چینی خارجہ پالیسی اور لیبیا

لیبیا کا بحران چین کے لیے ایک بڑی آزمائش کی شکل میں ابھرا ہے۔ اس نے اب تک بظاہر عدم مداخلت کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ مگر جہاں مفادات داؤ پر لگے ہوں وہاں کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور کرنا پڑتا ہے۔ چین کے لیے اس اعتبار سے لیبیا کا بحران خاصا پریشان کن ہے کیونکہ تیل اور گیس کے شعبے میں اس کی سرمایہ کاری اچھی خاصی ہے اور لیبیا میں حکومت یا نظام حکومت کی تبدیلی اس کے لیے بہت معنی خیز ہے۔

سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں چین واحد ہے جس نے اب تک لیبیا میں حکومت کے خاتمے اور عبوری قومی کونسل کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عرب دنیا میں آنے والی عوامی بیداری کی تازہ ترین لہر نے چین کے لیے خارجہ پالیسی کے میدان میں کیسی مشکلات پیدا کی ہیں۔ ایک طرف تو سرمایہ کاری ہے اور دوسری طرف خارجہ امور میں چینیوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی و اضطراب ہے جس کے باعث چینی حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ چین ایک ایسی بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے جو دوسروں کے معاملات میں زیادہ مداخلت یا غیرضروری ردعمل سے گریز کی راہ پر گامزن ہے۔

چین عدم مداخلت کے اصول پر کاربند ہے اور اس اصول کا تقدس برقرار ہے۔ ۶ ستمبر کو، مغربی معیشتوں کے لیے رونما ہونے والے شدید مالیاتی بحران اور اس کے نتیجے میں عالمی امور میں چین کی پوزیشن مزید بہتر ہونے سے بہت پہلے، چین نے امن کے شعبے میں پیش رفت کے حوالے سے وائٹ پیپر جاری کیا۔ ۲۰۰۵ء کے بعد سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی دستاویز ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ چین اب بھی عدم مداخلت کے اصول کا احترام کرتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کسی بھی ملک کے لوگوں کو معاشرتی نظام اور ترقی کی راہ خود متعین کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہوا کہ کسی ملک میں کیا ہو رہا ہے، اس سے کوئی غرض نہیں رکھنا چاہیے۔ اگر حکمران لٹیرے اور ظالم ہوں تب بھی ان کی حمایت جاری رکھنا چاہیے۔ ہاں، لیبیا کے معاملے میں چین نے اپنی عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے سے کچھ گریز کیا ہے۔

عرب دنیا کے دیگر ممالک میں چین نے سیاسی ہنگامہ آرائی کے دوران ایک طرف بیٹھ کر اپوزیشن کے ہاتھوں حکومتوں کے زوال کا انتظار کیا اور پھر نئی حکومت کو تسلیم کیا۔ لیبیا کے معاملے میں چین ایسا ہی کرسکتا تھا۔ لیبیا دراصل چین کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ لیبیا میں ۳۵ ہزار چینی باشندے کام کر رہے ہیں۔ ان کی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے چینی حکومت پر خاصا اندرونی دباؤ تھا۔ عرب دنیا میں چین کے تعلقات بیشتر ممالک سے خاصے دوستانہ ہیں۔ ان کی طرف سے لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کے خلاف کارروائی کے لیے خاصا دباؤ تھا۔ لیبیا میں چینیوں کی سرمایہ کاری اچھی خاصی ہے اس لیے کوئی بھی غلط فیصلہ سرمایہ کاری داؤ پر لگا سکتا تھا۔

سال رواں کے اوائل میں جب مصر میں سیاسی تبدیلیوں کی لہر شروع ہوئی تب چین کا ردعمل روایتی نوعیت کا اور سست رفتار تھا۔ چین کے سرکاری کنٹرول والے میڈیا نے مصر میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے والوں کو شر پسند قرار دیکر مسترد کردیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ تحریک سے حکومت کا کچھ بھی نہ بگڑے گا۔ کمیونسٹ پارٹی نہیں چاہتی تھی کہ چین میں لوگوں کو کچھ بھی اندازہ ہوسکے کہ مصر میں کیا ہو رہا ہے۔

فروری میں جب حسنی مبارک کو مستعفی ہونا پڑا تب چین میں بھی انٹرنیٹ پر جسیمین ریوولیوشن کی باتیں ہونے لگیں۔ تب چینی حکومت نے بڑے شہروں میں مصر کی طرز کی کسی بھی تحریک سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر پولیس تعینات کی۔ یہ اس امر کا واضح اشارہ تھا کہ چینی حکومت دفاعی انداز اختیار کر رہی تھی۔

لیبیا کے معاملے میں چین کا ردعمل خاصا مختلف تھا۔ اس نے معمر قذافی کی حکومت کے خلاف سلامتی کونسل کے اقدامات کی حمایت کی۔ اپنے شہریوں کو نکالنے کے لیے چارٹرڈ فلائٹس کا اہتمام کیا اور بحیرہ روم کے ذریعے لیبیا سے نکلنے والے پناہ گزینوں کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے اپنا ایک فریگیٹ ہارن آف افریقا بھی بھیجا۔

چین کے سرکاری میڈیا نے اسے ۱۹۴۹ء میں کمیونسٹ پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اپنی نوعیت کا سب سے بڑا آپریشن قرار دیا۔ یوروپین کونسل آن فارن افیئرز نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین کے ان اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی اقتصادی موجودگی کی روشنی میں چین کے لیے عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہنا اب ناممکن ہوچلا ہے۔

مارچ میں چین نے سلامتی کونسل میں اس قرارداد پر رائے شماری کے وقت پسپائی اختیار کی تھی جس میں لیبیا کے شہریوں کو قذافی فورسز کے ہاتھوں مظالم سے بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کی بات کہی گئی تھی۔ مگر اس کا واضح مطلب تھا نیٹو کی طرف سے کارروائی اور یوں چینیوں کو یہ اشارہ مل سکتا تھا کہ لیبیا میں استعماری قوتیں کچھ کر رہی ہیں۔ چین کی حکومت نے قوم پرستوں کی طرف سے کسی بھی ردعمل سے بچنے کے لیے لیبیا میں نیٹو کے فضائی حملوں کی مخالفت کی اور یہ تاثر بھی زائل کیا کہ وہ لیبیا کے باغیوں کو کسی بھی سطح پر کوئی مدد فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مگر جون میں سب کچھ بدل گیا۔ چین کی حکومت نے قطر میں باغیوں کے رہنماؤں سے بات چیت کی اور پھر اپنا ایک نمائندہ باغیوں کی قیادت سے بات چیت کے لیے بن غازی بھیجا۔ مقصد بظاہر یہی تھا کہ کسی بھی انسانی المیے کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات اور چین کے کاروباری افراد اور عام ورکرز کی سلامتی یقینی بنائی جائے۔ جون کے اواخر میں لیبیا کی عبوری قومی کونسل کے ایک رہنما نے بیجنگ میں چین کے وزیر خارجہ یانگ جئیچی سے مذاکرات کیے۔ جولائی میں چین نے اپنے ایک سینئر سفارت کار کو بن غازی بھیجا جہاں اس نے عبوری قومی کونسل کے رہنماؤں سے بات چیت کی۔ چین نے اب تک عبوری قومی کونسل کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے تاہم فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد کی جانے والی لیبیا کانفرنس میں نائب وزیر خارجہ کو ضرور بھیجا جہاں انہوں نے عبوری کونسل کے چیئرمین محمود جبریل سے ملاقات کی۔

یہ سب کچھ کرنے کے باوجود چین نے معمر قذافی کو بھی خیرباد نہیں کہی۔ جون میں ان کے وزیر خارجہ کا بیجنگ میں خیر مقدم کیا گیا۔ چین نے اب تصدیق کردی ہے کہ ہتھیاروں کی خریداری کے لیے معمر قذافی کے ایک نمائندے نے جولائی میں بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔ طرابلس سے ملنے والی دستاویز کی روشنی میں ایک کینیڈین اخبار نے یہ خبر پہلے ہی شائع کردی تھی۔ چینی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ قذافی کے نمائندے کی حیثیت سے ان کے وزیر خارجہ کا بیجنگ کا دورہ حکومت کے علم میں لائے بغیر تھا اور ہتھیاروں کی کوئی شپمنٹ روانہ نہیں کی گئی۔ لیبیا کی عبوری کونسل کا خیال ہے کہ فروری میں سلامتی کونسل کی جانب سے قذافی حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد چین سمیت کئی ممالک نے ہتھیار فراہم کیے۔

چین کو اب یہ اندیشہ لاحق ہے کہ نئی حکومت قذافی انتظامیہ کی حمایت جاری رکھنے پر اس کے خلاف امتیازی نوعیت کے اقدامات کرے گی اور بالخصوص تیل کے شعبے میں اس کے پرکشش معاہدے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ قذافی کے دور حکومت میں چین نے اقتصادی شعبے میں لیبیا میں غیرمعمولی دلچسپی لی تھی۔ چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ فروری میں معمر قذافی کی حکومت کے خلاف عوامی لہر کے بیدار ہونے کے وقت لیبیا میں چینی سرمایہ کاری ۱۸ ارب ڈالر تک تھی۔ بیشتر سرمایہ کاری تعمیرات کے شعبے میں ہے۔ گزشتہ برس چین نے اپنی تیل کی کل ضروریات کا صرف تین فیصد لیبیا سے درآمد کیا مگر چینی کمپنیاں لیبیا کے آئل سیکٹر میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔

افریقا کے لیے چینی پالیسی بہت حد تک تیل اور دیگر قدرتی وسائل کی طلب سے جڑی ہوئی ہے۔ چین نے تیل کے ایک بڑی ایکسپورٹر سوڈان کی حکومت کا علیٰحدگی پسند باغیوں کے خلاف بہت دن ساتھ دیا مگر بعد میں اسے مغربی طاقتوں کا ہم نوا ہونا پڑا۔ جولائی میں ملک سے الگ ہونے والے جنوبی سوڈان کو چین نے فوراً تسلیم کرلیا کیونکہ یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس نے ریفرینڈم کو مانیٹر کرنے کے لیے اپنے مبصرین بھی بھیجے۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی امور میں چین غیرمعمولی حد تک محتاط رہے گا۔ چینی حکومت اندرون ملک کبھی یہ اشارے نہیں دے گی کہ باغی کسی بھی صورت درست ہوسکتے ہیں۔ رواں سال کے دوران ہی منحرفین کے خلاف کارروائیاں بھی ہوئی ہیں مگر اس کے باوجود چین میں کبھی کبھی آن لائن اور کبھی سرکاری میڈیا میں بھی ایسے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں حکومت پر زور دیا گیا ہوتا ہے کہ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر سے کچھ سیکھے۔ شنگھائی کے ایک اخبار نے تبصرے میں لکھا کہ جو ملک اپنے لوگوں کو سیاسی آزادی نہیں دے گا اس کا وہی انجام ہوگا جو مصر، تیونس اور لیبیا وغیرہ کا ہوا۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۱۶؍ستمبر ۲۰۱۱ء)

☼☼☼

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*