نہیں دینا چاہتا۔ چین کو اندازہ ہے کہ پاکستان سے کوئی بھی جامع دفاعی معاہدہ اس کے لیے سفارتی اور تکوینی سطح پر کڑی آزمائش میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

ایسے میں پاکستان کیا کرسکتا ہے؟ کیا وہ امریکی سرپرستی کو یکسر نظر انداز یا مسترد کرکے چین کو پوری جامعیت کے ساتھ اپنا سکتا ہے؟ مبصرین کے خیال میں معاملہ پاکستان کے چاہنے یا نہ چاہنے کا نہیں، بلکہ چینی قیادت کی ترجیحات کا ہے۔

شنگھائی انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات میں ساؤتھ ایشیا اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ژاؤ گان چینگ کا کہنا ہے کہ پاکستان سے دوستی کو ہر حال میں نباہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُس کے ہر بل کی ادائیگی چین کرے۔ گان چینگ کا استدلال ہے کہ دنیا بھر میں معاشی بگاڑ بڑھ چکا ہے۔ ہر ملک کی اپنی معیشتی اور مالیاتی مشکلات ہیں جن سے اُسے خود نمٹنا ہے۔ امریکا، چین یا کوئی اور ملک پاکستان کے اقتصادی مسائل حل نہیں کرسکتا۔

بھارت کے خلاف موثر قوت کی حیثیت سے چین اب تک پاکستان کو عمدگی سے استعمال کرتا آیا ہے۔ ساتھ ہی وہ جنوبی ایشیا میں امریکا اور یورپ کی مداخلت کو متوازن اور محدود رکھنے کے حوالے سے پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتا تاہم یہ سب کچھ خاصے محتاط انداز سے کیا جاتا رہا ہے۔ چین نے کبھی ضرورت سے بڑھ کر کوئی رویہ اختیار نہیں کیا۔ امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے تجزیہ کار اسکاٹ ہیرولڈ کا کہنا ہے کہ چین سے پاکستان کے تعلقات کا گراف اُسی قدر بُلند ہوتا ہے جتنا چینی قیادت چاہتی ہے! جنوبی ایشیا کی صورت حال سے چین نے معاشی اور تکوینی فوائد خوب حاصل کیے ہیں۔

چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپوریری انٹرنیشنل ریلیشنز میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ہو شی شینگ کا کہنا ہے کہ چین کسی کی ذمہ داری کیوں قبول کرے؟ جنوبی ایشیا میں حقیقی استحکام پیدا کرنا امریکا اور یورپ کی ذمہ داری ہے۔

(بشکریہ: ’’رائٹرز‘‘ لندن۔ ۴؍ اکتوبر ۲۰۱۱)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*