سال ۲۰۰۹ میں بیجنگ اولمپکس کھیلوں کے ابتدائی ایام میں چین کی بعض تنظیمیں حکومت کے خلاف بعض امور پر احتجاجی مظاہرے کررہی تھیں، جن کاچرچا عالمی میڈیا میں دیر تک ہوتا رہا۔ ان مظاہرین میں عام طور پر تبّت کے باشندے شامل تھے، جن کے مطابق چین نے ان کے علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہوا تھا۔یاپھر معروف چینی تنظیم ’’فالان گونگ‘‘کے کارکنان تھے جنہیں چین میں خلافِ قانون قراردے دیا گیا ہے۔
لیکن اُنہی دنوں چین میں کچھ اور افراد بھی احتجاجی مظاہرے کررہے تھے، جن کے مقاصد مذکورہ بالا تنظیموں سے بالکل مختلف تھے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں ان مظاہرین کا ذکر نہ ہونے کے برابر تھا، اور جو کچھ کیا گیا، وہ بھی ان پر ’’دہشت گرد‘‘ ہونے کا لیبل لگاکر کیا گیا۔ ان مظاہرین میں سے بیشتر کو یا تو گرفتار کرلیا گیا تھا یا انہیں سزائے موت سنادی گئی تھی۔ مظاہرین اصل میں چین کے عظیم صوبے ’’سنکیانگ‘‘ (Xinjiang) یا ’ژونگ جیانگ‘کے باشندے تھے، جو چین کا واحد مسلم صوبہ ہے جسے چین میں شمولیت سے پہلے سینکڑوں سالوں تک ’’مشرقی ترکستان‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ صوبہ جوعظیم دیوارِ چین سے متصل شاہراہِ ریشم پر کشمیر کے ساتھ واقع ہے، دسویں صدی عیسوی کے وسط میں اسلام سے آشنا ہوا تھا۔
سنکیانگ کے باشندوں نے جو ’’یوغیر‘‘ کہلاتے ہیں، ۱۷۵۹ء تک اپنے خطے پر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے حکمرانی کی تھی۔ بعدازاں اس ملک پرمعروف چینی حکمران، مانچو خاندان، نے حملہ کیا اور اپنی حکمرانی قائم کرلی، جو ۱۸۶۴ء تک برقرار رہی۔ ۱۰۵ سالہ اس عہد کے دوران ’’یوغیر آبادی‘‘ نے کم ازکم ۴۲ بار بغاوت کی۔ حتیٰ کہ اپنے ملک ’’مشرقی ترکستان‘‘ سے مانچو خاندان کو نکال باہر کیا، اور ایک معزز فرد یعقوب بیگ کی سربراہی میں ایک بار پھر خودمختار حکومت قائم کی۔ یہ ایک ایسی حکومت تھی جسے اس وقت کی عثمانی خلافت نے بھی سندِ قبولیت عطاکی تھی، جبکہ برطانیہ اور روس کے زاروں نے بھی اسے تسلیم کر لیا تھا۔ یہی وہ خطہ ہے جسے کبھی ’’کاشغر‘‘ کے تاریخی نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ علامہ اقبال ؒکے مندرجہ ذیل شعر میں ہم نے ’’کاشغر‘‘ کا نام بے دھیانی میں کئی بار دہرایاہوگا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کرتابہ خاکِ ’’کاشغر‘‘
تو کاشغر اسی مسلم مملکت کاایک حصہ تھا۔ ’’اُرمچی‘‘ جو چین کا ایک معروف شہر ہے، وہ بھی اسی سنکیانگ صوبے کا دارالحکومت ہے۔ تاہم اپنی دوبارہ آزادی کے محض ۱۳سال بعد ۱۸۷۶ء میں مانچو چینی حکومت نے نئے فوجی حملے کے بعد اس ملک کو ایک بار پھر اپنے قبضے میں لے لیا اور مشرقی ترکستان کو ’’سنکیانگ‘‘ کا نیا نام دے دیا۔
