
وزیراعظم میاں نواز شریف حال ہی میں گوادر گئے اور انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ گوادر ’فری پورٹ‘ بنے اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کے نتیجے میں گوادر دبئی، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی طرح فری پورٹ بن سکتا ہے۔
پاکستان چین اقتصادی راہداری کی بات گزشتہ کافی عرصے سے ہو رہی ہے مگر اس منصوبے کے حوالے سے موجود داخلی اور خارجی خدشات اور تحفظات اپنی جگہ ہیں اور ان سب کی موجودگی میں کیا گوادر کو سنگاپور بنانے کا خواب یا بلوچستان کی قسمت بدلنے کا خواب حقیقت بن سکے گا؟
پاکستان چین اقتصادی راہداری (پی سی ای سی) چین کے شمال مغربی شہر کاشغر کو پاکستان کے جنوبی حصے سے ملاتی ہے، جس کے ذریعے چین کا رابطہ گلگت بلتستان سے ہو کر بلوچستان میں موجود گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کے ذریعے بحیرۂ عرب تک ہو سکتا ہے۔
پی سی ای سی منصوبے کا مقصد مواصلات کے علاوہ سمندری اور زمینی تجارت میں اضافہ کرنا ہے۔
گوادر بندرگاہ کا انتظام ان دنوں ایک چینی سرکاری کمپنی کے پاس ہے اور یہ ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے، جو آبنائے ہرمز کی جانب جاتا ہے۔ آبنائے ہرمز خود تیل کی سمندر کے ذریعے نقل و حمل کا اہم راستہ ہے۔
یہ کوریڈور چین کو مغربی اور وسطی ایشیا سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی سہولت دیتا ہے اور ساتھ ہی اس سے پاکستان کے مالی حالات میں بہتری کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔
پاک چین اقتصادی کوریڈور کا مقصد پاکستان کی سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنوں کی تعمیر نو کرنا ہے تاکہ سمندر کے ذریعے سامان کی ترسیل ہو سکے۔
اسی کے حصے کے طور پر اقتصادی زون، صنعتی پارک، بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعاون اس وقت ۱۲؍ارب ڈالر ہے جو چین کے دیگر ملکوں (جیسا کہ بھارت) کے ساتھ تجارتی تعلق کے مقابلے میں کم ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی توازن اس وقت چین کے حق میں ہے، جو پاکستان کے ساتھ چین کی دور رس تعلقات کی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین جو اسلام آباد میں قائم پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) کے سربراہ بھی ہیں، کہتے ہیں کہ چین پاکستان میں اس وقت ۱۲۰؍منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں ۱۵؍ہزار تک چینی انجینئر اور تکنیکی ماہرین موجود ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ دس ہزار پاکستانی طلبہ چین میں زیرِ تعلیم ہیں اور اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں چینی پاکستانی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں، جیسے کہ اسلامک یونیورسٹی اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز، جہاں ایک کنفیوشس سینٹر بھی قائم ہے۔
سینیٹر مشاہد کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان ثقافتی اور عوامی سطح پر روابط فی الحال کم ہیں لیکن بتدریج اس تعاون میں بھی ’معیاری پیش رفت‘ ہو رہی ہے۔
پی سی آئی کا ایک اہم مقصد پاکستانی اور چینی لوگوں کے درمیان ثقافتی تبادلہ بڑھانا ہے۔ یہ اپنی قسم کا پہلا ادارہ ہے جس نے چینی زبان کو پاکستانی تعلیمی اداروں کے نصاب میں متعارف کیا ہے۔ پی سی آئی کے مطابق ملک میں تین ہزار طالب علم چینی سیکھ رہے ہیں۔
چین میں سابق پاکستانی سفیر اور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے موجودہ چیئرمین خالد محمود کا کہنا ہے لوگوں کے درمیان باہمی تعامل اب بھی پاکستان چین تعلقات کا کمزور پہلو ہے اور اس کی ایک وجہ زبان کا فرق ہے۔ تاہم تھنک ٹینکس اور نوجوانوں کے تبادلے کے پروگرام اس سطح پر تعاون کو فروغ دینے کے لیے چل رہے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایک تہائی چینی پاکستان کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں جبکہ ۲۳ فیصد بھارت کے بارے میں اور ۴۲ فیصد امریکا کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔ دوسری جانب ۲۰۱۳ء میں تحقیقاتی تنظیم پیو کی جانب سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق ۸۱ فیصد پاکستانی چین کو پسند کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کس بات کی وضاحت کرتا ہے؟
کیا اس کی وجہ پاکستان میں سلامتی کے حوالے سے غیر پائیدار صورت حال ہو سکتی ہے، جس سے ماضی میں چینی بھی متاثر ہوچکے ہیں؟
گزشتہ سال جون کے مہینے میں دو چینی اور ایک چینی نژاد امریکی باشندے پاکستان میں مارے گئے تھے۔ اس سے ایک سال قبل ایک چینی خاتون کو مبینہ طور پر تحریکِ طالبان پاکستان نے ہلاک کیا تھا۔ اس کے علاوہ چین کے شمال مغربی علاقے میں جاری عسکریت پسندی کو بھی پاکستان میں موجود شدت پسندوں کی پناہ گاہوں سے جوڑا گیا ہے۔
پاکستان چین کی اس ’محبت بھری‘ دوستی کی داستان میں ایک کانٹا سکیورٹی کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پی سی ای سی میں بھی رکاوٹ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
کیا اس کا حل خصوصی سیکورٹی فورسز کی تعیناتی ہے؟
سینیٹر مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ ایک خصوصی سیکورٹی فورس جسے فوجی تربیت حاصل ہے، وہ چینی منصوبوں کو ’فول پروف‘ تحفظ فراہم کرسکے گی، اسے بلوچستان اور گلگت بلتستان تعینات کیا جانے کے منصوبے پر کام ہور ہا ہے۔
خالد محمود کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان میں چینی مفادات کی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان ہر ممکنہ کوشش کر رہا ہے اور چین پاکستان کی کوششوں سے ’مطمئن‘ ہے۔
یاد رہے کہ چین کا پاکستان کی فوجی خود انحصاری میں نمایاں کردار رہا ہے اور ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء کے درمیان آدھے سے زیادہ چینی ہتھیاروں کا وصول کنندہ پاکستان تھا۔
پاکستان چین اقتصادی تعلقات میں رکاوٹ ڈالنے میں ’بیرونی عناصر‘ کے ممکنہ کردار کے بارے میں سوال کے جواب میں سینیٹر مشاہد نے کہا کہ ایسا ممکن ہے مگر چین اس بات کو سمجھتا ہے اور پاکستان پر اعتبار رکھتا ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کے اس منصوبے پر ممکنہ اثرات یا رکاوٹ کے بارے میں سینیٹر مشاہد حسین کا دعویٰ ہے کہ گوادر کے اردگرد علاقے پرامن ہیں اور ان کے متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں۔
مئی ۲۰۱۴ء میں جہاں نواز حکومت نے اپنا پہلا سال مکمل کیا ہے، وہیں چین پاکستان تعلقات کو ۶۳ سال پورے ہو رہے ہیں اور پی سی ای سی جیسے بڑے منصوبوں پر کام آگے بڑھ رہا ہے۔
اس حوالے سے سکیورٹی خدشات پر بھی بظاہر قابو پانے کی حکمتِ عملی نظر آتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کے بدلتے حالات میں یہ ’حکمتِ عملی‘ کس حد تک کارآمد ہو گی اور پاکستان جہاں اپنے داخلی سلامتی کے خطرات سے دوچار ہے کیا وہ ایک ’دوست ملک‘ کے مفادات کی حفاظت کر پائے گا؟
(’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘، ۱۲؍مئی ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply