افریقا میں چین کی پیش قدمی
چین نے ۲۰ اکتوبر کو کسی پیشگی اشارے کے بغیر اعلان کیا کہ وہ ۳۲ افریقی ممالک میں اپنے ۱۵۰ قرضوں کو پختگی تک پہنچنے کے باعث منسوض کر رہا ہے۔ یہ اعلان چین کے اعلیٰ مذاکرات کار وو بنگوؤ اور کینیا کی نیشنل اسمبلی کے اسپیکر کینیٹھ مرنڈے کے درمیان دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے سے متعلق مذاکرات سے کچھ دن قبل کیا گیا۔ یہ اعلان اس اعتبار سے بھی بہت اہم تھا کہ چینی وزیر اعظم وین جیاباؤ ۸ نومبر کو مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں چین افریقا تعاون کے فورم کی چوتھی وزارتی کانفرنس میں شرکت کرنے والے تھے۔ چین اور افریقا کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ملاقاتیں اس قدر ہو رہی ہیں کہ ایک ماہ میں ایک ملاقات کا اوسط تو نکل ہی آتا ہے۔ بیجنگ کیا چاہتا ہے؟ چین نے ۲۰۰۶ء میں افریقی ممالک کی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی اور ۱۷ افریقی ممالک کے سربراہان کے لیے جب سرخ قالین بچھایا تب ہمارا اندازہ یہ تھا کہ چین اپنی معیشت کو متحرک رکھنے کے لیے افریقا سے تیل اور معدنیات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مگر معاملہ صرف یہیں تک محدود نہ تھا۔ بات صرف ملاقاتوں اور مذاکرات کی نہیں، افریقا کے لیے چین کے ایسے منصوبے بھی ہیں جو تیل اور معدنیات سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ دنیا اب تک افریقا کو پس ماندہ ہی سمجھ رہی ہے اور اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں مگر چین نے افریقا کی وسیع کنزیومر مارکیٹ پر نظر جما رکھی ہے۔
افریقا کے بارے میں ہمارے تصورات بہت حد تک فکشن رائٹرز اور بالخصوص جوزف کونرڈ کے مرہون منت ہیں۔ ۱۹۰۲ء میں جوزف کونرڈ کا ناول ’’ہارٹ آف ڈارکنس‘‘ شائع ہوا جس میں یہ تصور پیش کیا گیا کہ افریقا مکمل طور پر جانچا نہیں جاسکتا، یہ قدیم دور ہی میں جی رہا ہے اور جدیدیت سے بہت دور ہے۔ اس ناول کا یورپی بزنس مین کہتا ہے کہ افریقا میں جو کچھ ہے وہ قدرتی وسائل کی شکل میں ہے۔ کل تک وہاں ہاتھی دانت تھے اور اب تیل کی دولت ہے۔
چین کو افریقا میں کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے جسے دیکھنے اور شناخت کرنے میں مغربی حکومتیں ناکام رہی ہیں۔ چین کے سرکاری ادارے اور نجی بزنس مین سمجھتے ہیں کہ افریقا میں ایک بڑی کنزیومر مارکیٹ موجود ہے جو سونے کی کان ثابت ہوسکتی ہے۔ افریقا میں چین کے اس قدر ملوث ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ چین کے حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ جب افریقا کے باشندے بڑے پیمانے پر خریداری شروع کریں تو چینی ادارے پہلے سے مارکیٹ میں موجود ہوں۔
بہت سی بڑی معیشتیں بھارت کو بھی ایک بڑی کنزیومر مارکیٹ کی حیثیت سے لیتی ہیں۔ بھارت کی معیشت نے سالانہ چھ سے سات فیصد کی شرح سے فروغ پانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ افریقی معیشتیں بھی سالانہ ۳ سے ۴ فیصد سالانہ کی شرح سے فروغ پا رہی ہیں جو عالمگیر معاشی بحران کے تناظر میں کسی اعتبار سے بری پیش رفت نہیں۔ بھارت کی طرح افریقا کی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور چند عشروں میں بھارت، چین اور افریقا آبادی کے اعتبار سے ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔
’’افریقا رائزنگ‘‘ کے مصنف وجے مہاجن نے لکھا ہے کہ افریقا میں مڈل کلاس کو تقویت بہم پہنچانے والے افراد کی تعداد پانچ سے ۱۵ کروڑ ہے۔ افریقا بھر میں ۳۵ سے ۵۰ کروڑ افراد ایسے ہیں جو بہتر معیار زندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انہیں کنزیومر پراڈکٹس بنانے والے مغربی اداروں نے گھیر رکھا ہے۔ یہ لوگ سوفٹ ڈرنکس بھی پیتے ہیں اور برگر یا پیزا بھی کھاتے ہیں۔ موبائل ان کی بھی ضرورت بنتا جارہا ہے اور یہ موٹر سائیکل یا کار کی سواری کے خواہش مند بھی ہیں۔ مغرب نے ان افریقیوں کو ہدف بنا رکھا ہے جو شدید غربت کا شکار ہیں، جبکہ چین نے معاشی اعتبار سے ابھرتے ہوئے طبقے تک پہنچنے کو ترجیح دی ہے جو بہت جلد چین میں تیار شدہ ٹی شرٹس پہنا ہوا ملے گا۔ چین کے جو ادارے افریقا میں کام کرنا چاہتے ہیں انہیں چین کی وزارت تجارت بڑھ چڑھ کر مدد اور قرضے فراہم کرتی ہے۔ اس سلسلے میں بینکوں سے بہتر رابطوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ افریقا میں مزید معدنیات کی تلاش اور تعمیرات وغیرہ کے لیے چین کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی جانب سے ترغیبات دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ چین کی جانب سے افریقی حکومتوں کو کم شرح سود پر ایسے قرضے دیئے جارہے ہیں جن کے ساتھ پریشان کن شرائط نتھی نہیں کی گئیں۔ چین کی حکومت کو توقع ہے کہ افریقا کی (جمہوری اور غیر جمہوری) حکومتیں چینی اداروں کو کنزیومرز تک پہنچنے میں مدد فراہم کریں گی اور قدرتی وسائل تلاش کرنے میں بھی چین کو ترجیح دی جائے گی۔
افریقا کے لیے چین کی منصوبہ بندی میں چند خامیاں ہیں۔ مثلاً چین کی سستی مصنوعات افریقا بھر میں بے روزگاری کو ہوا دے سکتی ہیں۔ ایسا ہوا تو چین کے خلاف عوامی رد عمل تیزی سے ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔ بیشتر افریقی معاشروں میں کرپشن غیر معمولی ہے، سیاسی اداروں میں عدم استحکام عام ہے اور غیر یقینی کیفیت بھی نمایاں ہے۔ افریقا میں معاشی اور معاشرتی بریک ڈاؤن کوئی انوکھا معاملہ نہیں۔ مغرب کو یہ نکتہ ضرور ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ چین کی حکومت افریقی معاشروں میں ممکنہ کنزیومر مارکیٹ سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
(جان لی سڈنی کے سینٹر فار انڈیپینڈنٹ اسٹڈیز کے فارن پالیسی ریسرچ فیلو اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ، واشنگٹن کے وزٹنگ فیلو ہیں۔)
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء)