
نشاۃِ ثانیہ سے پہلے ایک ہزار سال تک عیسائی کلیسا کی یورپ پر مطلق حکمرانی تھی۔ عدم رواداری‘ تعصب اور توہم پرستی نے حصولِ علم اور سائنسی مطالعے کو ناممکن بنا دیا تھا۔ آزاد سوچ کی ہر کوشش سے بدگمان کلیسا نے ایسی ہر تعلیم کو ناجائز قرار دے دیا تھا جو براہِ راست عیسائی تعلیمات کے مطابق نہیں تھی۔ مذہبی عدالتوں نے ہزاروں لاکھوں افراد کو جادو یا کفر کے الزام میں اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ سزا یافتہ مجرموں کو ان کی ٹانگیں دو گھوڑوں سے باندھ کر زندہ چیر دیا جاتا تھا‘ ان کی آنتیں باہر نکال دی جاتی تھیں‘ ستون پر لٹکا کر پھانسی دی جاتی تھی یا زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ مرے ہوئوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا تھا۔ ایک اعلیٰ درجہ کا پادری (آرچ بشپ) اشرا‘ انجیل مقدس کا مطالعہ کر کے اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا نے اتوار ۲۳ اکتوبر ۴۰۰۴ قبل مسیح کو صبح ۹ بجے جنم لیا تھا لیکن مدتوں پہلے مرے ہوئے سائنس دان وائی کلف نے فوسل اور ارضیات کا مطالعہ کر کے یہ کہا تھا کہ زمین چند کروڑ سال پرانی ہے۔ کلیسا نے مردہ وائی کلف کی یہ گستاخی معاف نہ کی۔ اس کی ہڈیاں قبر سے نکال کر ریزہ ریزہ کی گئیں اور سمندر میں پھینک دی گئیں تاکہ اختلاف اور شک کے جراثیم زمین کو آلودہ نہ کر سکیں۔
آخر کلیسا بیکن‘ وائی کلف‘ بروسو‘ گلیلیو اور دیگر ہزارہا کمتر جدید خیالات کے حامل مفکروں کا اتنا خلاف کیوں تھا؟ میرے خیال میں اس سخت مخالفت کے مندرجہ ذیل اسباب تھے:
۱۔ معاشرے کا سارا نظام کلیسا کے نافذ کردہ قواعد و احکام کی من و عن پابندی پر مبنی تھا۔ عبادت کے طریقے‘ کھانے پینے‘ شادی اور جنسی مباشرت‘ غرضیکہ ہر چیز کے لیے ایک قاعدہ یا ایک قانون تھا۔ ازمنہ وسطیٰ کا عیسائی مذہب ایک مکمل ضابطہ تھا۔
۲۔ یہ قاعدے اور انہیں نافذ کرنے کے کلیسائی اختیارات کا انحصار کلیسا کے احکام کی مکمل قبولیت اور بے چون و چراں اطاعت پر تھا۔
۳۔ ان عقائد اور احکام میں کسی ایک کا بھی انکار یا خلاف ورزی‘ خواہ اس کا کرنے والا کوئی سائنس دان ہو یا عام آدمی‘ کو درگزر کرنا ناممکن تھا کیونکہ یہ رعایت تمام معاشرتی عمارت کی تباہی پر منتج ہو سکتی تھی۔
۴۔ کلیسا کے لیے سائنس اور ہر قسم کی آزاد خیالی ایک خطرہ تھی جسے ممنوع قرار دینا ضروری تھا۔
گلیلیو پر نازل کیے جانے والے عتاب کو مندرجہ ذیل سیاق و سباق میں دیکھا جانا چاہیے۔ گلیلیو کو جب سزا دی گئی‘ گو وہ بہت سخت تھی‘ تاہم خصوصی معنویت کی حامل تھی‘ اس ضمن میں برنارڈ شاہ کا تجزیہ ملاحظہ ہو:
’’گلیلیو ہمارے سائنسدانوں کا مقبول موضوع ہے لیکن اصل نکتہ خطا ہو جاتا ہے‘ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’متنازع معاملہ یہ تھا کہ آیا زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے یا ایک ساکن مرکز ہے جس کے گرد سورج گھومتا ہے‘‘۔ دراصل معاملہ یہ نہیں تھا۔ بجائے خود یہ اخلاقی معنویت سے عاری محض ایک مادی حقیقت تھی‘ اس لیے کلیسا کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہ تھی لیکن کلیسائی اربابِ اختیار کو جو فکر لاحق ہوئی‘ وہ یہ تھی کہ آیا عیسائی مذہب اس دریافت کے صدمے کی تاب لا سکے گا کیونکہ ایک طرف تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ نہ صرف عیسائی تہذیب بلکہ ساری دنیا کی تہذیب کا انحصار عیسائی مذہب پر ہے اور دوسری طرف وہ ان قصوں کو سچ سمجھتے تھے جن میں جنگ گیان میں جو شوا کی جنگی حکمتِ عملی سے لے کر حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کا تذکرہ تھا۔ چنانچہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں یہ پتا نہ چل جائے کہ ان صحیفوں اور قصوں کی خالق ایک ایسی ہستی ہے جسے مادی کائنات کی حقیقت کا علم نہیں‘‘۔
ازمنہ وسطیٰ کے کلیسا نے چونکہ سائنسی سوچ کو دبایا تھا‘ اس لیے یہ عہد تاریخ کا تاریک ترین دور سمجھا جاتا ہے۔ کئی عالموں اور تاریخ کی تحقیق کرنے والوں نے اس عہد کا مطالعہ نہایت احتیاط اور باریک بینی سے کیا ہے۔ اس ضمن میں اپنا ریوڈکسن وائٹ کی ۱۸۹۶ء میں طبع شدہ دو جلدی کتاب “A History of the Warfare efficience with Theology” قابلِ ذکر ہے۔ وائٹ بعد میں کورنیل یونیورسٹی کا صدر مقرر ہوا۔ اس کی جامع کتاب میں کئی دلچسپ واقعات درج ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
٭ عیسائی علما نے زمین کی گولائی اور نقاط متقابل کے نظریات پر سخت اعتراضات کیے۔ انہوں نے پوچھا: ’’کیا کوئی اتنا بھی بے عقل ہو سکتا ہے جو اس بات پر یقین لے آئے کہ درخت اور فصلوں کے پودے نیچے کی طرف بڑھتے ہیں؟ یا بارش اور برف اوپر کی طرف گرتی ہیں‘‘ سینٹ آگسٹائن جیسے مذہبی رہنما نے کلیسا کو کرۂ زمین کے دونوں طرف متقابل نقاط کے نظریے کا سخت مخالف بنا دیا تھا اور ایک ہزار سال تک اس بات کو عقیدے کے حیثیت حاصل رہی کہ اگر زمین کی متقابل طرفین ہوں تو پھر بھی اس کی دوسری طرف انسان کا وجود نہیں ہو سکتا۔ غزہ کے پروکو پیس نے اس مسئلہ پر مذہب کا تمام زور صرف کر کے یہ اعلان کیا کہ زمین کی متقابل طرف ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو عیسیٰ مسیح دوسری طرف بھی جاتے اور دو بار انسانیت کے لیے مصائب برداشت کرتے۔ اس کے علاوہ بہشت‘ آدم‘ سانپ اور طوفانِ نوح دودو ہوتے لیکن چونکہ یہ صریحاً غلط ہے‘ اس لیے زمین کی متقابل طرفین نہیں ہو سکتی ہیں۔
٭ سینٹ پال نے کہا کہ بیماریاں شیطان کے قبیح اعمال ہیں۔ کلیسا کے بااختیار فرد اور ریگن نے کہا: ’’یہ عفریت ہیں جو قحط‘ بنجرپن‘ ہوا کی کثافت‘ وبائی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ وہ نچلی فضا کے بادلوں میں چھپے رہتے ہیں اور کفار جب ان کو دیوتا جان کر خون اور خوشبو پیش کرتے ہیں تو وہ کشش محسوس کرتے ہیں‘‘ اور کلیسا کے ابتدائی ارباب اختیار میں سب سے زیادہ بااثر سینٹ آگسٹائن نے لکھا کہ ’’عیسائیوں کی تمام بیماریوں کا ذمہ دار عفریتوں کو قرار دینا چاہیے‘ وہ خصوصاً نئے بننے والے عیسائیوں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ معصوم نوزائیدہ بچوں کو بھی نہیں چھوڑتے‘‘۔ پوپ پائیس پنجم کے احکام کے مطابق تمام طلبہ پر لازم تھا کہ وہ ’’روح کے طبیب کو بھی بلائیں‘‘ کیونکہ ’’جسمانی بیماری اکثر گناہ کا نتیجہ ہوتی ہے‘‘۔ چونکہ شیاطین اور بدروحیں بیماری کا سبب ہوتی ہیں اس لیے علاج مقدس تبرکات کے ذریعہ آسیب اتار کر کرنا چاہیے۔ ایسے گرجائوں اور خانقاہوں کو علاج سے بہت آمدنی ہوتی تھی جو مقدس تبرکات لیے مشہور تھے۔ کلیسا نہ صرف روح کا محافظ بلکہ جسمانی صحت کا بھی امین تھا کیونکہ کلیسا کے نزدیک بیماریاں مثلاً چیچک‘ ہیضہ وغیرہ خدا کی طرف سے نازل ہونے والے قہر تھے۔ اس لیے کٹر مذہبی عیسائی ان بیماریوں سے محفوظ کرنے کے ٹیکوں وغیرہ کے شدید مخالف تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ چیچک ’’لوگوں کے گناہوں کی پاداش میں خدا کا فیصلہ ہے‘‘ اس لیے اس کا علاج ’’خدا کو مزید ناراض کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ اس شخص کے گھر میں ایک جلتا ہوا گولہ پھینکا گیا جس نے چیچک کے ٹیکے کے موجد ڈاکٹر بوائلسٹن کو پناہ دی تھی۔ گرجائوں سے چیچک کے ٹیکے کے حامیوں کو گالیاں دی جاتی تھیں لیکن حقائق (باطل کے حملہ آوروں سے زیادہ) مضبوط تھے۔ ٹیکہ لگوا کر لوگ زندہ رہتے تھے اور ٹیکہ لگوائے بغیر مر جاتے تھے۔ اس طرح آخرکار کلیسا نے مجبوراً ٹیکے کو قبول کر لیا‘ گو اس کی مخالفت کبھی کلی طور پر ختم نہیں ہوئی۔
٭ سائنسی طب کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ چیر پھاڑ کر کے مردہ جسموں کے معائنے کی مخالفت تھی۔ سینٹ آگسٹائن جسم کے تشریح کاروں کو قصائی کہتا تھا اور اس کام کی شدید مذمت کرتا تھا۔ عام طور پر دلوں میں یہ خوف جاگزیں تھا کہ مردہ جسم کی چیر پھاڑ کے نتیجہ میں قیامت کے روز (جبکہ مردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے) کوئی ناقابلِ تصور عذاب نازل ہو گا۔ اس دلیل پر کلیسا نے یہ اضافہ کیا کہ ’’کلیسا خون بہانے سے نفرت کرتا ہے‘‘۔ یہ واقعی بہت عجیب دلیل تھی۔ جب مقدس مفاد میں ہزاروں مشتبہ کافروں‘ منافقوں اور جادو گرنیوں کو زندہ نذرِ آتش کیا تو اس وقت کلیسا کو خون بہانے سے کوئی نفرت محسوس نہیں ہوئی۔
٭ ۱۷۷۰ء کے لگ بھگ یورپ کے مختلف حصوں میں ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی۔ سائنس کی رائل اکیڈمی کو تفصیلی بیانات ارسال کیے گئے جن میں یہ کہا گیا کہ پانی تبدیل ہو کر خون بن گیا۔ اس کو مذہبی علما اور پادریوں نے فوراً خدائی قہر کی علامت قرار دیا۔ جب اس قسم کے معجزہ کو سویڈن میں دیکھا گیا تو ایک نامور نیچری لنائیس نے اس مظہر کا سائنسی مطالعہ کر کے یہ دریافت کیا کہ پانی چھوٹے چھوٹے سرخ جراثیم کی وجہ سے سرخ دکھائی دیتا ہے۔ جب اس دریافت کی خبر بشپ کو پہنچی تو اس نے اسے سخت الفاظ میں ’’شیطانی غار‘‘ کہہ کر مذمت کی اور اعلان کیا کہ ’’پانی کا سرخ ہونا قدرتی نہیں ہے‘‘۔ بے چارہ لنائیس بہادر آدمی نہیں تھا‘ اسے گلیلیو کا حشر اچھی طرح معلوم تھا۔ اس لیے اس نے پسپائی اختیار کی اور یہ اعلان کیا کہ اس معاملے کی حقیقت اس کی فہم سے بالا ہے۔
٭ ازمنہ وسطیٰ کے کلیسا سے تعلق رکھنے والے مذہبی علما اور پادریوں نے شدت کے ساتھ اس نظریے کا پرچار کیا تھا کہ شہابِ ثاقب آگ کے گولے ہوتے ہیں جو ناراض خدا بدکردار دنیا کی طرف پھینکتا ہے۔ اہلِ کلیسا شہابِ ثاقب کی اخلاقی نوعیت اس طرح بیان کرتے تھے: یہ شہابِ ثاقب خدا کی طرف سے اس تلوار کی طرح ہے جو منصف عدالت میں اپنے اور ملزم کے درمیان رکھتا ہے۔ ان لوگوں کی بھی مذمت کی جاتی تھی جو ایسی خدائی تنبیہ کی پروا نہیں کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کو ان بچھڑوں سے تشبیہ دی جاتی تھی جو اناج بھرے کوٹھے کے دروازے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ سترہویں صدی کے اختتام تک بھی حلف لینے کی وجہ سے فلکیات کے پروفیسر صاحبان یہ نہیں پڑھا سکتے تھے کہ شہابِ ثاقب طبعی قوانین کے تابع اجرامِ فلکی ہوتے ہیں لیکن سائنسی معلومات کو زیادہ عرصہ تک دبائے رکھنا ناممکن تھا۔ ہیلی نے نیوٹن اور کیپلر کے قوانین کی بنیاد پر ایک خاص ’’خطرناک‘‘ دم دار ستارے کامدار دریافت کیا اور یہ پیش گوئی کی کہ یہ ٹھیک ۷۶ سال میں گردش پوری کرے گا اور اس مقام پر دوبارہ نظر آئے گا جہاں ہم نے اسے دیکھا ہے۔ اس نے منٹ تک کا حساب لگا کر یہ بتایا کہ وہ دوبارہ کب آسمان کے ایک خاص نقطہ پر نظر آئے گا۔ یہ پیش گوئی ناقابلِ یقین تھی لیکن ۷۶ سال بعد جبکہ ہیلی اور نیوٹن دونوں بہت عرصہ پہلے مر چکے تھے‘ ہیلی کا دم دار ستارہ ٹھیک اس وقت اور اس مقام پر دیکھا گیا جس کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
٭ کٹر مذہبی عیسائیوں کے نزدیک علمِ ارضیات ایک شیطانی علم تھا۔ ارضیات کے شواہد نہ صرف زمین کی عمر کے بارے میں بشپ اشرا کے دعوے کو جھٹلاتے تھے بلکہ یہ بتاتے تھے کہ یہ ’’قانون کی رو سے جائز تحقیق نہیں ہے‘‘۔ اس کو ’’ناریک فن‘‘ اور ’’جہنمی توپ خانے‘‘ کے نام دیے اور اس شعبہ علم کے محققوں کو ’’کافر‘‘ اور ’’مقدس تاریخ کو جھٹلانے والے‘‘ قرار دیا۔ پوپ پائیس نہم بلاشبہ اس مکتب خیال کا حمایتی تھا۔ ورنہ وہ ۱۸۵۰ء میں اٹلی کے شہر بولونیا میں منعقد ہونے والی سائنسی کانگریس کو ممنوع قرار نہ دیتا۔
٭ ازمنہ وسطیٰ میں یہ عقیدہ عام تھا کہ طوفان شیطان لاتا ہے۔ اس عقیدے کو سینٹ آگسٹائن جیسے مقدس شخص کی حمایت حاصل تھی۔ یہ نظریہ تسلیم کر لیا گیا کہ طوفان لانا عفریتوں کا کام ہے۔ ہوا کی اس مافوق الفطرت طاقت کے خلاف جھاڑ پھونک کے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے تھے۔ ان طریقوں میں سے سب سے زیادہ عام تیرہویں پوپ گریگوری کا طریقہ تھا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں یہ الم انگیز عقیدہ عام ہو گیا کہ بعض عورتیں بگولوں‘ آندھیوں‘ طوفانوں‘ سیلابوں وغیرہ کے ذریعہ جہنمی طاقتوں کی مدد حاصل کرتی ہیں جبکہ اس سے پہلے مختلف دعائیں ’منتر وغیرہ پڑھ کر گرجا کی گھنٹیاں بجا کر طوفان کو ٹالا جاتا رہا تھا۔ سات دسمبر ۱۴۸۴ء کو آٹھویں پوپ انوسینٹ نے انجیل کے حکم ’’تم جادوگرنیوں کو زندہ نہیں چھوڑو گے‘‘ سے متاثر ہو کر ایک فرمان جاری کیا جس میں جرمنی کے پادریوں کو تاکید کی گئی کہ وہ ایسے جادوگروں اور جادوگرینوں کا سراغ لگائیں جو موسم کو خراب کر کے انگور کے کھیتوں‘ باغوں‘ چراگاہوں اور فصلوں کو تباہ کرتے ہیں۔ اس فرمان کے نتیجے میں ہزاروں عورتیں قید کی گئیں۔ انہیں اذیت پہنچائی گئی‘ ان کے قریبی عزیز بھی ان سے خوف کھانے لگے اور یہ چاہنے لگے کہ موت کے ذریعہ ان کو اذیت سے نجات مل جائے۔
٭ کلیسائی عقیدے کے مطابق مندرجہ ذیل پانچ گناہوں کی پاداش میں بجلی گرتی ہے۔ گناہوں سے توبہ نہ کرنا‘ مذہب پر یقین نہ کرنا‘ گرجائوں کی مرمت میں لاپروائی برتنا‘ پادری کو عشر دینے میں فریب دہی‘ ماتحتوں پر ظلم۔ ایک کے بعد دوسرے پوپ نے عقوبت کے اس مقدس فرمان پر زور دیا اور اسے ’’مشیت ایزدی‘‘ قرار دیا۔ پھر یہ ہوا کہ ۱۷۵۲ء میں بینجمن فرینکلن نے طوفان باد و باراں کے دوران اپنی مشہور پتنگ اڑائی اور اس خطرناک تجربے کے ذریعہ دریافت کیا کہ بجلی کا گرنا دراصل برقی طاقت ہے۔ اس کے فوراً بعد برقی چھڑی ایجاد ہوئی جو خوفناک ترین برقی طوفان سے محفوظ رکھ سکتی تھی۔ پہلے تو کلیسا نے اس کا وجود تسلیم نہیں کیا لیکن جب اس کامیابی کو وسیع پیمانے پر مان لیا گیا اور برق سے حفاظت کی چھڑیاں زیادہ نصب کی جانے لگیں تو کٹّر مذہبی پادریوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ ان لوگوں نے میسا چوسٹس میں ۱۷۵۵ء کے زلزلے کا سبب بوسٹن کی ان چھڑیوں کو قرار دیا اور واعظ ان لوگوں کے خلاف انتہائی غصے میں بولنے لگے جو آسمانی یا خدائی توپ خانے کو تسخیر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان چھڑیوں کی کلیسا مخالفت زیادہ عرصہ تک جاری رہتی‘ اگر بجلی گرنے سے وہ گرجے منہدم نہ ہوتے جن پر یہ چھڑیاں نصب کی گئی تھیں۔ جرمنی میں ۱۷۵۰ء سے ۱۷۸۳ء کے درمیان بجلی گرنے سے تقریباً چار سو گرجائوں کو نقصان پہنچا اور ایک سو بیس (گرجا کی) گھنٹی بجانے والے ہلاک ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر کے وہ قحبہ خانے جن پر چھڑیاں نصب تھیں‘ محفوظ رہے اور دوسری طرف ایسے گرجا گھر جوان محافظ چھڑیوں سے محروم تھے‘ برباد ہو گئے۔ اس کے برعکس ان گرجائوں کو کوئی گزند نہیں پہنچا جن پر چھڑیاں نصب کی گئی تھیں۔ چنانچہ مجبوراً کلیسا نے اٹھارہویں صدی کے آخر میں ایک مقدس فرمان کے ذریعہ برقی تحفظ کی چھڑیوں کو قبول کر لیا۔
٭ جب امینوئل کانٹ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ خلا میں صرف ستارے ہی نہیں بلکہ گیسوں کے بادل ہوتے ہیں تو ساری مذہبی دنیا نے اس ’’کفر‘‘ کے خلاف شور مچا دیا۔ عیسائیوں نے کہا کہ یہ نظریہ مذہبی صحیفوں میں نہیں پایا جاتا‘ اس لیے بادلوں کا وجود نہیں ہونا چاہیے۔ اس نظریہ کے مخالف اس وقت بہت خوش ہوئے جب نئی دور بینوں کی ایجاد سے یہ معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض بادل دراصل ستاروں کے جمگھٹے ہیں لیکن یہ خوشی صرف چند روزہ تھی کیونکہ بادل سے نکلنے والی روشنی سے سائنس دانوں کو یقین ہو گیا کہ کچھ روشنی ایسے ایٹموں سے بھی خارج ہوتی ہے جو ستاروں میں نہیں بلکہ گیس کی حالت میں موجود ہوتے ہیں۔
۱۸۵۹ء میں ڈارون کی “Origin of Species” چھپنے کے بعد سائنس اور کٹّر مذہب پرستوں کے درمیان جو عظیم جنگ ہوئی‘ میں نے اس پر بحث کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ یہ معرکہ اس سے پہلے کے تمام معرکوں پر چھا گیا۔ یہ گلیلیو کے معرکے سے بھی زیادہ ہنگامہ خیز تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نوعِ انسان کے لیے گرتی ہوئی چٹانوں یا فلکی اجرام کے متعلق سائنسی ہونا اتنا مشکل نہ تھا جتنا کہ خود اپنی زندگی کے بارے میں سائنسی رویہ اختیار کرنا مشکل ثابت ہوا۔
قوت نمو اور جان داروں کی بے ساختہ حرکات گہرے اوہام کا شکار رہی ہیں اور آج بھی ہیں۔ اس مخصوص مسئلہ پر سائنس اور کٹّر عیسائیت کے درمیان تنازع آج بھی امریکا میں ’’آفرینش‘‘ کی تحریک سے عیاں ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں رونالڈ ریگن کے دورِ صدارت میں شروع ہوئی اور کئی امریکی ریاستوں میں خاصی طاقت کی حامل ہے۔ اس کا کلیدی اعتقاد یہ ہے کہ چھ ہزار سال پہلے ٹھیک سات دن کے اندر کائنات میں زندگی عدم سے وجود میں آئی اور بالکل اس طرح وجود میں آئی جس طرح کہ ’’کتاب آفرینش‘‘ کے ابتدائی ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر عظیم طوفانِ نوح کو ایک تاریخی حقیقت تسلیم کیا جاتا ہے‘ اسے محض تمثیل نہیں سمجھا جاتا۔ تحریک آفرینش‘ فلکیات اور ارضیات پر اس بنا پر نکتہ چیں ہے کہ یہ علوم زمین کی عمر کی حد ہزار سال متعین نہیں کرتے۔ تعین کے ریڈیائی طریقے کو یہ تحریک مسترد کرتی ہے۔ ڈارون کے نظریۂ ارتقا پر تحریک آفرینش کو سب سے زیادہ اعتراض ہے۔ حال ہی میں ریاست جارجیا کے جج براسیول ڈین نے لکھا ہے کہ ڈارون کی بندر کہانی اباحت‘ آزاد جنسی تعلقات‘ ضبطِ تولید کی گولیوں‘ حفظِ ماتقدم کی تدابیر‘ غیرفطری افعالِ حمل‘ اسقاطِ حمل‘ فحاشی‘ آلودگی اور توسیعِ جرائم کو جنم دیتی ہے۔
عقل دشمنی کے اس احیا کے باوجود خردمندی کے لیے جدوجہد کرنے والے ہارے نہیں ہیں۔ یہ دیکھ کر حوصلہ بڑھتا ہے کہ عیسائی بنیاد پرستوں کو کئی شکستیں ہوئی ہیں اور وہ مغرب میں سائنس کے نظام کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں‘ وہ تعلیمی اداروں سے اپنا یہ مطالبہ نہیں تسلیم کرا سکے کہ آفرینش کے متعلق سائنس کے نظریہ اور انجیل کے نظریہ کو مساوی وقت دیا جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ریگن کے کرسی صدارت چھوڑنے کے بعد تحریک آفرینش کے حامیوں کے بھی برے دن آگئے ہیں۔
اس کے علاوہ جدید دنیا نے رومن کیتھولک کلیسا کے وہ مظالم نہیں بھلائے ہیں جو اس نے سائنس دانوں پر کیے تھے خصوصاً گلیلیو پر کیا گیا ظلم ایک علامت بن گیا ہے کیونکہ اسے اپنے سائنسی نظریات کی مذمت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ۹ مئی ۱۹۸۳ء کو ویٹی کن کی ایک خصوصی تقریب میں پوپ پال دوم نے ایک بیان جاری کیا جسے گلیلیو کے واقعہ کا سرکاری معافی نامہ سمجھنا چاہیے۔
’’گلیلیو کے واقعے کے دوران اور اس کے بعد کلیسا کے تجربہ نے زیادہ پختہ رویّے کی طرف رہنمائی کی ہے۔ عاجزی اور استقلال کے ساتھ کیے گئے مطالعے کے ذریعہ ہی کلیسا نے ایمان کے ضروری اجزا کو ایک مخصوص عہد کے سائنسی نظریات سے علیحدہ کرنا سیکھا ہے‘‘۔ اس معافی یا پشیمانی کا اظہار تین سو ستر سال بعد کیا گیا۔
؎ ہائے اس زود پشیماں کا پشیمان ہونا
اور اس میں بھی اعتراف کم اور اخفا زیادہ ہے۔ تاہم مقدس پوپ کے اس اعلان پر ہم احساسِ تشکر کے ساتھ ’’آمین‘‘ ہی کہہ سکتے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’شاہکار‘‘ میگزین)
Leave a Reply