
اگر ۲۰ برطانیہ کا تصور ذہن میں لایئے یا ۳ یورپی یونین کے بارے میں سوچیے تو پھر آپ کو چین کا صحیح تصور قائم ہوگا جہاں دنیا کی ۵/۱ آبادی رہائش پذیر ہے۔ اب یہ بھی تصور کیجئے کہ اس عظیم ملک کی معیشت امریکی معیشت کے مقابلے میں چار گنا تیز رفتاری سے ترقی کررہی ہے( چین کی معاشی ترقی کی رفتا ۱۹۹۰ء تا ۲۰۰۲ء ایسی ہی رہی ہے) حقیقت تو یہ ہے کہ چینی معیشت کی ترقی کی رفتار تاریخ میں کسی بھی معاشی ترقی کی رفتار سے زیادہ ہے۔ Goldman Sachs کے مطابق چین کی مجموعی ملکی پیداوار (GDP) اس سال برطانیہس ے آگے ہوجائے گی اور جرمنی کو ۲۰۰۷ء میں پیچھے چھو ڑ دے گی۔ ۲۰۴۱ء میں چین کی کل مجموعی ملکی پیداوار امریکا کی کل مجموعی ملکی پیداوار سے زیادہ ہوجائے گی۔ چینی معیشت کی سالانہ شرح ترقی ۹ فیصد ہے جس کے نتیجے میں اس کی معیشت کا حجم ہر آٹھ سال بعد دگنا ہوجائے گا۔ اس غیرمعمولی اقتصادی فعالیت کا موازنہ کس سے کیا جاسکتا ہے۔ میں ابھی چین کے ۵ شہروں کا دورہ کرکے آیاہوں جہاں ترقی زوروں پر ہے اور میں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہاں کی ترقی کی مشابہت لندن کے Docklands سے ہے جہاں بے شمار تعمیراتی منصوبوں کو Plasma Screen پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تیزی سے پیش رفت کرتے ہوئے منصوبوں کی رواں تصویریں ہیں۔ میں نے کبھی اتنے کرینز نہیں دیکھے اور یہ شب و روز استعمال میں ہیں۔ حتی کہ امریکا میں بھی اپنے مصروف ترین سالوں میں جو کہ ۲۰ کی دہائی ہے ایسا ہی دکھتا تھا۔آپ جب سونے جائیں گے تو آپ کو نہیں معلوم ہوگا کہ صبح جب آپ اٹھیں گے تو کمرے کی کھڑکی سے دیکھیں گے کہ کتنی ہی آسمان رساں نئی عمارتیں معرض وجود میں آگئی ہیں۔ آپ عالم نو (New World) کو بھول جائیں یہ جدید عالم نو (New New World) ہے چین کی تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ امریکی میڈیا میں جو خبریں لیڈ (Lead) بنی ہیں مثلاً سپریم کورٹ نئے چیف جسٹس کا تقرر‘ عراق میں تازہ ترین دھماکے وغیرہ سب اس کے مقابلے میں چھوٹی نظر آتی ہیں۔ کیا ہم نے واقعی اپنے آپ کو دھوکہ دیا کہ ۱۹۸۹ء کا سال نقطہ خاتمہ تاریخ (end of history) اور فتح مغرب (Triumph of the West) ہے؟ سب سے بڑا اقتصادی انقلاب ان سکہ بند کمیونسٹوں کا مرہون منت ہے جن کی اقتدا رپر گرفت ڈھیلی ہونے کا کہیں کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔اس کے برعکس تین سال پہلے جب صدر ہوجنتائو برسراقتدار ہوئے انہوں نے نمایاں طور پر میڈیا پر ریاست کا کنٹرول مزید سخت کردیا ہے۔
۶۰ ارب رینمنبی (Renminbi) کا سوال واقعتا ایک ایسا سوال ہے جس کے نتیجے میں ماوذے تنگ کے وارثین Socialist Market Economy جیسی اصطلاحات میں موجود تضاد سے کب تک صرف نظر کرسکتے ہیں ؟ کیا آپ واقعتاً عوام کو صارفین جانتے ہوئے انہیں بظاہر فری مارکیٹ کی لا محدود Choice بغیر کچھ انہیںدیئے دے سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میںیوں کہئے کہ کیا وہ سماجی مشکلات جو دوسری عظیم جست سے عبارت ہے جمہوریت کے عوامی مطالبات مزید توانا نہیں کردینگی میرا اپنا قیاس یہ ہے کہ چین کی اقتصادی و سیاسی قسمت کا فیصلہ دو کلیدی ادارے کریں گے ۔ دونوں ہی نیٹ ورک کا کام کرتے ہیں۔ پہلا ملک کا مالیاتی نظام ہے یعنی وہ کریڈٹ نیٹ ورک جو ملک کے عظیم بچت کھاتوں کو یکساں طور سے عظیم سرمایہ کاری کی خوشحالی سے مربوط کرتا ہے دوسرا انٹرنیٹ ہے ۔ پہلے ہم کریڈٹ نیٹ ورک کو لیتے ہیں۔ یہ چین کے اقتصادی کرشمے کا تاریک پہلو ہے۔ اس میں شک نہیں کہ چین نے آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتوں کا ایک جنگل تیار کرلیا ہے اس کے ساتھ ہی لامتناہی فاصلوں پر مشتمل ہائی ویز بناڈالی ہیں اور Wales کی طرح کے بہت بڑے بڑے انڈسریل اسٹیٹس قائم کرلئے ہیں تاہم اس کے بینکس ‘ اسٹاک مارکیٹ اور دیگر مالیاتی ادارے مذاق معلوم ہوتے ہیں۔ بینک پرانے وقتوں کا منظر پیش کرتے ہیں یعنی منصوبہ بند معیشت کا جو کافی بڑی مقدار میں مائو کے زمانے کے ناکارہ ریاستی اداروں کو دیئے گئے قرضوں سے بوجھل ہیں۔ دریں اثناء قدرے نئی اسٹاک مارکیٹ مینوفیکچرنگ سیکٹر کے مقابلے میں چھوٹی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ کاری اور قرضہ کے لئے رقوم کی منظوری بامعنی مسابقت اور متعلقہ معلومات پر مبنی نہیں ہوتی ہے بلکہ ذاتی تعلقات کے ذریعہ ہوتی ہے جس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ چند طاقتور لوگوں کو پہنچتا ہے۔ عمومی اقتصادی کار گزاری اس سے بہتر نہیں ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ اقتصادی ترقی کے معروف قوانین چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ختم کردیئے گئے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ چین اس سے تیز رفتار ترقی کا متحمل ہو بغیر کسی بحران کا سامنے کئے جس سے وقتاً فوقتاًایشیا کی دیگر معجز نما اقتصادیات دوچار ہوتی رہی ہیں۔ لیکن مجھے اس میں شک ہے۔ چین اس قسم کے Currency بحران سے یقیناً دوچار ہونے نہیں جارہا ہے جس سے ۱۹۹۷ء میں ملیشیا اور تھائی لینڈ دوچار ہوئے۔ رینمنبی پر دبائو بڑھتا جارہا ہے نہ کہ کم ہورہا ہے جیسا کہ ماہرین کا قیاس ہے کہ جولائی کے مختصر سے اقدام کے بعد کرنسی کی قدر کا ازسرنو تعین ہوگا ۔ مالی بحران کے زوال کے دیگر اقسام بھی ہیں ۔ امریکا کے پاس ۱۹۲۹ء میں سونے کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ دنیا کا سب سے عظیم ترین ذخیرہ ! لیکن اس کی وجہ سے بینک سے متعلق ابھرنے والے خدشات کو دور نہیں کیا جاسکا جو کہ’’عظیم کساد بازاری‘‘ کا سبب بنے۔ اور محافظین کے دبائو کو مت بھولئے جبکہ چین کے ایکسپورٹرز امریکا کے کئی مزید مینو فیکچرنگ سیکٹرز کو کھائے جارہے ہیں۔ چین میں مندی کا سیاسی اثر کیا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا ؟ لیکن اگر کبھی کوئی عوامی احتجاج ہوا تو میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اسے اتنی آسانی سے دبایا جاسکے گا جیسا کہ ۱۹۸۹ء میں تحریک برائے جمہوریت کو کچل دیاگیا۔ ایک بڑی اہم تبدیلی جو اس وقت آئی ہے وہ یہ کہ بیشتر چینیوں کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ حکام بی بی سی کی ویب سائٹ کو بلا ک کردیں ‘لیکن ا س سے کیا ہوگا؟لیکن گوگل کی مدد سے چین میں کرپشن کے حوالے سے ہم متعدد مضامین دیکھے جاسکیں گے ان تمام ذرائع سے جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میدان میں اتنی زیادہ مغربی نیو ز ایجنسیاں ہیں‘ پرسنل ویب لوکیشن کے بارے میں تو کچھ کہیے ہی نہیں کہ سنسر کبھی موثر نہیں ہوسکتا ۔ اگر کوئی اقتصادی حادثہ رونما ہوتا ہے تو کرپشن کی حوالے سے جو کہ Planned Market Economy کا خاصّہ ہے عوام کی قوت برداشت اچانک ختم ہوسکتی ہے۔ انٹرنیٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے نتیجے میں اپنی مایوسی کے اظہار کا عوام کے پاس ایک ہی راستہ ہے۔
(بحوالہ: لاس اینجلس ٹائمز سروس۔ ۶ اکتوبر ۲۰۰۵)
Leave a Reply