
سماجی نظم کی خاطر کسی بھی جدید ریاست کے انتہائی زور و شور سے جاری رہنے والے بے رحمانہ پروگرام میں نیا موڑ اُس وقت آیا، جب بیجنگ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی اب باضابطہ طور پر اپنی ایک بچے کی پالیسی ترک کردے گی۔ اس کے باوجود چین کا اپنے شہریوں کی شرحِ پیدائش پر گرفت ڈھیلی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ بیجنگ نے محض راشن میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک جوڑے کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی ہے۔
اس سلسلے میں جزوی رعایت دو سال قبل دی گئی، جب چینی حکام نے حکم دیا کہ وہ میاں بیوی جو خود اکلوتے تھے، وہ دو بچے پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی کئی ملین اضافی ولادتوں کی توقع تھی مگر اس طرح کے بہت کم جوڑوں نے دوسرے راشن کے لیے درخواست دی۔ ایک بچہ پالیسی نافذ کرنے کے ۳۵ سال بعد اب حکومت اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتی کہ آبادی میں جبری کمی کی یہ حکمتِ عملی تباہ کن ثابت ہوئی۔ اب جبکہ کمیونسٹ پارٹی تیرہواں پانچ سالہ منصوبہ بنانے جارہی ہے، تو اسے یہ سوچنا چاہیے کہ چینی خاندانوں کو شکنجے میں کسنے کا نتیجہ کیا برآمد ہوا۔
ایک بچے سے زائد پیدا کرنے کی اجازت نہ دینا انسانی تاریخ میں سماجی نظم کی خاطر کی گئی سب سے بڑی غلطی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں ماؤ زے تنگ کی وفات کے بعد ان کے جانشین میراث میں ملنی والی بے سر و سامانی دیکھ کر بھونچکے رہ گئے تھے۔ ’’اشتراکی تعمیر‘‘ کی تقریباً تین دہائیوں کے بعد بھی چین زیادہ تر دیہات پر مشتمل تھا اور غربت بہت زیادہ تھی۔ حالیہ چینی جائزوں کے مطابق ملک کی ۹۷ فیصد سے زائد آبادی انتہائی غربت کے لیے عالمی بینک کے مقرر کردہ ۱ء۲۵؍ڈالر یومیہ کے پیمانے سے نیچے تھی۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے چین کو شکم اور خوراک کے مابین جاری دوڑ ہارنے کے قریب پہنچا دیا تھا۔ ان حقائق کا سامنا کرتے ہوئے چینی رہنماؤں نے پیدائش پر پابندی کی ابتدائی غلط تشخیص کی۔ ماؤ کی پروردہ معیشت کی خامیاں دور کرنے کے بجائے انہوں نے بدترین کاکردگی کو عوامی شرحِ پیدائش کے کھاتے میں ڈال دیا۔ اس کا نتیجہ جبری ضبطِ ولادت کی صورت میں نکلا، جسے لاگو کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر کوٹا اسکیموں اور خاندانی منصوبہ بندی پر زور دینے والے ایجنٹوں کی فوج کا سہارا لیا گیا۔
سب سے پہلے تو یہ لرزہ خیز خبریں آئیں کہ بچیوں کو قتل کرنے کی قدیم مکروہ رسم دیہی علاقوں میں ایک بار پھر زندہ ہوگئی ہے۔ ۱۹۸۲ء میں ہونے والی چینی مردم شماری کے نتائج کچھ سال بعد سامنے لائے گئے، جن میں یہ بات سامنے آئی کہ ۱۹۸۱ء میں ہونے والی ولادتوں میں غیر فطری عدم توازن پایا گیا اور لاکھوں لڑکیوں کا کچھ پتا ہی نہ چل سکا۔
۱۹۸۰ء کی دہائی کے اواخر تک دیہی علاقوں میں الٹرا ساؤنڈ عام ہوا تو طِفل کُشی کی جگہ رضاکارانہ اسقاطِ حمل نے لے لی۔ یہ صِنفی عدم مُساوات اتنی بڑھی کہ ہر ۱۲۰؍لڑکوں کے لیے ۱۰۰ لڑکیاں رہ گئیں اور یہ صورتحال ۲۰۰۰ء تک رہی۔ گوکہ بھارت اور تائیوان سمیت دیگر ممالک میں بھی لڑکیوں کا جینا محال ہے، لیکن چینی ماہرین کے مطابق ان کے ملک میں اس عدم مساوات کی آدھی یا اس سے بھی زیادہ ذمہ داری ایک بچہ پالیسی پر عائد ہوتی ہے اور پھر طویل مدتی اثرات کا تو ابھی درست تخمینہ بھی نہیں لگایا جاسکا۔ چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اسقاط اور ایک بچہ پالیسی کے طفیل آج ان کے ملک میں ۴۰ کروڑ افراد کم ہیں۔ لیکن یہ گمراہ کن اعداد رضاکارانہ اور جبری اسقاط کے مابین تفریق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
جہاں تک پالیسی کے اہداف حاصل ہونے کا سوال ہے تو اس سے آبادی کے مسائل مزید اجاگر ہی ہوئے، جن کا اعتراف اب کہیں جاکر کمیونسٹ منصوبہ ساز کرنے لگے ہیں۔ شہری چین میں تولید کی شرح ۱۹۸۰ء میں ہی خاصی کم تھی اور آج کے چین میں یہ مسئلہ خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ خود چینی حکام کے مطابق دو سال قبل کام کاج کے قابل افراد کی تعداد کم ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اس کا موازنہ ۱۹۹۱ء کے بعد معاشی بحران کا شکار ہونے والے جاپان سے کیا جاسکتا ہے جو نسبتاً غریب چینی معاشرے کے لیے کوئی امید افزا بات نہیں ہے۔
اور اب چینی شہروں میں ایسے خاندان وجود میں آرہے ہیں جن کی مثال چینی تاریخ میں نہیں ملتی، یعنی اکلوتی اولادوں کی اکلوتی اولادیں۔ جن کے نہ تو بہن بھائی ہیں، نہ چچا، ماموں یا پھوپھی، خالہ، اور نہ ہی کزنز ہیں۔ ان کے صرف اَجداد ہیں یا آنے والے وقتوں میں اولادیں ہوں گی۔ لیکن معاشرے میں ایک دوسرے پر اعتماد ذرا کم کیا جاتا ہو، اس میں وسیع سماجی روابط (جنہیں چینی زبان میں Guanxi کہا جاتا ہے) کی بڑی معاشی اہمیت ہے۔ ان سے غیر یقینی صورتحال اور لین دین کی لاگت میں کمی کے لیے مدد ملتی ہے جس کی خاطر دیگر معاشروں میں قانون کی بالادستی اور شفافیت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک بھرے پرے خاندان کو سمیٹ دینے کے چینی معاشی کارکردگی پر کیا اثرات پڑیں گے؟
آبادی کے حوالے سے بیجنگ کے حالیہ فیصلے بظاہر معاشی وجوہات کی بنا پر کیے گئے ہیں تاہم تازہ تبدیلیاں بھی مضمرات کو بس ایک حد تک ہی روک سکیں گی۔ دیگر مشرقی ایشیائی شہریوں کی طرح کسی تولیدی پابندی کے بغیر بھی چینی چھوٹا گھرانا ہی پسند کرتے ہیں۔ اس عدم توازن کا سدباب بیجنگ غیرملکیوں کو شہریت دے کر بھی نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ تازہ تبدیلیوں سے معمولی فوائد حاصل کرنے کے لیے بھی دہائیوں کا عرصہ درکار ہے۔
ان دنوں چین میں آبادیات اور اس سے جڑے اقتصادی مسائل کے چوٹی کے ماہرین موجود ہیں، اور جہاں تک میری معلومات ہیں، وہ سب کے سب ہی ملکی پالیسی کے ناقد ہیں۔ کچھ کو انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش ہے، اور زیادہ تر ایک بچہ پالیسی کو دردناک حد تک مضر قرار دیتے ہیں۔ ایک دہائی قبل بہت سے ماہرین نے ریاستی کونسل کو ایک بچہ پالیسی ختم کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔۔۔ مگر لاحاصل۔
بیجنگ نے اپنی ہی سرکردہ شخصیات کی بات پر کان کیوں نہیں دھرے؟ میرے چینی دوست ہچکچاتے ہوئے اس کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں: آبادی کو روکنے کے لیے رکھے گئے اتنے سارے سرکاری ملازمین کو نئے سرے سے کام دینے کی مشکلات، کوٹے سے زیادہ پیدائش پر جرمانے کی مد میں ہونی والے خطیر آمدنی، اور جدید مالتھوزئین (Neo-Malthusian) نظریہ، جس کے اتباع پر آج بھی چینی قیادت ڈٹی ہوئی ہے۔
یہ سب سمجھنے میں آنے والی باتیں ہیں مگر ایک اہم نکتے کو نظر انداز کیا جارہا ہے: یعنی شہریوں کی گھریلو زندگی پر چینی حکومت کا وہ کڑا پہرہ جس کی ایک شکل استحصالی ’’ہُو کو نظام‘‘ ہے جس نے شہری علاقوں کے دوسری جگہوں پر کام کرنے والے چینیوں کو اپنے ہی ملک میں غیر قانونی اجنبی بنادیا ہے۔ (hukou system میں شہریوں کو اُن کی رہائش کے مقام کی مناسبت سے اندراج کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کے شہری بہت سی ضروریاتِ زندگی سے محروم رہتے ہیں)۔ ’’اصلاحات‘‘ کے اس شور کے باوجود جو ہم چین سے باہر بیٹھ کر تقریباً دو دہائیوں سے سن رہے ہیں، چینی حکومت سماجی نظم کے ان حربوں کو صرف اسی لیے زیرِ استعمال رکھنا چاہتی ہے کہ ان سے معاشرہ قابو میں رہتا ہے۔
چینی آبادی کی تنظیم کرنے والوں کو یہ ’’مہلک زُعم‘‘ لاحق ہوگیا تھا کہ وہ مرد اور عورت کے برتاؤ کی اپنے احکامات کے تحت نگرانی کرسکتے ہیں۔ دو بچوں کی حکمتِ عملی میں بھی یہی خامی ہے۔ بیجنگ جتنا زیادہ چینی معاشرے کو ان ہتھکنڈوں میں جکڑتا جائے گا، قوم کے مستقبل میں اتنی ہی غربت، سمجھوتے اور افسردگی بڑھتی چلی جائے گی۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“China’s new Two-Child Policy and the fatal conceit”. (“The Wall Street Journal”. Oct.29, 2015)
Leave a Reply