’’چینی ین‘‘ عالمی کرنسی بننے کے قریب

یہ الفاظ ’’ڈالر بطور عالمی کرنسی ماضی کا حصہ ہے!‘‘ چین کے صدر ہوجن تائو نے ’’وال اسٹریٹ جنرل‘‘ کو ایک انٹرویو میں کہے تھے۔ کسی بھی ملک کا کسی دوسرے بلکہ اپنے حریف ملک کے بارے میں کھلے انداز میں ایسی بات کرنا معنی رکھتی ہے۔ دنیا میں سپر پاور کے لیے دفاعی صلاحیت کا مضبوط ہونا ضروری تو ہے مگر سب سے اہم نہیں، کیونکہ معاشی ترقی و استحکام کے بغیر کوئی بھی ریاست سپر پاور کی حیثیت حاصل نہیں کر سکتی اس کی وجہ اس کی دفاعی طاقت نہیں بلکہ اس کی مضبوط اقتصادیات ہوتی ہیں۔ جب سوویت جنگ کی وجہ سے روس کی معیشت تباہ ہوئی تو نہ صرف روس کمزور ہوا بلکہ تحلیل بھی ہوگیا۔

چین ہر لحاظ سے دنیا کی نئی طاقت بننے کے لیے تیار ہے۔ معاشی سونامی آنے کے بعد امریکا کے حالات ایسے تھے کہ وہ اپنے اداروں کو تنخواہیں دینے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔ جس کے بعد پس پردہ اسے حکومت کے معاملات چلانے کے لیے صہیونی سرمایہ کاروں اور چین سے رقم ادھار لینی پڑی جس کی تفصیلات وقفے وقفے سے منظر عام پر آرہی ہیں۔ امریکا کی اندرونی معیشت چین کے رحم و کرم پر ہے کیونکہ چین نے امریکا کو ادھار دینے کے ساتھ ساتھ وہاں اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ اب عالمی تجارت کا رخ تبدیل ہونا چاہیے جس کے لیے منصوبہ بندی کی جاچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور توانائی کے ذخائر رکھنے والے ممالک متفقہ طور پر ڈالر پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ چین عالمی تجارت میں ’’چینی ین‘‘ کو ترجیح دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی مصنوعات کی امریکا میں فروخت کے بدلے چینی حکومت رقم ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی میں حاصل کر رہی ہے۔ اس حوالے سے چینی منصوبہ ساز اور دانشور مسلسل صدر ہوجنتائو کو بتا رہے ہیں کہ ماضی کی بڑی بڑی طاقتوں کا زوال کیسے وقوع پذیر ہوا ہے، وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے ماضی کی سپر پاور پر ایک ایسا وقت آیا کہ دنیا کو کنٹرول کرنے کے بجائے وہ اپنے استحکام اور بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور ہوگئیں۔ چین کے دانشوروں نے ہوجن تائو کو یہ باور کروایا ہے کہ جدید دور میں دنیا کی سپرپاور بننے کے لیے سب سے پہلے عالمی اقتصادیات پر دسترس حاصل کرنا ہوگی اور وہ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب ’’عالمی کرنسی‘‘ ’’چینی ین‘‘ ہوگا۔ جس کے لیے ڈالر کو زوال پذیر ہونا ہوگا۔ عالمی تجارتی میدان میں اب ڈالر اور ’’چینی ین‘‘ مدمقابل آچکے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم سے پہلے دنیا کی اقتصادیات برطانیہ کے ہاتھ میں تھی یہی وجہ تھی کہ برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا کیونکہ ’’پونڈ‘‘ عالمی کرنسی کے طور پر جانا جاتا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا سپر پاور بن کر سامنے آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی تجارت میں ڈالر نے برطانوی پونڈ کی جگہ لے لی تھی۔ ۲۰۰۸ء کے بعد سے ڈالر کی قدر میں کمی اور کمزوری دیکھنے میں آرہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ’’چینی ین‘‘ مستحکم اور مضبوط ہو رہا ہے۔ ’’چینی ین‘‘ اب عالمی مارکیٹ میں قابل بھروسہ کرنسی سمجھی جارہی ہے۔

چین کی معیشت کی مضبوطی کے بعد اب دنیا کے بڑے بڑے صہیونی گروپ مثال کے طور پر سٹی گروپ، گولڈمین، روتھ شیلڈ اور صہیونی بینکروں نے شنگھائی کا رخ کر لیا ہے، جس کی وجہ سے واشنگٹن کے بجائے اب شنگھائی عالمی تجارت کا مرکز بن چکا ہے اور چین نے معاشی میدان میں امریکا کو شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا میں جتنے بھی صہیونی صنعتکار اور سرمایہ کار ہیں وہ اپنی اشیا کو سب سے پہلے چین بھیجتے ہیں۔ جن میں گولڈ مین گروپ اور سٹی گروپ قابل ذکر ہیں۔ معاشی بحران کی وجہ سے امریکا میں بے روزگاری بھی غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے۔ امریکا میں پڑھا لکھا طبقہ اب چینی کمپنیوں میں کام کو ترجیح دے رہا ہے لہٰذا امریکا کے پڑھے لکھے نوجوان جن میں آئی ٹی اسپیشلسٹ، سائنسدان، کمپیوٹر پروگرامر اور انجینئروں کی بڑی تعداد، چینی کمپنیوں میں کام کر رہی ہے۔
عالمی ماہر اقتصادیات اپنے تجزیوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ عالمی اقتصادیات کا مرکز امریکا کی بجائے اب ایشیا منتقل ہو چکا ہے اور ایشیا میں شنگھائی اس کا مرکز مانا جاتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال امریکا کے صہیونی بینکنگ سسٹم کا تباہ ہونا ہے جس کی وجہ سے امریکا معاشی بحران کا شکار ہوا۔

عالمی اقتصادیات پر گہری نظر رکھنے والے معروف رسالے ’’اکانومسٹ‘‘ میں مضمون شائع ہوا تھا کہ ’’بہت جلد چین دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن کر سامنے آئے گا‘‘۔ جس کی وجہ اس تجزیے میں یہ بتائی گئی تھی کہ معاشی بحران کی وجہ امریکی بینکوں کا دیوالیہ ہونا ہے۔ چین معیشت کے ہر میدان میں امریکا کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں سب سے زیادہ آئی ٹی مصنوعات، الیکٹرانکس مصنوعات، گارمنٹس اور افرادی قوت چین بھیج رہا ہے۔ آٹو موبائل انڈسٹری جس کا دارومدار عالمی سرمایہ پر ہوتا ہے بھی چین کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اب چین میں بیرونی سرمایہ کاری بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہو رہی ہے کیونکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو نفع کی شرح یورپ کی نسبت چین سے زیادہ حاصل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے امریکا کے ساتھ ساتھ یورپ بھی تذبذب کا شکار نظر آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نفع کی شرح چین میں یورپ کے مقابلے میں دوگنی ہے جس کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں نے مغرب اور امریکا کے بجائے چین کا رخ کر لیا ہے۔ ایشیا کا عالمی اقتصادیات کا مرکز بننے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔

چین نے اپنی دفاعی صلاحیت میں بھی غیر معمولی اضافہ کر لیا ہے۔ چین نے اب پہلی بار اپنی فوجیں سرحدوں سے باہر بھیجنا شروع کر دی ہیں اور اپنے ہمسایہ ممالک جنوبی کوریا اور جاپان جو کہ اس خطے میں امریکا کے سب سے اہم اتحادی سمجھے جاتے ہیں پر بھی اپنا دبدبہ قائم کر لیا ہے۔ چین نے ایسی فوج ترتیب دے لی ہے جو کسی بھی وقت دنیا کے کسی بھی ملک میں آپریٹ کر سکتی ہے جسے چین نے ’’ماڈرن ملٹری‘‘ کا نام دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چین کی ’’ماڈرن ملٹری‘‘ کی طاقت یورپ کے تمام ممالک کی مشترکہ فوجی کمانڈ ناٹو (NATO) کے برابر ہے جس کا عندیہ مارچ ۲۰۰۸ء میں چینی صدر ہوجن تائو نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ:Millitary Must Improve it Ability to “win hight tech regional war” ’’چینی فوج کو علاقائی جنگوں کو جدید ترین طریقوں سے جیتنے کے لیے اپنی صلاحیت کو بہتر بنانا ہوگا‘‘۔

۲۹ ستمبر ۲۰۰۸ء کو لندن کانفرنس میں مغربی طاقتوں نے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اندازہ اس انداز میں لگایا تھا کہ چین کی ماڈرن ملٹری دنیا میں کہیں بھی آپریشن کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکی ہے اور یہ فوج یورپ کے کسی بھی ملک سے بہتر ہے اور چین نے فضا میں موجود جنگی جہازوں کو بغیر لینڈ کرائے تیل کی سپلائی مہیا کرنے والی ٹیکنالوجی بھی حاصل کرلی ہے جس کی وجہ سے چین کی دفاعی طاقت میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔

چین کی دفاعی صلاحیت کا دارومدار اس کی اقتصادیات پر ہے۔ اقتصادی لحاظ سے چین سپر پاور بننے کے قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دفاعی میدان میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ چین کو دفاعی طاقت بنانے میں روس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جبکہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روس کی معیشت دیوالیہ ہو چکی تھی، جس کو مضبوط کرنے میں چین نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔ مئی ۲۰۰۸ء میں روس اور چین کے مابین جوہری معاہدہ طے پایا تھا جس کی رو سے روس چین میں ۱۲ ایٹمی ری ایکٹر لگائے گا جس کے بدلے چین ۵ء۱ بلین ڈالر روس کو ادا کرے گا۔ یہ چین کی ہی بدولت ہوا ہے کہ آج روس امریکا کے ساتھ برابری کی بنیادوں پر بات چیت کر رہا ہے۔ افریقا میں چین کی غیر معمولی سرمایہ کاری نے بھی امریکا کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا کی اقتصادیات کا دارومدار اسلحہ کی صنعت پر ہے جبکہ چین کی معیشت کا دارومدار ٹیکنالوجی، افرادی قوت، گارمنٹس، اسلحہ اور تیل پر ہے۔ امریکا اب چین کے مقابل اقتصادی لحاظ سے آنے کے قابل نہیں رہا۔ کیونکہ چین اگر امریکا میں سرمایہ کاری روک دے تو امریکا کا دیوالیہ ہونا یقینی ہے۔

