
جس تیزی سے چین کی اقتصادی اور فوجی قوت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے‘ اُس کے پیشِ نظر عالمی سیاست کے اسٹیج پر اس کے کردار میں توسیع پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ شمالی کوریا نے جب گذشتہ ہفتے یہ اشارہ دیا کہ وہ اس شش فریقی مذاکرات میں واپس آسکتا ہے جو اس کے جوہری پروگرام پر منعقد کیے جانے ہیں۔ پھر امریکی صدر جارج بش اور جنوبی کوریا کے صدر روہمو ہیون (Rohmoo-Hyun) کا واشنگٹن میں پیانگ یانگ کو اسے ایسا کرنے کی تاکید کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ شمالی کوریا ایسا کرنے کے لیے بغیر چین کے دبائو کے ہرگز تیار نہیں ہو سکتا ہے جو کہ شمالی کوریا و جنوبی کوریا کا بہت ہی اہم تجارتی شریک ہے۔ ’’نیوزویک‘‘ کے فرید زکریا نے Wu Jianmen جو کہ چین کے فارن افیئرز یونیورسٹی کے صدر اور چین کے ایک سابق سینئر سفارت کار ہیں‘ کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار کے موضوع پر ان سے گفتگو کی ہے‘ جس کا اقتباس درج ذیل ہے:
زکریا: بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ چین کو شمالی کوریا کے خلاف اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے رہنا چاہیے کیونکہ چین ہی وہ واحد ملک ہے جو اپنا کچھ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ آپ اسے غذا اور ایندھن دونوں فراہم کرتے ہیں جس کے بغیر اس ملک کا باقی رہنا مشکل ہے۔
Wu: غذا‘ تیل اور توانائی جو ہم شمالی کوریا کو فراہم کرتے ہیں‘ وہ انسانی بنیاد پر ہے۔ اس لیے کہ شمالی کوریا چین کا قریب ترین پڑوسی ہے۔ اگر ہم یہ فراہمی اسے بند کر دیں تو اس سے انسانی المیہ جنم لے گا۔ حقوقِ انسانی کے اصولوں کا احترام کرتے ہوئے ہمیں اس قسم کی قوت کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ چین نے اپنا پیغام نہیں پہنچایا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ کوریا کو جوہری ہتھیار سے پاک ہونا چاہیے۔
زکریا: کیا آپ کے خیال میں یہ بغیر کسی دھمکی اور دبائو کے ممکن ہے؟
Wu: ہمیں تھوڑا صبر سے کام لینا چاہیے۔ دوسرا واحد متبادل طاقت کا استعمال ہے۔ عراق کی مثال لے لیجیے‘ جہاں یہ طریقہ ناکام ہو گیا۔ لیکن پُرامن حل کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا کیونکہ امریکا اور شمالی کوریا کے مابین بے اعتمادی بہت گہری ہے۔ فطری طور سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ جنگ ہیں۔
زکریا: چین کے پھیلتے ہوئے عالمی اثرات کا دنیا کو کیا کرنا چاہیے؟
Wu: چینیوں کو بالادستی کی خواہش نہیں ہے‘ نہ ہی وہ اجارہ داری کے حصول کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ چین بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ آپ کو بھی معلوم ہے کہ چینیوں میں یہ لیاقت مشہور ہے کہ ’’جب آپ نقطۂ عروج کو پہنچ جاتے ہیں تو آپ کو تنہائی اور جمود کا احساس ہونے لگتا ہے‘‘ (قہقہے)۔ ہم چینی‘ شراکت چاہتے اور دوسروں کے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہیں۔
زکریا: اس وقت آپ دوسرے اور تیسرے نمبر کے عظیم صارفوں میں سے ہیں۔ کیا یہ صورتحال چیزوں کو تہ و بالا نہیں کر دے گی؟
Wu: ہاں! ہم سبھی چیزوں کو تلپٹ کرنے جارہے ہیں۔ لیکن اس کو کرنے کے جو طریقے ہیں‘ یعنی پہلا طریقہ طاقت کا استعمال ہے اور دوسرا طریقہ پُرامن راستہ ہے۔ ہم دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ ۵۵ سال پہلے جب آپ کے ملک میں حالات خراب تھے تو ہم خوش تھے۔ اس لیے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کوریا میں لڑے۔ ۳۰ سال قبل جو کچھ امریکی معیشت کے ساتھ ہوا‘ اس کا کوئی اثر ہماری معیشت پر نہیں ہوا۔ لیکن آج اگر چیزیں بگڑتی ہیں اور اگر آپ کی اقتصادیات زبوں حال ہے تو ہمیں اس کا افسوس ہے۔ اس لیے کہ چین اور امریکا کے درمیان ایک دوسرے پر انحصار بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔
زکریا: بہت سے امریکیوں کو یہ پریشانی ہے کہ چین اس حقیقتِ حال کا استعمال کرے گا کہ اس کے پاس بہت سارے ٹریزری بانڈز ہیں اور وہ انہیں بعض جغرافیائی و سیاسی مسائل پر ایک قوت کے طور پر استعمال کرے گا۔ کیا ایسا ہو گا؟
Wu: میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ ہم نے بہت سارے ٹریزری بانڈز اس لیے خریدے کہ اس طرح ہم بیرونی کرنسی کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ یہ چین کے لیے اچھا ہے اور یہ امریکا کے لیے بھی اچھا ہے۔ چین اسے امریکا کے خلاف ہتھکنڈہ کے طور پر استعمال نہیں کرے گا۔ ۲۵۰۰ سال قبل کنفیوشس نے کہا تھا کہ ’’امن سب سے قیمتی چیز ہے‘‘۔ میرے خیال میں ہم اسی روایت سے جڑے رہیں گے۔
زکریا: چین اور جاپان اکیسویں صدی کی عظیم طاقتیں ہیں جو ایک ہی مرحلے اور ایک براعظم میں ہیں۔ کیا ان کے مابین تصادم کا کوئی خطرہ ہے؟
Wu: میرے خیال میں یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ اس کا تدارک کس طرح کرتے ہیں۔ جاپان کی سیاسی شخصیتیں جنگی مجرموں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے Yasukuni عبادت گاہ میں جاتی رہتی ہیں‘ جو ان کی یادوں کی امین ہے۔ حالانکہ یہ مجرم کروڑوں ایشیائی باشندوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں لیکن ہنوز یہ سیاسی شخصیتیں ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے مندر میں جایا کرتی ہیں۔ یہ بہت غصہ دلانے والی بات ہے۔ یقینا چینی بہت ناراض ہیں۔ جاپان سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا خواہاں ہے‘ ہم سمجھتے ہیں یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اقوامِ متحدہ کی بنیاد امن پر رکھی گئی ہے۔ ہم نے جرمنی‘ اطالوی اور جاپانی فسطائیوں کو شکست دی ہے لیکن آج جب جاپان کے سیاسی رہنما جنگی مجرموں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو آپ اس کی کیا توضیح کریں گے؟ ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لیکن کیا ہم دوبدو تصادم کے لیے آمادہ ہیں؟ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ جاپان اور چین کے مابین ایک دوسرے پر انحصار روزافزوں ہے۔
زکریا: کیا اس بات کا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ چین اپنی فوجی قوت کا استعمال کرتے ہوئے پھر تائیوان کو اپنے ساتھ منسلک کر لے؟
Wu: چین طاقت کا استعمال آخری چارۂ کار کے طور پر کرے گا۔ کوئی بھی ملک اپنے مادرِ وطن سے زمین کا کوئی ٹکڑا جدا ہونا برداشت نہیں کرے گا۔ تائیوان چین کا حصہ ہے۔ تائیوان میں کچھ علیحدگی پسند قوتیں ہیں جو تائیوان کو چین سے علیحدہ رکھنا چاہتی ہیں۔ ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ اس کا کوئی پُرامن حل نکل آئے گا۔ یعنی مادرِ وطن کا پورامن طریقے سے ازسرِنو اتحاد۔ (قہقہے)
زکریا: کیا یہ اتحاد تائیوان کے عوام کی رضامندی سے ہو گا؟
Wu: میں ایسا ہی سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ ہم ان کی رضامندی کے بغیر اسے حاصل نہیں کریں گے۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ۔ ۲۰ جون ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply