’’چینی بیلٹ اور روڈ: نیا نام، وہی شبہات‘‘

بیجنگ شاہراہِ ریشم پر ہونے والے اقدامات پر نیا بیانیہ تیار کررہا ہے۔ مگر وہ شکوک و شبہات کو دور کرنے میں ناکام ہے۔

چین نے شاہراہ ریشم پر جب پہلی کانفرنس (Summit) کی میزبانی کی تو ۱۴،۱۵ مئی کو تومہمانوں کی فہرست میں اعلیٰ مناصب پر فائزحکام کے نام شامل تھے۔ ان میں اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یورپ کے صف اول کے ممالک اور یہاں تک کہ امریکا بھی۔ غرض ۱۰۰ ممالک کے ۱۰۰۰ مندوبین اس کانفرنس کا حصہ بنے۔

اس کانفرنس کا مقصد ان تمام معاملات پر گفتگو کرنا تھا جو شاہراہ ریشم کے حوالے سے ضروری تھے۔ ایشیا سے یورپ اور یورپ سے افریقا تک تمام ممالک اس پر تقسیم ہیں کہ چین کی جانب سے ۲۰۱۳ء میں نئی شاہراہ ریشم کے اعلان پر کیا کیا جائے۔ بعض پر امید ہیں کہ انفراسٹرکچر کی ترقی جیسے کہ ٹیلی کمیونی کیشنز، ریل کا نیٹ ورک، پورٹ اور پائپ لائن سے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں اور بعض چین کی تزویراتی پلاننگ اور مالیاتی و سیکورٹی خطرات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

چین نے امیدوں کو پورا کرنے اور خدشات کو دور کرنے کے لیے قابل قدر کوششیں کی ہیں۔کانفرنس سے پہلے اس نے شاہراہ ریشم کے حوالے سے مالیاتی طور پر اضافہ کرنے کا وعدہ کیا، جس میں ۵۰ بلین ڈالر سے زیادہ خصوصی قرضہ دینے کی اسکیموں اور موجودہ شاہراہ ریشم کے ۴۰ بلین ڈالر فنڈ میں ساڑھے چودہ بلین ڈالر کا اضافہ شامل ہے۔

اس کے علاوہ چینی حکومت نے اپنے موقف کے رُخ میں تبدیلی کی ہے، جو سافٹ پاور سیاست کی جانب متوجہ تھا۔ یہ تبدیلی بیجنگ کے اس عمل سے واضح ہے جو انہوں نے اصطلاحات کے استعمال کے لیے کی ہے۔ نئی شاہراہ ریشم کا اصل سلوگن ـــ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ گزشتہ دنوں تبدیل کرکے ’’بیلٹ اور روڈ انی شئیٹو (BRI)‘‘ رکھ دیا گیا۔ چینی حکومت کے مطابق OBOR جہاں صرف ایک ہی نیٹ ورک کی علامت تھا وہاں BRI بڑے نیٹ ورک کلسٹر کی پہچان ہوگا۔ چینی صدر کے دعوے کے مطابق یہ کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں بلکہ یہ تزویراتی عمل کے بجائے شمولیاتی اقدام ہے۔

نئی شاہراہ ریشم صرف چین کے ہر قسم کے انفراسٹرکچر کے لیے ہی مفید نہیں بلکہ وہ دیگر ممالک سے ثقافتی تعلقات کی مضبوطی کا بھی باعث بنے گی۔ چینی میڈیا کی BRI کے ساتھ مشغولیت بڑھتی جارہی ہے، اس کے فروغ کے لیے وڈیوز اور مختلف کلپس تیار کی جارہی ہیں اور بیجنگ سافٹ پاور کے فوائد حاصل کرتے ہوئے اداروں کے ذریعے یہ کام کررہا ہے۔ بیجنگ میں چینی صدرنے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ شاہراہ ’’پرامن، فروغ پذیر، اہم، جدید اور مہذب مستقبل کی ضمانت ہوسکتی ہے‘‘۔

مگر کانفرنس میں صرف۲۹ ممالک کا شریک ہونا شاہراہ کے حوالے سے خدشات ظاہر کرتا ہے جس میں۶۵ ممالک شامل ہیں۔ خطے کی بڑی قوتیں، بھارت اور جاپان، بھی فہرست میں شامل تھے مگر چین کے معاشی استحکام کی تزویراتی حکمت عملی پر تحفظات کی بنا پر شریک نہیں ہوئے۔حصہ لینے والوںمیں یورپین ممالک نے چین کے اس اقدام پر حمایت کرنے میں اور ساتھ دینے میں احتیاط سے کام لیا ہے۔

چینی صدر کے خطاب کے برعکس، BRI کو سافٹ پاور اقدام کے بجائے جغرافیائی اقتصادی و سیاسی حکمت عملی کے طور پر دیکھاگیاہے۔بعض نقاد کے مطابق یہ پراجیکٹ اصل میں چین کو خطے اور عالمی سطح پر لیڈر بن کر ابھرنے کے عزائم میں مدد کرنے کی تزویراتی حکمت عملی ہے۔اضافی طور پر، یورپی یونین اور اس کے کچھ ممبران چین کے ساتھ تعاون کرنے پر رضامندنہیں ہیں ان انفراسٹرکچر پراجیکٹس پرجو یورپ کے اندر ہیں اور جو بین الاقوامی یا یورپی یونین کے ماحولیاتی و سماجی معیار کی تعمیل نہیں کرسکتے۔

یورپ کو بھی کچھ ایسے ہی خدشات کا سامنا ہے چین کے ’’ایشائی انفراسٹرکچر سرمایا کاری بینک‘‘ (AIIB) کے قیام پر۔ بہرحال یورپی یونین کے ۱۸ ممالک ممبران ان دو اقدامات سے واقفیت رکھتے ہیں، جن میں امریکہ اوراس کے ایشیائی اتحادی جاپان نے شمولیت اختیار نہیں کی۔ انہوں نے AIIB کو ایسے ادارے میں ڈھالنے کی کوشش کی جس کا ڈھانچہ اور قوائد مغربی مالیاتی اداروں جیسا ہو۔جبکہ دوسری جانب جو شاہراہ ریشم ہے وہ چین نے از خود اپنی آسانی اور مرضی کے مطابق ترتیب دی ہے۔ AIIB کے برعکس چینی حکومت شاہراہ ریشم کے معاملے میں بظاہر شراکت داروں کو نہیں بلکہ پیرو کاروں (followers not partners) کی تلاش کررہی ہے۔

اس سے بڑھ کر، گزشتہ کانفرنس نے مستقبل کی شاہراہ ریشم فریم ورک پر یورپین اور بیجنگ کے درمیان اختلافات کو واضح کیا ہے۔ چین نے کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام ممالک جو اس میں شامل ہیں، ’’آزاد اور مشمولہ (inclusive) تجارت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور تمام قسم کے تحفظات جو شاہراہ ریشم کے حوالے سے جنم لے رہے ہیں ان کی مخالفت کی ہے‘‘۔ کئی ریاستیں بالخصوص یورپین ممالک جن میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ شامل ہیں، انہوں نے اسٹیٹمنٹ پر دستخط سے انکار کردیا کیوں کہ وہ غیر مطمئن ہیں سماجی و ماحولیاتی استحکام اور اس کے ساتھ ساتھ شفافیت کے حوالے سے۔ جرمنی کی طرف سے اسٹیٹمنٹ میں آزاد تجارت اور منصفانہ مقابلے کی ضمانت کا کہا گیا جو کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے۔

بیجنگ کی تشہیری مہم کے باوجود ۳۰ ممالک نے ہی مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے۔ یورپین ممالک چین کے اس BRI اقدام کے آگے گرے نہیں۔ چینی صدر کے بیان کے مطابق چین کو عمل بھی کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں یورپی ممالک BRI کے فوائد سے آگاہ ہوسکیں۔ اگلی کانفرنس ۲۰۱۹ء میں منعقد ہوگی، چین کے پاس کچھ بھی کرنے کے لیے ۲ سال کا عرصہ ہے۔

(ترجمہ: عبدالرحمن کامران)

“China’s Belt and Road – new name, same doubts?”. (“ecfr.eu”. May 19, 2017)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*