تاہم اس بار بھی ’’یوغیر‘‘ تحریکوں نے مانچو قبضے کے خلاف بغاوتیں جاری رکھیں۔ آخری بار ۱۹۴۴ء میں وہاں ایک بار پھر ’’جمہوریہ مشرقی ترکستان‘‘نامی ریاست قائم ہوگئی۔ ۱۹۴۹ء میں جب چین میں کمیونسٹ پارٹی کادور دورہ شروع ہوا تو اس کے بعد اس ریاست کے خلاف ایک بار پھر متشدّدانہ کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ ۱۹۵۰ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے ریاست کو اپنے قبضے میں لے کر اسے مملکت چین کاحصہ قرار دے دیا، اور مختلف چینی خاندانوں کوآبادکرنے کاسلسلہ شروع کیاتاکہ خطے پرمکمل چینی و آہنی گرفت حاصل کی جاسکے۔چنانچہ مختلف چینی خاندانوں کو سنکیانگ میں آبادکرنے کے باعث حال اب یہ ہوگیاہے کہ ۱۹۴۹ء کی محض چھ فیصدغیرمسلم چینی آبادی کاتناسب بڑھ کر ۲۰۰۹ء میں چالیس فیصدتک پہنچ گیاہے ۔سادہ سے الفاظ میں اس کامطلب یہ ہے کہ دوکروڑکی کل آبادی میں سے اس صوبے میں غیرمسلم چینی آبادی کی تعداداب ۸۰ لاکھ سے بھی زائدہوگئی ہے۔
اگرچہ مسلم افرادچین کے دیگرصوبوں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں لیکن اکثریتی مسلم آبادی کے لحاظ سے سنکیانگ ہی واحد مسلم اکثریتی چینی صوبہ ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سنکیانگ اور تبت ہی وہ دو صوبے ہیں، پورے چین کے مقابلے میں جہاں مقامی چینی آبادی اقلیت میں پائی جاتی ہے۔ چین کے لیے اس صوبے کی بڑی اہمیت ہے۔ ملک کے تمام ایٹمی دھماکے اسی صوبے میں کیے گئے تھے اور خطے کے قدرتی وسائل کابڑاحصہ بھی سنکیانگ ہی میں پایا جاتاہے جس میں کوئلے کے ذخائرکاتناسب پورے ملک کے لحاظ سے۳۸فیصد،اورپٹرول وقدرتی گیس کے ذخائرکاتناسب ۲۵ فیصد ہے، جوایک بہت بڑی شرح ہے۔ اس کی وجہ سے صوبے میں قدرتی طورپرمعاشی خوشحالی بھی درآئی ہے۔لیکن حیرت انگیرطورپراس کابیشترفائدہ باہرسے آئے ہوئے محض چینی غیرمسلم افرادکوپہنچاہے۔
چین میں تبّتی افراد کا آج جو حال پایا جاتا ہے، ’’یوغیر‘‘ مسلم افراد بھی خود کو اسی کے مشابہ پاتے ہیں۔ تبّتیوں کی طرح ’’یوغیریوں‘‘ نے بھی عشروں پرمحیط چینی حکومت کے جبروستم کو سہا ہے۔ انہیں نہ تو وہاں بنیادی شہری حقوق دیے گئے ہیں اور نہ کسی قسم کی سیاسی ومذہبی آزادی انہیں حاصل رہی ہے۔ جب بھی یہاں آزادی کی کوئی تحریک چلی، تو سابقہ وموجودہ چینی حکومتوں نے اسے بری طرح کچل دیا۔ یہ حکومتیں ہمیشہ اس بات کی خواہشمندرہی ہیں کہ یوغیری باشندوں سے اپنی قومی ومذہبی شناخت ختم کروا دیں۔ چونکہ اسلامی تحریکوں کو اسلام کے باعث ہمیشہ جذبہ ملتا رہا ہے، اس لیے حکومت کی کوشش رہی ہے کہ اسلام کاکوئی ہلکا سا غیرضرر رساں اظہار بھی صوبے میں نہ ہونے پائے!
وہ امور جنہیں انجام دینا سنکیانگ کے مسلمانوں کو چینی حکومت کی جانب سے ممنوع قرار دیا گیا ہے، ان میں مذہبی کتابوں کا مطالعہ، سرکاری تعلیمی اداروں میں اسلامی لباس کا استعمال اور متفرق مذہبی تقریبات کا انعقاد شامل ہیں۔ صوبے میں یہ ہدایات بھی چینی حکومت ہی جاری کرتی ہے کہ مساجد کا امام کون ہوگا؟ اور قرآن کا کون سا نسخہ اس کے لیے قابل قبول ٹھہرے گا؟ وغیرہ۔ حال ہی میں متعارف کیے گئے ضوابط کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکوں پر نماز پڑھنے، اساتذہ کو داڑھیاں رکھنے اور طلبہ وطالبات پر جامعات میں قرآن پاک لانے کی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ جون ۲۰۱۴ء میں ایک مقامی عدالت نے پانچ اماموں کواس بنیادپرسات سال قید کی سزا سنائی تھی کہ انہوں نے مسلم حاجیوں کے سفرِسعودی عرب کے سلسلے میں انتظامات میں حصہ لیاتھا۔ان پریہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ سزاسنائے جانے کے ایک سرکاری اجتماع میں انہوں نے ملزموں کوقرآنِ پاک کے نسخے بھی فراہم کیے تھے۔
اکتوبر ۲۰۱۴ء میں چین کی حکومت نے مزیداقداما ت کیے ہیں۔ سنکیانگ کے اسکولوں میں بچوں کو مذہبی رجحانات سے دور رکھا جائے گا اور نہ تو اسکول میں اور نہ گھر میں مذہبی روایات پر عمل کرنے دیا جائے گا۔ (جنگ کراچی۔ ۳۰؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)
’’یوغیری‘‘ افراد چین کی وہ واحد قومیت ہیں جنہیں سیاسی خلاف ورزیوں پرپابندی کے ساتھ سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ امریکا کی جاری کردہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کو دوسرے ممالک کی طرح چین نے بھی اپنا لیا ہے اورمسلمانوں کودبانے اورخاموش کرنے کے لیے اسے ایک حربے کے طور پر اختیار کیا ہے۔ حتیٰ کہ جو نوجوان اپنے حقوق کے لیے خاموش احتجاج بھی کرتے ہیں، انہیں بھی ’’دہشت گردوں‘‘ کے زُمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ محض اس بنیاد پر بھی انہیں قیدوبند کی سزائیں سنائی جاتی ہیں کہ انہوں نے آزادی سے متعلق اخبارات کی خبریں پڑھی اورسنائی تھیں۔ دوسری طرف بعض افراد کو چین نے محض اس لیے سزا دی تھی کہ انہوں نے ’’ریڈیو آزاد ایشیا‘‘ سننے کاجرم کیاتھا۔یہ ایک ایساچینل ہے جو امریکا اپنے طور پر انگریزی زبان میں دنیا کے لیے جاری رکھتاہے۔ وہاں حالات اتنے نازک ہیں کہ مسلم طلبہ کی کسی بھی حرکت کوحکومتِ چین ناپسندیدہ قراردے کرتشدداورقیدکی بنیادبنادیتی ہے۔
جون ۲۰۰۹ء میں چینی حکام نے ضلع ’’کالپن‘‘ (سنکیانگ) کی ایک قدیم مسجد کو اس الزام کے تحت زمین بوس کردیاتھاکہ وہاں ناجائزاندازسے تزئین ومرمت کی جارہی تھی۔نیزیہ کہ وہاں غیرمنظورشدہ مذہبی سرگرمیاں انجام دی جارہی تھیں اور قرآن پاک کے نسخوں کا ڈھیر لگایا جارہا تھا۔ چینی مسلمانوں پربرسوں سے ڈھائے جانے والے یہ مظالم وہاں کی کمیونسٹ گرفت کے باعث باہرکی آزاددنیا میں نہیں آنے پاتے ۔اسی لیے آج خودآزادمسلم برادران بھی اپنے ہم مذہب ترک چینی بھائیوں کے حالات سے مطلق واقف نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ دنیامیں ترکوں کی اکثریت ترکی کی حدود سے باہرہی پائی جاتی ہے۔وسط یورپ سے لے کروسط ایشیا کے مشرقی کناروں تک جووسیع وعریض خطّہ پایا جاتا ہے، ترکوں نے اسے اپنا مقدس خون دے کر اسلامی وطن میں تبدیل کیا تھا۔ مشرقی ترکستان کی کل آبادی مختلف ترک قبائل پر مشتمل ہے، جن میں سب سے بڑاقبیلہ ’’یوغور‘‘ہے۔ کاشغر کے علاوہ ’’خُتن‘‘کامعروف علاقہ بھی اسی خطے میں پایا جاتا ہے، جس کے بارے میں مشہورہے کہ وہاں کے ’’ہرن‘‘بہت خوبصورت ہوتے ہیں ۔ترک قوم یہاں قبل ازاسلام سے پائی جاتی ہے لیکن اس نے اسلام اس وقت قبول کیاتھاجب ایک اموی سپہ سالار’’قُتیبہ‘‘۸۶ھ میں یہاں داخل ہوئے تھے۔ معروف مغربی مصنف پیٹرفلیمنگ نے گزشتہ صفحات پر ذکر کیے گئے چینی مانچو خاندان کے بارے میں لکھاہے کہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں مشرقی ترکستان میں دس لاکھ افراد قتل کیے گئے تھے (کتاب NEWS FROM TARTARY، لندن۱۹۳۶ء۔بحوالہ ڈان۔کراچی)۔ اسی طرح جب چینی حکومت نے انیسویں صدی کے آخرمیں مشرقی ترکستان پر جبراً قبضہ کیا تھا تو اس نے ہزاروں ترکوں کو قتل کروایا اور مسلم سربراہ ’’یعقوب بیگ‘‘ کی نعش کو قبر سے نکال کر جلایا تھا۔
ترک اور ترکستان کے الفاظ کا استعمال کرنا اور ترکی یا دیگر اسلامی ممالک سے اسلامی لڑیچر یا مقامی اخبارات کا منگوانا بھی وہاں اسی دور میں ممنوع قرار دے دیا گیا تھا، تاکہ مسلم عوام کو ان کی شاندار تاریخ سے کاٹ دیا جائے اور دنیا کے دیگر خطّوں میں پھیلے ہوئے اپنے ہم مذہب بھائیوں سے لاتعلق کردیا جائے۔ اسی طرح وہاں کے سرکاری محّلات، دفاتر، مساجد، کتب خانے اور حمام سب کے سب نیست ونابود کرکے ان کی جگہ چینی طرزکی عمارتیں، قلعے اور بت خانے قائم کیے گئے۔ ترکوں پر پابندی عائد کی گئی کہ گھروں سے باہر وہ صرف چینی لباس پہنیں اور سوّر کا گوشت کھائیں۔ اخلاقیات پر کاری وار کرنے کی خاطر ان کے علاقوں میں جگہ جگہ شراب خانے اورافیون خانے بھی قائم کیے گئے۔
’’مانچو خاندان‘‘ کے بعد جب چین پراشتراکیت کاکامل غلبہ ہوا تو ان کے سرخ حکام نے سنکیانگ کے مسلم باشندوں پر ظلم وتشدد مزید تیز کردیا۔ انہوں نے سینماؤں میں ایسی فلمیں دکھانی شروع کیں، جن میں مذہب کونعوذبااﷲ مکروہ شکل میں پیش کیاگیاتھا۔بعض مساجدمیں ایک گوشہ ’’ماؤزے تنگ‘‘ کے نام سے بھی کھولاگیا، جہاں ان کامجسمہ رکھاجاتاتھا۔ایسے پوسٹر چسپاں کیے جاتے تھے جن کی عبارتیں ان الفاظ پر مشتمل ہوتی تھیں۔’’مذہب افیون ہے،اسلام سامراج کی خدمت کرتا ہے اور دولت مندعربوں کی ایجادہے ۔کمیونزم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین کے خلاف جنگ کرے‘‘۔یہ معلوم کرنے کے لیے کہ لوگ کس حدتک مذہب کے عادی ہیں، رمضان کے مہینے میں دوپہر کے وقت لوگوں کوکھانے پر مدعو کیا جاتا تھا اور جو لوگ شریک ہونے سے بازرہتے تھے، انہیں پکڑ کرسزائیں دی جاتی تھیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ انہی ماؤزے تُنگ کو اب چین میں کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ بلکہ اب وہاں اقرار کیا جارہا ہے کہ ماؤ نے لاتعداد خواتین کی عصمت دری کی تھی اور ہزاروں ہزار افراد کو ہلاک کیا تھا۔
لوس اینجلس ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ امریکا نے سنکیانگ کی ۲۰۰۹ء کی اپنی اشاعتوں میں بیان کیا کہ وہاں پُرتشدّد مظاہرے مسلسل جاری ہیں، جن کی زد میں چینی پولیس کے افراد آرہے ہیں۔ ان اخبارات کے مطابق اس مسلم صوبے میں چین نے ہزاروں کی تعداد میں پولیس والوں کو تعینات کر رکھا ہے جن کے وہاں اب مستقل رہنے کے بھی امکانات پائے جاتے ہیں۔ یوغیر کے ایک بیرونی گروپ نے مذکورہ اخباروں سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ حکومت چین کی جبرکی پالیسی کے باعث صوبے کے حالات تشویشناک حدتک خراب ہوگئے ہیں۔اخبارات نے بیرونِ ملک پناہ گزین ایک چینی مسلم کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ وہ بہت طویل مدت سے اپنی ماں کی خیریت معلوم کرنا چاہتا تھا لیکن فون پر ماں نے بس ہیلو کرکے ’’میں ٹھیک ہوں‘‘ کہا اور فون بند کردیا۔ ایسا رویہ اس نے انجانے خوف کے تحت اپنایا تھا۔ (روزنامہ ڈان۔ ۱۲ستمبر ۲۰۰۹ء)
یوغیری مسلمانوں پربے رحمانہ تشدد و بربریت کو دنیا پر واشگاف کرنے اوراپنے جائز انسانی حقوق کے لیے قزاقستان کے شہر الماتے میں جولائی ۲۰۰۹ء میں بھی ان کے بھائی بندوں نے زبردست مظاہرے کیے تھے۔ اسی اخبار کی ۲۰ستمبر ۲۰۰۹ء کی ایک رپورٹ کے مطابق الماتے میں ۵۰۰۰ یوغیریوں نے جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھے،ایک بڑے ہال میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیاتھا۔ اپنے ہاتھوں کو وہ فضا میں لہر رہے تھے جن میں سفیدہلال والے نیلے پرچم تھے یہ پرچم سنکیانگ کی تحریک آزادی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔وہ باربار نعرے لگارہے تھے کہ ’’یوغیرستان کوآزادی دو‘‘۔’عالمی یوغیرکانگریس‘ کے وائس سیکریٹری جنرل نے پریس سے باتیں کرتے ہوئے کہاکہ ’’اُرمچی میں ہمارے مسلم بھائیوں پرخونی حملے کیے گئے ہیں،اس لیے اس معاملے میں ہم ہرگز خاموش نہیں بیٹھیں گے‘‘۔واضح رہے کہ قزاقستان میں چین سے نکالے گئے مسلمانوں کی ایک بہت بھاری تعداد آباد ہے۔ او آئی سی نے بھی کسی نہ کسی طرح بالآخر چین کے وحشیانہ تشدّد کی پرزور مذمت کردی تھی۔ دوسری طرف حکومتِ چین نے جولائی ہی میں مزیدہنگاموں کے پیش نظرجمعہ کی نماز کے علاوہ عام نمازوں پربھی پابندی لگادی تھی۔ ایک اور خبر کے مطابق اسی صوبے کی علاقائی حکومت نے ۱۰ لاکھ مسلمانوں کے لیے ایک حراستی مرکز قائم کیا ہے، جہاں سے ان مسلمانوں کی نگرانی کی جاتی رہے گی (روزنامہ جنگ کراچی ۱۱جولائی ۲۰۰۹ء اور ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۸ء)۔ ریاستی حراست کا مطلب ان مسلمانوں کو چینی لادینی نظام کو قبول کروانا اور اسلام سے جبری منحرف کروانا ہے ۔واضح رہے کہ ایسے ریاستی جبر و تشد د کی خبریں ہمیں آئے روز ملتی رہتی ہیں۔
گزشتہ دنوں سنکیانگ کے حراستی مرکز میں ایک ایغور مسلم موسیقا ر عبدالرحیم حیات کے انتقال کے بعد ترک وزارتِ خارجہ بھی بہت ناراض ہوئی اور اس نے چینی حکومت سے سنکیانگ کے تمام حراستی متشدد کیمپس بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ترک حکومت کے ایک بیان کے مطابق ’’اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ان حراستی مراکز میں مسلم افراد کی ذہنی صفائی کی جاتی ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔بلکہ جو مسلمان حراست میں نہیں ہیں، ان پر بھی تشدد کیا جاتا ہے‘‘ (جنگ کراچی۔ ۱۱فروری ۲۰۱۹ء)۔ واضح رہے کہ بی بی سی اور انڈپینڈنٹ جیسے مغربی اخبارات و ابلاغ میں سنکیانگ کے مسلمانوں کی حالت زار پر آج کل بہت کچھ پیش کیا جارہا ہے ۔لگتا ہے کہ مغرب میں چین کے ان ظالمانہ و استحصالی رویے کے خلاف بے چینی بڑھتی جارہی ہے،خواہ اس کا مقصد ان قوتوں کا چین کے خلاف محاذ بنانا ہی ہو، جو ان کا قدیم کھیل رہاہے ۔بعد میں یہی قوتیں پھرآزاد کردہ ان مسلمانوں کے خلاف بھی اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ تاہم اس مہم کا یہ فائدہ ضرور ہورہا ہے کہ دنیا بھر کو ایغور مسلمانوں کی بے بسی اورغلامی کی زندگی کا صحیح ادراک ہورہا ہے۔
مشرقی ترکستان جو کبھی ایک اسلامی ریاست ہوتا تھا، جہاں کبھی علم وتہذیب کے بڑے سرچشمے پائے جاتے تھے، اور جہاں کبھی اسلامی شریعت پر خود حکومت کی جانب سے عمل درآمد ہوتا تھا، وہ آج ایک گُھٹا ہوا، غریب، پسماندہ اور آہنی شکنجوں تلے دبا ہوا خطہ بنا ہوا ہے، جس کے بارے میں نہ تو آج کے جدیدجمہوری و روشن خیال مغربیوں کوکوئی فکرہے اور نہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ کی آبادی اورہر طرح کے وسائل رکھنے والے مسلمان ملکوں میں ان کے حق میں کوئی آواز اٹھانے والا ہے۔ حتیٰ کہ افسوسناک طور پر ہمارے ہاں کے دینی جرائد و اخبارات میں بھی ان کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔
اسی صوبے سنکیانگ کے بارے میں علامہ اقبال کے دستِ راست اورمحقق سیدنذیرنیازی اپنی کتاب ’’اقبال کے حضور‘‘(حصہ اول)میں حاشیہ جاتی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مسلمان یہاں طویل عرصے تک حکومت کرتے رہے ۔تاآنکہ آپس کی خانہ جنگی میں ایک فریق نے چین سے امدادطلب کرلی۔یہ ۱۷۵۸ء کا واقعہ ہے جب ایک چینی لشکر ’’زنگیریا‘‘ میں داخل ہوا اور آتے ہی قتل وغارت گری شروع کردی۔ مجبوراََ اہل ’’زنگیریا‘‘ نے چین کی اطاعت قبول کرلی۔ رفتہ رفتہ ’’خطاوختن‘‘ اور ’’یارقند‘‘ بھی اس کے قبضے میں آگئے اور سارے ملک میں جبرو قہر کا ایک ایسا دور شروع ہوا، جس سے تنگ آکر کچھ لوگوں نے ترکِ وطن اورکچھ لوگوں نے چین کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردی۔ اول ۱۸۲۷ء اور پھر ۱۸۴۹ء میں!۔ لیکن ناکام رہے۔ اس پر آبادی کا ایک حصہ مغربی ترکستان (یعنی موجودہ ترکی۔سیّد) میں ہجرت کرگیا‘‘۔ نذیر نیازی لکھتے ہیں ’’یعقوب خان نے چینیوں کے خلاف کامیابی سے جنگ کی اور ایک صدی کی غلامی کے بعد چینی ترکستان ایک بار پھر آزاد ہوگیا۔ لیکن ۱۸۶۴ء میں چینی پھر اس پر قابض ہوگئے۔ اب ایک طرف روس اور دوسری جانب چین کا زور بڑھنے لگا، حتیٰ کہ یہ اسلامی خطہ، سنکیانگ کے نام سے چینی سلطنت کا ایک جزو لاینفک بن گیا ’’خالدشلڈرک‘‘ نے ’’اسلامستان‘‘ کے نام سے ایک آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا لیکن وہ ایک بے سروپا سی بات تھی کہ اُدھر سننے میں آئی اور اِدھر ختم ہوگئی۔ ۳۳۔۱۹۳۲ء میں البتہ چینی حکومت کے خلاف ایک مسلمان سردار لشکر نے خروج کیا، مگرناکام رہا۔ یہ سردارِ لشکر بڑا کم سن تھا اور اس کا نام بھی چینی تھا۔ شخصیت اس کی بڑی پراسرار تھی اور اس کی کارروائیوں سے حکومت بھی دیر تک پریشان رہی‘‘ (کتاب اقبال کے حضور۔ سید نذیر نیازی۔ ص:۱۴۰)۔ روزنامہ جنگ کراچی لکھتا ہے کہ اس وقت (۲۰۱۴ء میں) بھی ’گوانتا نامو‘ میں چینی ایغور مسلمان قیدیوں کی ایک بڑی تعداد قیدو جبر کی سزائیں بھگت رہی ہے۔ (مورخہ ۔۱۲؍فروری ۲۰۱۴ء)
اس ضمن میں علامہ اقبال کا مزیدبیان ہے کہ’’پچھلی صدی میں تو چینی ترکوں نے اپنی ریاست (بھی)قائم کرلی تھی، مگرانگریزوں نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ علامہ کے اس بیان کی وضاحت میں،ان کے ہمرازودوست اور ادیب سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ مشرقی یا چینی ترکستان اسلامی خطہ ہے جہاں صدیوں سے مسلمان برسراقتدار رہے‘‘۔
کہاجاتاہے کہ کاشغر (چینی ترکستان) کو سپہ سالارقُتیبہ نے ۷۱۵ عیسوی میں فتح کرلیا تھا۔ خلیفہ ہشام (بنوامیہ) نے بعد میں ۷۴۳۔۷۲۴ء میں اپنے گورنر نصرابن سیارکے ذریعے اس علاقے پر قبضہ مزید مستحکم کرلیا۔ بعدازاں ۷۵۱ء میں عربوں نے روس میں تاشقند کو بھی زیرنگیں کرلیا تھا اور انیسویں صدی کے اختتام تک یہ علاقہ مسلم حکومتوں ہی میں شامل رہا تھا۔ سنکیانگ کا موجودہ چینی مسلم صوبہ کبھی ایک باقاعدہ مسلم حکومت ہوا کرتی تھی جہاں شریعت کا نفاذ تھا۔ اسے تب ’’مسلم ترکستان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتاتھا۔
Leave a Reply