
اس وقت جبکہ چین کی معیشت سست روی کا شکار ہے، شی جن پنگ ماؤ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں اور اشتراکی جماعت کے کچھ ارکان اِس روش سے خوش نہیں۔
لاکھوں یادگاری پلیٹوں پر ان کی قد آور تصویر موجود ہے، جس میں مونا لیزائی مسکراہٹ بھالو کے کارٹون وِنی جیسی لطیف فضا کی بدولت دو آتشہ ہو گئی ہے۔ شاعر ان کی خدمت میں خوبصورت شعر پیش کرتے ہیں۔ فروری میں ایک شوقین مزاج مدح خواں نے ایک بہترین مدح لکھنے کی کوشش میں کہا کہ ’’میری آنکھیں اس نظم کو تخلیق کر رہی ہیں، میری انگلیاں میرے سیل فون پر جَل رہی ہیں‘‘۔ چین بھر میں کتابوں کی دکانیں شی کی تقاریر و مضامین کو نمایاں جگہ پر رکھتی ہیں۔ سرکاری میڈیا کے مطابق ان تقریروں اور مضامین کی پچاس لاکھ کاپیاں بِک چکی ہیں۔ ان کا نظریہ ایک چھوٹی سی متحرک ویڈیو میں بھی سمیٹا گیا ہے، جس کی ایک سطر کہتی ہے: ’’ایک اچھے خوشحال معاشرے کی تعمیر ہر ایک کا خواب ہے، جامعیت کے ساتھ۔‘‘ یہ کوئی زبردست قافیہ پیمائی نہیں ہے۔ لیکن جب آپ زمین پر سب سے طاقتور حکمران ہوں تو اس کی پروا بھلا کون کرتا ہے۔
شی جن پنگ کے ایک دہائی طویل عرصۂ اقتدار کے ابھی صرف تین سال چند مہینے ہی گزرے ہیں۔ اس کم وقت میں ہی انہوں نے وہ اختیار حاصل کر لیا ہے جو ماوزے تنگ کے بعد ان کا کوئی جانشین حاصل نہیں کرسکا۔ ماؤ زے تنگ عوامی جمہوریہ چین کی اشتراکی جماعت کے بانی تھے اور اَب معیشت، قومی سلامتی اور خارجہ اُمور سے لے کر انٹرنیٹ، ماحولیات اور بحری جھگڑوں تک، ہر معاملے کو شی نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔ اب چین کی اشتراکی جماعت کے خانوادے کے ۶۲ سالہ فرزند ایسی خودنمائی کو فروغ دے رہے ہیں جو بہت عرصے سے چین میں نظر نہیں آئی۔ اس کے آخری مظاہرے ان دنوں میں ہوئے تھے جب دیوانے سُرخ محافظوں نے چیئرمین ماؤ کے ثقافتی انقلاب کا خیر مقدم کیا تھا۔
’’شی ایک خدا تراشی کی مہم پر ہیں، جس میں خدا وہ خود ہیں‘‘۔ یہ کہنا ہے زانگ لیفان کا، جو شی جن پنگ پر سوال اٹھانے کی جرأت رکھنے والا، بیجنگ کے دانشوروں کا ایک محدود حلقہ ہے۔
۱۹۶۶ء میں شروع ہونے والے عظیم ثقافتی انقلاب کی، جس نے لاکھوں لوگوں کی موت پر منتج ہونے والی سیاسی تباہی کو جنم دیا، پانچ دہائیوں بعد شی عوام کو متحد رکھنے اور ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ماؤ کی حکمتِ عملیاں استعمال کر رہے ہیں اور چینی زندگی میں ایک بار پھر ماؤ نواز اور مارکسی نظریات کا انجکشن لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو نظریاتی تعلیمی کلاسیں لینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ دوسری طرف شی کی حکومت ’’بیرونی دشمن قوتوں‘‘ کا راگ الاپ رہی ہے، جن کے بارے میں اسے یقین ہے کہ وہ دوبارہ ابھرتے ہوئے چین کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ چینی سیاست کے ماہر، ہارورڈ کے روڈیرک میک فرکوہر کہتے ہیں کہ ’’ماؤزے کی طرح شی کی بھی یہی سوچ ہے کہ اگر چین نے مغربی اقدار کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تو یہ نہ صرف چین کی انفرادیت کے لیے تباہ کُن ہو گا بلکہ چین کی اشتراکی جماعت کے استحکام کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
