چین نے تین عشروں کے دوران غیر معمولی ترقی کی ہے۔ ایک طرف اس کی خام قومی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا ہے اور دوسری طرف دنیا بھر میں چین کی جانب سے سرکاری اور غیر سرکاری سرمایہ کاری کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا ہے۔ مگر یہ ترقی اب تک یک طرفہ ثابت ہوئی ہے۔ چینیوں نے صنعتی عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا ہے۔ بڑے پیمانے پر پیداوار کا فائدہ اگر سب سے زیادہ کسی قوم کو پہنچا ہے تو وہ چین ہے۔ برآمدات میں تیزی سے اضافے کے لیے بھی چینی حکومت کوشاں رہی ہے۔ دنیا بھر میں چینی سرمایہ کاروں کی سرگرمیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ چین نے اب تک صرف پر توجہ نہیں دی جس کے باعث معیشت میں عدم توازن پیدا ہوتا جارہا ہے۔ چین کی حکومت اب اس مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسے اس مسئلے پر توجہ دینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
چین میں اصلاحات کا عمل نیا نہیں۔ ۱۹۷۸ء میں حکومت نے معیشت کو سرکاری تحویل سے نکال کر نجی ملکیت اور نجی کاروبار کی طرف لے جانے کی ابتداء کی تھی۔ کوشش کی گئی تھی کہ لوگوں کو منافع کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تحریک ملے۔ اس کے بعد جب تیانن من اسکوائر کا واقعہ رونما ہوا تو چینی حکومت نے ایک بار پھر اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی اور آہنی پردہ ہٹانے پر توجہ دی۔ چین میں اشرافیہ اور دانشور طبقہ اب مل کر حکومت پر زور دے رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اصلاحات کی جائیں تاکہ معیشت اور معاشرت کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ پورے معاشرے اور معیشت کو نئے سانچے میں کس طور ڈھالا جائے۔ حکومت بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں چین کو کس طور بہتر معاشی امکانات پیدا کرتے رہنا چاہیے۔ اب تک تو یہ ہوتا رہا ہے کہ چینی حکومت آئندہ تیس برسوں میں جی ڈی پی کے حوالے سے فکر مند رہی ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ صرف کے رجحان کو تقویت بہم پہنچاکر ایسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں معیشت متوازن ہو اور مختلف شعبوں میں منافع کی شرح برقرار رکھنے میں مدد ملے۔
چین برآمدات اور سرمایہ کاری کا فروغ چاہتا ہے اور اس حوالے سے دنیا بھر میں اس کی سرگرمیاں بھی تیز رہی ہیں۔ ایشیا اور افریقا میں اس نے قدرتی وسائل کے شعبے میں غیر معمولی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ برآمدی شعبے کو بھی اسی سے تقویت ملی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بھاری صنعتوں میں پیداواری عمل تیز کرنے سے ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے کم مشینوں اور ان سے بھی کہیں کم انسانوں کی مدد سے بہت بڑے پیمانے پر پیداوار کا حصول ممکن ہوگیا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مضبوط معیشت کے فوائد سے مستفید ہونے کا موقع ملے یعنی صرف کا رجحان پروان چڑھے اور ملازمت کے مواقع میں بھی اضافہ ہو۔ تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے پر توجہ دی جارہی ہے تاکہ زیادہ لوگ روزگار پاسکیں۔ خدمات کے شعبے کو تقویت بہم پہنچانے کی صورت میں حکومت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار دینے میں کامیاب ہوسکے گی۔ دنیا بھر میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافے سے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اندرون ملک بھی صرف کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ چینی حکومت ٹیکس کا طریق کار تبدیل کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی گاڑیوں کا مالک بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں چین کی خام قومی پیداوار میں صرف کا حصہ ۵۰ فیصد تھا جو اب ۳۶ فیصد رہ گیا ہے۔ برآمدات میں اضافے نے یہ صورت حال پیدا کی ہے۔
چین کے لیے اب معیشت کا متوازن کیا جانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اس کے لیے معاشی پالیسی تبدیل کی جارہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ سرمایہ کاری بڑھانے سے بہت سے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب منافع کی شرح گھٹتے گھٹتے قدرے غیر پرکشش ہو جاتی ہے۔ چینی حکومت چاہتی ہے کہ سرمایہ کاری کا غبارہ پھٹنے سے پہلے ہی لوگوں کو صرف کے رجحان کی طرف لایا جائے۔ اب تک حکومتی کنٹرول کے تحت فولاد، سیمنٹ، المونیم اور دیگر بھاری صنعتوں کے فروغ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ برآمدات کو فروغ دینے کے لیے بھی ایسا کرنا ناگزیر تھا۔ چین کی مجموعی آمدنی میں ان شعبوں کا حصہ ۶۰ تا ۸۰ فیصد رہا ہے۔ اب خدمات کے شعبے کو فروغ دینے ہی سے چین کا بھلا ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے سرمایہ کاری کا رخ تبدیل کرنا ہوگا۔
چینی حکومت کو اندازہ ہوچکا ہے کہ کسی ایک شعبے میں سرمایہ کاری کرتے رہنے سے آخر میں مشکلات ہی پیدا ہوں گی۔ چند برسوں کے دوران سرمایہ کاری کا رخ کسی حد تک تبدیل ہوا بھی ہے۔ چین دو راہے پر کھڑا ہے۔ اگر اسے ترقی کی رفتار برقرار رکھنی ہے اور عوام کا معیار زندگی مزید بلند کرنا ہے تو ناگزیر ہے کہ معیشتی ڈھانچہ تبدیل کیا جائے، اس میں وسعت پیدا کی جائے، ترقی کے ثمرات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائے جائیں۔
(بشکریہ: ’’دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام‘‘۔ ۲۲ فروری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply