شی جن پنگ: چین کے ممکنہ نئے قائد!

شی جن پنگ (Xi Jinping) تیزی سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ وہ جب ایک صوبے کے گورنر تھے اور کم ہی لوگ ان سے واقف تھے تب انہوں نے ایک میٹنگ کے دوران کہا تھا کہ کبھی کبھی سنجیدگی ظاہر کرنے کے لیے ’’میز بجانا، نہ بجانے سے بہتر ثابت ہوتا ہے‘‘۔ اب وہ چین کے نائب صدر ہیں۔ ان کی مقبولیت میں مستحکم رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے تاہم اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے انہیں محض میز بجانے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ۱۸؍اکتوبر کو اعلان کیا گیا کہ شی جن پنگ ملک کے نئے سربراہ ہوں گے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی اس تجویز پر غور کرتی رہی ہے کہ لیڈر کے انتخاب کے لیے کھلی مسابقت اپنائی جائے تاہم شی کے انتخاب کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کے انتخاب کا اعلان کرنے کے سوا چارہ نہ تھا کیونکہ کوئی بھی امیدوار بظاہر ان کا ہم پلہ نہ تھا۔ شی کو ایک اہم عسکری منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ دو سال کی مدت میں چین کے لیڈر کی حیثیت سے اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا شروع کریں گے۔ ایک مدت سے کہا جارہا تھا کہ ۵۷ سالہ شی جن پنگ کو پارٹی کے سینٹرل ملٹری کمیشن کا وائس چیئرمین بناکر ٹاپ پر لایا جائے گا۔ ۱۹۹۹ء میں ہو جن تاؤ کو بھی یہی منصب دیا گیا تھا اور تین سال بعد انہوں نے پارٹی اور ملک کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ہو جن تاؤ کی ریٹائرمنٹ قریب آرہی ہے اور کسی لیڈر کے بارے میں کوئی اعلان نہ کیے جانے پر یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ شاید اب لیڈر کے انتخاب کا طریقہ تبدیل کیا جارہا ہے۔ ۱۵؍اکتوبر کو بیجنگ کے ایک ہوٹل میں پارٹی کی ۳۷۰ رکنی سینٹرل کمیٹی کا ۴ روزہ اجلاس ہوا۔ جب اجلاس شروع ہوا تو کسی کو یقین نہ تھا کہ شی جنپنگ کا انتخاب عمل میں آئے گا۔

ہو جن تاؤ ۲۰۱۲ء میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے منصب سے ریٹائر ہوں گے۔ شی کا انتخاب اس بات کی واضح علامت ہے کہ پارٹی چاہتی ہے کہ وہ سیکریٹری جنرل اور ملک کے صدر کا منصب سنبھالیں۔ بہت مدت سے چین میں پارٹی اور ملک کی صدارت ساتھ ساتھ رہی ہے۔ ۲۰۱۲ء تک عسکری امور سے متعلق تمام اختیارات ہو جن تاؤ اور جرنیلوں کے پاس رہیں گے۔ مارچ ۲۰۱۳ء میں ہو جن تاؤ آئینی تقاضے کے طور پر صدر کا منصب بھی چھوڑیں گے۔ ان پر عسکری امور کے سربراہ کا منصب چھوڑنے کے لیے کوئی دباؤ تو نہیں ہوگا تاہم توقع ہے کہ وہ ۲۰۱۴ء میں یہ منصب بھی شی کے حوالے کردیں گے۔

شی کے لیے یہ آرام کا وقت نہیں۔ انہیں قیادت کے حوالے سے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے، مرکزی سطح پر اختیارات کے استعمال اور ریاستی امور کی انجام دہی کے بارے میں بنیادی نوعیت کی معلومات حاصل کرنی ہیں۔ ان میں اور ہوجن تاؤ کے انتخاب میں بہت فرق ہے۔ ہوجن تاؤ کو سبکدوش ہونے والے پارٹی سربراہ جیانگ زیمن نے منتخب نہیں کیا بلکہ ان کا نام ماؤ زے تنگ کے بعد کے دور کے مضبوط ترین چینی لیڈر ڈینگ ژیاؤ پنگ نے تجویز کیا تھا۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ کا انتقال ۱۹۹۷ء میں ہوا تھا، تاہم ان کی طاقت اس قدر تھی کہ ہو جن تاؤ نے پانچ سال تک مڑ کر نہیں دیکھا اور بالآخر ملک کے سربراہ بنے۔ ہو جن تاؤ نے جیانگ زیمن سے مشاورت کے بعد شی کا نام تجویز کیا۔ ہو جن تاؤ کو اقتدار کی منتقلی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جس میں کوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ شی کو اقتدار کی منتقلی اس نوعیت کی نہ ہو۔

ہو جن تاؤ کو ملک کا نظم و نسق چلانے والے پولٹ بیورو میں کام کرنے کا موقع دس سال تک ملا اور اس دوران انہوں نے ثابت کیا کہ ان میں قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۰ء میں تبت کے معاملے میں غیر لچکدار رویے کا مظاہرہ کرکے ڈینگ ژیاؤ پنگ کو خاصا متاثر کیا۔ شی معاشی اعتبار سے مستحکم صوبوں (فوجیان اور زی جیانگ) کے سربراہ اور ۲۰۰۷ء میں مختصر مدت کے لیے شنگھائی کے پارٹی چیف بھی رہے۔ پولٹ بیورو میں شی کو ۲۰۱۲ء تک صرف پانچ سال ملیں گے۔

شی کا خاندانی پس منظر بھی ان کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ ان کے والد شی ژونگ ژن کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ابتدائی ارکان میں سے تھے۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ کے دور میں انہیں نمایاں ہونے کا موقع ملا۔ عام چینی اس گروپ کو شہزادوں کا مجموعہ قرار دیتے ہیں۔ اس میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ابتدائی عہدیداروں کی اولادیں شامل ہیں۔ پارٹی میں ان کی حیثیت نمایاں ہے۔ پارٹی کو اقتدار میں رکھنے کے لیے یہ لوگ ایسے اقدامات بھی کرتے رہے ہیں جو دوسروں کو سخت ناپسند رہے ہیں۔ شی نے اس پس منظر سے یقینی طور پر فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے ۱۹۷۹ء میں بیجنگ کی مشہور زمانہ سنگہوا یونیورسٹی سے (دوسرے بہت سے چینی قائدین کی طرح انجینئرنگ میں) گریجویشن کی۔ ہم اس دور کی بات کر رہے ہیں جب ماؤ زے تنگ کے جانشینوں کے خلاف بولنے والے نمایاں ہوچلے تھے۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ نے ماؤ زے تنگ کے بعد جانشینی کے حوالے سے سر اٹھانے والے سب سے بڑے بحران کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ماؤ زے تنگ کے نقش قدم پر چلنے والے ہوا گو فینگ کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔ اسی دور میں شی کو وزیر دفاع کے معاون کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ وزیر دفاع شی کے والد کے دوستوں میں سے تھے۔ شی کے کیریئر میں وزارت دفاع سے متعلق تجربہ نمایاں ہے۔ بہت سے لوگ انہیں ’’آفیسر آن ایکٹیو سروس‘‘ بھی قرار دیتے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک کے چینگ لی کہتے ہیں کہ خاندانی پس منظر نے شی کو ۱۹۹۷ء میں اس وقت نقصان پہنچایا تھا جب سینٹرل کمیٹی کی رکنیت کے لیے ہونے والے (دھاندلی بھرے) انتخابات میں شی کو مندوبین کی جانب سے شہزادوں کے لیے دکھائی جانے والی ناپسند کے باعث سب سے کم ووٹ ملے تھے۔ ۲۰۰۷ء میں شی کو پارٹی کے ٹاپ کیڈر سے تعلق رکھنے والے سینٹرل پارٹی اسکول کے انتخاب میں پولٹ بیورو کے ممکنہ رکن کے حوالے سے سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ چینگ لی کا کہنا ہے کہ یہاں بھی شی کو کم ووٹ ملتے اگر مندوبین سے یہ پوچھا جاتا کہ پولٹ بیورو کی اسیٹنڈنگ کمیٹی کا رکن کسے ہونا چاہیے۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ ہو جن تاؤ کا جانشین کسے ہونا چاہیے۔

چین میں اقتدار کی منتقلی خاصے مشکل حالات میں ہو رہی ہے۔ چین کی اشرافیہ میں اس امر پر بحث چھڑی ہوئی ہے کہ پارٹی کو ملک چلانے کے طور طریقے بدلنے چاہئیں اور ریاستی امور میں عوام کی آواز کو بھی زیادہ شامل کرنا چاہیے۔ اگست سے اب تک وزیر اعظم وین جیا باؤ نے سیاسی اصلاحات کا کئی بار ذکر کیا ہے۔ دوسرے لیڈر قدرے خاموش رہے ہیں۔ بیجنگ کے چند اخبارات سمیت رجعت پسند میڈیا نے وین جیا باؤ کے خیالات کو سینسر کرکے پیش کیا ہے۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے پارٹی کے زیر تصرف اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ اس قدر منقسم دکھائی نہیں دیے۔ بیجنگ میں لبرل عناصر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اقتدار پر کمیونسٹ پارٹی کی گرفت کمزور پڑنی چاہیے اور عوام کو اقتدار میں زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔ حکومت نے لیو زیابو کو امن کا نوبل انعام دیے جانے پر خوشیاں منانے والے منحرفین کو برداشت کرنے کے معاملے میں وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

لبرل عناصر نے شی کے صدر بننے کے امکان پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کے والد لبرل تھے۔ خود شی نے بھی شی جیانگ کے صوبائی سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے سیاسی اصلاحات کی راہ ہموار کی اور نجی کاروباری اداروں کے فروغ کی گنجائش پیدا کی۔ شی نے بیجنگ سے تعلق رکھنے والے محققین کو ’’زی جیانگ کا تجربہ اور چین کی ترقی میں اس کے اثرات‘‘ کے عنوان سے چھ جلدوں پر مشتمل کتاب لکھنے کی تحریک دی۔ زی جیانگ صوبے میں نجی کاروباری اداروں کو کمیونسٹ پارٹی کے چند ارکان کی مدد سے اس طور چلایا گیا ہے کہ اب جمہوریت کے پنپنے کی راہ بھی ہموار ہوتی جارہی ہے۔ پارٹی اور مقامی حکومت میں جمہوریت کی جڑیں گہری اور مستحکم کرنے کا تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے۔ دیگر صوبے البتہ اس معاملے میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ صوبائی سطح کے حکام اور پارٹی عہدیداروں نے جمہوریت کو پروان چڑھانے میں دلچسپی نہیں لی ہے۔

ویسے تو شی خاصے دوستانہ مزاج کے حامل ہیں تاہم انہوں نے میکسیکو میں چینیوں کے ایک گروہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ پیٹ بھرے غیر ملکی چین کے معاملات میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑا رہے ہیں۔ نومبر ۲۰۰۳ء میں چین کے سرکاری ٹی وی نیٹ ورک سی سی ٹی وی سے انٹرویو میں شی نے کہا تھا کہ سرکش سرکاری افسران کو قابو میں رکھنے کے لیے بات چیت کے دوران میز پر زور سے ہاتھ مارتے رہنا بھی ناگزیر ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ ایسی حرکتوں ہی سے افسران دہشت زدہ ہوتے ہیں۔ شی کی اہلیہ پینگ لیوآن لوک گلوکارہ ہیں۔ ان کے نغمات شی کے نمایاں ہونے سے پہلے ہی مقبول ہوچکے تھے اور لیوآن کو غیر معمولی شہرت بھی مل چکی تھی۔

ماؤ زے تنگ، ڈینگ ژیاؤ پنگ، جیانگ زیمن اور ہوجن تاؤ کے بعد اب شی جنپنگ کمیونسٹ لیڈروں کی پانچویں نسل کی قیادت سنبھالنے والے ہیں۔ ہو جن تاؤ ہائڈرولک انجینئر ہیں۔ شی جنپنگ نے کیمیکل انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور چین کی دیہی معیشت کے بارے میں پی ایچ ڈی کی۔ شی کی نسل کے دیگر کمیونسٹ قائدین صحیح معنوں میں ٹیکنوکریٹ نہیں۔ چند ایک نے مغرب میں اعلیٰ تعلیم پائی ہے مگر محض اس بنیاد پر انہیں ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت میں مقبولیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ چین میں متوسط طبقہ تیزی سے پنپ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں معیشت ہی نہیں، معاشرت بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

۲۰۰۲ء میں جب ایک رپورٹر نے شی سے پوچھا تھا کہ کیا وہی ایسے لیڈر ہیں جس کی ہمیں تلاش ہے تو انہوں نے کہا تھا ’’میں پسینے میں شرابور ہوگیا ہوں، کیا تم مجھ خوفزدہ کرنا چاہتے ہو؟‘‘ چین کی قیادت کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ شی کو نروس ہونا ہی چاہیے تھا۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*