شی کی خود پرستی اشتراکی جماعت کے اندر کچھ ناقدین کے لیے بے چینی کا باعث ہے، جن کا خیال ہے کہ چین کی معاشی ترقی کا سہرا ماؤ کے دور کے بعد اپنائے جانے والے اجتماعی اور غیر مرکزی اندازِ حکمرانی کے سر ہے۔ مارچ میں مرکزی کمیشن برائے نگرانیٔ نظم و ضبط سے وابستہ اخبار میں ایک آن لائن مضمون شائع ہوا۔ یہ کمیشن سرکاری بدعنوانی کی بیخ کنی کے لیے بنایا گیا ہے۔ مضمون میں شی کی طاقت کے ارتکاز کی کوششوں اور ان کے مشیروں کے بدنام زمانہ محدود حلقے کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ ’’اشتراکی جماعت کے وفادار ارکان‘‘ سے منسوب ایک کھلا خط بھی انٹرنیٹ پر کچھ دیر گردش کرتا رہا، جس میں شی کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ خط کس نے لکھا، جو سب سے پہلے ایک حکومتی نیوز پورٹل پر آیا اور پھر ہٹا لیا گیا، واضح نہیں۔ لیکن اس کا ایسے وقت میں منظرِ عام پر آنا، جب چین کا سالانہ سیاسی اجلاس ہو رہا تھا، ایک یاد دہانی تھی کہ شی کی سمت پر پارٹی کے اندر شکوک و شبہات گہرے ہو رہے ہیں۔
بیجنگ کا سخت ردِعمل بھی معنی خیز تھا۔ حالیہ دنوں میں چینی حکام نے ۲۰ سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا تاکہ خط کے پُراسرار مصنفین کو تلاش کیا جاسکے۔ زیرِ حراست لوگوں کا اگرچہ یہ کہنا ہے کہ ان کا اس خط کی اشاعت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ریاستی کونسل کے اطلاعاتی دفتر نے، جس کا کام چینی کابینہ کے موقف کو واضح کرنا ہے، ٹوئیٹر پر جا کر افواہوں کو رَد کرنے کے لیے لکھا کہ ’’اس طرح کی بے پر کی اڑائی ہوئی باتوں کی کوئی وقعت نہیں‘‘۔
مذکورہ بالا حراستیں اور آزادیٔ رائے کو محدود کرنے والے نئے قوانین کا اجرأ، انسانی حقوق کے خلاف شی کی بڑھتی ہوئی کوششوں کا حصہ ہیں۔ ان کوششوں نے چین میں کسی بھی قسم کی سیاسی آزادی کی امیدوں کا بھی قلع قمع کر دیا ہے۔ مگر شی کا اصل چیلنج ثقافتی انقلاب میں ایک اکیلے رہنما کی پوجا کرنے سے ہونے والے نقصان کی ڈراؤنی یاد ہے۔ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں تاریخ کے پروفیسر فینگ چونگی کہتے ہیں کہ ’’شی کی خود نمائی کی مہم کا مقدر ناکامی ہے، کیونکہ ثقافتی انقلاب کو دیکھ لینے کے بعد شی کے ہم منصب اَب ایسے کسی مطلق العنان راہ نما کو ابھرتے نہیں دیکھنا چاہتے جو ان کی زندگیوں اور جائیدادوں پر کُل اختیار رکھتا ہو‘‘۔ ثقافتی انقلاب کے بعد سیاسی ہوش و حواس بحال کرنے کے لیے ڈینگ شیاپنگ نے ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اواخر میں معاشی اصلاحات شروع کی تھیں۔ اس کے بعد سے چین کی اشتراکی جماعت نے اپنے جوازِ حکمرانی کو نظریے کے بجائے چینی زندگیوں کو بہتر بنانے کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔ ہزاروں لاکھوں لوگ غربت کے شکنجے سے نکل آئے اور ایک اندازے کے مطابق اَب سرکاری طور پر یہ اشتراکی قوم سب سے زیادہ متوسط طبقے کی حامل قوم بن چکی ہے۔ مگر چین کی نمو کی رفتار سست ہوئی ہے اور پچھلے سال چین ۷ فیصد کی شرحِ نمو کے اپنے ہی ہدف کو نہ پاسکا۔ اس سال کا متوقع ہدف ۵ء۶ سے ۷ فیصد بھی اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکے گا۔ اشتراکی جماعت قدرت کی آشیر واد کھو دینے کے خطرے سے دوچار ہے، وہ خطرہ جو شہری معاشی ترقی کے ساتھ آیا ہے۔
اس کے باوجود مارکیٹ اصلاحات میں تیزی لانے اور معیشت کو فوقیت دینے کے بجائے شی سیاست میں مصروف نظر آتے ہیں۔ وہ ماؤ کی دنیا میں قید ہیں۔ وہ دنیا جو خود پرستی، ریاستی شعبے کی حد درجہ تعریف اور چین کی بربادی پر تُلے ہوئے غیر ملکیوں پر شدید تنقید سے عبارت ہے۔ ہاروردڈ کے میک فرکوہر کا کہنا ہے کہ ماکسزم کا احیا اور مغرب سے قطع تعلقی چین کو اب کچھ نہیں دے سکتے۔ لیکن اشتراکی جماعت کے پاس اس کے سوا کچھ ہے بھی تو نہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مایوسی کی کیفیت میں یہ اس کا آخری موقف ہے۔
قومی سطح پر یہ اعتماد ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب چین روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے، اس کا اثر و رسوخ افریقا کے انتخابات کے نتائج اور یورپ کے صارفین کے رجحانات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ چین کو ایک عالمی سُپر پاور بنانے کے لیے بے چین شی نے چین کے جنوبی سمندر میں زمین کی ملکیت کے دعوے کیے ہیں اور علاقائی کشیدگی کا الزام امریکا پر عائد کیا ہے۔ گزشتہ سال انہوں نے ایک زبردست فوجی مشق منعقد کی تھی تاکہ چین کے بڑھتے ہوئے اسلحے کی نمائش کی جاسکے اور اس کے ساتھ ہی پیپلز لبریشن آرمی پر ان کی بالادستی بھی ثابت ہو جائے۔ ۲۰۱۵ء میں چین کے صدر نے عالمی دورے کے دوران ۱۴؍ممالک کا سفر کیا اور ہر ایک میں ان کی شاندار مدارات ہوئیں۔ برطانیہ میں تو انہوں نے سنہری گاڑی کے جھولے کا مزہ بھی لیا۔
چین کے اَندر شی کی زور آوری اور بیرونِ ملک ان کی اہمیت بہت سے چینیوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف انہی جیسا کوئی شخص ملک کو عالمی منظرنامے پر نمایاں جگہ دلا سکتا ہے۔ ’’وہ ایک طاقتور رہنما ہیں، جیسے چیئرمین ماؤ تھے‘‘۔ یہ کہنا ہے وانگ چینگ کا جو ہر ماہ صدر شی کے چہرے سے مزین ۱۸۰؍پلیٹیں بیچتا ہے۔ حکومتی امداد سے چلنے والی چینی اکیڈمی برائے معاشرتی علوم میں انسٹی ٹیوٹ برائے ایشیا پیسیفک کے پروفیسر زونگ فیٹنگ کہتے ہیں کہ ’’چین کے لیے شی کا وژن بہت پُراعتماد اور دنیا کے ساتھ قریبی تعلق پر مشتمل ہے۔ وہ بذاتِ خود بھی بہت پُراعتماد شخص ہیں‘‘۔ لیکن کیاؤ مو کا موقف مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’شی ایک بادشاہ کی طرح ہیں جو سرخ اشرافیہ سے اٹھ کر آئے ہیں‘‘۔ کیاؤ پہلے بیجنگ فارن اسٹڈیز یونیورسٹی میں بین الاقوامی رابطوں کے شعبے کے سربراہ تھے۔ مگر بعد میں اپنی صاف گوئی کی وجہ سے وہ کالج لائبریری میں لگا دیے گئے۔ ان کے بقول ’’لوگ شی پر تنقید کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ لیکن شی کوئی خدا تو نہیں۔ وہ ہر چیز کا علم نہیں رکھ سکتے، نہ ہی وہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔‘‘
۱۹؍فروری کی صبح شی کے لیے مصروفیت کی حامل تھی۔ چند گھنٹوں کے اندر انہوں نے درجنوں ہرکاروں کے ساتھ، جو انہی کے جیسا لباس زیب تن کیے ہوئے تھے، ملک کے سب سے بڑے اخبار، ٹی وی نیٹ وَرک اور نیوز ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا۔ ان کا مشن میڈیا کی طرف سے مکمل وفاداری کا اطمینان کرنا اور انہیں اس بات کی یاد دہانی کرانا تھا کہ ان کا اولین کام ’’پارٹی کی خواہشات و نظریات کو عوام تک پہنچانا، پارٹی کی مرکزی قیادت کی حاکمیت کا دفاع کرنا اور پارٹی کے اتحاد کو قائم رکھنا ہے‘‘۔ چین میں پارٹی مجبوریاں بعض اوقات حد سے تجاوز کرتی نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر پارٹی کا ترجمان پیپلز ڈیلی کے نام سے ایک اخبار ہے۔ اگرچہ آج کل اس اخبار کا جھکاؤ شی کے ذاتی مفادات کو آگے بڑھانے پر زیادہ ہے۔ پیپلز ڈیلی کے پہلے صفحے پر ان کا ذکر ان کے پیشروؤں، ہو جن تاؤ اور جیانگ ژی من کے مقابلے میں کم از کم دگنا ہوتا ہے۔ یہ تحقیق ہے کیانگ گانگ کی جو یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں چینی میڈیا پروجیکٹ سے منسلک ہیں۔ گزشتہ دسمبر میں صفحۂ اول کی گیارہ شہ سرخیوں میں شی کا نام موجود تھا۔
لیکن شی نے وفاداری کا یہ مطالبہ صرف سرکاری میڈیا سے ہی نہیں کیا۔ انہوں نے فن کاروں سے خطاب کیا اور کہا کہ ’’فن اور ثقافت اپنی بہترین مثبت توانائی تَب ظاہر کریں گے، جب فن و ثقافت کا مارکسی نظریہ جڑ پکڑے گا‘‘۔ پیپلز لبریشن آرمی کے فوجیوں کو بھی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ چین کے لیے نہیں بلکہ قوم کے سربر آوردہ اشتراکیوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مارچ میں چین کی ربر اسٹیمپ پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر سرکاری میڈیا نے پارٹی کے ۸ء۸ کروڑ ارکان کو شی کی دانشوری پر مشتمل ان کے ’’اہم افکار‘‘ پڑھنے کی نصیحت کی۔ یونیورسٹی کیمپسوں میں بھی غیر ملکی نصابی کتب کے بُرے اثر کی سرکاری طور پر مذمت کی گئی ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ کارل ماکس جرمنی میں پیدا ہوئے تھے۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ڈیوڈ شیمباگ، جن کی حالیہ کتاب کا نام ’’چین کا مستقبل‘‘ ہے، کہتے ہیں کہ ’’مغربی اقوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اشتراکی جماعت کا خیال ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ ایک نظریاتی جنگ میں ملوث ہے، خاص طور پر امریکا کے ساتھ‘‘۔ مارکسی مفروضات اور ماؤ کے نعرے جدید چینی زندگی سے میل نہیں کھاتے جو اَب ثقافتی انقلاب کے جدا اور انتشار زدہ سالوں کی زندگی سے بہت مختلف ہے۔ بیجنگ کا کوئی بچہ جو اسٹار بکس اور بگ بینگ نظریے کو سمجھتے ہوئے پروان چڑھا ہو، مغرب کو رَد کرنے اور اشتراکی ہیروز کو اپنانے پر کیسے تیار ہوسکتا ہے۔ اور پارٹی کی اشرافیہ کے لیے بھی بطور ہیرو شی کا عروج بے چینی کا باعث ہے کیونکہ وہ ماؤ کی زیادتیوں کی یاد تاذہ کر دیتا ہے۔
شی کے رویے پر منفی ردِ عمل پہلے ہی آنا شروع ہو چکا ہے۔ شی کے فروری کے میڈیا دورے کے بعد رین زی کیانگ نے صدر کی طرف سے وفاداری کے مطالبے پر سوال اٹھایا۔ رین پارٹی کے رکن ہیں جن کے ٹوئیٹر پر ۷ء۳ کروڑ فالووَرز ہیں۔ رین کا اکاونٹ فوراً ہی بند کر دیا گیا اور پارٹی کے مقامی حکام نے کہا کہ وہ مسلسل غیر قانونی اطلاعات اور غلط تبصرے شائع کرتے رہتے ہیں جس سے ناگوار اثر پڑتا ہے اور پارٹی کا تاثر بُری طرح مسخ ہوتا ہے۔ ایک سابق فوجی کے خلاف، جس کی سیاسی تعلق داریوں میں بھی کوئی شک نہ ہو، پارٹی کی طرف سے اس طرح کی تند و تیز تنقید نے بہت سوں کو حیران کیا۔ چینی تاریخ دان زانگ کے بقول ’’یہ دس دن کا ثقافتی انقلاب تھا‘‘۔ مگر اس کے بعد سے رین کو لگام دینے کی مزید کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
دوسروں نے بھی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ جس میں سرکاری میڈیا سے وابستہ لوگ بھی ہیں جنہیں برخاستگی یا حراست میں لیے جانے کا خوف ہے۔ انہوں نے آزاد سوچ رکھنے والوں پر شی کے کریک ڈاؤن اور پارٹی وفاداری کے لیے ان کی مہم پر سرِ عام تنقید کی ہے۔ لیکن اختلافات کے یہ بیج حکومت کے خلاف کسی بڑی مہم میں تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ اپنی طاقت کی نمائش کے علاوہ شی بہت سے چینیوں کے درمیان اپنی بدعنوانی مخالف مہم کی وجہ سے بھی مقبول ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں خودسر حکام گرفتار کیے گئے ہیں۔ شیمباگ کا کہنا ہے کہ نظام کی پوری اشرافیہ جس میں کاروباری حضرات، دانشور، فوجی حکام، اشتراکی ارکان، ہر سطح کی حکومتی افسر شاہی، سبھی شامل ہیں، چین میں موجودہ سیاسی نظام کے آگے اپنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں۔
لیکن اگر فی الحال عام چینی افراد شی کی حمایت کر رہے ہیں، تو شی کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ کل کو یہ انقلابی بخار الٹا اثر بھی ڈال سکتا ہے۔ جنوبی چین میں پنگ کیانگ اشتراکی روایت میں ایک ایسے شہر کے طور پر مشہور ہے جہاں ایک نوجوان ماؤ نے ضلع انیوئین کی ایک کوئلے کی کان میں ۱۹۲۲ء میں ہڑتال کروائی تھی۔ ثقافتی انقلاب کے دوران ایک پروپیگنڈا پوسٹر اس واقعے کی یاد میں بنایا گیا تھا جس میں ماؤ اشتراکی مقصد لیے پسماندہ لوگوں کو بچانے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ لیکن اَب پنگ کیانگ میں سرکاری ملکیت میں موجود آٹھ کانوں میں سے صرف تین فعال ہیں۔ جو عالمی سطح پر کوئلے کی فراوانی کا نتیجہ ہے۔ سیکڑوں کان کن کم تنخواہوں سے اتنے بددل ہوئے ہیں کہ انہوں نے فروری کے آخر اور مارچ کے شروع میں مظاہرہ کیا۔
پنگ کیانگ کے ایک کان کن شیاؤ بن کے پاس پاؤ کا ایک پوسٹر ہے جس میں وہ انیوئین میں اپنے سادہ سے گھر کو سجا رہے ہیں۔ ۳۷ سالہ بِن کو اب بھی امید ہے کہ شی لوگوں کا خیال کریں گے۔ آخر کار یہ تاعمر ملازمت اور ریاست کی طرف سے مدد کا وعدہ، مارکسزم ہی کی تو اساس ہے، جسے موجودہ چینی صدر دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔ لیکن اگر مزدوروں کے مظاہرے کا، جس میں بِن نے بھی حصہ لیا تھا، کوئی نتیجہ نہ نکلا تو کیا ہوگا؟ ’’شیاؤ بِن کہتا ہے کہ ’تب شاید ہم عرضی دینے بیجنگ پہنچ جائیں، تیان من چوک پر یہ دہائی دیتے ہوئے کہ ’’ہم زندہ رہنے کے لیے کھانا چاہیے۔ یہ اقدام خطرناک ہوگا، لیکن یہ بالکل ماؤ کی انیوئین ہڑتال کی طرح ہوگا جس کے نتیجے میں کارکن انقلاب لے کر آئے‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک ایسے شخص کے لیے بھی باعثِ تشویش ہونے چاہئیں جو ماؤ کا وارث ہونے کا مدعی ہے۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“China’s chairman builds a cult of personality”. (“Time”. March 31, 2016)
Arabic figures are imposible to understand.please write the english numbers in all your articles.
A Time magazine article about China for Pakistani consumption? Time is at the top of the US Prestitude corporate media. It is a propaganda tool of the neocon which may be fit for the brain washed masses of US but not for any thinking person outside US. Please if you have to translate instead of doing your own research, select some creditable and honourable writer or magazines. US is a big country and there are still large number of writer who are not part of the Prestitude media of US.