
مسلمانوں کے مقدس شہروںمکہ اور مدینہ کی تجارتی منڈی میں چین کا تجارت کی غرض سے داخل ہونا مشکل نظر آتا ہے، اگرچہ ان شہروں میں چین کی بنی ہوئی غیر معیاری انگوٹھیوں سے دکانداروں کے اسٹال بھرے ہوئے ہیں، گلیوں اور چوراہوں میں اسٹال پر چین کے بنے ہوئے بیگ دستیاب ہیں اور خواتین انتہائی شوق سے یہ چیزیں خریدتی ہیں اور انہیں اپنے ہاتھوں کی زینت بناتی ہیں۔
شہر کے رہائشی چینی چپلیں اور جوتے استعمال کرتے ہیں، اور چین میں بنے ہوئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ چائے بنانے کے لیے چین کا بوائلر استعمال کرتے ہیں اور چین کے بنے کانچ کے ٹی سیٹ میں مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ اپنی ناک چین کے ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہیں اور مسجدوں اور گھروں میں عبادت کے لیے چائینز قالین استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ابھی بھی چین کی فیکٹریاں سعودیہ کی حلال مارکیٹ سے بہت دور ہیں۔یہ سچ ہے کہ سعودی عرب ۹۰ فیصدحلال غذائی سامان یورپ سے درآمد کرتا ہے۔ یورپ کے بسکٹ، ملائیشیا کے تیل اور تھائی لینڈ کی ٹونا مچھلی سے سعودیہ کے سپر مارکیٹ کے شیلف بھرے رہتے ہیں۔ اور چھوٹے اسٹوروں پر مقامی بنائے گئے جوس اور محفوظ شدہ گوشت کے کین موجود ہوتے ہیں۔ کھانے پینے کے ان شیلفس تک چین کی پہنچ نہیں ہے۔ کبھی کبھی مسلمانوں کے خاص تہواروں پر چین کے شہر shenzhen میں قائم جرمن فیکٹری کی بنی ہوئی کینڈی کے پیکٹ حلال سرٹیفیکٹ کے ساتھ ملتے ہیں۔
مکہ پوری مسلم دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے۔ چنگتی حلال فوڈ لمیٹڈ کے جنرل منیجر زنگ ہوئی نے نومبر ۲۰۱۴ء میں گلوبل ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر مکہ کی مارکیٹ میں ہم داخل ہوگئے تو دنیا بھر کی مسلم مارکیٹ میں ہم پر اعتماد کیا جائے گا اور مکہ کی مارکیٹ میں جگہ بنانے کے بعد دوسرے مسلم ممالک میں جگہ بنانا آسان ہوگا، اس پورے بیان میں سب سے اہم لفظ ’’اعتماد‘‘ ہے۔
چین کی فیکٹریوں میں غیر ملکیوں کے ہاتھوں بنے ہوئے مال میں اعتماد حاصل کرنے کی بے مثال صلاحیت موجود ہے۔ لیسوتھو چند مسلمانوں پر مشتمل ایک کیتھولک ملک ہے۔ وہاں چین میں بنے حلال فوڈ سپلائی کیے جاتے ہیں جبکہ وہاں فوڈ سپلائی ٹرانسپورٹ کے لیے گھوڑے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چین کی حلال انڈسٹری جو کہ اس وقت حلال انڈسٹری کا ۱ء۰ فیصد ہے اور اس کی قیمت ۶۵۰ بلین ڈالر ہے۔چینی حکومت کی دلچسپی کے باعث یہ چند سالوں میں ۶ء۱ ٹریلین تک پہنچ سکتی ہے۔ چینی حلال فوڈانڈسٹری اگر مسلمانوں کی حلال مارکیٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی تو مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے چینی حلال انڈسٹری بھی تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرے گی۔ ترقی پذیر ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے شہروں کی تعداد بڑھے گی اور تنخواہوںمیں بھی اضافہ ہوگا۔ مستقبل قریب میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی حلال فوڈ کی پیداوار بڑھانے کے بجائے حلال فوڈ خریدنے کو ترجیح دے گی۔
چین میں ایک اچھی حلال فوڈ انڈسٹری بننے کی صلاحیت ہونی چاہیے، چین بہترین خوراک درآمد کرتا ہے اور خوراک کی درآمدات میں ایک معروف نام ہے اورصرف اچھی حلال فوڈ انڈسٹری بننا اہم نہیں، بلکہ دوسری کمپنیوں سے سبقت لے جانابھی اہم ہے۔ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں چین نے کوشر پروڈکٹ کے نام سے پوری دنیا میں برآمدات میں اضافہ کیا تھا۔ اس وقت ۵۰۰ ایسی کمپنیاں تھیں جنہیں کوشر پروڈکٹ نے سرٹیفکیٹ جاری کیے تھے۔ چین اپنے مال کا ۵۰ فیصد صرف امریکا کو برآمد کرتا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی کوشر مارکیٹ ’کوشر‘ ہیں، یہ کامیابی اس لحاظ سے اہم تھی کہ چین میں کہیں بھی یہودی آبادی نہیں ہے۔ چین کے پاس اپنی حلال فوڈ انڈسٹری موجود ہے جو کہ ۲۰ ملین ڈالر مالیت کی ہے، یہ چین میں رہنے والے مسلمانوں کو حلال فوڈ مہیا کرتی ہے۔ مستقبل میں کبھی بھی چین حلال فوڈ انڈسٹری میں سرفہرست ہوا تو اس کے اثرات چین کے شمال مغرب میں واقع ننسیا کے دارالخلافہ اور مسلمانوں کی گنجان آبادی والے علاقے ین چن پر پڑیں گے۔ ین چن میں کھیل کے میدان، بڑی بڑی مسجدیں، خستہ حال مینار، اور بلاک سے بنے ہوٹل مسلمانوں کا ورثہ ہیں۔ حلال ریستوران علاقے میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ یہاں کی خواتین اسکارف سے اپنا سر ڈھانپتی ہیں جبکہ مسلمان مرد ٹوپی پہنے ہوئے چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں۔ رمضان کے مبارک مہینے میں شہر کے لوگ روزے رکھتے ہیں اور شہر میں جگہ جگہ افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کا علاقہ ہے جہاں مسلمان صدیوں سے رہائش پذیر ہیں۔ یہاں کے لوگ چینی زبان بولتے ہیں لیکن شہر کی دیواروں پر چینی اور عربی میں ہدایات بھی درج ہیں، شہر کی دیواروں پر عربی میں لکھی گئی یہ عبارتیں بیرون ملک سے آنے والے عربوں کو خوش آمدید کہتی ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں پہلی بار ین چن میں عرب چین ایکسپو کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں سعودی عرب کے نامور پیشہ ور افراد، سرمایہ کاروں،سیاحوں اور تاجروں نے شرکت کی تھی۔
عرب سیاحوں اور معززین کی سالانہ آمد نے ین چن اور وزونگ کو بہت تبدیل کر دیا ہے۔ وزونگ، ین چن سے ایک گھنٹے کی مسافت پر چھوٹا سا شہر ہے، جہاں ۸۰ فیصد ’ہوئی‘ آبادی ہے۔ ین چن ایک چھوٹے سے غریب اور بدحال صوبے کا دارالخلافہ ہے۔ لیکن یہاں پر کشادہ کشتیاں اور لوگوں کی آمد کے لیے خوبصورت اور قیمتی دکانوں، مہنگے ریستوران سے آراستہ ائیرپورٹ موجود ہے۔ شہر کے وسط میں تاجروں کے لیے آراستہ ہوٹل موجود ہیں، کچھ ہوٹلوں کی تعمیر اسلامی طرز سے بنے میناروں سے کی گئی ہے۔ ہوٹل کے ہر کمرے میں جائے نماز اور قبلے کا رُخ بتانے کی سہولت موجود ہے۔ ہوٹل میں کام کرنے والی خواتین نے خوبصورت اور رنگ برنگے کپڑوں کے ساتھ ہم رنگ اسکارف سے اپنے سروں کو ڈھانپا ہوا ہوتا ہے۔ شہر کے مضافات میں حلال انڈسٹریل پارک موجود ہے۔ چین کی حکومت اپنے اخراجات پر حلال فوڈ انڈسٹری کے تاجروں اور مالکوں کو تجارت کی غرض سے خلیج کے ملکوں میں بھیجتی ہے۔
وزونگ میں سالانہ آنے والے عرب تاجروں اور سیاحوں کے لیے ۲۰۱۱ء میں ایک وسیع و عریض مسجد کمپلیکس تیار کیا گیا ہے۔ جہاں پر عرب سے آنے والے مہمان قیام کرتے ہیں اور جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں، اس وسیع و عریض کمپلیکس کو اسلامک کلچر سینٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلامک کلچر سینٹر کے گراؤنڈ فلور پر عربوں کی میزبانی کرنے کے لیے وزونگ پوکر ایسوسی ایٹ اور وزونگ آرٹ ٹروپ جیسے کلب موجود ہیں۔ یہ سارا اہتمام چین عرب تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں صدر زی چنگ کی آمد کے بعد سے چین عرب تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ چین کے صدر وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ اور چین کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ تعلقات بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں سے ایک ’’ون بیلٹ روڈ‘‘ کا قیام ہے۔ مسلم ممالک اور چین کے تعلقات کو بہتر بنانے میں ین چن بہتر کردار ادا کرسکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں قائم امریکا کی یونیورسٹی میں سماجی علوم کے ماہر ایسوسی ایٹ پروفیسر نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال چینی حکومت کی حلال فوڈ کے لیے کی گئی کاوشیں قابل قدر ہیں، اس وجہ سے اس سال پیداوار میں ۱۰ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بیجنگ مستقبل میں حلال فوڈ انڈسٹری میں چند معیاری اور بہترین کمپنیاں سامنے لانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ حلال فوڈ کمپنی اس وقت بہت سی مقامی کمپنیوں پر مشتمل ہے۔ جن کے پاس مستند حلال فوڈ سرٹیفیکٹ موجود نہیں ہے اور یہ ساری مقامی کمپنیاں حلال فوڈ کے پیکٹ بناتی ہیں۔ چین میں معیاری حلال فوڈ کا فقدان ہے۔ مقامی اور صوبائی سطح پر حلال سرٹیفیکت جاری کیے جاتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی حلال فوڈ سرٹیفیکٹ حاصل کرنا ایک چیلنج ہے۔ ملائیشیا کا حلال فوڈ سرٹیفیکٹ ایک معیاری اور بین الاقوامی طور پر سند یافتہ سرٹیفیکٹ ہے۔ حلال فوڈ سرٹیفیکٹ آج بھی دنیا میں انوکھی چیز سمجھی جاتی ہے۔ بہت سے مسلم ملکوں میں حلال فوڈ انڈسٹری اچھی حالت میں نہیں ہے، اس لیے حلال فوڈ کے خریدار مقامی طور پر حلال اشیا تیار کرتے ہیں۔ چین کی حکومت خود حلال فوڈ سرٹیفیکٹ جاری کرتی ہے۔ مگر مقامی کمپنیاں یہ معیاری سرٹیفیکٹ حاصل نہیں کرتیں اور اسی لیے یہ کمپنیاں وقتاً فوقتاً اسکینڈل کا شکار رہتی ہے۔
دسمبر ۲۰۱۳ء میں ’’شانزہ‘‘ کی صوبائی حکومت نے ۴۰۰۰۰ پاؤنڈ کے خنزیر کے گوشت کے ڈبے اپنی تحویل میں لیے، جنہیں گائے کے گوشت کے نام پر فروخت کیا جارہا تھا۔ مئی ۲۰۱۵ء میں لوگوں نے ایک حلال بیکری کی وین میں خنزیر کے سپلائی ہوتے دیکھ کر بیکری میں احتجاج اور توڑ پھوڑ کی۔ اس کے علاوہ چین کی کچھ مقامی کمپنیاں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ اپنی فروخت بڑھانے کے لیے وہ ملائیشیا کے حلال سرٹیفیکٹ کا لیبل استعمال کرتی ہیں۔ مارچ میں بیجنگ میں ہونے والے قانون سازی کے سیشن میں مسلم آبادی والے صوبے کے ایک قانونی مندوب نے شرکت کی اورحلال فوڈ سرٹیفیکٹ کے موضوع پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ حلال فوڈ کے حوالے سے بہت سے مسائل ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ چینی مسلمان ان باتوں سے باخبر ہیں یا نہیں، لیکن شک و شبہ کا شکار وہ بھی ہیں۔ ملائیشیا کے کالم نگار اعظم انور نے اپنے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ چین کے حلال فوڈ استعمال نہیں کریں، چینی ملائی برانڈ اور اسلام کو اپنی پروڈکٹ کی مشہوری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے چینی تاجروں کی جانب فروخت کی جانے والی مرغیوں پر بھی شک و شبہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیسے یہ تسلیم کر لیں کہ فروخت کی جانے والی مرغیاں مسلمانوں نے ذبح کی ہیں۔
۲۰۱۴ء میں زنگ نے گلوبل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ہماری یقین دہانیوں کے باوجود دوسرے ملکوں میں شک کیا جاتا ہے، جبکہ ہماری مسلم کمپنی ہیں اور ہم اپنی پروڈکٹ کی تیاری قرآن کے احکامات کے مطابق کرتے ہیں۔
اس بے اعتباری کی بہت سی وجوہات ہیں۔ انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں بس کے ذریعے ین چن سے وزونگ ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے گیا، وہاں میری ملاقات مقامی کمپنی ننجیا پی پنگ کے جنرل منیجر سے ہوئی یہ کمپنی طب اور صحت کے حوالے سے ایک جانی پہچانی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی مشہور گوجی جوس تیار کرتی ہے، یہ جوس نارنجی رنگ کی بوتل میں ہوتے ہیں اور اسے حلال سرٹیفیکٹ کے لیبل کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے۔ یعنی فروخت کیے جانے والے جوس میں الکحل بالکل نہیں ہے۔ لیکن یہ کمپنی جوس کو ایک مشکل تکنیکی طریقے سے تیار کرتی ہے اور اس طریقے سے جوس تیار کرنے میں الکحل کا استعمال ضروری ہے۔
کمپنی کے جنرل منیجر نے مجھے اپنے ہوٹل یا آفس میں ملاقات کرنے کے بجائے ایک بزنس ہوٹل میں ملاقات کی۔ میں نے منیجر سے سوال کیاکہ آپ غیر مسلم ہیں اور ہان اکثریتی کمیونٹی کے ممبر ہیں، پھر آپ حلال پروڈکٹ کیوں فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ چینی حکومت حلال فوڈ انڈسٹری کی ترقی کے لیے اہم اقدامات کر رہی ہے اس لیے یہ کاروبار ہمارے لیے منافع بخش رہے گا، لیکن جب میں نے حلال فوڈ کے طریقے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے مجھے اپنے اسسٹنٹ کے پاس بھیج دیا۔
گلوبل حلال مارکیٹ میں چین کو اپنے قدم جمانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے، چینی فوڈ کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ حلال فوڈ کے صارف کے اعتماد کو بحال کریں تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ ان کی اشیاء کو استعمال کر سکیں۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“China wants to feed the world’s 1.6 billion Muslims (“internationalreportingproject.org/”. May 2, 2016)
Leave a Reply