
میں انجمن ترقی اردو پا کستان کی لائبریری میں مو لو ی نذیر احمد کی کتا بو ں کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ اچا نک میری نظر ایک کتاب ’’چاٹگام تا بو لان‘‘پر پڑی جو سید حسین احمد نے لکھی ہے۔ سید حسین احمد شعبہ انگریزی گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کا ایک ایسا اندوہ ناک واقعہ ہے جو ایک حساس دل میں ہمیشہ جاگزیں رہے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ اس واقعے اور اس کے تذکرے کو زیادہ سے زیادہ زندہ کیا جائے چونکہ اس واقعے کو دانستہ طور پر بھلایا جارہا ہے، اس لیے اس کتاب کے مندرجہ جات کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ اس واقعے اور اس کتاب کو ہم جان اور سمجھ سکیں۔
سید حسین احمد سابقہ مشرقی پاکستان پاربتی پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لال منیر ہاٹ کے ایک چھوٹے سے اسکول میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم بھی اسی مشرقی پاکستان میں حاصل کر کے سرکاری عہدہ حاصل کیا۔ وہ اپنے قصبے کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یہا ں زندگی کے روپ میں ایک عجیب سا انوکھا پن تھا۔ زندگی کا قافلہ اپنی تمام تر رعنائیوں میں مست رواں دواں تھا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے گرد محبت اور چاہت کا ایسا سمندر پایا جس کی گہرائی میں ڈوب کر انسان زندۂ جاوید ہوسکتا ہے۔ انسان نسلی گروہ بندی سے آزاد تھا۔ اسلامی بھائی چارگی کا رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ اس کے سامنے دنیا کی یا وقت کی نفرت یا کمزور دیواریں ایک مصنو عی حصار دکھائی دیتی تھیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انسانی رشتہ جو اسلا می بھائی چارگی کے مضبوط بندھن میں بندھا ہوا تھا، وہ کمزور کیو ں ہو گیا۔ اس کتاب میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ سید احمد حسین نے لکھا کہ ایوب خان کے مارشل لا سے قبل ملک میں سیاسی افراتفری کا بیج بو دیا گیا تھا۔ ان خیالات کو تقویت معروف بیورو کریٹ الطاف گوہر کے اس سفرنامے سے بھی ملتی ہے جو انھوں نے مشرقی پاکستان کے بارے میں لکھا تھا اور اس کی روداد ماہ نو میں بھی شائع ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ڈھا کا سے راج شاہی تک گاڑی رات کے وقت جاتی تھی۔ صبح سویرے آپ جگن ناتھ گھاٹ پہنچتے تھے، جہاں سے اسٹیمر میں دریا پار کرتے تھے۔۔۔ جگہ جگہ گھاس پھونس کی جھونپڑیاں، ہر جھونپڑی کے سامنے گندے پانی کا ایک تالاب، گندے پانی میں نہاتے ہوئے بچے، میں ان چیزوں کو سبز رنگوں کے حسین خواب میں کہیں جگہ نہ دے سکتا تھا، عجب ماحول تھا کہ فطرت کی ہر شے رنگین، تروتازہ اور توانا تھی اور انسان بدحال، لاغر، مریض اور انسان کے مددگار بھینس، بکریاں، گھوڑے یہ بھی سب بدحال، لاغر اور مریض۔
،یاد رہے کہ الطاف گوہر کی یہ تحریر جون ۱۹۵۱ء کی ہے، یہ تحریر پاکستان بننے کے ابتدائی سالوں میں لکھی گئی۔ کیا تزویراتی پاکستان جس کا الزام مشرقی پاکستان کے سیاست دان لگاتے ہیں، اتنی جلدی اتنے بڑے استحصالی قوت کا روپ دھارنے میں کامیاب ہو گئے جب کہ اس وقت بنگلادیش کی سیاسی نمائندگی کرنے والے اہم رہنما اہم عہدوں پر فائز تھے۔ لیکن وائے ناکامی کہ مشرقی پاکستان میں پنپنے والی محرومی کا تدارک کرنے کے بجائے ان سیاست دانوں نے بھی احساسِ محرومی کو تقویت فراہم کی جس کا نتیجہ تاریخ میں ایک عبرتناک سانحے کو جنم دے گیا۔
حسین احمد کا بھی یہی خیال تھا کہ مارشل لاء نے اس احساسِ محرومی کو زیادہ تقویت فراہم کی جو مشرقی پاکستان میں پہلے سے موجود تھا۔ بنگال کی وہ سرزمین جو سونا اگل رہی تھی، ہندو نہایت قریب بیٹھ کر نہ صرف اس کا مشا ہدہ کررہا تھا بلکہ نہایت خاموشی سے انھوں نے اس پھیلتے ہوئے احساس کو توانا کیا۔ مشرقی پاکستان میں وہ علاقے جو ہندوؤں کے اکثریتی تھے، وہاں کے مسلمانوں پر ایک خاص قسم کی ذہن سازی کی گئی اور محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے ریفرنڈم کے نتائج نے مشرقی پاکستان کی سیاسی زندگی میں غیر معمولی تغیر پیدا کر دیا۔ ایسے حالات میں پس پردہ سیاسی قوتوں کو کھُل کھیلنے کا زبردست موقع مل گیا۔ رفتہ رفتہ یہاں کے لوگ دینِ اسلام اور پاکستان کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ سے دور ہوتے چلے گئے۔ ان حالات میں بنگالی مسلمانوں کی ڈور ایسے سیاست دانوں کے ہاتھ میں تھی جنھیں نہ ملک و ملت سے محبت تھی نہ مذہب سے لگاؤ تھا بلکہ انھوں نے اپنا قبلہ و کعبہ تک تبدیل کر لیا تھا۔
انھو ں نے اپنی اس سرگزشت میں مجیب الرحمن کا خاکہ کھینچتے ہوئے لکھا کہ مجیب الرحمن جن کو کبھی فائل بغل میں دبائے، چپل پہنے جناح روڈ میں ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگاتے دیکھ چکا تھا، آج اس کی آواز ایک گھن گرج کے ساتھ پلٹن میدان میں سنائی دینے لگی تھی۔ وہ چھ نکات لے کر میدان میں اتر چکا تھا۔ نئی نسل جو پہلے محرومی کا شکار تھی، ان نکات میں انھیں زندگی کی جھلک نظر آنے لگی اور اس جھلک میں مذہبی، قومی اور انسانیت کا روپ بگڑتا دکھائی دے رہا تھا۔ ملک کے دونوں حصوں کی دوری بھی اپنا کام انجام دے رہی تھی۔ مشرقی پاکستان کے ہر شعبے میں صوبائیت کا رنگ پھیل چکا تھا اور حکومت کے کارپرداز ایک دوسرے کی پگڑی اچھال رہے تھے۔ ایسے حالات میں مشرقی پاکستان کے ان رہنماؤں کو جو بھارتی آشیرواد کے حامل تھے، انھیں اسلامی تشخص اور اسلامی فلسفہ حیات پر کاری وار کرنے کا موقع مل گیا۔
سید حسین احمد نے مشرقی پاکستان میں صوبائیت اور لسانیت کی بنیادوں کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خواجہ ناظم الدین، شیر بنگال فضل الحق، حسین شہید سہروردی جیسے اکابرین نے اس ملت کے شیرازے کو جس طرح مضبوط اور مستحکم کیا تھا، اس قوت کو میں نے اپنی آنکھوں سے پارہ پارہ ہوتے دیکھا ہے۔ اس سلسلے میں صرف مجیب کے چھ نکات پر ہمیں اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اس سے زیادہ اہم ۱۱؍نکات ہیں جو طلبہ کی یونائیٹڈ ایکشن کمیٹی نے پیش کیے تھے اور جس کی مقبولیت مجیب کے نکات سے زیادہ تھی۔ ان نکات نے مشرقی اور مغربی پاکستان کی وحدت کو کئی اداروں کے نام تبدیل کرکے ختم کر دیا۔ متحدہ ریلوے پاکستان۔ایسٹ ’پاکستان ریلوے‘ میں۔ واپڈا۔ ’ای پی آئی ڈی سی‘ میں اور دیگر محکمہ جات بھی اپنے نام کی تبدیلی کے ساتھ متحدہ پاکستان کے عناصر ترکیبی سے بغاوت کر رہے تھے۔ ان تمام کوششوں کے نتیجے میں بنگالی قومیت اور لسانیت کو نہ صرف قوت میسر آتی چلی گئی بلکہ انھوں نے وحدت پاکستان کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔
بادل کو کیا خبر کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خا ک ہو گئے
ہمارے ملک کے حکمران اس ناگہانی صورت حال پر تو جہ دینے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی سے کام لے رہے تھے۔ اعلیٰ افسران اور ان کا ماتحت عملہ لوگوں کی بے کراں اور ویران آنکھوں کی گفتگو سمجھنے سے قاصر تھا۔ انھوں نے ہمیشہ قول و فعل کی بھول بھلیوں میں لوگوں کو الجھائے رکھا۔ ان لوگوں نے یہ بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ وہ لوگ جو چاہت اور محبت میں اپنی مثال آپ تھے، وہ کیوں اپنے سینے میں نفرت کی آگ جلا کر بیٹھ گئے۔ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے گھر کو خود دو ٹکڑے کر دیا۔
حرف و لب سے ہوتا ہے کب ادا ہر ایک مفہوم
بے زباں آنکھوں کی گفتگو بھی سمجھا کر
مشرقی پاکستان اور اس کی علیحدگی پر کئی کتابیں اور تجزیے موجود ہیں۔ یہ درد اس سینے میں ہمیشہ موجزن رہے گا جس نے بھی اس ناگہانی کو دیکھا اور سمجھا ہے مگر احساس زیاں اس پر ہے کہ پاکستان کی موجودہ نسل اس کو بھلاتی جارہی ہے، یہ داستان دراصل ایک سلسلہ ہے جس میں ہمیشہ سے یہی ہوا ہے کہ ہماری ملت زیر وزبر ہو کر رہ گئی۔
ایک ہی داستان شب ایک ہی سلسلہ تو ہے
ایک دیا جَلا ہوا ایک دیا بجھا ہوا
اس کتاب میں صرف مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات و واقعات بیان نہیں ہوئے بلکہ سرزمین بنگال سے وابستہ یادوں کی دنیا بھی آباد ہے۔ کتاب میں موجود سیاسی واقعات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے پاکستانی فوج پر لگائے الزامات کی تردید کی ہے اور حقائق کو درست سمت سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ سقوطِ ڈھاکا ہماری تاریخ کا ایک ایسا المناک سانحہ ہے جو ہر ایک چشم بینا کو تڑپاتا رہتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین لکھتے ہیں کہ مستقبل کا غیر جانب دار مؤرخ جب اس دور میں ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرے گا تو وہ ان سازشوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا جنھیں عوامی لیگ قدم بہ قدم عملی جامہ پہنا رہی تھی۔ یہ دلیل کہ ۱۹۵۶ء کا دستور بنگالیوں پر ہونے والے مظالم کی بنیاد تھا، اس وقت زمین بوس ہو جاتی ہے، جب یہ سامنے آتا ہے کہ اس دستور کے اصل خالق تو حسین شہید سہروردی ہیں۔
شریف الحق دالیم جو پاکستانی فوج میں میجر تھے اور ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوج سے فرار ہو کر بنگلادیش کی تحریک میں شامل ہو گئے تھے، انھوں نے ۷۱ء میں میجر آفتاب احمد کے لشکر پر بھی حملہ کیا تھا۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب untold factsمیں تسلیم کیا کہ دورِ ایوبی نے مشرقی پاکستان کے عوام کو متحدہ پاکستان کے تصور کے خلاف کر دیا تھا۔ شریف الحق دالیم وہ فوجی افسر ہیں جنھوں نے پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں شرکت نہیں کی، بعدازاں انھوں نے مجیب کے قتل کی سازش میں بھرپور حصہ لیا۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ بنگالی مسلمانوں کے لیے مذہب صرف روحانی معاملہ نہیں ہے یہ ایک طرزِ حیات اور طرزِ زندگی کا نام ہے۔
ان تاریخی حقیقتوں کے باوجود اصل المیہ یہ نہیں کہ ہمارے مسلم بھائی ہم سے روٹھ کر اپنی جداگانہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اصل المیہ تو یہ ہے کہ ملک پاکستان میں اسے المیہ سمجھا ہی نہیں جاتا ہے۔ نوجوان نسل کو اس واقعہ سے باخبر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس ملک کی خاطر قربان ہونے والے ان مجاہدین کی تسکین کا سامان اسی طرح ہو گا۔ ورنہ بھلا دینے والوں کو تاریخ بھی جلد بھلا دیتی ہے اور وہ بھی اپنا نام و نشان نہیں دیکھ پاتے۔
سوچتا ہوں حاصل احساس کیا کیا رہ گیا
جاں تڑپتی رہ گئی جسم جلتا رہ گیا
(مضمون نگار ’’اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی‘‘ سے وابستہ ہیں)
Leave a Reply