آج کل عالمی اسٹاک ایکسچینج کے اتار چڑھائو کا دارومدار ڈالر کے بجائے ’’چینی ین‘‘ پر ہے۔ اس حقیقت کو امریکا تسلیم کر چکا ہے۔ ایک وہ دور تھا جب پوری دنیا کی اقتصادیات ڈالر کی قدر پر منحصر تھی لیکن اب جاپان، شام، ایران، لیبیا، روس، ارجنٹائن، برازیل، وینزویلا، چین اور لاطینی امریکا کی ۱۲ ریاستوںنے ڈالر کے بجائے اپنی اپنی کرنسی میں عالمی تجارت شروع کر دی ہے۔ امریکا میں بیٹھے اقتصادی ماہرین اب یہ لکھ رہے ہیں کہ ڈالر کا دور ختم ہو چکا ہے جسے ثابت کرنے کے لیے وہ بے شمار مثالیں دیتے ہیں۔ آج ایران، تھائی لینڈ کو تیل فروخت کرتا ہے، ایران تھائی لینڈ سے تیل کے بدلے ڈالر نہیں بلکہ چاول لے رہا ہے۔ روس اور چین اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارت کر رہے ہیں۔ تھائی لینڈ کے ڈپٹی پرائم منسٹر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ تھائی حکومت نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنا مرکزی بینک تھائی لینڈ میں بنائیں کیونکہ ’’چینی ین‘‘ دنیا کی مضبوط ترین کرنسی بن چکی ہے۔

امریکا کے اپنے معروف جریدے ’’وال اسٹریٹ جنرل‘‘ میں شائع ہوا تھا کہ چین عالمی اقتصادیات میں امریکا کی جگہ لینے کے لیے تیار ہے۔

۲۰۰۹ء میں برازیل اور چین نے اپنی اپنی کرنسی میں تجارت کا آغاز کر دیا تھا جو کہ امریکی معیشت کے لیے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوا کیونکہ امریکا کے ہمسایہ ممالک لاطینی امریکا کے بلاک نے بھی ڈالر کے بجائے عالمی تجارت کے لیے نئی کرنسی رائج کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ چین کی جی ڈی پی (GDP)کی شرح امریکا سے کئی گناہ زیادہ ہو چکی ہے اور اس کا بجٹ ڈیفی سٹ (Budget Deficit) بہت ہی تھوڑا ہے جو کہ چین کی ترقی کا راز ہے۔ جون ۲۰۰۹ء میں معروف معاشی ماہر جارج سورس (George Soros) نے معروف رسالے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’چین جتنی تیزی سے عالمی اقتصادیات پراپنا اثر قائم کر رہا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔

برطانوی جریدے ٹیلی گراف میں جنوری ۲۰۱۱ء میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ چین کے دوسرے بڑے بینک نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈالر کے بجائے ’’چینی ین‘‘ میں بانڈ چھاپے، چینی حکومت کی جانب سے ایسا مطالبہ چین کی بالادستی کی عکاسی کرتا ہے امریکا اپنی معیشت کی بقا کے لیے چین کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

برازیل، روس، ہندوستان اور چین نے مشترکہ تجارتی اتحاد بنا رکھا ہے۔ جسے (BRIC) کا نام دیا گیا ہے جس نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ ڈالر پر انحصار کرنے کے بجائے ڈالر کے متبادل کرنسی میں تجارت کو فروغ دیں گے اور ڈالر کی بجائے ’’چینی ین‘‘ کو بھی اہمیت دی جاسکتی ہے۔ یہ (BRIC) ممالک اس وقت ۸ء۲ ٹریلین ڈالر کے ریزرو (Reserves) رکھتے ہیں۔

ایک طرف ایشیا کو چین کی مضبوط اور مستحکم معیشت کی وجہ سے عالمی اقتصادیات کا گڑھ سمجھا جارہا ہے دوسری جانب امریکا اور مغرب نے ایشیا کو میدانِ جنگ بنا رکھا ہے۔ ایشیا کو میدانِ جنگ بنانے کا مقصد ایشیا کو معاشی لحاظ سے اپنے تابع رکھنا ہے تاکہ ایشیائی ممالک ترقی نہ کر سکیں اور معیشت کی بحالی کے لیے انہیں یورپ اور امریکا کی جانب دیکھنا پڑے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایشیا کو میدان جنگ بنانے کا ایک مقصد ’’عالمی اقتصادیات‘‘ کے مرکز کو دوبارہ مغرب اورامریکا منتقل کرنا ہے۔ امریکا کی گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے امریکا کے حلیف ممالک کی ساکھ بھی دائو پر لگ چکی ہے یہی وجہ ہے کہ امریکا کے اپنے دوست ممالک بھی عالمی تجارت کے لیے ڈالر کے متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۱۱؍اپریل ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*